Mumbai ki Baz’m AaraiyaN

Articles

بمبئی کی بزم آرائیاں

رفعت سروش

بمبئی بچپن سے میرے خوابوں میں بسا ہوا تھا۔ یہ خواب میرے ساتھ جوان ہوا اور میں نگینہ سے نکل کر اور دو سال دہلی کے دفتروں کی خاک چھان کر بالآخر اپنے بچپن کے خوابوں کے شہر بمبئی پہنچ گیا۔
اسٹیشن کی بھیڑ کو چیرتا ہوا جب میں باہر نکلا تو بوری بندر پر انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ کر آنکھیں کھلی رہ گئیں ۔میں نے جیب سے پتے کا پرچہ نکال کر وکٹوریہ والے سے کہا کہ کھڑک پر زینب چیمبرس چلو ۔ وکٹوریہ میں بیٹھتے ہی دہلی اور بمبئی کا فرق واضح ہوگیا۔ وکٹوریہ کرافورڈ مارکیٹ اور پھر محمد علی روڈ ہوتی ہوئی ، مینارہ مسجد سے کھڑک کی طرف مڑی اور آگے چل کر ایک گندی سی سڑک پر ایک پرانی بلڈنگ کے سامنے رکی۔ یہی میری منزلِ مقصود تھی۔
ذریعہ معاش اور ادبی مشاغل کو میں نے دہلی میں بھی الگ الگ رکھا تھا اور بمبئی میں یہی روش اختیار کی ایک حیثیت سے میری شخصیت کے یہ دو متوازی روپ تھے۔دہلی میں سرکاری دفتروں میں نوکری کرتا تھا اور ادیبوں اور انقلابی دوستوں کے ساتھ شامیں گزارتا تھا۔ مجاز ؔان میں سے ایک تھا۔ دہلی سے چلتے وقت مجھے مجاز نے سردار جعفری کے نام ایک تعارفی پرچہ دیاتھا اور ان الفاظ میں سردار کا غائبانہ تعارف کرایاتھا کہ سردار جعفری ترقی پسندوں کا ظفر علی خاں ہے۔بمبئی پہنچنے کے چند روز بعد جب اس ہنگامہ خیز شہر کی سڑکوں اور راستوں سے کسی قدر واقف ہوگیا تو کھیت واڑی پر کمیونسٹ پارٹی آفس پہنچا۔ میں بلڈنگ کے دروازے پر کھڑا تھا کہ ایک دُبلا پتلا پھرتیلا نوجوان بلڈنگ کے چوڑے زینے کی سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر چڑھنے لگا۔ میں نے اسے مخاطب کرکے کہا کہ مجھے سردار جعفری سے ملنا ہے۔اس نے کہا،فرمائیے میرا نام علی سردار جعفری ہے۔ میرے ذہن میں علی سردار جعفری نام تھا کسی بھاری بھرکم شخصیت کا ۔
مگر میرے سامنے ایک نوجوان تھا میرے ہی جیسے قد و قامت کا ، کھادی کے کرتہ پاجامہ میں ملبوس اور لمبے بالوں کو انگلیوں سے سنوارتا ہوا ، عمر میں کچھ مجھ سے بڑا ۔خیر میں نے اپنا تعارف کرایا اور مجاز کا پرچہ دیا۔سردار بہت اخلاق سے ملے اور مجھے اپنے ساتھ ’’قومی جنگ‘‘ کے دفتر لے گئے ۔ ’’قومی جنگ‘‘ کا دفتر کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں ہی تھا اس لیے وہاں اس وقت کے دانشور ، ادیب اور شاعر موجود تھے اور وہیں سے ’’نیا ادب‘‘ نکلتا تھا۔
