Moen Ahsan Jazbi’s Poetry by Prof. S.R. Kidwai

Articles

دیکھو تو وہ حریف ِ شبِ تار کیا ہوئے

پروفیسرصدیق الرحمن قدوائی

گذشتہ نصف صدی کی اردو شاعری کی تاریخ پر جن لوگوں کا نقش ثبت ہو چکا ہے ، ان میں جذبیؔ صاحب کا نام نمایاں ہے ۔ میری عمر کے لوگوں کے کان جب شاعری کے آہنگ سے آشنا ہو ئے تو وہ جذبیؔ اور مجاز کا عہد تھا ۔ رسالوں اور مشاعروں نے ان کی مقبولیت کو عروج تک پہنچا دیا تھا ۔ فیض، اخترالایمان، سردار جعفری، کیفی ابھی اتنے نمایاں نہیں تھے گو کہ ان سے بھی اہلِ ذوق واقف تھے ۔ کسی عہد کو کسی شاعر کے نام سے منسوب کرنا ، بڑی ذمہ داری اپنے سر لینا ہے ۔ جس عہد میں فانی، اصغر، یگانہ، حسرت او ر جگر سے لے کر جوش ؔو فراقؔ تک موجود ہوں اسے جذبیؔ کا عہد کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے ___ دراصل وہ جو ترقی پسندی کا عہد قرار پایا اس کی آمد آمد کی آہٹیں سب سے یادہ نمایاں اور با شوکت اس زمانے میں اگر پہلے پہل ملتی ہیں تو وہ جذبیؔؔ اور مجازؔ ہیں اور پھر اردو شاعری میں ترقی پسندی کے آغاز اس کے عروج اور اس کے نشیب و فراز کی ساری صفا ت بھی ان کے یہاں ملتی ہے ۔ گذشتہ نصف صدی کی اردو شاعری کی تاریخ پر جن لوگوں کا نقش ثبت ہو چکا ہے ، ان میں جذبیؔ صاحب کا نام نمایاں ہے ۔ میری عمر کے لوگوں کے کان جب شاعری کے آہنگ سے آشنا ہو ئے تو وہ جذبیؔ اور مجاز کا عہد تھا ۔ رسالوں اور مشاعروں نے ان کی مقبولیت کو عروج تک پہنچا دیا تھا ۔ فیض، اخترالایمان، سردار جعفری، کیفی ابھی اتنے نمایاں نہیں تھے گو کہ ان سے بھی اہلِ ذوق واقف تھے ۔ کسی عہد کو کسی شاعر کے نام سے منسوب کرنا ، بڑی ذمہ داری اپنے سر لینا ہے ۔ جس عہد میں فانی، اصغر، یگانہ، حسرت او ر جگر سے لے کر جوش ؔو فراقؔ تک موجود ہوں اسے جذبیؔ کا عہد کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے ___ دراصل وہ جو ترقی پسندی کا عہد قرار پایا اس کی آمد آمد کی آہٹیں سب سے یادہ نمایاں اور با شوکت اس زمانے میں اگر پہلے پہل ملتی ہیں تو وہ جذبیؔؔ اور مجازؔ ہیں اور پھر اردو شاعری میں ترقی پسندی کے آغاز اس کے عروج اور اس کے نشیب و فراز کی ساری صفا ت بھی ان کے یہاں ملتی ہے ۔
جذبیؔ کے شاعری کے پورے دور پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ بالکل ابتدا میں یعنی 1932ء سے 1933ء تک انھوں نے روایت کے مطابق اساتذہ کے رنگ میں غزلیں کہیں ۔ ان میں ان کی کو ئی انفرادیت نہیں ملتی مگر چونکہ غزلیں نک سک سے درست تھیں اور اس اہتمام اور ان آداب کے مطابق کہی گئی تھیں جن سے کلاسیکیت عبارت ہے اور ساتھ ہی ساتھ غمِ ہجر، آرزوئے وصل،مستی مئے، معصومیِ عشق ، شوخیِ حسن کے قصے، مترنم زمینوں اور خوش آہنگ قافیوں میں ڈھل کر آتے تھے ، اس لیے بہر حال اپنا جادو جگاتے تھے ۔ اور اس بنا پر ابتدا ہی سے انھیں عام طور ے سراہا گیا ۔ شروع شروع کی ان کی غزلوں میں کوئی فکری جہت، جذباتی گہرائی وغیرہ تو نہیں پھر بھی ان میں سے ایک ایسے شخص کا مزاج جھلکتا ہے جو ٹھہر ٹھہر کر، سوچ سوچ کر محتاط آواز میں کہتا ہے ۔ وہ شہرت کی جلد بازی کا شکار نہیں بلکہ شاعری ا س کی شخصیت کا تقاضا ہے اور وہ اپنے آپ کو تلاش کرنے اور اپنی آواز کو پہچاننے کی کو شش کر رہا ہے ۔ یہ دور جذبیؔ کے یہاں خود شناسی کی خواہش کے فروغ کا دور ہے اور اس خواہش نے نہ صرف جذبیؔ سے غزل کے اچھے شعر کہلوائے بلکہ کچھ ایسے مبہم سے نقش بھی بنائے جو آگے چل کر واضح ہوتے چلے گئے ۔ مثلاً’ منزل‘ کا لفظ ان کے یہاں شرو ع ہی سے ملتا ہے اور آخر تک بار بار آتا ہے ۔ ابتدا میں خود شاعر منزل سے آشنا نہیں ۔ مگر کسی نہ کسی منزل کی چاہت ضرور رکھتا ہے ۔ یہ منزلِ بے نام وصلِ محبوب سے لے کر بہتر زندگی کے خواب تک کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔ غزل میں ابہا م کی گنجائش ہر شاعر کو راس آتی ہے ۔ چنانچہ یہاں جذبیؔ بھی اس کا سہارا لیتے ہیں ۔ جس منزل کا نشان خود ان کی نظروں میں صاف نہیں ، اسے فی الحال مبہم ہی رہنا تھا ، مگر منزل کی تمنا ہے کہ پھر بھی بڑھتی جاتی ہے اور ناکامی و نا مرادی کا اندیشہ بھی دامن پکڑے ہوئے ہے کہ اس منزلِ موہوم کا سفر بھی شروع ہو چکا ہے :
مزے ناکامیوں کے اس سے پوچھو
جسے کہتے ہیں سب گم کردہ منزل
مگر اس دور میں بھی آثارِ منزل دھندلے ہی سے سہی ، کبھی کبھی نظر ضرور آتے ہیں :
دلِ ناکام تھک کے بیٹھ گیا
جب نظر آئی منزل مقصود
تھی حقیقت میں وہی منزل مقصود جذبیؔؔ
جس جگہ تجھ سے قدم آگے بڑھایا نہ گیا
چنانچہ منزل کی دھن میں سفر جا ری ہے ۔ وہ اس جستجو کی راہ میں بیگانہ و بے زار کبھی نہیں ہوئے ۔ شاید یہی وجہ ہے ان کی سرشت کو بعد کے دور میں ترقی پسندی کی رجائیت راس آتی ہے :
اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں
منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا
گرا پڑتا ہوں کیوں ہر ہر قدم پر
الٰہی آگئی کیا پاس منزل
’ منزل‘ ہی کی طرح درد و غم اور اس کے تلازمات ان کے ہاں شروع سے آخر تک ملتے ہیں :
دنیا لرز گئی دلِ ایذا پسند کی
نا آشنائے درد جو درد آشنا ہوا
ساقیا شیشوں میں تیرے ہے نہ پیمانوں میں ہے
وہ خمارِ تشنگی جو دل کے ارمانوں میں ہے
اپنی ہستی کی حقیقت کیا میں دنیا پھونک دوں
کا ش مل جائے وہ سوزِغم جو پروانوں میں ہے
کیا کیا تم نے کہ دردِ دل کا درماں کر دیا
میری خود داری کا شیرازہ پریشاں کردیا
یہاں غم محض غم نہیں بلکہ ایک ’’ قدر‘‘ بن گیا ہے جس سے شاعرایک لگاؤ محسوس کرتا ہے ۔ پروانوں کا سا سوزِ غم پانے کی تمنّا ، دردِ دل کے درماں سے خوداری کا شیرازہ پریشاں ہونا ۔ شراب سے زیادہ خمار ِ تشنگی جو دل کے ارمانوں کی بدولت ہے ۔ یہ وہ غم نہیں ہو سکتا جس سے کوئی جان چھڑانے کی کوشش کرے بلکہ ایک حرکی جذبہ ہے جوشاعر کو اپنی ہستی کی محرومیوں سے بہت آگے لے جاتا ہے ۔ غم کے اس عنصر کو بھی آگے چل کر ترقی پسندی نے جلا بخشی اور اسے ایک جہت ملی ۔ مگر اس سے پہلے کے اشعار جذبیؔ کے تخلیقی سفر کے تسلسل کی نشان دہی کرتے ہیں :
