Mother of all a Short Story by Mushtaq A. Wani

Articles

سب کی ماں

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

   بوڑھی بہاراں؛ بیاسی سال کی ہوچکی تھی۔زندگی  کی بیاسی بہاریں دیکھنے کے بعد بھی اس کے حواس خمسہ میں ضعف کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔البتہ لاٹھی ٹیکنے کی عادی تھی اور کہا کرتی تھی کہ آدمی شہر کا ہو یا دیہات کا اسے گھر سے باہر جاتے وقت ہاتھ میں لاٹھی ضرور رکھنی چاہیے۔کیونکہ کیا معلوم کب کہاں کوئی بندر؛کتا؛بھینسہ؛بیل؛گھوڑا یا کوئی اور جانور حملہ آور ہوجائے۔اس کے چہرے کی جھریوں کی جھالر یہ عیاں کررہی تھی کہ وہ زندگی کے کئی نشیب وفراز دیکھ چکی ہے۔دو بیٹے اور دو بیٹیوں کی ماں تھی۔اس کا   رفیق حیات اپنا حق رفاقت ادا کرتے ہوئے بہت پہلے دنیا سے چل بسا تھا۔دونوں بیٹے وفادار بھی تھے اور خوشحال بھی۔اس کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں تک کی شادی ہوچکی تھی۔اس کی آنکھوں نے اپنے قصبے کے راج محل کی زیب وزینت دیکھی تھی؛ راجکماروں کے پالنوں کو جھلایا تھا؛اپنے ملک کے بٹوارے کی خبر سن کر آنسو بہاے تھے اور پھر آدمی کی شکل میں حیوانی درندگی کا بھیانک رقص دیکھا تھا۔پھر ایک وقت اس کی زندگی میں ایسا بھی آیا تھا جب اس کی آنکھوں نے اپنے قصبے کے ویران وسنسان راج محل میں دور سے “جانی دشمن”فلم کی شوٹینگ دیکھی تھی۔زندگی کا اتنا تلخ وشیریں رس پینے کے باوجود بوڑھی بہاراں  کے چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی اور لب ولہجے میں بزرگانہ طمطراق موجود تھا۔لگتا تھا کہ زندگی اسے تھکا دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔مقام حیرت تو یہ تھا کہ وہ اس عمر میں بھی نماز؛روزے اور ذکر واذکار کی پابند تھی۔قرآن پاک  پڑھنا نہیں جانتی تھی لیکن اس کے باوجود بڑی عظمت و عقیدت کے ساتھ قرآنی حروف پہ شہادت کی انگلی پھیرتی۔اس سے اس کے دل کو تسکین پہنچتی اور آنکھوں میں آنسو آجاتے۔اس کی خوشی کی کوئی حد اس وقت نہیں رہتی جب وہ اپنے قصبے کے مرکزی مقام چنار چھاوں میں ہندو؛مسلم؛ سکھ اور عیسائی برادری کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور پھل کھاتے دیکھتی؛ تب اسے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے یہ سب اسکے بطن سے پیدا ہوئے ہوں۔اس کے اس احساس مسرت کا تعلق اسکی عملی زندگی سے بھی تو رہا تھا کیونکہ وہ اپنے قصبے کی مشہور ہنر مند دائی تھی۔اس لیے  وہ یہ جانتی تھی کہ اسکے سامنے یہ مشترکہ نئی نسل اس کے ہاتھوں شکم مادر سے اس جہان رنگ وبو میں آئی ہے۔ بہاراں؛ بے لوث خدمت کے سبب  اپنے قصبے میں مشترکہ تہذیب کا استعارہ بن کے رہ گئی تھی۔وہ تو اس وقت سے دائی کا کام کرتی آرہی تھی جب اسکے قصبے کے مکانات کچے ہوا کرتے تھے اور انٹر نیٹ کے غلط استعمال نے انسانی رشتوں کے تقدس کو پامال نہیں کیا تھا۔سینکڑوں بچوں کو اس نے ماں کی کوکھ سے زمین کی کوکھ پہ قدم رکھتے دیکھا تھا۔اللہ تعالے نے نہ جانے اس کے ہاتھوں میں کیا جادو رکھا تھا کہ جس بھی حاملہ عورت کے درد زہ کو دیکھ کے ڈاکٹر لوگ گھبرا کے بڑے شہر میں لے جانے کو کہتے اسے  بہاراں اپنی تحویل میں لیتی اور ایک دو بار ہاتھ پھیرتے ہی بچی  یا بچہ  تولد ہوتا۔ایک بار جب  رات کو دھنو دھوبی کی بیوی آرتی کے شریر میں درد زہ کی ترنگ اٹھی تھی تو وہ حواس باختہ سا دوڑتا بھاگتا  بہاراں کے گھر پہ آیا تھا اور زور سے پکار اٹھا تھا
