Mirror Shock A Short Story by Murat Özyasar

Articles

سانحہ

مورت اوژیاسر

میری بہنیں مسلسل میری ماں کے تعلق سے شکایتیں کرتی تھیں۔ ماں اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ وہ لوگوں کی شناخت کو بھی ایک دوسرے میں خلط ملط کردیا کرتی تھی۔ جب کبھی وہ مجھے بلاتی تب یہی کہا کرتی تھی کہ اب مجھے وہاں واپس نہیں جانا ہے۔ وہاں ، بچپن میں میرے لیے دعائیں کی جاتی تھیں۔ میرے گلے پر چاندی کا سکّہ رکھا جاتا تھا۔ بال بنانے والے برقی اُسترے پر تین نمبر گارڈ ہوا کرتا تھا۔ تب میرے آنکھوں میں بیماری ہوا کرتی تھی۔اُس خالی جگہ پر مجھے ہمیشہ گولی بنا دیا جاتا۔ میں عملی طور پر وہاںواپس جانا نہیں چاہتا تھا۔ اُس وقت میری عمر تقریباً سات برس تھی۔
’’ابی‘ تم پھر سے باہر آگئے۔‘‘ نائی نے کہا۔
’’میں کچھ تھکا ہوا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
میں ایک مرتبہ سے زیادہ نائی کے پاس کبھی نہیں جاتا تھا۔ میں واپس نہیں جائوں گا۔ میں اُسے برداشت نہیں کر سکتا۔ میں نے سوچا یہ نائی بھی دوسرے تمام نائیوں کی طرح ہی باتونی ہے۔ آج کی رات اگر میری بہنیں مجھے نہیں ڈھکیلتیں، اگر وہ یہ نہیں کہتیں کہ ماں بھی تمھیں شناخت نہ کر سکے گی، تو میں یہاں کبھی نہیں آتا۔ چاہے میں کسی بھی نائی کے پاس جائوں وہ سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ پھروہ چھ میں سے کوئی ایک ہو یا دوسروں میں سے آدھا درجن۔ یہی اُن کا کاروبار ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے اب وہ کسی بحث میں شامل ہو جائیں گے اور آپ کے لیے اپنی دکان کے دروازے بند کردیں گے۔ چاہے جو بھی ہو میں نے اُن سے کہہ دیا کہ میں صرف اُسی وقت اُن کے پاس آئوں گا جب اُن کے پاس میرے بال تراشنے کا وقت ہوگا۔ (اُن لوگوں کے پاس ہمیشہ سوالات ہوتے تھے) کاروبار کیسا چل رہا ہے؟ اِس ملک کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا تم سوچتے ہو کہ اِس سال گلاٹیسری ورلڈ کپ جیت جائے گا۔ اُس وقت میرے جوابات بھی تیار ہوتے تھے۔ وہ مر چکا ہے۔ چھوٹے چھوٹے کاروبار مر رہے ہیں۔ چھوٹے دکاندار ختم ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر اب میں اپنے پڑوس کے نئے نائی سے یہ بھی دریافت کر لوں گا کہ کیا رضی نامی بوڑھا نائی اب بھی زندہ ہے۔
ابی ! تم پھراپنی جگہ چھوڑ رہے ہو۔
میں نے کہا، نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔
قینچی سے بال تراشے جانے تک ایک طرح کی خاموشی درمیان میں حائل ہو جاتی ہے۔ نائی کھانسنے کے بعد رندھی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔
ابی! کسی سے یہ دریافت کرنا غیر مناسب بھی نہیں ہے کہ ہم اُس سے پوچھیں کہ ’’تم کیا کرتے ہو‘‘(لیکن آپ اِس غیر رسمی لفظ ’’تم ‘‘کا استعمال کیوں کرتے ہو؟)
یہ پوچھنا غیر مناسب کیوں ہوگا؟ میں کام کرتا ہوں میں نے کہا۔
میں اُسے خاموش کرنے کے لیے کہتا تھا کہ ـ’’میں کام کرتا ہوں۔‘‘
