Mumbai ke Asri Afsane ka Manzarnama

Articles

مُمبئی کے عصری افسانے کا منظر نامہ

محمد اسلم پرویز

[email protected]
کہنے کی ضرورت نہیں بمبئی جسے اب ممبئی کہا جاتا ہے،محض جغرافیائی حد وں میں بندھے ہوئے زمین کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں۔ ساڑھے تین ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا،بیس ملین سے زائد آبادی والا،سات جزیروں سے بنا ،پانی پر تیرتا یہ شہراردو فکشن کی ثروت مند روایت کا امین رہا ہے۔ ایک زمانے میں اردو افسانے کی گلیکسی ممبئی کے آسمان تلے موجود تھی۔راجندر سنگھ بیدی،کرشن چندر،سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی ،قرۃالعین حیدر، خواجہ احمد عباس ،مہندر ناتھ سے لے کر سریندرپرکاش ، محافظ حیدر ،واجدہ تبسم،جیتندر بلّو،ساگر سرحدی جیسے لکھنے والوں کے لیے ممبئی شہر سے بچنا محال تھا اورشعوری و غیر شعوری طورپر ممبئی کی ہمہ پہلو ، بھاگتی دوڑتی زندگی کو وہ اپنے فن اور فکشن میں تبدیل کرتے رہے۔ان میں زیادہ ترلوگ چونکہ دوسرے علاقوں سے یہاں آکر بسے تھے لہذا ممبئی کے حوالے انہوں نے جو کامیاب افسانے لکھے ان میں وہ اس شہر کو ایک ٹورسٹ کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن ستّر کے بعد جو افسانہ نگارابھرے وہ تو ممبئی کی زندگی میں رچے بسے تھے اس لیے ان کے افسانوں میں ممبئی کی محض topography نہیں۔ ممبئی شہر کی آوازوں، روشنیوں اور سایوں ،اس کی رفتار ،ردھم ،ماحول کو ان افسانہ نگاروں نے جس طرح کاغذ پر پکڑنے کی کوشش کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ممبئی کو سنا سونگھا،ہاتھ لگا کر چھوا،برتا اور جیابھی ہے۔ان افسانہ نگاروں کے فن میں ممبئی اپنے کیا جلوے بکھیرتی ہے اس کا مطالعہ اور تجزیہ دلچسپ بھی ہو سکتا ہے اور معنی خیز بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔لیکن اس وقت میرا موضوع اردو افسانوں میں ممبئی نہیں بلکہ سن ستّر او ر اس کے بعد کے وہ افسانہ نگار ہیں،جنہوں نے ممبئی میں رہتے ہوئے اردو افسانے کو نئے رنگ دئے۔
افسانہ ،افسانہ ہوتا ہے اسے ممبئی، دہلی ،کولکتہ میں بانٹنا غلط ہوگا۔اگر تقسیم کا یہی مزاج رہا تو پھرمنطقی اعتبار سے اس کی مزید خانہ بندی کی جاسکتی ہے۔ ممبئی آٹھ کے افسانے، مضافات کے افسانے ،نئی ممبئی کے افسانے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظاہر ہے افسانہ نگاروں کے domacileدیکھ کر فن کا مطالعہ بھی ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ لیکن یہاں اردو افسانے کے ہندوستانی منظر نامے کے حوالے سے ممبئی کے لکھنے والوں کے فنی امتیازسے بحث کرنا مقصود ہے کہ ان کا تخلیقی رویہ ہندوستان کے دوسرے لکھنے والوں سے کس حد تک مختلف ہے اور کیوں؟
گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ممبئی کے جن لکھنے والوں نے فکری فطانت، تخلیقی سرگرمیوں اور فنی مشق و مہارت کی وجہ سے اردو افسانے کی تاریخ میں اپنی شناخت درج کی ان میں سلام بن رزاق ،انور خان، انور قمر،علی امام نقوی ، ساجد رشید، مشتاق مومن ، مقدر حمید اورم ناگ کے نام کافی اہم ہیں۔گو کہ ان کے تجربات کا دائرہ بہت وسیع نہیں اور بڑا افسانہ لکھنے کی منوہری کنجی ابھی تک ان کے ہاتھ نہیں لگی ہے لیکن اپنے محدود ماحول، دائرے اور تجربے میں رہ کر بھی انہوں نے اردو فکشن کو چند اہم اور دلچسپ افسانے ضرور عطا کئے ہیں اوراہم بات یہ ہے کہ آج بھی یہ اس کے لیے کوشاں ہیں۔
ستّر کے بعد ابھرنے والے ان افسانہ نگاروں نے کم و بیش ایک ایسے وقت میں لکھنا شروع کیا جب جدیدافسانہ اردو فکشن پر تجریدی،علامتی اور تمثیلی کہانیوں کی شکل میں موجودتو تھا لیکن قاری سے اپنا ترسیلیnetworkکو توڑ چکاتھا۔اس وقت سیدھی سرل اور سہیج افسانے لکھنا ممنوع تھا۔مقبول ہونا غیر ادبی ہونے کی دلیل تھی اور ساری کوشش افسانے کو مشکل اور پیچیدہ بنانے پر ہوتی تھی۔دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ نام نہاد جدیدیت absolute story پیدا کرنے کی جھونک میں جس کہانی پن کو fake encounter میں قتل کرنے کے درپے تھی وہی کہانی پن ممبئی کے افسانہ نگاروں کے پاس survival kitکی طرح موجود تھی۔
نئے افسانے میں سب سے بڑی تبدیلی کہانی کی واپسی سے عبارت ہے۔ لیکن فکشن کے طالبِ علم کی حیثیت سے ایک سوال مجھے پریشان کرتا ہے کہ اس وقت جب پورے ملک میںعلامتی وتجریدی افسانہ پورے طمطراق سے فروغ پا رہا تھا ممبئی کے لکھنے والوں کا فنی شعور اس سُر میں سُر کیوں نہیں ملا رہا تھا ؟اس کی سب سے بڑی اور سامنے کی وجہ تو یہ تھی کہ ممبئی جیسے کاسمو پولیٹین مہا نگرمیں رہنے کے باعث ممبئی کے اردو لکھنے والوں کو دوسری زبان یعنی ہندی،انگریزی، مراٹھی ،گجراتی زبان کے ادیبوں سے ملنے کے مواقع نسبتاً زیادہ نصیب تھے۔ دوسری زبان کی ادبی ،تخلیقی اور ثقافتی آدان پردان نے اردو فکشن میں رائج فارمولا کہانیوں اور فیشن پرستی سے انہیں کسی حد تک محفوظ رکھا۔۔اس وقت جب جدید افسانہ عدم تحفظ،خوف،دہشت اور تشکیک کو شعور کی رو ،علامت، تمثیل اور استعاروں کے ذریعے بڑے دھوم دھڑاکے سے پیش کر رہا تھا ممبئی کے افسانہ نگار نہ تو جدیدیت کے اس high voltageگلیمر سے متاثر ہوئے اور نہ ہی جدیدیت کے camp fallowers میں اپنا نام درج کرایا۔ ستّر کے بعد کے ان افسانہ نگاروںنے تو ’۔’روشنی کی رفتار‘‘ کی قرۃالعین حیدرمیں اورانتظار حسین کااس ’’آخری آدمی‘‘میں جو بندر کی جون میں منقلب ہونے سے خودکو بچا رہا تھا اپنی فنی شناخت کے مراکز تلاش کئے۔ظاہر ہے یہ سب کسی منصوبہ بندی یا hidden agenda کے تحت نہیں کیا گیا۔ممبئی کے لکھنے والے علامتی ،تجریدی اور تمثیلی افسانے اس اختصاص کے ساتھ لکھ رہے تھے کہ کہانی پن سے افسانے کا رشتہ منقطع نہ ہونے پائے۔ ’’ ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘،’’زنجیر ہلانے والے،‘‘ ’’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘‘،’’شان دار موت کے لیے‘‘،’’کلر بلائنڈ‘‘، ’’منو کی ارتھ ہین یاترا‘‘، ’’جلتے پروں کی اڑان‘‘، ’’خواب‘‘،’’ڈاکو طے کریں گے ‘‘، ’’موت شطرنج اور پرندے ‘‘ تمام تر علاماتی اور استعاراتی اظہار کے باوجودیہ افسانے اپنا سارا زور اسی کہانی پر دیتے ہیں جو بیانیہ کے back stageپر وقوع پذیر ہو رہی ہے۔
ممبئی کے افسانہ نگاروں کا فنی رویہ اپنے ہم عصرافسانوں اور افسانہ نگاروں سے اگر مختلف تھا تو اس کی میرے خیال میں دو اور وجہیں تھیں۔ ایک تو خود سریندرپرکاش ، جو ا س وقت ایک سنئیر پیش رو افسانہ نگار اور جدید افسانے کے ایک رول ماڈل کے طور پر ستّر کی اس نسل کے سامنے موجود تھے۔ سریندر پرکاش کا فنی رویہ اظہار و اسالیب کے نئے وسیلوں کو قبول کرنے کے باوجود اپنا رشتہ اسی تجسس آمیز قصّہ گوئی پر قائم کررہاتھا، جو پریم چند ،منٹو اور بیدی کے ذریعے ان تک پہنچی تھی۔یہی وجہ ہے کہ استعاراتی اظہار اورتجریدی اسلوب میں لکھے ہوئے افسانوں میں بھی کہانی سے کلیتاً دامن چھڑانے کی کوشش ان کے یہاں نظر نہیں آتی۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ سریند پرکاش کی story tellingکے آرٹ نے ممبئی کے افسانہ نگاروں کو لکھنے کی ترغیب دی لیکن نت نئے تجربے کواپنی تحریروں میں جگہ دینے کے شوق میں کہانی پن کو outcasteکرنے سے اگر انہوں نے اپنے آپ کو بچائے رکھا تو اس میں کہیں نہ کہیں سریندر پرکاش کا بھی کچھ حصّہ ضرور ہے۔ سریند پرکاش کے علاوہ ممبئی کے ان افسانہ نگاروں کے ذہنی کلچر کی تعمیر میں باقر مہدی نے بہت اہم اور بامعنی رول ادا کیا ہے۔ باقر مہدی شاعری کے نقاد تو تھے ہی لیکن فکشن پر بھی ان کی نظر گہری تھی۔ یہی نہیں وہ افسانے کے بہت ہی حساّس اور پر شوق قاری تھے۔ فکشن کے فنی تقاضوں اور اس کے بدلتے سماجی رول کا وہ کس قدرگہرااور زندہ شعور رکھتے تھے اس کی شہادت تو فکشن پر لکھے ان کے مضامین دے ہی دیں گے لیکن ’’اظہار ‘‘میں انہوں نے نمائندہ جدید افسانہ نگار انور سجّاد کے افسانوں کا جو انتخاب شائع کیا وہ فکشن سے ان کے ادبی مطالبات کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ غرضکہ یہ بات بغیر کسی تکلف کے کہی جا سکتی ہے کہ سریندر پرکاش اور باقر مہدی کی ذہنی قربت اور رفاقت اگر ممبئی کے لکھنے والوں کو نصیب نہیں ہوئی ہوتی تو شاید جدید افسانے کی سونامی انہیںبھی ٹھکانے لگا چکی ہوتی۔