سب سے پہلے سردار نے مجھے کیفی اعظمی سے ملایا ۔ میں نے کیفی کی ایک نظم ’’عورت‘‘ پڑھی تھی اور اس کی وہ نظم ’’اب تم آغوش تصور میں نہ آیا کرو‘‘ حال ہی میں چھپی تھی۔ کیفی کی شخصیت پر ایک گو نہ بے خودی سی طاری تھی۔ لہجے میں گہرائی اور ٹھہرائو، آنکھوں میں خلوص ، چہرے پر سکون ۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ پر سکون شخص جب انقلابی نظم پڑھتا ہے تو آواز اور انداز بیان سے الفاظ اور معنی کو مجسم کردیتا ہے اور مجمع پرپہلے تو استعجاب و تحسین کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور پھر وہ بے اختیار ہوجاتا ہے۔
یہ سبطِ حسن ہیں ۔چھریرے بدن،سبک نقوش پہ سوچتی ہوئی آنکھیں، دھیما لہجہ ۔تو یہ ہیں ’’نیا ادب‘‘ کے ایڈیٹر اور مجاز کے پرانے ساتھی۔
یہ ہیں ڈاکٹر کنور محمد اشرف۔ڈاکٹر اشرف کو میں نے بہت پہلے ۱۹۳۵ء یا ۳۶ء میں موانہ ضلع میرٹھ میں دیکھا تھا ۔ کانگریس کے ایک جلسے میں پنڈت جواہر لال نہرو نے انھیں اپنی جگہ جلسے کی صدارت کرنے بھیج دیا تھا۔ ڈاکٹر اشرف کی تقریر کا لطف میرے ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ تھا۔ میں نے بڑی عقیدت سے انھیں آداب کیا اور ان کے پروقار مگر بے تکلف انداز گفتگو نے مجھے مسحور کرلیا۔
بنے بھائی ، سیّد سجاد ظہیر _____’’لندن کی ایک رات ‘‘ اور ’’انگارے‘‘ والے سجاد ظہیر سے ملاقات ہوئی ۔کیا متبسم اور پاکیزہ شخصیت ہے اور کیا اپنا پن ہے ان کی باتوں میں ۔ان کی شخصیت کا جادو دل پر چل گیا اور ایسا کہ اب تکاثر باقی ہے۔
’’قومی جنگ‘‘ کے دفتر کی ایک میز پر محمد علی بیٹھے اور دوسری میز پر علی اشرف ۔ یہ صحافی برادری کے آدمی تھے ، کم سخن لیکن پر خلوص ۔
ان سب لوگوں سے مل کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنے گمشدہ کنبے میں آگیا ہوں۔ اتنی اپنائیت مجھے مجاز کے علاوہ اور کسی سے نہیں ملی تھی۔ میں نے ایک دو نظمیں سنائیں جنھیں سبھی نے پسند کیا اور خاص طور پر سردار جعفری نے بہت ہمت افزائی کی۔ پھر تو میرا معمول ہوگیا کہ دوسرے تیسرے دن جب موقع ملتا پارٹی آفس چلا جاتا اور کچھ نہ کچھ اپنے دامن میں لے کر واپس آتا۔
کمیونسٹ پارٹی کے ان لوگوں نے مجھے ان کی علمی اور ادبی سرگرمیوں کے علاوہ جس چیز نے خاص طور پر متاثر کیا وہ تھا ان کا خلوص اور بے غرض کام کرنے کا جذبہ۔اکثر لوگ کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ تھے مگر بڑے پیمانے پر انسانیت کی خدمت کا جذبہ اور جبر و استحصال سے پاک معاشرہ قائم کرنے کی لگن انھیں ہندوستان کے گوشے گوشے سے اس کمیون میں کھینچ لائی تھی جہاں ایک سخت انتظام کے تحت راہبانہ زندگی گزارتے تھے۔ سادہ کھاتے تھے اور موٹا چھوٹا پہنتے تھے ، علمی اور سیاسی مشاغل پر زندگی گزارتے تھے۔ جد و جہد کرتے تھے اور محض اپنے لیے نہیں، ملک اور انسانیت کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھتے تھے ۔ ان کی ادائیگی فرض کا اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’’قومی جنگ‘‘ کے ایڈیٹران سردار جعفری اور کیفی اعظمی وغیرہ پھیری والے کی طرح بھنڈی بازار اور دیگر علاقوں میں اپنا اخبار بیچنے میں گریز نہیں کرتے تھے۔