    “دائی—-میری دھرم پتنی کو بچہ درد تڑپائے جات ہے؛چل کے دیکھونا”

     بہاراں؛ اپنے کچے مکان میں میٹھی نیند سوئی ہوئی تھی۔دھنو دھوبی کی پکار سے وہ جاگ گئی تھی۔اس کے ماتھے پہ شکنیں سی ابھر آئی تھیں اور تب اس نے دھنو دھوبی کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا
     ” ابے ایسے نہیں بولتے؛مجھے تمہارا بولنا اچھا
  نہیں لگا۔جب ایسی بات ہو تو مجھے اس طرح
  آواز دیا کرو
“اماں——درد”میں سمجھ جایا کروں گی کہ میرے قصبے کی کوئی بہو؛ بیٹی درد زہ کے باعث زندگی اور موت کی کشمش میں ہے”
دھنو نے کہا تھا
“ہاں میں ایسے ہی پکاروں گا اور دوسروں کو بھی
یہ بات بتاوں گا۔مگر اماں آپ چلیں تو سہی”
     بوڑھی بہاراں ایک چھوٹا سا تھیلا بغل میں دبائے دھنو کے ساتھ چل پڑی تھی۔آگے دھنو کے گھر
میں اسکی بیوی آرتی درد زہ سے پچھاڑیں کھارہی تھی۔اسکی دلدوذ چیخیں سن کے دھنو کا دل دہل جاتا۔ بہاراں نے جاتے ہی اپنے ہاتھوں میں پتا نہیں کون سا تیل لگایا تھا اور پھر آہستہ آہستہ آرتی کے شریر پہ ہاتھ پھیرا تھا۔چند ہی لمحوں  بعد آرتی کی کوکھ سے ایک سندر سلونا سا بچہ اس جہان فانی میں آگیا تھا۔نومولود کی پہلی چیخ سن کر دھنو دھوبی کے جسم میں جان آگئی تھی۔اس کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا تھا
  “اماں—بھگوان آپ کو سدا سکھی رکھے۔آپ جگ
جگ جیں”
وہ ذچہ اور بچہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا۔پھر اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تھا اور پانچ سو روپے کا نوٹ بہاراں کو دیتے ہوئے کہنے لگا تھا
“اماں؛ یہ لیجیے میرا دل آج خوش ہوا ہے” بہاراں نے لینے سے انکار کیا تھا۔لیکن دھنو نے زبردستی پانچ سو روپے کا نوٹ پکڑا دیا تھا۔پھر وہ دھنو کے گھر سے رخصت ہوگئی تھی اور ٹارچ کی روشنی میں اکیلی اپنے کچے مکان میں پہنچ گئی تھی۔
     لالہ نند لال؛ بہاراں کے قصبے کا  سب سے بڑا
سیٹھ تھا۔دیوالی؛ہولی اور نوراتروں میں ان کے گھر میں دیسی گھی کے چراغ جلا کرتے تھے۔ایک رات جب ان کی بہو شادی کے سات سال بعد پہلی مرتبہ درد زہ سے کراہ اٹھی تھی تو لالہ نند لال اسپتال جانے کے بجائے خود بہاراں کے کچے مکان میں آئے تھے۔انھوں نے آواز دی تھی
  “اماں—-درد” بہاراں نماز تہجد پڑھ چکی تھی اور دعامانگنے میں مشغول تھی۔سیٹھ نند لال نے دوبارہ آواز دی تھی
“اماں—— درد”
بوڑھی بہاراں اندر سے بولی تھی
“ٹھہر جایئے آرہی ہوں”
چند لمحوں بعد وہ لالہ نندلال کے حویلی نما مکان میں پہنچ گئی تھی۔جاتے ہی اس نے اپنے ہاتھوں میں تیل لگایا تھا۔اللہ کانام لے کر آہستہ آہستہ لالہ نندلال کی بہو کے مخملیں شریر پہ دونوں ہاتھ پھیرے تھے ۔دیکھتے دیکھتے اسکے دردزہ میں افاقہ
ہوا تھا اور بہو نے ایک خوبصورت سی بالکہ کو جنم دیا تھا۔لالہ نند لال خوش ہوئے تھے لیکن ان کا بیٹا نیرج کسی حد مایوس ہوا تھا۔لالہ نند لال نے بہاراں
کی گود گری چھواروں سے بھر دی تھی۔  ایک ہزار روپے کا نوٹ؛تانبے کی تھالی اور پیتل کی بالٹی دی تھی اور ان کی بیوی نے اپنے کان میں لگی سونے کی ایک بالی اتار کے دی تھی۔