ستّر کے بعد افسانہ نگاروں کی نسل کا اگر کوئی ’’کارنامہ‘‘ ہے تو وہ یہ ہے کہ انہوں نے افسانے کو اس کھویا ہوا چہرہ عطا کیا۔ اس کارنامے کو انہوں نے متن اور کرافٹ دونوں سطحوں پر انجام دیااور اس انجام دہی میں ممبئی کے افسانہ نگاروں کا رول قابلِ ذکر بھی ہے اور قابلِ قدر بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلام بن رزاق، انور خان اور انور قمر ممبئی کے افسانہ نگاروں کی یہ تثلیث نہ تو ترقی پسندوں کے مخالف تھی نہ ہی جدیدیت کی علمبردار۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کے یہاں بنیادی کردار ایک ایسے شخص کا رہا ہے جو موجود ہ سماجی،سیاسی ، مذہبی ،ثقافتی ،معاشی منظر نامے میں خود کو situate کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
سلام کے افسانوں پر مختلف ناقدوں نے جو رائے دی ہے اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سلام اپنی نسل کے اہم اور نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ ،’’معبر‘‘ اور ’’شکستہ بتوں کے درمیان‘‘ ان کے تین افسانوی مجموعے ہیں جن میں لگ بھگ پچاس ساٹھ افسانے شامل ہیں۔ زیادہ تر افسانے موضوع،کرافٹ ،اوراسلوب کے نقطہ نظر سے ایک ہی زنجیر کی کڑیاں معلوم ہوتے ہیں۔ زندگی کی بساط پر رینگنے والے اس بے بس، لاچار اور مجبور انسان کوجسے سسٹم نے پیس ڈالا ہے سلام نے اپنے افسانے کاشاہ کردار بنایا ۔۔۔۔۔۔تو گویا سلام کے افسانوں کے ذریعے ہماری ملاقات ایک ایسے ہیرو سے ہوتی ہے جواپنی اصل میں نان ہیرو ہے۔
بہت پہلے شاید ایمرجنسی کے زمانے میں سلام بن رزاق نے ایک مختصر سا افسانہ ’’اندھیرا‘‘کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ چار چھ سطری یہ مختصر افسانہ یا افسانچہ میرے خیال میں سلام کے فنی رویے کا بلو پرنٹ ہے۔افسانہ کچھ اس طرح ہے کہ شہر کی بجلی فیل ہو جانے کے کارن اچانک چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ آنکھیں ناکارہ ہوگئیں اور ہاتھوں کو ہاتھ تک سجھائی نہیںدے رہے تھے۔ مگر کچھ دیر بعد لوگوں کو محسوس ہواکہ اندھیرا کم ہو رہا ہے اور انہیں کچھ کچھ دکھا ئی دے رہا ہے مگر حقیقت یہ تھی کہ اندھیرا کم نہیں ہو رہا تھا بلکہ لوگوں کی آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہوتی جا رہی تھیں۔غور کریں توسلام کے بیشتر افسانوں کا موضوع اورمظروف اندھیرے سے مانوس ہوتی وہی آنکھیں ہیں۔ ہر ظلم سہہ جانے کی بے بس مجبور اور لاچار آدمی کی سائیکی جوزندگی بھر گم نام حاشیہ بن کر جیتاہے اور ہر قسم کی سماجی ناانصافی اور سیاسی جبر کو بڑی خود اطمینانی کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے مر جاتاہے۔ اب چاہے وہ ’’انجام کار‘‘ کا مرکزی کردار ہو یا’’کام دھینو ‘‘ کا مادھو۔، ’’خصی‘‘ کا پرس رام ہو یا پھر ’’خوں بہا‘‘ کا اسکول ماسٹر۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اہم بات یہ ہے کہ سلام نے بے حسی ،مفاہمت پسندی اور خود اطمینان زندگی جینے والی اس معمولی، بے بس اور لاچار اکائی کے حوالے سے نہ صرف اپنے عہد کی حقیقتوں کو جاننے کی کوشش کی بلکہ اپنے تخلیقی اور فنی وجود کی شناخت بھی کی۔ایک زمانے میںسلام سے ان کے ہم عصرلکھنے والوں اور ناقدوں کو یہ شکایت تھی کہ ان کے کردار افسانے اختتام میں سرینڈرہو جاتے ہیں۔افسانے کے کرداروں کی مزاحمت اور مفاہمت کے حوالے سے ادبی اقدار کا تعین جتنا خطرناک ہے اتنا ہی گمراہ کن بھی۔ افسانے کی کامیابی و ناکامی کا انحصار فنکارکی اظہاری صورتوں میں مضمر ہے۔
اور یوں بھی ا فسانے میں کرداروں کی مفاہمت کا اظہار کیا انحرافی قوت کا پیش لفظ نہیں ہو سکتا؟
ابھی حال میں سلام بن رزاق نے جودو افسانے تحریر کئے ہیں ان میں ان کا سماجی و سیاسی سروکار بہت سیدھا صاف اور شفاف ہے۔’’آخری کنگورا ‘‘ اور ’’زندگی افسانہ نہیں۔۔۔‘‘دونوں افسانوں میں ایک داخلی مماثلت ہے۔’’آخری کنگورا ‘‘اگر بم بلاسٹ میں بے قصور پکڑے جانے والے مسلمانوں کی کہانی ہے تو ’’زندگی افسانہ نہیں۔۔۔۔‘‘مذہبی شدّت پسندی کے بیچ پسنے والی ایک مسلم نوعمر لڑکی کا افسانہ ہے۔ دونوں افسانوں میں سلام نے مسئلے کو اندر سے دیکھنے اور آدمی و سماج کو ایک نقطے پر پکڑنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔خاص طور پر ’’زندگی افسانہ نہیں۔۔۔۔‘‘ کے اختتام پر غائب راوی کا افسانے کی چوتھی دیوار کو توڑ کر براہِ راست قاری سے مخاطب ہو نا ironyکی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔
سلام بن رزاق کے نہایت قریبی ہم عصر افسانہ نگار انور خان ہیں۔ دونوں نے لگ بھگ ایک ساتھ ہی لکھنا شروع کیا افسانوی مجموعے بھی دونوں کے ایک دو سال کے فرق کے ساتھ منظر عام پر آئے۔ سلام کی بہ نسبت انور خان کا رحجان علامتی طرز کی کہانیوں کی طرف زیادہ رہا۔’’ راستے اور کھڑکیاں ‘‘،’’ فنکاری‘‘ اور’’یاد بسیرے‘‘کے مختلف افسانے ان انسانی اقدار کے کھونے اور کھوجنے کا اظہار ہے جو ہماری سماجی، سیاسی، تہذیبی ،ثقافتی اور ذہنی زندگی کی فریم سے نکل گئے ہیں۔سلیم شہزاد ی اصطلاحوں کا سہارا لے کر کہوں توmimeticاور diegtic بیانیہ کے دونوں طریقِ کار کا استعمال انور خان اپنے افسانوں میں نہایت کامیابی سے کرتے ہیں۔’’لمحوں کی موت‘‘، ’’شام رنگ ‘‘اور ۔’’بول بچن ‘‘میں اگرافسانے کاحاضر یا غائب راوی ماجرائی پرتوں کو مکالموں کی ڈرامائیت اور منظر کے ذریعے دکھاتا ہے تو’’شاندار موت کے لیے‘‘ ،’’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘‘ ، ’’برف باری‘‘ اور ’’اپنائیت ‘‘میں راوی واقعہ کا حصہ نہیں بنتا ،وہ محض واقعہ کی تفصیل کو اطلاعاتی انداز میں فراہم کر دیتا ہے۔انور خان کے افسانوں میں غالب رحجان diegtic طرزِ اظہار کا ہے اور یہی ان کے فنّی رویے کو مخصوص پہچان عطا کرتا ہے۔
انور خان کے بیشتر افسانے کی قرات کے دوران جدید مشینی دور کے غیر انسانی اور لاتعلقانہ رویے کا شدید احساس ہوتا ہے۔ ’’راستے اور کھڑکیاں ‘‘اور ’’فنکاری‘‘کے بیشتر افسانے جذبات سے عاری ایک ایسے اسلوب میں لکھے گئے ہیں جو اپنے ڈسکورس کے دوران سولات قائم کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سوالات زمیں اور آسمان کے بیچ رہنے والے ایک حسّاس انسان کے ہیں جو مختلف محاذ پر لڑ رہا ہے اور ہر محاذ پر اپنے سامنے اپنے آپ کو ہی پا رہا ہے۔ سولات پوچھنے کی tendencyنے انور خان کے افسانوی ڈسکورس کو اگر ایک طرف ثروت مند کیا ہے تو دوسری طرف قاری کو اس روحانی کرب سے متعارف کروادیا ہے جن سے گزر کریہ ڈسکورس قائم ہوا ہے۔ انور خان کی فنی معروضیت اصل میں ان کی گہری فنکارانہ وابستگی کے سبب ہے۔اس نے انہیں الفاظ کے کفایت شعارانہ استعمال کا سلیقہ بھی دیا۔انور خان کفایت ِلفظی کے توقائل ہیں لیکن یہ کفایتِ لفظی افسانوی تاثّر کو گہرا کرنے کا محض ذریعہ ہی نہیں بلکہ قاری کے ذہن کو متحرک کرنے کا یہ ایک حیلہ بھی ہے۔ غور سے دیکھیں تو ان کے افسانوں کے جملوں میں الفاظ کے بیچ کی خالی جگہوں میں کئی گہرے خیال اور نکتے چھپے ہوتے ہیں۔ انور خان کے بیشتر افسانوںمیں کرداراپنے ہاڑ مانس کے ساتھ حرکت نہیں کرتے بلکہ shadow play کی طرح ابھرتے اور ڈوبتے ہیں۔
انور خان کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو زندگی کی بڑی حقیقتوں کے انکشاف کا وسیلہ بنا دیتے ہیں۔’’برف باری‘‘ میں محض وقت گزاری کے لیے tic tac toe کا کھیل کھیلنا،یا ’’فنکاری ‘‘میں چائے کے داموں میں اضافے پر احتجاج کرنا،یا پھر ’’گیلری میں بیٹھی ہوئی ایک عورت‘‘ میں عورت کا یوں ہی اپنے سامنے پھیلے ہوئے منظر کا جائزہ لینا۔۔۔۔یہ سب بظاہر بہت ہی معمولی واقعات ہیں لیکن انور خان ان ہی معمولی اور روٹین واقعات سے ہماری زندگی کے گہرے حقایق کو منکشف کرتے ہیں۔اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ انور خان نہ صرف روزمرہ کے معمولی واقعات اور جزئیات سے کہانی بننے کے فن سے واقف ہیں بلکہ مجرد خیال کو کہانی میں بدل دینا بھی انہیں خوب آتا ہے۔’’برف باری‘‘، کتاب دار کا خواب‘‘ ، ’’اپنائیت‘‘اس کی جگمگاتی مثالیں ہیں۔لیکن بعض افسانوں کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ خیالات کو افسانے کے چوکھٹے میں پیش کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ ’’شاٹ‘‘،’’ہوا‘‘،’’گونج ‘‘جیسے افسانوں میں ان کی اس کمزوری کا احساس شدّت سے ہوتا ہے۔