مختصر یہ ہے کہ ہمدم ہم نے فرطِ شوق میں
اپنی ہستی کو بھی وقفِ دردِ پنہاں کردیا
عیش سے کیوں خو ش ہوئے کیوں غم سے گھبرایا کئے
زندگی کیا جانے کیا تھی اور کیا سمجھا کئے
مگر اس دور میں ان کے یہاں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جن میں عشق کی سرمستیاں بھی ہیں اور ایک گہری سوچ میں کھڑے ہو ئے مگر سر گرم ذہن کی کار فرمائیاں بھی ۔ یہی کیفیت یہاں آرزو اور تمنا جیسے الفاظ میں ڈھل کر آتی ہے :
اس طرح ہو گئی ہے تکمیل جستجو کی
ہر سمت دیکھتا ہوں تصویر آرزو کی
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
غرض کہ جذبیؔ کے اس مشق سخن کے دور نے انھیں خود ان کی آواز سے آشنا کیا اور انھیں ایسے الفاظ و تلازمات دیئے جس سے ان کے اظہار کو ایک جہت ملی اور ان کے لہجے کا گداز و ترنم لفظوں کی خوش آہنگی بڑھتے بڑھتے ان کی پہچان بن گئی اور جذبیؔ کا نام اس عہد کی غز ل سے منسوب ہوتا چلا گیا ۔
1934ء کے آس پاس جذبیؔ نظم کی طر ف آئے ان کی شروع کی نظموں کی رومانی فضا اس عہد کے دوسرے نو جوان شعرا کی طرح زمانے اور ذہن کی تبدیلی کا پتہ دیتی ہے ۔ یہی تبدیلی ان سب لوگوں کے یہاں نظر آتی ہے ، جو ترقی پسند تحریک کی طرف مائل ہوئے ۔ ایک بہتر زندگی کے خواب انھیں سر مست و سرشار رکھتے ہیں ۔ مگر گرد و پیش کی حقیقتیں ان کے احساس کو گھائل بھی کرتی رہتی ہیں ۔ اب جذبیؔ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ :
رنگ صہبا اور ہے صہبا کی مستی اور ہے
ذکرِ پستی اور ہے احساسِ پستی ہے
خوابِ ہستی اور ہے تعبیر ہستی اور ہے
بھول جا اے دوست وہ رنگیں زمانے بھول جا
ان کی اس زمانے کی مشہور نظم ہے ’’ فطرت ایک مفلس کی نظر میں ‘‘ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اب ترقی پسند تحریک نے ان کی وہ منزل بھی متعین کر دی ہے ، جس کی تلاش انھیں پریشان رکھتی تھی اور وہ غم جو پہلے مبہم سا تھا جسے نا کامیِ عشق یا ہجر یار اور سوزِ پروانہ سے دنیا کو پھونک دینے کی تمنا نے اور نہ جانے کن کن باتوں نے جنم دیا ہو گااسے اب ترقی پسندی کا نظریہ اپنی سمت لے چلتاہے ۔ ان کی مذکورہ نظم کا آخری شعر ایک زمانے میں بہتوں کی زبان پر تھا ، اردو نظموں کے ان اشعار میں سے ایک ہے جو بھلائے نہیں جا سکے :
جب جیب میں پیسے بجتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے اس وقت یہ شبنم ہوتی ہے
ان کی اس زمانے کی ایک اور نظم جسے مجاز ؔ کی آوارہ کی طرح اردو نظم کے پورے خزانے میں ایک اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے اور مدتوں یاد رکھی جائے گی وہ ہے ’موت ‘ عام طور سے موت کا تصور آتے ہی بیزاری ہزار سمتوں سے دل و دماغ پر وار کرنے لگتی ہے ۔ مگر جذبیؔ کی اس نظم میں موت اپنے سارے بھیانک پن اور زندگی کے سارے سلسلوں کے انقطاع کے ساتھ ظہور کرنے کے باوجود زندگی سے چشمک کرتی ہے اور ہار ہار جاتی ہے۔ موت کے تصور کے ساتھ جذبیؔ کے احساس کا یہ کھیل بڑا دلکش ہے ۔ موت ٹلنے والی نہیں ۔ وہ زندگی کا راستہ روکے کھڑی ہے ۔ مگر زندگی اپنی ساری تلخیوں اور غموں کے ساتھ ا س کا سامنا کرتی ہے ۔ وہ اپنے غم خانے میں دھوم مچانے، ایک اور جامِ مئے تلخ چڑھانے ، خود کو سنبھالنے ، آنکھ مل لینے اور ہوش میں آنے پر جب اصرار کرتی ہے تو زندگی کی خوش گواریاں ایک توانائی کے ساتھ ’موت‘ کے سامنے آتی ہیں :
وہ مر ا سحر،  وہ اعجاز، کہاںہے ۔لانا
میری کھوئی ہوئی آواز کہاں ہے لانا
وہ  مرا ٹوٹا ہوا ۔ساز کہاں ۔ہے۔ لانا
اک ذرا گیت بھی اس سا ز پہ گا لوں تو چلوں
’’ کھوئی ہوئی آواز‘‘ اور ’’ ٹوٹا ہوا ساز‘‘ اپنے جلو میں ایک دنیا لیے ہوئے ہے جو خواہ کتنی خراب و خستہ کیوں نہ ہو ، بے معنی و بے کار نہیں ۔ پھر اس بے مثال نظم کے یہ بند :
میں تھکا ہارا  تھا اتنے  میں جوآئے بادل
کسی متوالے نے چپکے سے بڑھا دی بوتل
اف وہ رنگین ۔پر اسرار  خیالوں  کے محل
ایسے  دو چار محل اور بنا لوں  تو چلوں
میری آنکھوں میں ابھی تک ہے  محبت کا غرور
میرے ہونٹوں پہ ابھی تک ہے صداقت کا غرور
میرے ماتھے پہ ابھی تک ہے  شرافت کا غرور
ایسے وہموںسے ذرا خود کو نکالوں تو چلوں
رنگین و پر اسرا رخیالوں کے محل کچھ تو بن چکے اور کچھ ابھی بنانے ہیں ۔ محبت کا، صداقت کا اور شرافت کا غرور ابھی تک ختم نہیں ہوا بلکہ ایسے نہ جانے کتنے وہم ہیں جن سے ابھی نکلنا ہے ۔ ابھی دامن جھٹک کر الگ ہونے کی گھڑی نہیں آئی کہ موت آکر کھڑی ہو گئی ۔ یہ نظم جذبیؔ کے کمال فن کی سب سے اچھی مثال ہے ۔ جب بھی پڑھی جائے ، ایک نیا اور بالکل الگ تاثر چھوڑتی ہے ، جو ایک اعلیٰ تخلیق کی صفت ہوتی ہے ۔ وہ زمانہ جو اردو شاعری میں بلند آہنگ، چیختی چنگھاڑتی نظموں کا ہے ، پس جذبیؔ کے آس پاس سے ہو کر گزر جاتا ہے ۔ ان کی سانس زیادہ پھولتی ہوئی نہیں ملتی اور وہ نظمیں بھی جو خالص نجی تجربات و تاثرات کی بنا پر کہی گئی ہیں ، جذبیؔ کی شخصیت کو پورے وقار اور خلوص کے ساتھ جلو ہ گر کرتی ہیں ۔ مجاز ؔ’ جرم بے گناہی ‘ ، آل احمد سرور کے نام ، میرا ما حول، فیض اور سجاد ظہیر کی سزا کے فیصلے کو سن کرلکھی گئی نظمیں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں ۔ ان نظموں کے بعض حصے دہرائے جانے کے لائق ہیں :
راہ ادب کے مسافر کا ہم سفر ہو کون
بجز خلوص و صداقت بجز جنون و وفا
بجز سلاسل و زنداں بجز عذاب و سزا
یہ راہِ غم مرے مخدوم سے کوئی پوچھے
یہ فیضؔ کے لبِ معصوم سے کوئی پوچھے    ( آل احمد سرور کے نام )
یا  زمانہ سازی کے انداز سیکھ لو جذبیؔؔ
یہاں خلوص گدازِ ہنر کی قیمت کیا ( میرا ماحول)
اور پھر مجاز ؔ سے متعلق نظم جو اس شعر سے شرو ع ہو کر :
آج اک جادۂ پر پیچ کا راہی گُم ہے
اک  حریفِ المِ لا متناہی۔ گُم ہے
یہاں ختم ہوئی ہے :
اے شبِ تیر ہ و تاریک کے مارے جذبیؔؔ
صبح نا پید کے  موہوم اجالوں میں تو دیکھ