     اپنے کچے مکان میں پہنچتے ہی بہاراں کے پوتے پوتیوں نے اسکے ہاتھ میں گری چھواروں سے بھری پوٹلی دیکھ کر اسے گھیر لیا تھا۔دادی دادی کی رٹ لگائے وہ اس سے پوٹلی لینا چاہتے تھے۔مگر اس نے کسی کو بھی پوٹلی نہیں دی تھی ۔اس نے سب کو نیچے بٹھایا تھا اور اپنے ہاتھ سے ان میں برابر گری چھوارے بانٹ دیے تھے۔اسکے دونوں بیٹوں کے پکے مکان  تھے۔دونوں سرکاری ملازم تھے۔دونوں ماں کا بہت خیال رکھتے تھے ۔بہاراں نے ساس بہو کے رشتے کو ماں بیٹی کے رشتے میں بدل دیا تھا۔وہ اکثر کہا
   کرتی تھی
“ہر ساس اگر بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے
  تو کوئی بھی گھر برباد نہیں ہوگا”
       بہاراں کو اپنے چھوٹے سے کچے مکان میں بہت سکون ملتا تھا۔کھانا تو وہ خود نہیں پکاتی تھی البتہ صبح لپٹن جائے کا ایک کپ  خود بناکر پی لیتی تھی۔اسے رسی کی کھاٹ پہ سونا بہت اچھا لگتا تھا۔ دونوں بیٹوں نے جب اسے ایک خوبصورت بیڈ اور بستر خرید کر دیا تھا تو وہ ان سے ناراض ہوئی تھی اور کہنے لگی تھی
     “میں رات کو تہجد پڑھتی ہوں ۔تمہارے اس نرم
   گرم بستر پہ جب لیٹوں گی تو میں کہاں جاگ
  پاوں گی۔قبر میں یہ نرم گرم بستر تو نہیں ہوگا”
       بہاراں کے قصبے میں مثالی قسم کی رواداری اور بھائی چارہ موجود تھا۔ہندو ؛ مسلم؛سکھ اور عیسائی آپس میں ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔دیوالی اور عید کی خوشیاں آپس میں بڑی دھوم دھام سے مناتے تھے؛ لیکن اس خوش کن   ہندو مسلم بھائی چارے کو اس وقت نظر بد لگ گئی تھی جب قصبے میں نہ جانے کہاں سے دو لنگور آکے بندروں پہ جھپٹ پڑے تھے اور انھیں نوچنا کھسوٹنا شروع کردیا تھا۔لنگوروں اور بندروں کے درمیان مہا بھارت دیکھنے کے لیے مرد عورتیں اور بچے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ چند ہندو لڑکوں نے بندروں کو اس لیے بچانے کی کوشش کی تھی کہ بندر ہمارے اس قصبے میں 80 سال سے رہ رہے ہیں جب کہ لنگور پہلی بار اس قصبے میں کہیں سے آنکلے ہیں۔ مسلمان لڑکے یہ چاہتے تھے کہ لنگور ؛بندروں کو پٹک پٹک کے ماریں کیونکہ ان بندروں نے
پورے  قصبے کے لوگوں کاناک میں دم کردیا تھا۔بندر گھروں میں گھستے تھے اور اندر سے کپڑے؛کھانے پینے کی چیزیں لے جاتے تھے  اور بعض اوقات بوڑھوں اور بچوں پہ جھپٹ پڑتے تھے۔ہندو اور مسلمان لڑکے دو متضاد نظریے کے تحت چل رہے  تھےکہ ان میں آپس میں توتو میں میں اور دھکا مکی کی نوبت آگئی تھی۔بندر اور لنگور دونوں قسم کے جانور تو وقتی طور پر قصبے کی فصیل پھاند کر کہیں دور چلے گئے تھے۔لیکن قصبے میں فرقہ پرستی کا زہر چھوڑ گئے تھے۔”بولو شری ہنومان جی کی جے” اور “اسلام زندہ باد”کے نعرے فضا میں گونجنے لگے تھے کہ اتنے میں پولیس آگئی تھی اور
اس نے ان مشتعل نوجوانوں کو حراست میں لے لیا تھا۔دوسرے ہی دن قصبے کے کچھ سنجیدہ ہندو؛مسلم؛سکھ اور عیسائی لوگوں نے گذشتہ روز ہندو مسلم نوجوانوں کی نازیبا و ناشائستہ حرکت کے بارے میں ایک میٹنگ بلائی تھی۔دونوں فرقوں کے لڑکے اس میٹنگ میں شامل ہوئے تھے۔ بہاراں بھی اس میٹنگ میں بن بلائے چلی آئی تھی۔اس کے آتے ہی سب لوگ کھڑے ہوکر بیٹھ گئے تھے۔سب نے نوجوان لڑکوں کی سرزنش کی تھی؛انھیں اپنی غلطی کا احساس دلایا تھا۔آخر پر بہاراں نے بڑے رقت آمیز لہجے میں کہا تھا