انور خان اور سلام بن رزاق کے ہم سفر اور ہم رکاب افسانہ نگاروں میں انور قمر نہایت اہم ہیں۔ ان کے چار افسانوی مجموعے ’’چاندنی کے سُپرد‘‘ ، ’’ چوپال میں سنا ہوا قصّہ‘‘ کلر بلائنڈ‘‘ اور ’’جہاز پر کیا ہو ا؟‘‘شائع ہوچکے ہیں ،جو ان کے چالیس سالہ افسانوی سفر کی کُل پونجی اور تخلیقی سرگرمی سے ان کے والہانہ لگائو کا نتیجہ ہیں۔ خوش کن بات یہ ہے کہ ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ چالیس سالہ فکشن کے اس سفر میں انور قمر کے یہاں کئی طرح کے فکری و فنی پڑائو ملتے ہیں۔انورقمر ایک فکرسے مربوط افسانہ نگار نہیں ہیں۔زندگی کی جولانی اور ہیجان ،داخلی احساسات اور تجربات کا reflectionان کی تحریروں میں کسی نہ کسی صورت ابھرتا ہے اور یہ صورتیں ان کے افسانوں میں ایک دوسرے سے کس قدر مختلف، متضاد اور متنوّع ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوی رویے کو کسی ایک خاص برانڈ میں باندھا نہیں جا سکتا۔ان کی تخلیقی کائنات بیانیہ، علامتی، تمثیلی، اشارتی،فنٹیسی اور تجرباتی سبھی طرز کے افسانوں سے آباد ہے۔ کہیں وہ کامیاب ہیں ،کہیں ناکام اور کہیںبری طرح ناکام۔۔۔۔۔۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ موضوعی و اسلوبیاتی تنوع اور آزاد تخلیقی فضا کا جو احساس ہمیں انور قمر کے یہاں ملتا ہے ،ان کے دوسرے ہم عصروں کے یہاں کم کم ہے۔یہ تنوع ان کے یہاں ایک ایسے تخلیقی و ارتقائی سفر کی نشاندہی کرتا ہے جو افقی بھی ہے اور عمودی بھی۔ موضوعی اور اسلوبیاتی سطح کے ساتھ ساتھ ان کی فکری تبدیلیوں کا اشاریہ ان کے افسانوں سے حاصل ہوتاہے۔’’چاندنی کے سُپرد ‘‘کے افسانوں میں جو سرخ رنگ خوش آئند مستقبل کا استعارہ نظر آتا ہے وہی ’’کابلی والا کی واپسی ‘‘ میں خون کی سرخی میں تبدیل ہو گیا ہے۔
انور قمر کا تعلق افسانہ نگاروں کے اس قبیل سے ہے جو instinctکے بجائے فکر و شعور کی تمام جہات کو برروئے کار لاتے ہوئے افسانے کی تعمیر کرتے ہیں۔انور قمر نے جب بھی لکھا بہت سوچ سمجھ کر اور سنبھل کر لکھا۔ان کا فنی رویہ اپنے موضوع کے انتخاب ،واقعات کی تشکیل ،ان کی ترتیب اور ان کے درمیان ربط کی نوعیت میں منصوبہ بند تعمیر کا پابند ہوتا ہے۔ان کے یہاں سبب اور نتیجہ والی تعقلّی ترتیب سے انکار بھی اتفاقی اور غیر شعوری نہیں بلکہ بہت سوچ سمجھ کر تخلیقی مقاصد کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ انور قمر اپنے ہم عصرافسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ concious افسانہ نگار ہیں۔
بعض افسانوں میں انور قمر کا سماجی و سیاسی سروکار بہت واضح نظر آتاہے تو بعض میں قدرے دھندلا۔۔۔۔۔ ۔ برسوں پہلے افغانستان پر روسی حملے کے حوالے سے انہوں نے رابند ناتھ ٹیگور کی کہانی ’’کابلی والا‘‘ کو بنیاد بنا کر ایک نیا افسانہ’’کابلی والا کی واپسی‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ ابھی حال ہی میں گجرات میں مسلم کش فسادات کو موضوع بنا کر’’جہاز پر کیا ہوا ؟‘‘ جیساایک اہم افسانہ لکھا۔ دونوں افسانوں میں سیاسی جبر اور منافرت کی فضا کو جس طرح تخلیقی جہت دی ہے وہ انور قمر کے فکری و فنی شعور پر دال ہے۔ دونوں افسانے سیاسی افسانے کا ا لتباس پیدا کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں افسانے مخصوص تاریخٰی صورتحال میں گھرے عام آدمی کے مقدر اور اس کے وجود کی معنویت کی دریافت سے عبارت ہیں۔ اقتدار کی اندھی قوت کے سامنے ایک عام آدمی کے د رد اور خوف کو انور قمر نے یوں translateکیا ہے اسے کسی سیاسی تاریخ کے حصار میں باندھا نہیں جا سکتا۔
70ء کی دہائی ممبئی کے اردو فکشن کے لیے یوں بھی فالِ نیک ثابت ہوئی کہ سلام بن رزاق ،انور قمر اور انور خان ابھی اپنی فنی شناخت کے پہلے پائیدان پر ہی تھے کہ افسانہ نگاروں کی دوسری فصل ممبئی میں لہلہاتی ہوئی نظر آنے لگی۔ مقدر حمید،ساجد رشید، علی امام نقوی، مشتاق مومن نے بڑے جوش و خروش سے لکھنا شروع کیاکچھ عرصے بعد ہی م ناگ بھی ناگپور اٹھ کر ان لوگوں کے بیچ کنڈلی مار کر بیٹھ گئے اور ایسے بیٹھے کہ پھر ممبئی کے ہی ہو گئے۔ان لکھنے والوں نے اپنے افسانوں سے اردو فکشن کو وقار اور اعتبار بخشا۔ خاص طور پر ساجد رشید، علی امام نقوی اورم ناگ نے ۔۔۔۔
یہاں میں مشتاق مومن کا ذکر خاص طور پر کرنا چاہوں گا۔ سلام، انورخان اور انور قمر کے فو راً بعد ممبئی کے اردو افسانے کے سنیئر یوپر اچانک ابھرنے اور پھر چپ چاپ ڈوب جانے والے ایک فنکار کا نام مشتاق مومن ہے۔ ’’رت جگوں کا زوال‘‘ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جس میں ’’کریم لگا بسکٹ اور چونٹیاں‘‘ ،’’موز ‘‘اور’’رت جگوں کا زوال‘‘جیسے کئی صاف ستھرے اورنتھرے ہوئے افسانے ہیں جو اپنے قاری کو چونکائے بنا متاثر کرتے ہیں۔ لیکن ایک افسانہ اس کتاب میں ایسا بھی شامل ہے جس نے پڑھنے والے کومتاثر کئے بنا چونکایا اور جسے مشتاق مومن نے نہیں سریندرپرکاش نے ’’دنیا کا سب سے بڑا افسانہ نگار‘‘کے عنوان سے کتاب کے پیش لفظ کے طور پر تحریر کیا تھا۔ سریندرپرکاش کے اس left handed compliment نے لوگوں کو چونکایا توضرور مگر مشتاق مومن کے فن اور فنی رویے پر روشنی ڈالنے کے بجائے یہ فسانہ خود سریندر پرکاش کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو بے نقاب کرتا ہے۔
مشتاق مومن نے اسّی کی دہائی میں جو افسانے لکھے تھے ان میں کچھ اب بھی حافظے کے کسی گوشے میں محفوظ ہیں۔ جس طرح عبدل بسم اللہ نے اپنے ناول ’’جھینی جھینی بینی چدریا‘‘ میں بنارس کی مسلم بستی مدن پورہ کی inner life کو زندہ کر دیا ہے اسی طرح مشتاق مومن نے پاور لوم سٹی بھیونڈی کواپنے افسانوں میں دھڑکتے ہوئے حوالوں کا حصّہ بنا دیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ بیس برسوں سے افسانہ نگاری سے ان کا رشتہ ٹوٹ سا گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بررئوے کا ر لا تے ہوئے امتیاز و اختصاص کی منزلوں سے گزرتے ان کی صحت نے انہیں معذور کر دیا ہے اور اب تو افسانہ نگاری سے ان کے رشتے کی تجدید معدوم نظر آتی ہے۔
افسانوں کا انتخاب ہو یا تنقیدی مطالعے میں فنکاروں کانام اور ذکر ،بڑی حد تک یہ مرتبین اور ناقدین کی صواب دید کا پابندہوتا ہے۔لیکن جب جوگندر پال پنگوین کے لیے ’’عصری اردو کہانیاں‘‘ مرتب کرتے ہوئے غزال صیغم کے افسانے کو شامل کرتے ہیں اور انور خان کوبھول جاتے ہیں یا پھر قاضی افضال سیّد ممبئی کے افسانہ نگاروں پراپنے کلیدی خطبے میں مظہر سلیم کا ذکر بڑے اہتمام سے کرتے ہیں مگر ساجد رشید کا نام ان کے حافظے سے پھسل جاتا ہے ، تو اس کا جواب اور جواز سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے تعصب اور بد دیانتی آج بھی ہماری ادبی کلچر کا اٹوٹ حصّہ ہے۔انور خان اور ساجد رشید کے افسانوں پر سخت سے سخت تنقید کی جا سکتی ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ آپ نئے افسانے کے ذکر میں انہیں بھول جائیں۔
جہاں تک ساجد رشید کا تعلق ہے انہوں نے سلام بن رزاق،انور خان اور انور قمر کے بعد لکھنا شروع کیا،لیکن قصّہ گوئی کی سلیقہ مندی نے انہیں بہت جلدی اپنے سنیئر افسانہ نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ستّر کے بعد کے افسانہ نگاروں نے جس کہانی پن کی بازیافت کی تھی وو ساجد رشید کے افسانوں میں ایک تنائو کی شکل میں ابھرتی ہے اور تجسس کو جنم دیتی ہے۔ نکیل ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹتی اور ایک کشمکش۔۔۔۔۔۔۔ایک تصادم ٹیومر کی طرح ساجد کے افسانوں میں پہلی سطر سے اختتام تک زندہ رہتا ہے۔ جامد تصاویر کے بجائے متحرک مناظر اور مکالماتی بیانیہ نے ان کے افسانوں کو ڈرامے کی صنف سے قریب کردیا ہے۔ ساجد کے افسانوں کی قرات کے دوران قاری ناظر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور کردار اداکار میں۔۔۔۔۔۔اور یوں وہ افسانوی متن کو اسٹیج پر پرفارم ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔یہ ساجد کا فنی امتیاز ہے کہ وہ افسانے میں موجود اندورنی تصادم کو فوکس کرنے کے لیے مختلف tools استعمال کرتے ہیں۔چونکہ ساجدصرف افسانہ نگار نہیں بلکہ صحافی،سماجی ورکر،ڈرامہ نگار،اداکار اور کارٹونسٹ بھی ہیں اس لیے ان تمام فنون کے اظہاری وسائل کا بھرپور فائدہ افسانے کی تعمیر میں وہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ ساجد رشید کے افسانوی ڈسکورس میں ہم ڈرامہ نگار ،سماجی ورکر، صحافی ،کارٹونسٹ اور اداکار ساجد رشید کو افسانہ نگار ساجد رشید سے قریب آتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔اس قربت نے بیشتر جگہوں پر ان کے فکشن کے امتیازی عناصر کی شناخٹ قائم کی ہے اوربعض مقامات پر ان چیزوں نے ان کے افسانوی کرافٹ کوزبردست نقصان بھی پہنچایا ہے۔لیکن یہ قصّہ پھر کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موضوعی طور پر ساجد رشید کے افسانوں کو دوحصّوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ ایک سماجی و سیاسی سروکاروں کے افسانے دوسرے انسانی رشتوں کے افسانے۔ گو کہ یہ تقسیم واٹر ٹائیٹ کمپارٹمینٹل نہیںہے کیونکہ انسانی رشتوں کے افسانوں میں سماجی و سیاسی سیاق ابھرتے ہیں تو سیاسی اورسماجی موضوع کے افسانوں میں انسانی رشتے پنپتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ پہلے طرز کے افسانوں میں ساجد اگر آس پاس بکھری ہوئی سماجی و سیاسی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو دوسرے طرزکے افسانوں میں بجائے خود زندگی کو دریافت کرنے میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔لیکن جو بات ساجد کے افسانوں کو ایک امتیازی وصف عطا کرتی ہے وہ یہ کہ ان کا ہر افسانہ اپنے عصر اور سماج سے ایک جرح ہے ،ایک مکالمہ ہے۔
