MAZI AJNABI MULK NAHI HAI (KAI CHAAND THEY SAREY AASMAN)

Articles

ماضی اجنبی ملک نہیں ہے

این۔ کملا

این۔ کملا
انگریزی سے ترجمہ: شمس الرب

ماضی اجنبی ملک نہیں ہے

جب اورہان پاموک اور محمد حنیف جیسی شخصیات کسی کتاب کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوں تو توقعات کا بڑھ جانا فطری امر ہے۔ ساتھ ہی قارئین کو یہ خدشہ بھی لاحق ہوجاتا ہے کہ وہ اسے پڑھ کر مایوس نہ ہوں۔ یہ عظیم الشان اور پرشکوہ ناول ہر اس تعریف کی مستحق ہے جو اس پر نچھاور کی گئی ہے۔ یہ ناول چھ ابواب اور اڑسٹھ فصول پر مشتمل ہے۔ ہر فصل کا عنوان جداگانہ ہے۔ مثال کے طورپرفصل ’حبیب النساءبیگم‘ کا آغازکچھ یوں ہوتا ہے: ” حبیب النسا ءبیگم ، وزیر خانم کو رات کے لیے تیار ہونے میں مدد کرتی ہے اور نواب شمس الدین اپنے مچلتے جسم و روح کو صبر و استقلال کے تمام ممکنہ دروس سکھاتا ہے۔ ناول The Mirror of Beauty (کئی چاند تھے سر آسماں) بلا شبہ اپنے زمانے کی عکاس ہے۔
ناول میں سترہویں صدی کے اواخر سے 1857 سے ماقبل زمانہ کی عکاسی کی گئی ہے۔ لیکن اس کی شروعات زمانہ¿ حال سے ہوتی ہے۔ برٹش لائبریری کی خاک آلود فائلوں میں ایک پراسرار طور پر خوبصورت عورت کی تصویر ملتی ہے۔ یہاں سے کہانی ایک لمبے فلیش بیک کے ساتھ ماضی میں چلی جاتی ہے۔ یہاں سے ازحد خوبصورت عورت وزیر خانم کے سفر وحشت کی کہانی شروع ہوجاتی ہے۔ دوسرے باب میں ایک ایسے دور کی کہانی کا آغاز ہوتا ہے جہاں ذرائع مواصلات اگرچہ دھیمے رہے ہوں لیکن جذبات سیلِ رواں کی مانند تیز و تند تھے۔ کہانی کی شروعات وزیر خانم کے پر دادا کے کشن گڑھ سے کشمیر کی برفیلی چوٹیوں تک کے سفر سے ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ان دستکاروں اور فنکاروں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو اس دور میں پھلے پھولے ۔ ان میں زیادہ تر نقاش ، قالین باف اور موسیقار وغیرہ تھے۔ وزیر خانم کے آبا و اجداد انھیں پیشوں سے منسلک تھے۔ باقی کہانی میں وزیر خانم کے محبت کی داستان ہے۔ وزیر خانم محمد یوسف اور اصغری بیگم کی سب سے چھوٹی بیٹی ہے۔ کمسنی ہی میں وہ انگریز مارسٹن بلیک کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ مارسٹن سے اس کے دو بچے ہوتے ہیں۔ بعد ازاں مارسٹن بلیک کی بھیڑ کے ہاتھوں درد ناک موت ہوتی ہے۔ اس کے انگریز رشتے دار اس کے بچوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کی تربیت عیسائی طور طریقے سے کر سکیں۔ وزیر خانم دلّی منتقل ہوتے ہی نواب شمس الدین احمد خان کے تعلقات میں بندھ جاتی ہے۔ نواب شمس الدین احمدخان اس کا سب سے محبوب عاشق تھاجس سے اس کو ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ نواب شمس الدین کی موت کے بعد وہ رام پور کے آغا تراب علی سے شادی کرلیتی ہے اور تراب علی کی موت کے بعد آخر کار شہزادہ مرزا فخرو کے ساتھ رشتہ¿ زوجیت میں منسلک ہوجاتی ہے۔ مرزا فخرو مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور شاہِ ہندوستان کے تیسرے نمبر کے وارث تھے۔ وہ ”لال قلعہ“ کے اندر اپنی حویلی میں شاہانہ زندگی بسر کرتے تھے۔