میں جانتا ہوں کہ تم اٹک اٹک کر بات کرنے والے بھی ہو اور بک بک کرنے والے بھی۔ کیا تم سوچ رہے ہو کہ تم مجھے جانے دو گے؟ یا مجھ جیسے گراہک کو اِس نائی کی دکان پر ہمیشہ کے لیے آنے سے روک دو گے ؟تمھاری اپنی مرضی ہے۔ اتنے ناخوشگوار جواب کے بعد مجھ سے سوال کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ لیکن پھر بھی وقفے وقفے سے وہ دریافت کرتا۔ ابی! کیا میں اِسے سامنے کی جانب سے اور چھوٹے کاٹ دوں؟کیا تم سائڈ کے بال لمبے رکھنا چاہتے ہو؟ کیا میں یہ ہلکی ہلکی داڑھی بھی صاف کردوں۔ اُس کے اس طرح کے سوالات بھی کافی سے زیادہ ہوا کرتے تھے۔
میرے بال پتلے اورکنپٹی پر نمایاں طور پر بھورے بھی ہو چکے تھے۔کیا اب میں ویسا ہوں جیسا گیارہویں جماعت میں تھا۔ ہائی اسکول کا دوسرا سال، سترہ سال کی امنگوں بھری عمر اور کیا اُس سال کچھ بھی نہیں ہوا؟ اگر آج مجھ سے کوئی یہ کہے کہ سترہ سال کی عمر بہترین عمر ہوتی ہے تب میں اُس کے پیر چیر دوں گا۔ تاکہ اُسے پتہ چل سکے کہ واقعی درد کیا ہوتا ہے۔سترہ سال کی عمر تک ہر چیز ٹھیک تھی۔ میرے اپنے جذبات تھے، میں ہر کام کر سکتا تھا۔ ہر چیز ممکنات میں شامل تھی۔ میں ساز بجانا سیکھ چکا تھا ۔ انگریزی زبان بول سکتا تھا۔ دنیا کے دور دراز کے شہروں میں جا سکتا تھا۔ تیز رفتار سائیکل سے گول کر سکتا تھا ۔ الٹے پیر سے کک مار سکتا تھا۔ مثال کے طور پر میں اپنے والد کو قتل کر سکتا تھا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور مکمل طور پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
وہ لوگ چار کاندھوں پر میرے والد کو اٹھا کر لائے اور پھر اُسے ایک سوراخ میں لٹا دیا۔ میں بالکل اسی طرح رونے لگا جس طرح اپنے والد سے تھپّڑ کھانے کے بعد رویا کرتا تھا۔ ہچکیوں سے میری سانسیں رکنے لگیں۔ میں رہ رہ کر رونے لگا۔ لیکن میری آہ و زاریاں رائیگاں گئیں۔ کسی نے بھی نہیں سنا۔ میری ماں بھی مجھے نہیں سن سکتی تھی۔ والد۔۔۔۔۔۔جس کی محبت کے جذبات اُس کی مارپیٹ اور برے برتائو کے نیچے کہیں دفن ہوگئے تھے۔ نائی اپنے ہاتھ میں قینچی بالکل اُسی طرح رکھتا تھا جس طرح میرا باپ اپنے ہاتھ میں شراب کا گلاس رکھا کرتا تھا۔ وہ گھر پرزیادہ تر خاموش رہتا تھا۔ رکی (شراب کی ایک قسم) پیتے وقت اُس کا برتائو البتہ اچھا ہوا کرتا تھا۔ جب وہ شراب پیتا تھا تب اُس کے ہاتھ میرے بالوں میں ادھر اُدھر گردش کیا کرتے تھے۔اگر چہ کے وہ میری آنکھوں اور چہرے پر ضرب لگاتالیکن تب بھی اُس کے اِس برتائو کو دیکھ کر میں اُسے اپنا باپ کہتا تھا ۔ لیکن جب وہ میری ماں کو مارتا تھا تب مجھے بہت طیش آتا تھا۔ ایسا غصّہ میں نے کبھی اُس کے تعلق سے محسوس نہیں کیا چاہے اُس نے مجھے لاتیں ماری ہوں، مجھے پٹکا ہو، یا مجھے پائپ سے مارا ہو۔لیکن جب بھی اُس نے میری ماں کے ساتھ مارپیٹ کی اُس کے بعد میںروتے ہوئے خالی گلیوں میں دوڑا کرتا تھااور چیخ چیخ کر کہتا تھا ایک نہ ایک دن میں اُسے قتل کر دوں گا۔ اُسے قتل کرنے کے تعلق سے میں بے خوف تھا۔ میں سوچتا تھا کہ اس کے چہرے پر تکیہ رکھ کر اُس کا دم گھونٹ دوں گا، لیکن ناممکن۔ وہ مجھ سے زیادہ طاقتور تھا۔ میں خواب دیکھتا تھا کہ نیند کی حالت میں چاقو اُس کے دل کے پاس ٹھونس رہا ہوں تب میری سانسیں بھی تیز ہو جایا کرتی تھیں اور میرے ہاتھوں میں پسینہ آجاتا تھا۔ لیکن حقیقی زندگی میںایسا کبھی ہوانہیں ۔ میں ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ میں اُن لوگوں میں شامل کوئی فرد بھی نہیں تھا جو اُس کے تابوت کو اپنے کاندھوں پر لا رہے تھے۔ جس وقت نمازِ جنازہ پڑھی گئی تب تک اُس کے تمباکو میں مہکتے ہوئے ہاتھ ماضی کی ایک داستان بن چکے تھے اور اب Samsun 216نامی سگریٹ کا ایک پیکٹ میری وراثت میں شامل تھا۔ اب میں Samsun 216 پی رہا تھا۔ میں نے بالکل اسی کی طرح سگریٹ ہاتھوں میں رکھ کر دھواں کھینچنا اور تھوڑا تھوڑا کر کے اسے باہر پھینکنا شروع کیا۔ اب میرے ہاتھ بالکل اُس کے ہاتھوں کی طرح پیلے اور تمباکو کی بو سے اٹ چکے تھے۔ سگریٹ کی راکھ کو طویل ہوتا دیکھ کر میں نے نائی سے ایشٹرے مانگی۔ میرا چہرہ اُس کی طرح نظر آنے لگا۔میں نے فرض کیا کہ جو لوگ مجھے دیکھیں گے وہ کہیں گے کہ میں بالکل اسی کی طرح نظر آتا ہوں۔ میں نے کئی مرتبہ اپنے سگریٹ کا برانڈ تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا لیکن میں ایسا نہیں کر پایا۔ دوسرے برانڈ کی وجہ سے مجھے کھانسی آنے لگتی تھی۔ جب کسی ایک سگریٹ سے کھانسی آنے لگتی تھی تب میرا باپ دوسرا جلا لیا کرتاتھا اور کہتا تھا کہ یہ بہتر ہے۔ میری کھانسی بھی اُسی کی طرح تھی۔ کبھی سانسیں رک جاتیں اور کبھی سانس پھولنا شروع ہو جاتی۔پھر اچانک کھانسی بند ہو جاتی۔ موت تک یہ کھانسی نہ کبھی مجھے خوفزدہ کر پائی اور نہ ہی کبھی خوش ۔ وہ اس طرح کھانستا تھا جیسے اُس کا دم گھٹ رہا ہواور میرے دل میں یہ جذبات آجاتے کہ میں اُسے قتل کر رہا ہوں۔ جب کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ آخر کار جب اُس کا وقت آیا وہ چلا گیا۔
نائی نے کہا۔ ابی! تم پھر وہاں چلے گئے تھے۔ پورے احتیاط سے رہو۔
جب میرا باپ کھانستا تھا تب میری ماں ایک گلاس پانی لے آیا کرتی تھی۔ پھر اُس کی پیٹھ سہلاتی اور ہلال ہلال کہا کرتی تھی۔میری آنکھوں میں ہزاروں طرح کے خوف ہوتے تھے۔میں کیا کہوں؟ میں ایک انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ میں جونئیرہائی اسکول میں تھا۔اگر میں آئینہ ہوتا تب میں بار بار ٹوٹتا۔ میرے مضامین پڑھ کر اکثر میرے ادب کے استاد کہتے میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی بار بار ٹوٹتا۔ ڈیڈ ! واقعی آپ نے مجھے دھات کے ٹکڑوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔میں بہت زیادہ تباہ ہو چکا ہوں۔
نائی کی ایک ہلکی سی آواز آتی ہے۔۔۔۔۔احتیاط سے۔۔۔۔۔۔۔تم کرسی سے نیچے پھسل رہے ہو۔
میں ٹھیک ہوں، میں ٹھیک ہوں۔ صرف اپنا کام کرو، میں نے کہااور دوسرا سگریٹ جلا لیا۔