موضوع ،تکنیک ،مواد اور زبان کا ایک اچھا تال میل ساجد کے افسانوں میں ملتا ہے۔وہ بہتر جانتے ہیں کہ کون سا افسانہ کس ڈکشن میں لکھنا ہے۔بیانیہ پر مظبوط گرفت ،بے پناہ قوّت مشاہدہ اور انسانی نفسیات کے ان کے گہرے شعور کے سبب ہی اپنے کسی انٹرویو یا نجی گفتگو میں وارث علوی نے ساجد رشید سے کرداری افسانہ لکھنے کی توقع ظاہر کی تھی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے مختلف افسانوں میں کئی منفرد، پیچیدہ اور complexedکردارپیش کرنے کے باوجود ساجد رشید کے پاس کوئی کرداری افسانہ نہیں ہے۔’’مردہ دھوپ‘‘کی پھوپھی یا ’’ایک چھوٹا سا جہنم ‘‘کا ڈاکٹر نائیک یا پھر ’’شام کے پرندے ‘‘کے اختر حسین، یہ سبھی ساجد رشید کے ایسے کردار ہیں جو اپنی شناخت افسانوی فریم ورک سے باہر نہیں بلکہ اس کے اندر کرواتے ہیں۔ انسانی ہمدردی کی سرشاری میں ساجد کی مثالیت پسندی کا جواز تلاش کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ ساجد رشید اپنی بنیاد میں idealist ہیں اوراگر یہ idealism حیات و کائنات کے بارے میں ان کے موقف کی تشکیل کرتا ہے توان کی مثالیت پسندی کرداروں کے حقِ خود اختیاری کی محتسب بن کر بھی ابھرتی ہے۔ ساجد رشید سے کرداری افسانے کے مطالبے کے پیچھے وارث علوی کہیں اس دھندلی مثالیت پسندی کو فنی دائرے سے ٹاٹ باہر کرنے کے تو متمنی نہیں ہیں؟ میرے خیال میں ساجد رشید کو وارث علوی کی اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
کرداری افسانوں کی جس کمی کا احساس وارث علوی کو ساجد رشید کے افسانوں میں ہوتا ہے وہ شاید علی امام نقوی کے افسانوں میں انہیں نہ ہو۔ علی امام نقوی کے بیشتر افسانوں میںڈرائیونگ سیٹ پر پلاٹ کے بجائے کردار سوار ہوتا ہے، چنانچہ وہاں واقعات کردار کا تانا بانا بننے کے بجائے کردار خودواقعات کی ترتیب و تنظیم کرتے ہیں۔ ’’نئے مکان کی دیمک ‘‘،’’گھٹتے بڑھتے سائے‘‘،’’مباہلہ‘‘اور ’’موسم عذابوں کا ‘‘اپنی ان چار کتابوں میں شامل افسانوں سے علی امام نقوی اردو فکشن میں اپنی جگہ محفوظ کر چکے ہیں۔
علی امام نقوی نے اپنی افسانوی کائنات ہمارے معاشرے کے ان کرداروں سے سجائی ہے جن کی تلاش میں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ٹیکسی وٹرک ڈرائیور، شرابی، چرسی، آوارہ، بیکار، نکمے افراد،مزدور، وارڈ بوائز،جرائم پیشہ ،ریکروٹنگ ایجنٹ ،کلرک، ٹی وی مکینک ،کباڑیے ،رنڈیاں، بدچلن عورتیں۔۔۔۔۔۔ ان کی جیتی جاگتی تصویروں کو تخلیقی جہت دے کرعلی امام نے ایک فنی تجربے میں بدل دیا ہے۔ ان کرداروں کی معمولی سے معمولی اور اسفل سے اسفل جزئیات اور تفصیلات میں دلچسپی محض ان کی زندگی کا روزنامچہ ان ہی کی زبان اور محاورے میں لکھنا ہی علی امام کا منتہائے مقصود نہیں بلکہ ہوا کے دبائو اور پانی کے بہائو سے ادھر ادھر ڈولنے والے ان بے بس اور مجبور کرداروں کے ذریعے زندگی کی پہنایوں تک اترنے کی جہت ان کے افسانوں کے sub textمیں دیکھی جا سکتی ہے۔ علی امام نے اپنے بیانیہ میں ایک under currentضرور بچھایا ہے جن میں ان کے نقطہ نظر کے بنیادی نقوش جھلملاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ اصل زندگی علی امام کے یہاں، زندگی کی اصل تک رسائی حاصل کرنے کی ایک فنکارانہ کوشش ہے۔
تین لوک میں متھرا پیاری ۔۔۔اور علی امام کی متھرا ان کی ممبئی ہے۔ ممبئی کی زندگی علی امام نقوی کے افسانوں میں سانس لیتی اور خون میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں کا ماحول، یہاں کی زندگی کی رفتار،بھیڑ بھاڑ،اس شہر کی زندگیوں کے sound tracks اور اس کی خاموشیاں ،یہاں کے محاورے اور یہاں کی low languageکو علی امام نے اپنے ناول ’’تین بتی کے راما ‘‘ اور مختلف افسانوں میں جس طرح پکڑا ہے وہ اس شہر کو جئے بنا حاصل ہونا ممکن نہیں۔ ’’ڈونگر واڑی کے گدھ‘‘فسادات پر لکھا ان کا یہ افسانہ کافی مشہور ہوا۔اکثر لوگوں کا خیال ہے اختتام میں علی امام نے عصری پس منظر کو ایک دائمی تناظر عطا کر دیا ہے۔ممکن ہے یہ درست ہو لیکن افسانے کا یہ انجام تاثّر سے بھرپور ہونے کے باوجود پہلے سے طے شدہ معلوم ہوتا ہے۔البتہ اس افسانے میں پارسیوں کے dialectکا بہت ہی خلاّقانہ استعمال انہوں نے کیا ہے۔
تقسیم اگر ہندوستانی فکشن کا ایک اہم موڑ ہے تو تقسیم کے بعد بھی ہند و پاک کے تہذیبی ثقافتی رشتوںپردونوں ملک میں کئی اچھے اور کامیاب افسانے لکھے گئے۔ ان میں علی امام کا افسانہ’’ میراث‘‘کافی اہم ہے مگر افسوس کے ناقدوں نے اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی۔
ہمارے یہاں بیشتر لکھنے والوں کے لیے افسانہ تحریر کرنا سوئمبر میں حصّہ لینے جیسا ہے۔ جہاں سوئمبر کی شرائط کی تکمیل کے لیے افسانہ نگار جان کی بازی لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن ناگ کا فنی رویہ ان سے قدرے مختلف ہے۔ ناگ کے لیے افسانہ لکھنا سوئمبر میںحصّہ لینانہیں ہے۔ اسی لیے نہ تو وہ شیو کے دھنش کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی ارجن کی طرح اپنی نظر صرف مچھلی کی آنکھ پر رکھتے ہیں۔اس تخلیقی رویے نے ناگ کے افسانوں کو اس منطقی ارتقاء سے محروم رکھا جو عموماً افسانے میں وحدتِ تاثّر ابھارنے میں مدد دیتا ہے۔پلاٹ کے افسانے میں واقعات کی ایک منطقی ترتیب ہوتی ہے اور اس کا ایک خاص نقطہ آغاز اور نقطہ انجام ہوتا ہے۔ سارے سلسلے ایک مرکزی نقطے سے جڑے ہوتے ہیںلیکن ناگ افسانوں میں کوئی منطقی ترتیب نہیں ملتی اور اگر ہے بھی تو سطح پر نہیں تیرتی۔ چونکہ افسانہ واقعہ کو منطقی ترتیب سے بیان نہیں کرتا۔ اس لیے متن میں موجود کشمکش زبان کی تخلیق نہیں کرتی بلکہ افسانہ نگار اپنے اسلوب میں اپنی زبان ،اپنے نجی محاورے میں اپنی بات کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی نجی آھنگ اور ذاتی لہجے کی چھاپ نے ایک طرف ناگ کے افسانوں کو رسمی اسلوب اور موضوعات کے فرسودہ برتائو سے آزاد رکھا تو دوسری طرف الفاظ کو فقط سننے یا پڑھنے کی چیز نہیں بلکہ دیکھنے اور چھونے کی چیز بھی بنا دیا ہے۔
اگر علی امام نقوی کے افسانوں میں مختلف رنگ، نسل ،ڈئزائن کے کرداروں کا میلا ہے تو م ناگ اپنے افسانوں کی دنیا میں بالکل اکیلا ہے۔ اپنے اندر اور باہر اجنبی سچائیوں کو دیکھتا ،پرکھتا ایک اکیلا تنہا آدمی۔۔۔ان کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے مجھے اکثر آر کے لکشمن کے عام آدمی کا وہ کارٹون یاد آتا ہے جو دیکھتا سب کچھ ہے ،سنتا سب کچھ ہے لیکن بولتا کچھ بھی نہیں۔ ناگ کے افسانے بھی سننے اور دیکھنے والے افسانے ہیں،بولنے والے نہیں ۔۔۔۔کیونکہ ناگ کے افسانوں میں خاموشیاں بھی بولتی ہیں۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’’ڈاکوطے کریں گے‘‘ اور ’’غلط پتہ‘‘اب تک منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان کی اشاعت میں بھی ایک طویل عرصہ حائل ہے۔اور بقول انتظار حسین ہمارا زمانہ ادیب کو پروجیکٹ کر رہاہے اور ادب کو پیچھے دھکیل رہاہے۔اسی لیے جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے کہ اس دور میں دنیا داری کے جھمیلوں اور تعلقات عامّہ کے حیلوںسے الگ تھلگ رہنے اور رسائل میں افسانوں کی اشاعت سے بے نیازی برتنے نے ناگ کو بہت نقصان پہنچایا۔
ناگ نے اپنے افسانوں میں جو دنیا رچی ہے وہ ہمیں بتاتی ہے کہ جس دنیا میں ہم آپ جی رہے ہیں وہ اتنی سیدھی اور صاف نہیں ہے۔ شفاف واقعات کی باطنی پرت کے نیچے بھی مضحکہ خیز عوامل کار فرما ہیںاور بظاہر سیدھے دکھائی دینے والے رشتے بھی دھندلے ہو چکے ہیں۔ایک بے نیازاور بے پروا راوی کا پوز بنائے رکھنے میں ناگ اکثر کامیاب ہو تے ہیں۔