یہ اپنے ہم عصر اور دوست کی مو ت پر مخلصانہ خراج عقیدت ہی نہیں ، اردو کی ان بہت اچھی نظموں میں ہے جو ایسے موقعوں پر کہی گئی ہیں ، مجازؔ سے جذبیؔ کے تعلق کو سب ہی جانتے ہیں ۔ ایسے میں غم کی اضطراری کیفیات کا حاوی ہونا کو ئی غیر معمولی با ت نہ ہوئی ۔ مگر یہاں جذبیؔ کی تخلیقی شخصیت تجربے کی الم ناکی کو جس طرح تحلیل کرنے کے بعد ان کے مزاج سے ہم آہنگ ہو کر فن پارے کو ظہور میں لاتی ہے  اسے اپنے تخلیقی عمل کے بارے میں جذبیؔ کے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے کہ:
’’ تجربہ تخلیق کی منزل تک پہنچنے کے لیے صرف تحلیل و تجزیے کے مراحل سے نہیں گزرتا بلکہ شاعر کے مزاج سے بھی ہم آہنگ ہوتا ہے ۔‘‘( پیش گفتار : انور صدیقی ’ گذار شب‘)
ایک مدت تک جذبیؔ غزل سے زیادہ نظم کے ہی شاعر رہے اور اس زمانے میں وہ اپنی نظموں کی وجہ سے ہی مقبول رہے ۔ سچ پوچھئے تو اس دور کی غزلوں میں بھی فنی اعتبار سے نظم کا انداز حاوی ہے اور بعض غزلوں کو تو نظم ہی سمجھنا پڑتا ہے ۔ مثلاً وہ غزل جس کا مطلع ہے :
ابھی زمین حسیں ہے نہ آسمان حسیں
ابھی بنی ہی کہاں ہے مری بہشتِ بریں
اور دوسرا شعر:
ابھی ہے ذوق جنوں اپنا مصلحت آگیں
ادھر بھی ایک نظر اے نگارِ خطۂ چیں
یہ نظمیں ترقی پسند ادبی نقطۂ نظر کی منھ بولتی مثالیں ہیں ۔ یہ جذبیؔ کے فن کے ارتقا کی ایک اہم منزل ہے۔ اب نظم کی تکنیک ان کو بہت راس آتی ہے ۔ کیونکہ اب احساس ، نقطۂ نظر اوررویہ سب چند موضوعات پر مرتکز ہو جاتے ہیں ۔ جن سے و ہ کچھ عرصے تک تجاو ز نہیں کر سکے ۔’’ جاگ اے نسیم‘خندۂ گلشن قریب ہے ‘‘ ’’ چلو تلا شِ گل و لالہ وسمن کو چلیں ‘‘ اور ان کے علاوہ بھی کئی غزلیں ہیں جو اس عہد کی یاد گار ہیں ۔ بعد کے دور میں لفظ کے مقابلے میں لہجہ زیادہ قابل غور ہے ۔ دیوانگی، شوق، تیشہ،سنگ ِ گراں، ریگِ بیاباں ، سموم، نسیمِ چمن غزل کے مانوس استعارے ہیں ۔ جن کے ذریعے جذبیؔ اپنی سیاسی و سماجی فکر کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہاں معانی کا نیا پن اگر ہے تو صرف لہجے کے سبب ۔ سموم کا نسیم سے ہار ماننا اور معرکہ ہا ئے چمن لہجے کے ذریعے جس خیال کو پیش کیا گیا ہے وہ ترقی پسندوں سے پہلے نہیں تھا ۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد خصوصاً 1951-52ء کے قریب ترقی پسند شعرا غزل پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کرنے لگتے ہیں ۔ اشتراکی سیاست اور اندرونی نظریاتی اختلافات اور ہندو پاک کے حالات کچھ ایسا رخ اختیار کرتے ہیں کہ پہلے کی طرح سوالات اور ان کے جوابات واضح نہیں رہ جاتے ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ فضا دھندلی دھندلی نظر آنے لگتی ہے ۔ شاعری میں اس کے اظہار کے لیے غزل کا ابہام کام آتاہے ۔ اب نجی غم جو پہلے قربان کر دیا گیا تھا ، کبھی کبھی ابھرنے لگتا ہے ۔ سیاست اور سماج کے پیدا کیے ہوئے حالات کا غم بھی نجی غم بن کر نئے گل کھلاتا ہے ۔ غز ل اس عہد انتشار میں ترقی پسندوں کی سب سے زیادہ محفوظ اور سائے دار پناہ گاہ بن جاتی ہے ۔ اب عقیدوں کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنے کے باوجود آس نراس بہ یک وقت نظر آتے ہیں ۔ غم اب پہلے سے زیادہ جانکاہ ہے کیونکہ آزادی اور جد و جہد کے امکانات سے متعلق سارے مفروضات برہم ہونے لگتے ہیں ۔ اس زمانے میں فنی اعتبار سے جذبیؔ نے بہت اچھی غزلیں کہیں ۔ ان میں پہلے سے زیادہ پختگی ہے ۔ سوچتے ہوئے ذہن کا محتاط رد عمل اور ماضی کا احتساب ہے ۔ اہلِ کارواں سے گلے شکوے ہیں ۔ خواب سحر اور روشنی کی تمنامیں تاریکیوں سے ہر لمحے بر سر پیکار رہنے کے بجائے طرح طرح کے سوالات ہیں :
بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں
اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں
افسردگیِ ضبطِ الم آج بھی سہی
لیکن نشاطِ ضبطِ مسرت کہاں سے لائیں
ہر لحظہ تازہ تازہ بلاؤں کا سامنا
نا آزمودہ کار کی جرأت کہاں سے لائیں
سب کچھ نصیب ہو بھی تو اے شورشِ حیات
تجھ سے نظر چرانے کی عادت کہاں سے لائیں

کوچۂ یار میں اب جانے گذر ہو کہ نہ ہو
وہی وحشت وہی سودا وہی سر ہو کہ نہ ہو
ہجر کی رات تھی امکانِ سحر سے روشن
جانے اب اس میں وہ امکان ِ سحر ہو کہ نہ ہو
اب غزل میں نظم اورمسلسل غزل کا انداز نہیں بلکہ اشعار میں غزل کی روایت کے مطابق تنوع ہے ۔ لہجہ بہت سنبھلا ہوا مگر اس پورے گداز کے ساتھ جس میں المیے کا حزن حاوی نہیں بلکہ وہ ایک غرور و تمکنت سے ہم کنار ہے :
دانائے  غم نہ۔ محرمِ  رازِ حیات ہم
دھڑ کا رہے ہیں پھر بھی دلِ کائنات ہم
بیمِ خزاں  سے کس کو  مفر۔ تھا  مگر نسیم
کرتے رہے گلوں سے نکھرنے کی بات ہم
ڈھونڈا کئے ہیں راہِ ہوس رہروانِ شوق
دیکھا  کئے ہیں ۔لغزشِ پائے ثبات ہم
’’ منزل‘‘ جو ایسا لگتا تھا کہ مل گئی ہے ۔ اب جلوۂ محبوب کی طرح تڑپاتی ہے، ترساتی ہے۔مگر اس طرف جانے والی راہیں مو ہوم ہیں :
ہم گمرہانِ شوق کا عالم نہ پوچھئے
منزل سے دور بھی سرِ منزل رہے ہیں ہم
کیسے بتائیں کون سی منزل نظر میں ہے
آوارگانِ جادۂ بے نام کیا کریں
اور اب جذبیؔ کے اشعار میں کہاں، کیوں، کیسے، کدھر جیسے الفاظ زیادہ آنے لگتے ہیں ۔ سوالات کی ہر طر ف سے بوچھار ہے ۔ سیاست، انقلاب، آزادی کا حشر جوبھی ہوا ہو ، شاعر کی زبان گنگ نہیں ہو تی:
گستاخیِ نگاہِ تمنا کدھر گئی
تعزیر درد کے وہ سزا وار کیا ہوئے

ڈھونڈو تو کچھ ستارے ابھی ہوں گے عرش پر
دیکھو تو وہ حریفِ شبِ تار کیا ہو ئے

کوئی تو قاتلِ نا دیدہ کا پتہ دے گا
ہم اپنے زخم زمانے کو لا ؤ دکھلائیں

اداسیوں کے سوا دل کی زندگی کیا ہے
کسے بتائیں کہ خوابوں کی بر ہمی کیا ہے

خاموش ہیں کیوں نالہ کشانِ شبِ ہجراں یہ تیرہ شبی آج بھی کچھ کم تو نہیں ہے
جذبیؔ ؔ کا کلام مقدار کے اعتبار سے تو کم ہے مگر معیار کے اعتبار سے کم نہیں ۔ اس پر ان کے عہد اور ان کی شخصیت کی مہریں بہت صاف نظر آتی ہیں ۔ ان کا یہ کہنا مبالغہ نہیں :
گلشن میں جوشِ گل تو بگولے ہیں دشت میں
اہلِ جنوں جہاں بھی رہے آن سے رہے