اُس نے کہا آئینے پر زیادہ دیر تک مت دیکھو۔
میری ماں بھی کہا کرتی تھی کہ آئینے کی طرف زیادہ دیر مت دیکھو۔آئینے میں روحیں ہوتی ہیں جو تمھیں دیوانہ بنادیں گی۔ماں ! آئینہ ایک طرح کی کانچ ہے۔ ماں خود کو دیکھو تم میرے والد کے لیے پانی کی طرح تھی لیکن اِس سے کیا فائدہ حاصل ہوا۔ماں ! تم واقف ہو کہ میںاپنے ادھورے کام کی طرح اُسے دیکھنے کے لیے ہر جمعرات اُس کی قبر پر کھڑے پتھر کے نزدیک جاتا ہوں۔تم اُس کی قبر کے سرہانے دعا کرنے کے لیے جایا کرتی تھیں جبکہ میں دور سے یہ منظر دیکھا کرتا تھا۔ تمھارے جانے کے بعد میں آہستہ آہستہ وہاں جاتا اور بالکل اُسی جگہ بیٹھ جاتا جہاں تم بیٹھتی تھیں۔تمھارے ہاتھوں کے نشانات میرے والد کی قبر پر ہوتے تھے۔ میں تمھارے تیسرے ہاتھ کی طرح تھا۔۔۔۔۔۔کسی ہاتھ کی طرح۔۔۔۔۔۔ماں ! مجھے بتائو کیا کبھی تم نے اپنے ہاتھوں سے والد کے ہاتھوں کوپکڑا ہے۔یہ صرف اُس کی موت کے بعد ہی ہوسکتا تھا۔ کیا میں صحیح ہوں ماں؟ یہ کام صرف میرے والد کی موت کے بعد ہی ممکن تھا۔وہ درد کی آوازیں جو کبھی تمھاری زبان سے نکلا کرتی تھیں آج بھی میرے کانوں میں موجود ہیں۔میرا دروازہ بند کردیا گیا، میرا دروازہ بند کردیا گیا، میرا دروازہ بند کردیا گیا۔ میں مٹی کو بالکل اُسی طرح چھو رہا ہوں جس طرح تم نے چھوا تھا۔ میں خوفزدہ ہوں کہ میں صحیح وقت پر کس کا گلا چیر سکوں گا۔ لیکن تم دیکھ رہی ہو کہ یہ مر چکا ہے اور میںاب اِسے دوبارہ قتل نہیں کر سکتا اور اب یہ میرے سامنے بالکل خاموش ہے۔ ماں اب یہ ویسا نہیں ہے جیسا گھر پر ہوا کرتا تھا۔ اب یہ بالکل بدل چکا ہے یوں لگتا ہے جیسے خاموشی میں چیخ رہا ہو۔یہ جتنا خاموش ہوتا ہے اتنا ہی طاقتور نظر آتا ہے اور اتنا ہی وحشی بھی کہ اُسے بدعائیں دی جائیں۔ وہ بے مقصد بڑھا ، اُس کے ہاتھ بڑھے اور بڑے ہوتے گئے۔ جب اُس کی آنکھیں پھیلنے لگتی تھیں تب میرے بے حرکت پیر بھی زندہ ہو جایا کرتے تھے۔ وہ مجھے تھپّڑ مارتا اور لاتوں سے مارتا تھا۔ ماں! مجھے میرے باپ نے لنگڑا کردیا۔ اُس نے مجھے پڑوسیوں کا گول کیپر بنا دیا۔ میرا باپ ایک ناکارہ انسان تھا۔ ماں! میں آرہا ہوں اب ہم اُس کے بارے میں بات بھی نہیں کریں گے۔ اب ہمارے پاس بحث کرنے کے لیے کوئی گزرا ہوا کل نہیں ہے۔ ماں! آنے والے کل کی باتیں کرو۔ ماں! تم مجھے کیوں نہیںپہچانو گی۔ ماں! دیکھو میں نے اپنے بال کٹوا دیے ہیں اب تم میرا چہرہ اور میری آنکھیں دیکھ سکو گی۔ تم دیکھ سکوگی کہ میں کتنا خوبرو ہوں۔ تم مجھے میرے لنگڑے پیر سے پہچان لو گی۔ ماں! میرے ساتھ ایسا مت کرو۔ تم اِن سب چیزوں سے انجان نہیں ہو۔
خاموشی سے دروازہ کھلا۔ اچانک میں نے اپنے کانوں پر سرد ہوا کو محسوس کیا۔ برف کی سرد خوشبو۔
سلیم ابی! ادھر آئو!! نائی نے کہا۔ ہمارے نوجوان کو شیونگ کی ضرورت ہے اور کوئی قطار میں بھی نہیں ہے۔
اُس کی آواز نے میرے کانوں کو گرما دیا۔ ٹھیک ہے میں چند لمحات کے بعد آتا ہوں۔ میں آئینے میں بولنے والے کو دیکھ نہیں سکا۔ میں نے دروازہ کھولا جو کسی کے اندر جانے کے بعد فوراً بند ہوگیا تھا۔