ناگ کی تخلیقیت کا بنیادی رمز ان کا اسلوب ہی ہے۔یہ اسلوب اور کچھ نہیں ناگ کی شخصیت کی ہی لسانیاتی تجسیم ہے۔ ہلکی پھلکی لیکن گہری ،دلچسپ اور دلاویز اور شاید اسی لیے منفرد بھی ۔۔۔۔۔۔۔ ناگ کے افسانے ہر پھر کر ان کی شخصیت کے آس پاس ہی طواف کرتے ہیں اور۔اسی لیے ان کے زیادہ تر افسانے آٹو بائیگرافیکل ہونے کا بھرم پیدا کرتے ہیں۔ناگ کے افسانوں تک رسائی ہم اس اس کی شخصیت کو tracepass کر کے ہی حاصل کر سکتے۔
جنس ناگ کا پسندیدہ موضوع ہے۔ موضوع بھی نہیں بلکہ ایک حوالہ ہے۔ جنس کے مجرد اور غیر مجرد تصورات کو جس طرح ناگ نے اپنے افسانوں میں animateکیا ہے اس نے ان کی تحریروں کو اپنے پیش روئوں اور ہم عصروں میں منفرد بنا دیا ہے۔ چونکہ جنس کو موضوع کے بجائے بطور حوالہ برتا گیا ہے اسی لیے افسانوں میں ناگ کا رویہ peeping tomجیسا نہیں ہے اور اسی لیے سیکس اور رشتوں پران کی متنازعہ تحریروں میں بھی ترغیب کا پہلو نہیں ہے۔ فنکارانہ اعتبار سے ناگ کے افسانے بلاشبہ اتنے بلند نہ ہوں لیکن اس میں ایک ایسے آدمی کا کرب ضرور موجود ہے جو رشتوںاور سسٹم کو اپنی کھال اور روح پر بھوگ رہا ہے۔ان کے دونوں افسانوی مجموعوں سے متعلق یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ ’’ڈاکو طے کریں گے‘‘کے بعد ’’غلط پتہ ‘‘تک پہنچتے پہنچتے البتہ ایسا لگتا ضرورہے ناگ کا تخلیقی رویہ اپنے محور سے کچھ ہٹ سا گیا ہے ’’غلط پتہ‘‘ میں نہ تو وہ تازگی ہے اور نہ ہی وہ brandingجو ناگ کی پہچان ہے۔ ’’غلط پتہ‘‘ پر پہنچنے کا جو احساس قاری کو ہوتا ہے اگر وہ افسانہ نگارکوبھی ہوجائے تو شاید وہ اپنی کھوئی ہوئی زمین پا لے۔
مقدر حمیدایک سنئیر افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے لگ بھگ سلام بن رزاق ،انور قمر اور انور خان کے ساتھ ہی لکھنا شروع کیا تھا۔لیکن ایک زمانے تک ادبی رسائل سے ایک ’’محفوظ دوری‘‘بنائے رکھنے کے سبب ناقدین اور قارئین نے بھی انہیں وہ توجہ نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے۔ چالیس سال پر محیط اپنے افسانوی سفرمیں مقدر حمید کے تین افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔ ’’زر بیل‘‘ ،’’ابر کاری‘‘ اور ’’جل ترنگ‘‘یہ عنوانات ہی افسانوں کے موڈ اور ان کے فنی رویوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
مقدرحمید کے بیشتر افسانے دھیمی لے کے افسانے ہیں اور معلوم پڑتا ہے کمر کے نیچے تکیہ رکھ کرconciveکئے گئے اور آرام کرسی پر لیٹ کر تحریر کئے گئے ہیں۔قاری کے ذہن پر ہتھوڑا مار کر اس کے پورے وجود کوجھنجھنا دینے والے افسانوں کے بجائے ان کے افسانے غلام علی کی گائیکی کی طرح اپنی محدوداور مخصوص نوٹ سے اوپر نہیں اٹھتے۔ اپنے آس پاس کی زندگی پر ان کی نظر مرکوز ہوتی ہیںاور اپنے پڑھنے والوں کو بھی اس میںشریک کرنا چاہتے ہیں۔اور اپنے محدود کینواس کے باوجودان کے یہ افسانے پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ زندگی کی تلخیاں ،مقدر حمید کے افسانوںمیں ایک خاص قسم کا تاثّر دینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ان کی زبان واقعات کو دلچسپ اور شگفتہ انداز میں بیان کردیتی ہے۔۔۔۔۔۔ ان کے یہاں موضوع کے بطن سے واقعات جنم نہیں لیتے بلکہ واقعات کی پرتوں میںوہ موضوع تلاشتے ہیں۔
مقدر حمید کے یہاں خوبصورت الفاظ کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔مگر یہ خوبصورت الفاظ ان کی قصّہ گوئی کو مدد بہم پہنچانے کے بجائے سلمہ ستاروں کی طرح افسانوی فریم ورک میں بے بس ٹنکے نظر آتے ہیں۔اورظاہر ہے جب لفظ افسانوی فریم ورک میں اپنا کام انجام دینے سے انکار کردیں تو افسانہ نگار کی خود تزئینی کا بہانہ بن جاتے ہیں۔
’’ابر کاری‘‘ کے پیش لفظ میں انہوں نے لکھا تھا کہ اپنی بات کہنے کے لیے کہانی کی تصویر کو جو بھی فریم راس آتی ہے اسے اپنانے میں انہیں احتراز نہیں ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ مقدر حمید نے کہانی کی تصویر کے مطالبے کے موافق ہی فریم کا انتخاب کیا ہے۔ یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے سارے افسانے ایک ہی فریم میں جڑے نظر آتے ہیں۔ ہاں فریم کو نقش و نگاری کے ذریعے انہیں الگ کرنے کی کوشش افسانہ نگار نے ضرور کی ہے۔
مقدر حمید کی طرح جیتندر بلّونے بھی انور قمر اور انور خان کے ساتھ ہی لکھنا شروع کیا تھابلکہ بلّو تو غالباًان سے بھی پہلے سے لکھ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہ لندن میں مقیم ہیں اسی لیے ان کے افسانوں کا پس منظر دیارِفرنگ میں بسے ہندوستانیوںکے تہذیبی اور جذباتی مسائل ہیں۔اپنی زندگی کے آزمائشی دور کا ایک حصّٓہ انہوں نے ممبئی میں ہی گزارا تھا۔’’ پہچان کی نوک پر‘‘کے افسانے ان کے اسی دورکی یادگار ہیں۔اس میں کل چودہ افسانے ہیں اوربیشترافسانوںکو ان کی زبان کے استعاراتی برتائو نے حقیقت نگارانہ اکہرے پن سے بچا لیا ہے۔ انسانی رشتوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی کہانیوں کوبِلو نے فنکارانہ صداقت کے ساتھ پیش کیا ہے اور سماجی حقیقتوں،معاشرتی ناہمواریوں اور نفسی الجھنوںکو بیانیے کی نت نئی صورتوں میں ڈھالا ہے۔ ابھی حال میں ہی ان کے افسانوں کا نیا مجموعہ اور بقول ان کے آخری مجموعہ ’’چکر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اپنی اس کتاب کے مقدمے میں اردو ادب میں بڑھتی ہوئی اسلام پسندی سے متعلق انہوں نے جو سوال اٹھائے ہیں ان پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔گو کہ ان کا لہجہ کچھ کڑا اور کڑوا ہو گیا ہے اور جذبات میں جتیندر بلّو یہ بھول گئے ہیں کہ کمبل سے کمبل کی گانٹھ نہیں بندھتی۔
سلام بن رزاق سے لے کر م ناگ تک یہ ممبئی کے وہ لکھنے والے ہیں جنہیںفضیل جعفری نے Bombay group of short story writers کے نام سے یاد کیا ہے۔ ان مین اسٹریم رائٹرس کے علاوہ ایسے لکھنے والے بھی یہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کے لیے افسانہ نگاری جز وقتی کام رہا یا پھر جنہوں نے افسانہ نگاری کو سنڈے پینٹنگ کی طرح آزمایا۔گو کہ ان سے چار چھ ڈھنگ کے افسانے بھی سرزد ہوگئے مگر وہ ان کی شناخت کا حوالہ نہیں بن پائے۔ساگر سرحدی ،محمود ایوبی، بنتِ مسعود(جو بعد میں فیروزہ خان کے نام سے لکھنے لگیں)الیاس شوقی، اقبال نیازی، اسلم خان، معین الدین جینابڑے اور مقصود اظہر کے نام اس فہرست میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے توبڑے زور و شور سے لکھنا شروع کیا تھا لیکن بعد میں کچھ نے اپنی ذاتی وجوہات کی بنا پرکنارہ کشی اختیار کر لی۔ کچھ کے منکے ڈھیلے پڑ گئے ، کچھ نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے دوسرے میدانوں کا انتخاب کیا اورکچھ نے لکھنا جاری رکھا مگر سنڈے پینٹنگ کی طرز پر۔۔۔۔۔۔۔۔
بنتِ مسعود ایک بہت اچھی لکھنے والی ہیں۔افسانے بننے کے عناصر ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں مگر غالباً ازدواجی زندگی کی مصروفیات نے انہیں افسانہ نگاری ترک کرنے پر مجبور کیا۔ اقبال نیازی نے ’’سرکس‘‘ اور ’’اسپیڈ بریکر ‘‘ جیسی خوبصورت کہانیاں لکھیں تو ان سے بھی کچھ توقع بندھی مگر بہت جلد ڈراموں نے انہیں highjackکر لیا اور ان دنوں بڑے زور شور سے تھیٹر کے لیے سرگرداں ہیں۔البتہ اسلم خان نے ابھی تک افسانہ نگاری ترک کرنے کا اعلان نہیں کیا اوراپنے نئے افسانے کے ساتھ کبھی بھی LOCپار کر سکتے ہیں۔ ابتداء میں انہوں نے ’’ٹیلی پرنٹر‘‘ ،’’کنفیشن‘‘، ’’کاروائی‘‘ اور’’ ایک ٹیلی فلم کا خاکہ ‘‘ جیسے چند ایک اچھے افسانے ضرور تحریر کئے تھے مگر پھر event managementجیسی کسی چیز میں مصروف ہوگئے۔ ان کے تحریر کردہ افسانے بھی کسی event کاخاکہ ہی معلوم پڑتے ہیں۔ ’’ ایک ٹیلی فلم کا خاکہ ‘‘اصل میں ایک فلمی کہانی کی one line script ہے مگر اسے افسانہ سمجھ کر پڑھا بھی جا سکتا ہے اور انگیز بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ فنی سرچشموں سے نکلنے والے اس کے زریں دھارے ایک بڑی تصویر کا خاکہ پیش کرتے ہیں۔مقصود اظہر ان لوگوں سے نسبتاً جونئیر لکھنے والے ہیں ’’کشتن‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک افسانوی مجموعہ منظر ِعام پر آ چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ افسانے پڑھنے والے کو متوجہ کرتے اور ان کا نام لوگوں کے حافظے پر چڑھتا انہوں نے بھی افسانہ نگاری ترک کرد ی۔ گزشتہ کئی برسوں سے ان کا کوئی افسانہ پڑھنے کو نہیں ملا۔ یہی حال الیاس شوقی کا ہے۔ افسانے سے منہ موڑ کر انہوں نے تنقید کا دامن تھاما ہے اور’’فکشن پر مکالمہ ‘‘ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