  “تم سب کو اپنے خاندان کے لوگ سمجھتی ہوں۔
  میرے ہاتھوں تمہارا جنم ہوا ہے۔میری آنکھوں نے
   تمہارا بچپن؛ لڑکپن اور جوانی کا زمانہ دیکھا ہے
   اور اس عمر میں اب تمہارا بڑھاپا دیکھ رہی ہوں۔
  میں خود اب ڈوبتے سورج کی کرن کی مانند ہوں۔
   دنیا کی سب سے انمول نعمت دل کا سکون ہے۔
اتفاق واتحاد کی نعمت کو نہ کھونا۔میرے قصبے
  میں رہنے والے مسلمان اور ہندو میری آنکھیں ہیں؛
    سکھ اور عیسائی میرے بازو۔کل جن بچوں نے
غلط حرکت کی ہے وہ آپس میں ایک دوسرے سے
   معافی مانگیں اور ایک دوسرے کے ساتھ گلے ملیں
    ورنہ مجھ بوڑھی کا دل روتا رہے گا”
          آخری جملہ کہتے ہوئے بہاراں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔میٹینگ ایک خوشگوار ماحول میں اختتام پزیر ہوئی تھی۔آخر پر حلوہ بانٹا گیا تھا۔
   ایک ہفتے کے بعد  بہاراں نے اپنی دونوں بہووں کو اپنے پاس بلایا تھا۔اپنی چھوٹی سی المونیم کی صندوقچی کھولی تھی؛ اس میں سے بیس ہزار روپے نکال کر دونوں کو دس دس ہزار  دے دیے تھے ۔دوسرے دن اپنی بیٹیوں کو بلایا تھا اور ان کو بھی دس دس ہزار روپے دے دیے تھے۔ایسا کرنے سے اسے سکون سا ملا تھا۔تیسرے دن ہلکی سی بارش ہوئی تھی۔ نماز عصر کا وقت تھا۔وہ وضو بنانے کے
لیے جونہی اندر سے باہر نکلی تھی تو اسکے دونوں پیر پھسل گئے تھے اور وہ چاروں شانے چت نیچے گر گئی تھی۔اسکی چیخ سن کر گھر کے تمام افراد اسکی طرف دوڑ پڑے تھے۔پوتے پوتیاں چیختے ہوئے دادی دادی پکارنے لگے تھے اور دونوں بہو؛ بیٹے ماں کو بے ہوشی کی حالت میں دیکھ کر روتے ہوئے اماں  اماں پکارنے لگے تھے۔انھوں نے فورا”ماں کو اٹھایا تھا اور گاڑی میں رکھ کر اسپتال لے گئے تھے۔
اسپتال پہنچتے ہی اس نے اپنی دونوں آنکھیں کھول دی تھیں اور پھر کلمہ پڑھتے ہوئے دم توڑ دیا تھا۔اس کے باغ کے تمام پھول بیک وقت اسکے صدمے سے مرجھا گئے تھے۔اک کہرام سامچ گیا تھا۔یہ مایوس کن خبر پورے قصبے میں چند لمحوں میں پھیل گئی تھی۔جس نے جہاں سنا تھا وہ وہیں سے اسپتال کی جانب دوڑ پڑا تھا۔جب لاش گھر پہنچائی گئی تھی تو سب نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ میت کی تحجیز وتکفین کل ہوگی۔ ساری رات گھر کے تمام افراد نے  روتے بلکتے گزار دی تھی۔دوسرے دن قصبے کے تمام دکان داروں نے دکانیں بند رکھی تھیں۔پورے قصبے میں سناٹا چھایا
ہوا تھا۔میت کو غسل اور کفنانے کے بعد جب تابوت
میں رکھا گیا تھا تو آخری دیدار کے لیے گھر کے تمام افراد کو بلایا گیا تھا۔بہاراں دائی کا چہرہ بہت زیادہ
نورانی نظر آرہا تھا۔یوں معلوم ہورہاتھا کہ جیسے وہ
مسکرارہی ہوں۔جونہی تابوت اٹھانے لگے تھے تو ہندو اورسکھ برادری کے لوگ آگے آئے تھے۔انھوں نے میت کو پہلے کندھا دیا تھا۔لالہ نندلال نے روتے ہوئے  ایک سفید قیمتی چادر تابوت کے اوپر ڈال دی تھی۔دھنو دھوبی دھاڑیں مارمار کر رورہا تھا۔سکھ رشپال سنگھ نے روتے ہوئے ایک آدمی سے کہا تھا
  “بہاراں مائی؛ کی موت ہم سب کی موت ہے۔کیونکہ
  اب ہمارے قصبے کی کوئی بھی عورت بغیر آپریشن
   کے بچہ نہیں جنے گی”
                                 **
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
——————————————
sab ki maa , Mother of all, best story