میں نے کہا وہ کون تھا۔
کون سلیم ابی؟
وہ جو ابھی ابھی یہاں آیا تھا۔
وہ پڑوس میں رہنے والا پرندوں کا تاجر کُسکو تھا۔ وہ ہمارا پڑوسی ہے۔
اُس کی آواز جانی پہچانی لگتی ہے۔
اُس نے کہا وہ اچھا ہے، ابی۔
اگر میں اپنے لنگڑے پیروں سے پریشان نہیں ہوتا تب میں اُسے لات مار کر زمین پر پٹک دیتا۔ جس طرح میرا باپ مجھے مارا کرتا تھا۔ جیسا میں اپنے باپ کی قبر پر مارنا چاہتا تھا۔ ایک بے مقصد سوال پوچھو اور شاید تمھیں جواب میں ایک پیراگراف مل جائے۔ لیکن واقعی تم اگرکچھ پوچھو اور تمھیں جواب نہ مل سکے! ابی! وہ بہت اچھا ہے۔
میرے بال کسی ڈور کی طرح نیچے گرتے رہے۔ اگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا اِس کا کوئی حل نہیں ہے تب مجھے جواب ملتا ہے کہ یہ موروثی ہے اور پھر وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ میرا باپ بھی گنجا ہی تھا۔ بہتر یہ ہے کہ اِس بارے میں نہ پوچھا جائے۔میرا فون بج رہا ہے۔ واقعی میں اپنی سیٹ سے پھسل چکا ہوں۔ نائی صحیح کہہ رہا ہے۔ میں نے اپنی پشت کو سیدھا کیا اور نائی سے کہا کہ وہ ایک سیکنڈ رکے۔ فون پر میری بہن تھی۔ وہ دریافت کر رہی تھی کہ کیا میں آرہا ہوں۔ میں کہا ہاں میں آرہا ہوں میں آرہا ہوں تھوڑی دیر وہیں رکے رہو۔ اُس نے کہا ٹھیک ہے۔
میں جھک رہا ہوں،واقعی نائی کی کرسی مجھے غصّہ دلا رہی ہے۔ یہی معاملہ اُس وقت بھی ہوا کرتا تھا جب میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا اور گارڈ نمبر تین برقی استرے سے میرے بال کاٹتا تھا اور جس طرح سے میرے بال کاٹے جاتے تھے میں بہت ناراض ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نائی سے گہری بحث میں الجھ جایا کرتا تھا۔ اب میں پریشان ہوں کہ جب میں اپنی جگہ چھوڑوں گا تب وہاں استرا نہیں ہوگا بلکہ نائی ہوگا۔
اوستا! کیا تم نے اپنا استرا تبدیل کیا ہے؟ (میں نے یہ دکھاوے کی تعریف اِس لیے کی کہ استرا میرے کان کے نیچے چبھ رہا تھا۔ )
ابی! وہ لوگ ایک نیا قانون بنا چکے ہیں۔ اب یہاں سے ہر شخص کے لیے نیا استرا اور نیا تولیہ استعمال کیا جائے گا۔ کسی دن میں یہ حکم دے دوں گا۔
یہ اچھی بات ہے اور صحت کے اعتبار سے بھی اچھا ہے میں نے کہا۔
ابی! اب یہاں کوئی بحث نہیں۔ میں ہر کسی کے لیے نیا تولیہ استعمال نہیں کر رہا ہوں۔حالیہ کمپنی یہ قبول کرچکی ہے کہ کچھ لوگ کتّوں اور گیدڑوں کی طرح گندے ہوتے ہیں۔
جب استرا میرے گلے کے قریب آیا تب میں نے اُس سے بات کرنے کی کوشش کی۔تاکہ وہ اپنی جگہ چھوڑ سکے۔
میری آنکھیں دیوار پر چسپاں یلماز گینے کی تصویر پر مرکوز ہو گئی۔جو کتّے کی طرح بیٹھا ہوا تھا سگریٹ اُس کے ہاتھ میں تھی۔ پیشانی پر دراڑیں تھیں۔ میرے والد اُس سے محبّت کرتے تھے۔ جب میں پیدا ہوا تب میرے والد گینے کی فلم ریکے ٹیئرس کے فلمی نام سیسی پر میرا نام رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن اُنھو نے اپنا ارادہ ترک کردیا چاہے اِس کے پیچھے اُس کی جو بھی وجہ رہی ہو۔ میرے والد اُس کی تصویر کی جانب شراب کا گلاس اٹھا کر کہتے تھے، ’’دنیا کا سب سے خوبصورت روتا ہوا انسان۔‘‘