دو اور ایسے فنکار ہمارے درمیان موجود ہیں جنہوں نے افسانے تو لکھے ہیںلیکن بنیادی طور پر ناول نگار ہیں۔ رحمٰن عباس اور صادقہ نواب سحر۔۔۔۔۔۔ شاید دونوں کے لیے افسانہ نگار ی مین کورس کے بعد سرو ہونے والے desertکی طرح ہے۔ دونوں نے ناول لکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ فکشن کے آسمان پر اڑنے کے لیے ان کے پنکھ مضبوط ہیں۔رحمٰن عباس کے اب تک دو ناول’’نخلستان کی تلاش میں‘‘ اور ’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘منظر عام پر آ چکے ہیں۔ان کا پہلا ناول جس قدر کمزور اور لچر تھا دوسرا اتنا ہی thought provokingاور توانا۔زبان کے پُر تکلف اور شاعرانہ استعمال کے باوجود رحمٰن نے اپنے اس نئے ناول میں کوکن کے گائوں بدلتے لینڈاسکیپ کواپنی نظر سے دیکھنے ،اپنے ذہن سے سوچنے اور اپنے محاورے میں اسے دریافت کرنے کی جرائت مندانہ کوشش کی ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخراس ناول پر اچھے مضامین اور تجزیے تو جانے دیجئے ڈھنگ کے تبصرے بھی کیوں نہیں آئے ؟
کیا اس کی وجہ اس کا موضوع ہے؟
۔رحمٰن عباس نے کچھ افسانے بھی لکھے ہیں مگر وہ تعداد میں اتنے کم اور فکری وحدت میں اس قدرمعمولیہیں کہ ان کے فنی رویے کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں۔لگ بھگ یہی بات ہم صادقہ نواب سحر کے افسانوں کے تعلق سے کہہ سکتے ہیں۔ البتہ’’کہانی کوئی سنائو متاشا‘‘ ناول لکھ کر بحیثیت فکشن نگارصادقہ نواب سحر نے اپنی شناخت درج کر لی ہے۔ناول کے کرافٹ اور متن کے ایک خوشگوار تال میل نے ان کے ناول کو دلچسپ اور readableبنا دیا ہے۔ تازہ ہوا لانے والی کوئی کھڑکی اچانک کھل جانے کا احساس اس ناول سے ہوتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اسے لوگوں نے respondبھی کیا۔اس کی وجہ ظاہر ہے ناول میںپیش کی گئی نسائی حسیت اور سوز و گداز سے بھرے احساسات اوراپنے آس پاس بکھری زندگی پر ناول نگار کی گہری ،شفاف اورحساّس نگاہیں ہیں۔ناول کے اجزائے ترکیبی پر گہری نظر کے علاوہ صادقہ نواب کی پی آر شپ نے بھی اس ناول کو پروجیکٹ کرنے میں اہم بھومیکا نبھائی ہے۔ جہاں تک افسانہ نگاری کا تعلق ہے وہ رحمٰن عباس اور صادقہ نواب سحر کا اصل میدان نہیں لیکن پھر بھی ان سے اچھے اور یادگار افسانوں کی امید کی جا سکتی ہے۔ان بھولے بسرے لکھنے والوں کے ریوڑ میں مجھے بھی آپ کالی بھیڑ کے طور پر شامل کر سکتے ہیںکیونکہ میں نے جو دو ڈھائی افسانے تحریر کئے وہ اتنے بچکانہ ، ناپختہ اور trashتھے کہ اب ان کا ذکر کرنا بھی بے کار ہے۔
سنئیر لکھنے والوں میں ساگر سرحدی، محافظ حیدر اور محمود ایوبی نے منہ کا مزہ بدلنے کی خاطر کئی اچھے افسانے لکھے گو کہ ان کی اصل پہچان افسانہ نگار کی نہیں ہے۔ ساگر سرحدی ایک فلم کاراور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ واقف ہوں گے کہ انہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں۔ان کے افسانوں کی ایک کتاب’’آوازوں کا میوزیم‘‘ اردو میں اور ’’جیو جناور‘‘ ہندی میں شائع ہو چکی ہے۔ساگر سرحدی کی ذہانت، بذلہ سنجی اور تخلیقیت کا جو جلوہ ہمیں ان کے ڈراموں اور مکالموںمیں ملتا ہے افسانوں میں diluteہو گیا ہے۔یہی نہیں موضوعات کو جو تنوع ان کے ڈراموں میں ہے افسانے میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔بیشتر افسانے man-woman relationshipکی تفتیش پر قائم ہیں۔ اس رشتے کو دیکھنے والی آنکھیں ایک مرد کی ہیں اور ناک پر ٹکی ہوئی عینک کے lensبھی خالص مردانہ ہیں۔ عورتوں کے مختلف روپ ساگرکے افسانوں میںنظر آتے ہیں مگر وہ مرد کی ہم سفر یا دوست کم اس کی sleeping partnerزیادہ ہے۔ عورتوں کی نفسیات،ان کے خواب اور خوف پر ساگر کی نظر گہری ہے اور پینی بھی۔محبت میں سرشار عورت ہو یا خود فریبی میں گرفتار،نوعمر لڑکی ہو یا بیوہ عورت، ماضی سے خوف زدہ ہو یا مستقبل سے پرامید ،ساگر سرحدی کے افسانوں میں عورتیں اپنے ہاڑ مانس اور سوچ کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن مختلف افسانوں کے مرد کرداروں کی گردن پر چہرہ ایک ہی ہے۔یہ کوئی اور نہیں ساگر سرحدی کا ہمزاد ہے۔ شاید اسی لیے ساگر کے ان افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیںڈائری یا یاداشتوںکا گمان سا ہوتا ہے۔ پرسنل ٹچ ان افسانوں کی طاقت ہے تو کمزوری بھی۔ ساگر ہر لفظ، جذبے اور احساس کے پیچھے سے جھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ افسانے ساگر سرحدی کی شخصیت سے اپنے آپ کو بچا پاتے تو شاید اور زیادہ کامیاب ہوتے۔
مکالمہ نگاری ساگر سرحدی کا fortay ہے اور اس میں ان نبض دھڑکتی ہے۔ مکالمہ نگاری ساگر کے افسانوں میں کبھی کردار نگاری کے فرائض انجام دیتی ہے تو کبھی منظر نگاری کی۔
ساگر سرحدی کی طرح محافظ حیدر کا تعلق بھی فلم اور ٹی وی کے میڈیم سے رہا ،جس کی وجہ سے افسانہ لکھنے کے لیے وہ زیادہ وقت نہیں نکال سکے۔ حالانکہ افسانہ بُننے کا آرٹ انہیں بھی خوب آتا ہے،جس کا بین ثبوت ’’کاغذ کی دیوار‘‘ میں شامل ان کے افسانے ہیں۔ ان افسانوں کی سب سے بڑی خوبی ان کی readablity اور originalityہے۔افسانے کی روایت سے الگ ہوئے بنا محافظ حیدر کے ان افسانوں کی اپنی ایک originalityہے۔ تکنیک کے اعتبار سے محافظ حیدر کے یہ افسانے روایت کے تسلسل کا ایک جز ہی ہی معلوم ہوتے ہیںلیکن ان میں معنویت کے لحاظ سے جو تنوع ہوتا ہے وہی ان کے تخلیقی جوہر کا بنیادی نشان ہے۔ فارم ،زبان اور کرافٹ کی سطح پر ان میں کوئی تجربہ نہیں اور نہ ہی موضوع چونکائو ہیں۔ لیکن آرٹ اور کرافٹ کی سطح پریہ افسانے اتنے سدھے ہوئے ہیں کہ یہی سہجتا ان کی USPبن گئی ہے۔ محافظ حیدر کے افسانوں کاقاری ہونے کی حیثیت سے ایک احساس مجھے ہمیشہ سے رہا اپنی تخلیقی انفرادیت، گہری نظر،فنی ہنر مندی اور زندگی کے متنوع تجربات و مشاہدات کا جس قدر فائدہ افسانہ نگار کو اٹھانا چاہئے تھا کسی وجہ سے محروم رہا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے کھاتے میں ’’روزنامچے کا ایک ورق‘‘،’’سالگرہ‘‘،’’ہوائی قلعہ‘‘ اور آئیڈنٹیٹی کارڈ‘‘ جیسے خوبصورت افسانے ہیں، جنہیں لکھنے کا خواب کوئی بھی افسانہ نگاردیکھنا پسند کرے گا۔
ساگر سرحدی اور محافظ حیدرکے ساتھ ایک اور نام محمود ایوبی کاہے۔ محمود ایوبی بنیادی طور پر صحافی اور مارکسٹ نظریہ کے حامی تھے۔اکّا دُکّا افسانے تو وہ ابتداء ہی سے لکھ رہے تھے لیکن باقاعدہ افسانہ نگاری انہوں نے انہوں نے ریٹائرمینٹ لائف کے دوران شروع کی۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’دوسری مخلوق‘‘ اور’’پری کتھا‘‘منظر عام پر آچکے ہیں۔
محمود ایوبی کے افسانوں پر instantردّعمل کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حقیقت نگاری ہی ان کے افسانوں کا مرکز اور محور ہے۔سیدھے سادے لوگوں کی باتوں کوبہت سادے طریقے سے بیان کردیناہی ان کا ادبی موقف رہا ہے۔ چونکہ صحافت سے محمود ایوبی کا تعلق بہت گہرا تھاچنانچہ اس کا مثبت اور منفی اثر ان کے افسانوں میں نظر آنافطری ہے۔ صحافت کی وجہ سے روز مرہ کے واقعات جنہیں ہم عموماً معمولات کا درجہ دے دیتے ہیں ایوبی صاحب نے انہیں افسانے کے فارم میں ڈھال کر امکانات کی نئی سطح عطا کی۔ لیکن افسانہ نگاری کا فن جس تحمل کامطالبہ کرتا ہے اور افسانے کی ماجرائی پرتیں جس فطری ارتقاء کے ساتھ unfoldہونے کی مانگ کرتی ہیں وہ صحافی محمودایوبی میں کم کم نظر آتی ہے۔ اور لگتا ہے اخبار کی آخری کاپی کی طرح افسانے کو بھی ایک طے شدہ ٹائم میں بھیجنا ضروری ہو۔ اگر یہ افسانے افسانہ نگار کی دوسری نظر اور finishing touches پا لیتے تو شاید ان کی روپ ریکھا اور سنور جاتی۔ کچھ افسانے غیر ضروری طوالت کا شکار ہو گئے ہیں اورانہیں نہ صرف ایڈیٹنگ کی سخت ضرورت بلکہ کئی افسانوں کو سخت ایڈیٹنگ کی ضرورت ہے۔