وزیر خانم کے رابطے اور معاشقے کی کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے عام لوگوں کی زندگی کی بھی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ دربار کی سازشوں، جان کمپنی کی بڑھتی دولت اور ملک پر قبضہ کرنے کے لیے انگریزوں کی سازشوں کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔ اس ناول میں ماضی کے کرداروں، جگہوں اور حوادث کو نئی زندگی عطا کی گئی ہے۔ ناول کا ایک کردار ابتدا ہی میں کہتا ہے کہ ” اس نے اس نظریے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ ماضی ایک اجنبی ملک ہے اور اس کا سفر کرنے والے اس کو سمجھ نہیں سکتے۔ وہ کہا کرتا تھا کہ پرانے الفاظ کو نئے الفاظ کا جامہ پہنا یا جاسکتا ہے ۔ بس ضرورت اس بات کی تھی کہ ہمدردی کاجذبہ موجود ہو اور نہ صرف یہ کہ اپنائیت و یگانگت کا احساس پیدا کیا جائے بلکہ اس اپنائیت کی گرمجوشی کو محسوس بھی کیا جائے۔“ (ص:17)شمس الرحمن فاروقی یہ کام کر دکھاتے ہیں ۔ان کی ناول ماضی کے تئیں اسی ہمدردی، اپنائیت اور گرمجوشی کا مرقع ہے۔
فاروقی انگریزوں کے عروج کی واضح تصویر کشی کرتے ہیں۔ وہ یہ دکھاتے ہیں کہ کیسے انگریزی فوجیں ہندوستانی فوجوں کو تہ و بالا کردیتی ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ میدانِ جنگ میں موجود ہر گھوڑ سوار، ہاتھی اور فرنگی کمانڈر کے پاس کیا کیا ہے اور کیسے انگریز فوج چالاکی کے ساتھ پیچھے ہٹتی ہے اور پلٹ کر پیچھے سے حملہ کرتی ہے۔ (صفحات 181تا 182)
ناول میں اس بات کی بھی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے کہ کیسے انگریز کلکٹر اور دیگر اہلکار کمپنی کا اقتدار اور رعب و داب برقرار رکھنے کے لیے سختی برتا کرتے تھے۔ (صفحہ 204) شمس الدین تنبیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ” جنت نظیر ہندوستان پر ایک شیطانی سایہ مسلط ہوگیا ہے۔“ (صفحہ 572) وہ مزید کہتا ہے کہ ” ایک نہ ایک دن فرنگی سکھوں کے خون سے ضرور ہولی کھیلیں گے۔“ (صفحہ 573)انگریزی زبان و رسوم کے غلبے کو بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ناول میں ایک جگہ مذکور ہے کہ” قلبِ دلّی ایسے لوگوں کی آماجگاہ بنتا جارہا ہے جنھوں نے فرنگیوں کی کتابیں اصل انگریزی زبان میں پڑھی ہیں اور اپنی زندگیوں کو فرنگی طرز زندگی کے مطابق ڈھال لیا ہے۔“(صفحہ 736)
یہ ناول اصلاً اردو میں لکھی گئی ۔ اس کا ہندی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔ جسے لوگوں نے خوب سراہا۔ ناول کا زیر تبصرہ انگریزی ترجمہ ناول نگار نے خود کیا ہے۔ ا س ترجمے سے پتہ چلتا ہے کہ ناول نگار زبان کے تمام پہلوﺅں کے تئیں بہت حساس ہیں۔ وہ ہندوستان میں بولی جانے والی کئی زبانوں سے واقف ہیں۔ اصطلاحی الفاظ کی لسانی تاریخ اور تشریح اور ان کے مترادفات کا انھیں گہرا علم ہے۔ نیز مختلف زبانوں مثلاً ہندی اور اور انگریزی کے درمیان الفاظ کے آدان پردان پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ مثال کے طور پر (فاروقی نے بتا یا کہ) لفظ ’چمپی‘ انگریزی زبان میں آکر شمپو ہوگیا۔ لفظ ’چٹھی‘ انگریزی زبان میں آکر ’چٹ‘ ہوگیا اور لفظ Loveاردو لفظ ’عشق‘ ہی کا کام چلاﺅ ترجمہ ہے۔ ناول نگار زبان کے تئیں اتنے حساس ہیں کہ وہ ایک متروک و فرسودہ انگریزی عبارت to have a bee in one’s bonnet کا استعمال کرنے پر اظہار معذرت کرتے ہیں۔ پوری نثر میں شاعرانہ نغمگی کی جلوہ گری ہے، جس میں اصل اردو کی نمایاں چھاپ ہے۔ لیکن نثر پر تصنع کا الزام بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ جب وزیر خانم کی ماں کا انتقال ہوجاتا ہے اور’ انھیں اچانک خاموشی کے ساتھ خدا کے یہاں بلا لیا جاتا ہے ۔اس شبنم کی بوند کی طرح جسے عالم تاب سورج کانٹے کی نوک سے اٹھا لیتا ہے۔‘( صفحہ 57) قاری کا دل اس نقصان پر رونے لگتا ہے۔
ناول میں فن مصوری کی باریکیوں، قالین سازی کی پیچیدگیوں اور موسیقی کے مختلف راگوں کے مفاہیم کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس سے ناول نگار کی باریک بینی اور عرق ریزی کا پتہ چلتا ہے۔ ان کی زبان میں راجپوتانہ اور کشمیر کے درمیان فرق ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ ” وہ سنہرے بالوں والے اونٹ کہاں گئے جن کے بال ان کے جسم سے رسیوں کی طرح لٹکتے رہتے تھے۔ان شیروں اور چیتوں کا کیا ہوا جن کی لمبائی آٹھ ہاتھ کی تھی یہاں صنوبر اور بلوط کے ایسے درخت تھے جن کی شاخیں آسمان کی پیشانی چومتی تھیں، جن کے سر فخر سے تنے رہتے تھے اور جو تاریکی میں پر اسرار لباس زیب تن کیے ہوئے ہوتے تھے۔“ (صفحہ 74) ”یا میں ایک ایسی دور دراز ، اداس ، مرجھائی ہوئی اور خشک سرزمین سے تعلق رکھتا ہوں جس کی خاک کا رنگ بچھو آلود ہے“ (صفحہ 126)
ناول میں موجود شوہر و بیوی سے متعلق چبھتے ہوئے تبصرے ناول کا مزہ دوبالا کردیتے ہیں۔ ”اس کے لیے شوہر ایک تعویذ تھا جسے سمجھنے نہیں بلکہ احتیاط سے محفوظ رکھنے کی ضرورت تھی۔ “ (صفحہ 96) اور ” بیویاں صرف بیویاں ہوتی ہیں۔“ (صفحہ 209) سب سے اہم بات یہ ہے کہ پوری ناول میں کم از کم وزیر خانم کے طور طریقے سے ایک مضبوط فیمنسٹ استدلال جھلکتا ہے۔ خاص طور پر یہ استدلال اس وقت پوری قوت کے ساتھ سامنے آتا ہے جب وہ اپنے بیٹے کو مذہبی کتابوں کا حوالہ دینے پر غصہ سے جھڑکتی ہے۔ ” کس نے ان کتابوں کو لکھا ہے؟ مردوں ہی نے نہ؟ تمھارے قاضی، تمھارے مفتی ، تمھارے بزرگ کون ہیں؟ مرد ہی ہیں نہ؟“ (صفحہ 726)
اس ناول کی وسعت و گہرائی سحر انگیز ہے۔ اس کی گیرائی متاثر کن اور پیشکش مرعوب کن ہے۔ انگریزی میں ترجمہ شدہ یہ ناول اصل ناول کے مقابلے میں کیسی ہے ، یہ اس تبصرہ نگار کے دائرہ¿ کار سے باہر ہے۔ موازنہ جاتی تبصرہ ایک الگ قسم کا تجزیہ ہوگا۔ اس ناول کے بارے میں اگر کوئی تنقید ہوسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ اس کا خاتمہ یک لخت اور غیر متوقع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول کا حجم بڑھتا جارہا تھا اس لیے ناول نگار نے اسے یک لخت ختم کردیا۔ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس ناول میں کچھ ایسے پہلو بھی چھوٹ گئے ہیں جنھیں اتنی ضخیم ناول میں چھوڑنا مناسب نہیں تھا۔ بہر حال میں بھی وہی کہوں گی جو اس ناول کے کردار جا بجا کہتے رہتے ہیں :
”صرف خدا کی ذات عیب سے پاک ہے۔“
————————————————–

مشمولہ سہ ماہی ”اردو چینل“ جلد :18۔شمارہ :1(جنوری تا مارچ2016)مدیر: ڈاکٹر قمر صدیقی