میں نے کہا بدصورت بادشاہ مر چکا ہے۔
وہ آہیں بھرنے لگا۔
انسان! واقعی وہ کیا انسان تھا! یہ دنیا کسی بھی انسان کو روک نہیں سکی۔ اُس نے کہا۔
اگر میں گھر جائوں، اپنی ماں کے ہاتھوں کا بوسہ لوں، اسے گلے لگائوں،اگر ہم خوبصورت طریقے سے روئیں، اگر نمک پلکوں پر جمع ہوجائے، کتنے سال گذر چکے ہیں کہ میں اسی پڑوس میں ہوں۔ اور اگر میری بہنیں جو کہتی ہیں وہ سچ ہو ، اگر میری ماں مجھ سے یہ دریافت کرے کہ تم کس کے بیٹے ہو؟ تم دیکھ رہے ہو کہ یہی سب چیزیںہیں جو مجھے خوفزدہ کیے رہتی ہیں۔
ابی! تم پھر باہر ہو رہے ہو، ذرا احتیاط سے۔ کتنی بار میں نے تم سے کہا ہے کہ اپنی جگہ مت چھوڑو۔ مجھے معاف کرو۔
نہیں ، نہیں پیارے یہ اتنا اہم نہیں (کہ تم کہو مجھے معاف کرو ۔ میں نے اپنے کندھوں کو جھٹکتے ہوئے کہا)
نائی نے دوبارہ کہا، ابی! مجھے معاف کرو۔
اب میں نے کچھ نہیں کہا ۔ میری گردن پر موجود استرا بے مقصد میرے نرخرے کی طرف بھٹک رہا تھا۔
نائی نے کہا۔ دس سال پہلے میں اس لڑکے کے بال کاٹ رہا تھا اور اگلی بات جو مجھے یاد آرہی ہے وہ یہ کہ وہ کرسی سے پھسل کر گرگیا۔ خوش قسمتی سے میرا اتالیق میرا اوستا انکل راضی یہاں موجود تھا۔ ہم دونوں نے اُسے اوپر اٹھایا ۔ اس کے منہ پر پانی کا چھڑکائو کیا اور اُسے تازہ ہوا کے لیے کچھ دیر باہر لے گئے۔ انکل راضی نے کہا تھا کہ یہ آئینے کا جھٹکا ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے ۔ اگر تم آئینے میں زیادہ دیر تک دیکھتے رہو تب ایسا ہوتا ہے۔ جب تم پھسل رہے تھے اور اپنی جگہ چھوڑ رہے تھے تب مجھے اپنے ہاتھ، پیروں کی طرح محسو س ہو رہے تھے۔ ابی! میں خوفزدہ ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ابی! کیا یہ آئینے کا جھٹکا ہے؟ اگر ایسا ہے تب تو مجھے معاف کیجیے ابی!
٭٭٭
مورت اوژیاسرکے افسانہ ’سانحہ ‘ کا اردو ترجمہ معروف مترجم ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے انگریزی سے کیا ہے۔ یہ اردو ترجمہ انھوں نے اردو چینل کے لیے کیا تھا جو اردو چینل کے شمارہ ۳۳ میں شامل ہے۔
٭٭٭
مورت اوژیاسر جنوبی ترکی کے دیارباقر میں 1979میں پیدا ہوئے۔انھوں نے ڈسلے یونیورسٹی سے ترکی زبان وادب کے شعبے سے گریجویشن کی تکمیل کی۔اوژیاسر کے افسانے،وارلک، کٹئپ لِک، نوٹوس اوئیکیو، امیج اوئیکیولر، کُل اوئیکیوجیسے متعدد علمی و ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ انھیں 2003ء میں Human Rights Association Short Story Awardسے سرفراز کیا گیا۔ Mirror Shock کے لیے انھیں دو باوقار ایوارڈ تفویض کیے گئے۔ 2008میں انھیں ہلڈن ٹینر ایوارڈ اور 2009یونس نبی ایوارڈ تفویض کیا گیا۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا۔فی الحال وہ اپنے افسانوں کے نئے مجموعے پر کام کر رہے ہیں۔(قمر صدیقی)