نوّے کی دہائی میں ممبئی کے جن افسانہ نگاروں نے بڑے زور و شور سے لکھنا شروع کیا تھا اور پڑھنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی ان میں معین الدین جینابڑے کا نام کافی اہم ہے۔ سن2000ء کے آس پاس ان کے افسانوں کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’تعبیر‘‘ کے نام سے جب منظر عام پر آیاتو لوگوں نے ایک اہم افسانہ نگار کی آمد کی آہٹ اس میں محسوس کی لیکن پتہ نہیں اپنے کس فکری،نظریاتی اور جذباتی اسباب کے تحت ان کا دل افسانہ نگاری کی طرف سے ہٹ گیا۔ کیونکہ ادھر ان کے نئے افسانے پڑھنے کو کم کم ہی ملے۔
’’تعبیر‘‘کے افسانوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ معین الدین سوچ سوچ کر لکھنے والے افسانہ نگار ہیں اور جو لکھتے ہیں فنی شعور کی بھٹّی میں تپ کر آنے کے بعد ہی لکھتے ہیں۔ اس کتاب میں ’’تعبیر‘‘ ،’’گیت گھاٹ ‘‘اور ’’کہانی‘‘جیسے خوبصورت افسانے ہیں۔معین الدین کا فنی رویّہ واقعات تانے بانے بننے کے بہانے اپنے خیالات کی صورت گیری کرتا ہے جس میں ایک لُپی پتی اور پھونک پھونک کرقدم رکھنے والی محتاط شخصیت سے ہم روبرو ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں اپنے آپ کو انڈیلنے کے شوق نے افسانے کے ندیدہ تخلیقی امکانات کو منکشف ہونے نہیں دیا اور اسے معین الدین جینا بڑے نے اپنی شخصیت کا ضمیمہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ’’رنگ ماسٹر‘‘ اس کی عبرتناک مثال ہے۔
جس طرح مقدر حمید زبان کو تصویر کے پُر کشش چوکھٹے کی طرح استعمال کرتے ہیں معین الدین اپنے خیالات کو افسانے میں بھرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی غائب راوی کے ذریعے تو کبھی کسی کردار کا مکھوٹا پہن کر ۔۔۔۔۔غرضکہ افسانے کی کوئی دیوار ان کے یہاں خالی نہیں۔ قصّہ گوئی میں جب اپنی ادبی ،ثقافتی اور تہذیبی شخصیت کو ظاہر کرنے کا لپکا افسانہ نگار میں پیدا ہو جائے تو سب سے پہلے جو ڈھیر ہوتا ہے اس کا نام افسانہ ہے۔
بنتِ مسعود ،ساگر سرحدی، محافظ حیدر، اقبال نیازی، محمود ایوبی ،معین الدین جینا بڑے یہ ممبئی کے وہ لکھنے والے جن کے فنکارانہ اظہار کا اصل میدان اور ان کی شناخت کا اصل وسیلہ افسانہ نگاری نہیں بلکہ کچھ اور تھا۔اور اس میں شک نہیں کہ اگر اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کو وہ افسانوں میںمرتکیز کرتے تو شاید ممبئی کااردو افسانہ اور بھی صاحبِ ثروت کہلاتا۔بہرکیف ان جُز وقتی افسانہ نگاروں اور اتواری مصوروں سے قطع نظر ممبئی میں ایسے لکھنے والوں کی تعدادبہت زیادہ نہیں تواتنی کم بھی نہیں، جن کی شناخت کا بنیادی حوالہ افسانہ اور افسانہ نگاری ہے۔ نئی صدی کے قرب و جوار میں تازہ دم لکھنے والوں میں مظہر سلیم،ایم مبین، اشتیاق سعید،عبدالعزیز خان کے نام اہم ہیں۔
کہا جاتا ہے ٹڈیوں کا آنا کال کی نشانی ہے اور ممبئی کے اردو افسانے پر گزشتہ دیڑھ دو دہائیوں سے ٹڈیوں کے دل منڈلا رہے ہیں۔قرۃالعین حیدر نے اردو افسانے پر مسلط جس میڈیوکریسی کااظہار برسوں پہلے کیا تھا اس کا نہایت ہولناک سایہ ممبئی کے ان عصری افسانہ نگاروں پردیکھا جا سکتا ہے۔اس وقت سریندرپرکاش کا ایک فقرہ یاد آتا ہے جسے اکثروہ اپنے بعد میں آنے والی نسل کے افسانہ نگاروں کو مخاطب کرتے ہوئے نہایت استہزایہ انداز میں کہا کرتے تھے۔’’سچ ہے اردو افسانے پر برا وقت آن پڑا ہے۔‘‘
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ستّر کے بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں کی نمائندگی سلام بن رزاق کر رہے تھے تو نوّے تک آتے آتے نمائندگی کی یہ پگڑی وقت نے مظہر سلیم کے سر باندھ دی۔ مظہر سلیم 90ء کے آس پاس ممبئی کے ادبی منظر نامے میں ابھرنے والے ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جوممبئی میں کم لیکن مہاراشٹر کے دیگر اردو حلقوں میں خاصے مقبول ہیں۔’’جہاد‘‘،’’اپنے حصّے کی دھوپ‘‘کے علاوہ ان کے افسانوں کاایک انتخاب ’’نیا منظر نامہ‘‘(مرتب:ابراہیم اشک) بھی شائع ہوا ہے۔ان کے افسانوں کے ذخیرے میں علامتی، تمثیلی اور بیانیہ سبھی طرز کے افسانے دستیاب ہیں۔ایک محدود اور تنگ دائرے میں گردش کرنے والے ان افسانوں میں کامیاب اور ناکام افسانے شامل ہیں۔لیکن افسانوں کا کامیاب یا ناکام ہونا مظہر کا مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ اپنے اس محدود دائرے میں مظہر اور مظہر کے یہ افسانے بہت شاداں ہیں۔۔۔اپنے آپ میں مست ۔۔۔۔۔اسی لیے دائرے سے باہر چھلانگ لگانے کی یا اس کا حصار توڑنے کی کوئی جہت ان میں نظر نہیں آتی۔ یہ خود اطمینانی ہی مظہر سلیم کے فنّی رویے کی تشکیل و شناخت کرتی ہے۔ افسانہ ان کے پاس جس فارم میں ،جس زبان میں اور جس تکنیک میں آتا ہے مظہر کان سے پینسل اتار کر اسے لکھ ڈالتے ہیں۔مظہر سلیم کا فنّی رویہ انہیں سکینڈ ٹھاٹ دینا یا اسے re-writeکرنے کا تکلف سہارتا نہیں ہے۔اس تن آسانی ،یا خوش گمانی یا عجلت پسندی نے ان کے بہت سے افسانوں کی مٹی خراب کی ہے اور تیز دھماکے دار بارود کو سلے ہوئے پٹاخوں میں تبدیل کر دیا ہے۔’’نیا مظر نامہ‘‘اور ’’اپنے حصّہ کی دھوپ‘‘کو ہم مظہر کے نمائندہ افسانے کہہ سکتے ہیں۔
ممبئی میں نوّے کے بعد جو افسانہ نگار ابھرے ایم۔ مبین اس نسل کے صفِ اول کے افسانہ نگاروں میں شامل ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نسل کی دوسری صف تیار ہی نہیں ہو سکی۔ ایم مبین کے کچھ افسانے ادھر ادھر رسائل میں پڑھے تھے لیکن ان میں کوئی افسانہ بھی حافظہ میں محفوظ نہیں ہے۔ان کے اب تک تین افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ’’ٹوٹی چھت کا مکان‘‘اور ’’نئی صدی کاعذاب ‘‘اردو میں اور’’اذان ‘‘ ہندی میں ۔۔۔۔۔میرے پاس ان کی کوئی کتاب نہیں تھی لہذا ویب سائٹ سے ان کے اٹھائس افسانے پڑھے جو انہوں نے up loadکئے ہیں۔یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی کہ اردو کے افسانہ نگار بھی اب وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ایم مبین کے افسانوں کو پڑھتے ہی خوشی کا یہ احساس کہیں تحلیل ہو گیا۔ان کے بیشتر افسانے پرانی لیک پر چلنے والے افسانے ہیں اور انہیں پڑھتے ہوئے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کب گابرئیل گارسیا مارکیز کی طلسمی حقیقت نگاری کے دورسے نکل کرماضی کے سہیل عظیم آبادی کی حقیقت نگاری کے دور میں پہنچ جاتے ہیں۔۔۔۔جن پڑھنے والوں کو باریکیوں کی تلاش ہوتی ہے بلاشبہ انہیں ایم مبین کے افسانوں سے مایوسی ہی ہوگی۔ یہ افسانے قاری کی بصیرت اور بصارت کا امتحان لیے بنا ہی اپنی حقیقت منکشف کر دیتے ہیں اور یوں پڑھنے والے کوفن کے اسرار و رموز کی تفہیم کے لیے جدوجہد نہیں کرنی پڑتی۔ ان افسانوں کی کوئی خوبی ہے تو بیانیہ کی روانی اور اسلوب کی سادگی ۔۔۔۔۔۔لیکن یہ سادگی سادہ لوحی کی کوکھ سے برآمد ہوئی ہے لہذا مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ ان اٹھائس افسانوںمیں ایک افسانہ بھی ایسا نہیں جو ذہن کے تاروں کو جھنجھوڑ دے یا جسے پڑھ کر قاری اندر سے جگمگا اٹھے۔ جو چیز سب سے زیادہ کھلتی ہے وہ ان کی سطحیت ، اکہریت اورفکری افلاسیت ۔۔۔۔۔۔اگر آپ مجھے ایم مبین کے دو نمائندہ افسانے منتخب کرنے کے لیے کہیں گے تو میں ’’سمینٹ میں دفن آدمی ‘‘اور ’’نئی صدی کا عذاب‘‘ کا نام لوں گا۔
اردو فکشن کے قاری کے لیے عبدالعزیز خان کا نام نامانوس نہیں ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے وہ تھوک کے بھائو سے افسانے لکھ کر ممبئی عصری اردو افسانے سے اپنا بھر پور تعارف کرا رہے ہیں۔ان دس برسوں میں انہوں نے اردو فکشن میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں اس کے لیے اگر لمکا گینئس بُک میں ان کا نام درج ہو جائے تو ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ ’’ باتوں سے بنی کہانیاں‘‘ کے تحت ایک ہزار کے قریب مکالماتی افسانے لکھنے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔یہی نہیں’’بریکنگ نیوز‘‘ کے عنوان سے صرف پندرہ صفحات پر ناول لکھنے کا ریکارڈ توڑ کمال بھی جس شخص نے انجام دیا ہے اس کا نام عندالعزیز خان ہے۔پچھلے دنوں ان کی ’’ایک سطری افسانوں‘‘ کی کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہے۔پھول کی جگہ پنکھڑی جمع کرنے کے شوق نے ہی عزیز خان سے یہ آٹھ سو بیانوّے یک سطری افسانے لکھوائے ہیں۔حوصلہ اگر ساتھ رہا تو بعید از قیاس نہیں کہ وہ ’’یک لفظی‘‘ افسانے لکھنے کی بدعت شروع کردیں۔ان کے پیش رواور ہم عصر لکھنے والوں کے سینوں میں اب جبکہ سانسیں نہیں سما رہی ہیں اور ان کی تحریروں سے ہانپنے کی آواز صاف سنائی دینے لگی ہے ، عبدالعزیز خان بفضلِ تعالیٰ مسلسل لکھے جا رہے ہیں۔ان کا قلم سرپٹ دوڑ رہاہے۔ پانچ ناولوں کے ایک مجموعے کے علاوہ ان کے کئی افسانوی مجموعے ’’ایک اور بجوکا‘‘،’’مونالیزا کی مسکراہٹ‘‘ ،’’فساد،کرفیو اور کرفیو کے بعد‘‘ ،’’اور بجوکا ننگا ہو گیا‘‘اور ’’سلم ڈاگ ملینئر ۔‘‘ بڑے ٹیم ٹام اور ٹھاٹ باٹ کے ساتھ شائع ہوئے ہیں اور۔۔۔۔اور بس۔۔۔۔۔۔۔۔
نوّے کے بعد ممبئی کے فکشن کے آسمان پر چمکنے والے سبھی ستاروں کے ساتھ ٹریجڈی یہ ہے کہ ڈھیر سارا لکھنے کے باوجود بھی بے توفیقی کا یہ عالم ہے کہ ان کی کوئی تحریر، کوئی افسانہ اپنی فنی قدر و قیمت کے بوتے پر قاری کے ذہن میںاپنے عنوان ریکارڈ نہیں کرواپایا ہے۔ ایک عرصے کے بعد فن اور فنکار یا افسانہ اور افسانہ نگار ایک دوسرے کی شناخت کا حوالہ بن جاتے ہیں۔ دور کیوں جائیں ’’ڈونگر واڑی کے گدھ ‘‘کے ساتھ ہی علی امام نقوی یاد آ جاتے ہیں یا انور خان کا نام لیا جائے تو دوسرے ہی لمحے ’’لمحوں کی موت ‘‘ سے لے کر’’ کتاب دار کا خواب ‘‘تک کتنے ہی افسانوں کے عنوانات ذہن کے افق پر تیرنے لگتے ہیں۔ سریندرپرکاش، سلام بن رزاق،ساجد رشید،م ناگ کے ساتھ بھی لگ بھگ یہی معاملہ ہے مگر مظہرسلیم ہوں یا اشتیاق سعید یا ان کے دوسرے رفقاء اس قدر بے مایا اور تہی دست ہیں کہ ایک عرصے سے لکھنے بلکہ مسلسل لکھتے رہنے کے باوجود ان کی کوئی تحریر قاری کے ذہن میں مستقیل جگہ بنائے رکھنے میں ہنوز ناکام ہے۔
اشتیاق سعید کا تعلق بھی اس صدی کے آغاز میں ابھرنے والی نسل سے ہے۔ افسانہ نگاری سے قبل انہوں نے ڈرامے بھی تحریر کئے ہیں۔ان کا تحریر کردہ ڈرامہ’’نعرہ بکتا ہے‘‘کتابی شکل میں دستیاب ہے۔حال ہی میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’ہل جوتا‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔اس میں کُل اٹھارہ افسانے اور ایک مقدمہ ہے۔ان کے تحریر کردہ مقدمے سے پتہ چلتا ہے کہ ساجد رشید کو وہ اپنا mantor مانتے ہیں۔کاش وہ ساجد رشید سے کہانی کہنے کے گُر بھی سیکھتے۔
ہندی میں گائوں کے افسانے نسبتاً زیادہ لکھے گئے ہیں اردو میں تو گائوں میں قیام پذیر قلمکاروں کی تحریروں میں بھی شہر چیختا اورچنگھاڑتا ہے۔بے شک ان دنوں شہر و گائوں کی دوریاں مٹتی جا رہی ہیں اوردونوں کی شکلیں ملتی جا رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گا ئوں یا شہر کا پس منظر افسانہ نگار کے اسلوبیاتی بنیاد کی نشاندہی تو کر سکتا ہے لیکن فنی سا لمیت اور تخلیقی وحدت کا جواز نہیں بن سکتا لیکن پھر بھی یہ اشتیاق سعید نے ممبئی جیسے شہر میں رہتے ہوئے گائوںکے back dropمیں افسانے لکھے اور یہی ان کی شناخت بھی ہے۔
دہاڑی پر کام کرنے والے کسان،کھیت کھلیان،لہلہاتی فصل،جیٹھ بیساکھ کی چلچلاتی دھوپ،ساون کی پہلی پھوار،گوبر کی لپائی کرتی عورتیں ،مہنت، پردھان،پروہت،گائوں کی چوپال،جن پنچایت،کھیت کی منڈیریں،ستیہ نارائین کی کتھا،گائے کے ڈکارنے کی آوازیں،مونج کی رسی سے بندھے کھیتوں میں کھڑے بجوکا،سوکھتے ہوئے کنویںِ،کھیتوں میں اچانک پھوٹتے پانی کے چشمے ،ہریجنوں کی بستی،مہواکی شراب،مٹی کی سوندھی سوندھی مہکاریں،حقّہ گڑگڑاتے ،بلغم تھوکتے بوڑھے ،ٹیوب ویل،گائوں کی عورتیں،چرن چھوتے اور آشیرواد لیتے بچے اور جوان،دیوی پرکوپ سے خوفزدہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرضکہ اشتیاق سعید ان کے افسانوںمیں دیہی زندگی کے منظر جا بجا ابھرتے ہیںلیکن یہ تخلیقی وحدت کا حصّہ نہیں بنتے بس افسانوی فریم ورک میں آدھے ادھورے اور شکستہ بجوکا کی طرح بے حس و بے حرکت ہاتھ پسارے جہاں تہاں کھڑے نظر آتے ہیں۔stock emotionsنے افسانے کی روح کو بری طرح مجروح کیا ہے۔
ڈرامہ سے اشتیاق سعید کا تعلق کس قدر گہرا رہا ہے لیکن ان کے افسانوں کا بیانیہ میں وہ تجسس خیزی اور بصری ڈرامائی صورتحال کر داروں کا تصادم اور سچویشنز کی کشمکش کا فقدان ہے جو اکہریت اور سپاٹ پن کو جنم دیتا ہے۔ کہیںکہیں انہوں نے جذباتی شدّت پیدا کرنے یا کیفیت کو ابھارنے کی خاطر اپنے لہجے کو انڈر لائین کیا ہے جس نے افسانوی بیانیہ کی روانی کو بری طرح متاثر کیا اور کرداروں کو fakeبنا دیا ہے۔ اشتیاق سعید بھی برسوں سے لکھ رہے ہیں لیکن ابھی تک ان کے قلم تلے رکھا ہوا کورا کاغذ ایک ایسے افسانے کا منتظیر ہے جسے ممبئی کی بھاشا میں ’’سالڈ‘‘ کہا جاتا ہے لیکن قمبرعلی جیسوں کی بھی ہمارے یہاں کمی نہیںجنہیں اشتیاق سعید کا ’’بجوکا‘‘ افسانہ سریندر پرکاش اور سلام بن رزاق کے ’’بجوکا ‘‘سے زیادہ بہترافسانہ لگتا ہے۔ ویسے تو کمی تو ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی بھی نہیں ہے جن کا ماننا ہے کہ امریکن excentمیں انگریزی بولنے سے دانتوں کو کیڑے نہیں لگتے۔ کیا کیا جائے؟؟؟
اصل مسئلہ نئے لکھنے والوںکی مجرمانہ معصومیت اور سادہ لوحی ہے جو اپنے متعلق کہے یا لکھے ہر توصیفی کلمات پر ایمان لانے کے لیے تیار بیٹھی ہوئی ہے۔اب چاہے کسی نقادکے نجی خط میں رسماً لکھی ہوئی عبارت ہو یا کسی سنئیر رائٹر کے ذریعے مروتاً تحریر کیاگیا تعریفی نوٹ ہو۔ ان توصیفی کلمات اور تبصروں کو اگر کوئی اپنے کارناموں کا momento سمجھنے لگے تو بھلا کوئی کیا کر سکتا ہے۔نئے لکھنے والوں میں اکبر عابد قریشی اور ڈاکٹر سلیم خان کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔سلیم خان کے افسانوں کا مجموعہ ’’حصار‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے جو زندگی کی کثافتوںپر رومانی لطافتوں کے غالب آنے کی داستان بیان کرتے ہیں جبکہ اکبر عابد قریشی نے اپنی کتاب ’’چپ چاپ‘‘ میں زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ان کے علاوہ محتشم اکبر اور شاداب رشید بھی ان دنوں افسانہ لکھنے میں مصروف ہیں۔ان کے افسانے مقامی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
آخر میں اپنے اس مضمون کو سمیٹتے ہوئے اتنا کہوںگا کہ زندگی کو جس روپ میں پریم چند، سریندر پرکاش، سلام بن رزاق دیکھ رہے تھے وہ زندگی بعد کے لکھنے والوں کے حصّے میں نہیں آئی۔ گزشتہ بیس برسوںجو اقدار بدلی ہیں،جینے کے جو pattern تبدیل ہوئے ہیں اس نے زندگی کوجس قدر پے چیدہ اور مشکل بنا یا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ کہنے کے لیے دنیا کو ایک عالمی گائوں یعنی گلوبل ولیج میں بدل دیا گیاہے مگر اسی کے ساتھglobal marketingکے ان گنت آ ہنی ہاتھ نہایت تیزی، چالاکی، ہنرمندی اور ظالمانہ طریقے سے ہمارے معاشرے، ہماری ثقافت اور وراثت کودبوچ رہے ہیں۔جو لفظ نئے لکھنے والوں نے وراثت میں پائے تھے وہ لفظ اپنی حرمت بھی کھو چکے ہیںاور معنویت بھی۔
ایک وقت تھا جب ہر دس سال بعدافسانہ نگاروں کی کھیپ نمودار ہوجایا کرتی تھی اور اب صورتحال قحطِ دمشق کی سی ہے۔ ممبئی کے افسانوں کی محفل ودھوا کے آنچل جیسی اجڑی ہوئی ہے اورنئے افسانہ نگارblack patch سے گزر رہے ہیںگو کہ اس برے وقت کے لیے وہ خود جتنے ذمہ دارنہیں ہیں اس سے زیادہ وہ ماحول اور وقت بھی ہے جس میں وہ لکھ رہے ہیں۔
زندگی جس طرح آج کے انسان کو برت رہی ہے اس نے آرٹسٹ کے سر پر دوہری ذمہ داری سونپ دی ہے۔ اپنی تخلیقی نہج اور فنی ترجیحات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آج کی زندگی سے اپنے محاورے حاصل کرنااس کے لیے اشد ضروری ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے اور حیرت سے زیادہ افسوس کی بات ہے کہ نوّے کے افسانہ نگاروں کے پاس نہ تو آج کی زندگی کو پیش کرنے لیے آج کے محاورے ہیں نہ ہی نئی حسّیت۔۔۔۔۔۔ اظہار کے toolsتک زنگ آلود ہیں۔ شاید اسی لیے سماجی اور جذباتی مطالعات کے ساتھ جو نئے رحجانات ممبئی کے اردو فکشن میں طلوع ہونے چاہئے وہ موضوعاتی سطح پر تو کہیں کہیں اپنی جھلک دکھلا جاتے ہیں لیکن یہ رحجانات تخلیقی تجربے کی وحدت میں مبّدل ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ممبئی کے یہ نئے لکھنے والے (گو کہ ان کے برتھ سر ٹیفکیٹ میں درج ان کی عمر اور ان کی کنپٹیوں پر ابھرتی سفیدی مجھے ان کو نیا کہنے سے روکتی ہے ) ابھی تک اپنے سنئیراور پیش رئو لکھنے والوں کی دال سے کام چلا رہے ہیںاور بہت فاصلے سے ان کے پیچھے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے اپنی فنی مفلسی اور فکری کنگالی کا انہیں احساس تک نہیں۔ ان نئے لکھنے والوں کے افسانوں کے مطالعے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ستّر پانچ پچھتر سالہ بزرگ افسانہ نگار اقبال مجید ان لوگوں سے کہیں زیادہ جواں سال اور ماڈرن ہے۔ احساس و ادراک میں بھی اور فنی رویوں کے اظہار میں بھی۔
آپ کا کیا خیال ہے؟