ہفتہ وار ’’نظام‘‘ کا دفتر ہم چند ادیبوں کا اڈہ تھا۔ قدوس صہبائی تو اڈیٹر تھے ہی ، بہت دلچسپ شخصیت کے مالک تھے ۔ بھوپال سے آئے تھے اور وہاں بائیں بازو کی سیاست سے ان کا تعلق تھا، اس لیے ان کے پرچے کی پالیسی بھی یہی تھی۔ ’’نظام‘‘ کسی پارٹی کا آرگن نہ ہوتے ہوئے بھی انجمن ترقی پسند مصنفین کا آرگن بن گیا تھا اور اس کی ہفتہ وار میٹنگوں کی تفصیلی رپورٹیں باقاعدگی سے اس میں چھپتی تھیں۔ اس کے علاوہ ہم سب ترقی پسند ادیب اپنی منظومات اور افسانے قدوس صہبائی کو فراخ دلی سے ’’نظام‘‘ کے لیے دیتے تھے اور وہ بہت نمایاں انداز میں چھاپتے تھے۔ اکثر کسی نہ کسی ادیب کا فوٹو ’’نظام‘‘ کے سرورق پر ہوتا اور ایک نظم ____یہ پرچہ کئی سال تک بڑے کر و فر سے چلا۔ آج اگر اس کے فائل کسی کے پاس ہوں تو اس زمانے کی ادبی تاریخ مرتب کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے ایک یادگار دور کی سرگرمیوں کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
’’نظام‘‘ کے دفتر میں روز شام کو آنے والوں میں تھے ساحرؔ لدھیانوی ، حمید اختر ، ابراہیم جلیس ____ساحرؔ ’’ادب لطیف‘‘ چھوڑ کر لاہور سے اپنی قسمت آزمانے ایک نئی فلم کمپنی میں آگئے تھے (کچھ کلا مندر قسم کا نام تھا اس کا) اوران کے ساتھ حمید اختر آئے تھے جو ساحرؔ کے جگری دوست اور افسانہ نگار تھے ۔ حیدر آباد سے ابراہیم جلیس آگئے تھے۔ ان کا بھی اس فلم کمپنی سے تعلق تھا۔ ابراہیم جلیس بھی بڑے زندہ دل آدمی تھے ۔ ہم لوگوں میں بے تکلف دوستی تھی۔ تقریباً سب ہم عمر تھے اکثر یوں ہوتا کہ ہم لوگ ’’نظام‘‘ کے دفتر میں شام کو ملتے۔ چائے پیتے اور پھر جے جے اسپتال سے پلے ہائوس ہوتے ہوئے بازار حسن سے بے تعلق گزرتے ہوئے بلاسس روڈ آجاتے اور ناگ پاڑے سے اپنی اپنی بس پکڑ کر ادھر ادھر ہوجاتے_____راستے میں دلچسپ فقرے بازی اور لطیفے ہوتے اور پتہ بھی نہ چلتا کہ یہ کئی میل لمبا رستہ کیسے کٹ گیا _____ہم لوگوں کی اس دلچسپ حرکت پر قدوس صہبائی نے ’’نظام‘‘ کے مزاحیہ کالم ’رنگ ترنگ‘ میں چار اونٹ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا _____ انھیں دنوں ابراہیم جلیس نے بمبئی پر ایک رپورتاژ لکھا تھا ’’شہر‘‘ ۔ یہ رپورتاژ بھی ’’نظام‘‘ میں چھپا تھا۔
’’نظام‘‘ کے دفتر میں ہی اسمعیٰل یوسف کالج کے ایک ہونہار طالب علم عالی جعفری سے ملاقات ہوئی تھی ۔ ان کا گھر دفتر کے بالکل قریب تھا اس زمانے میں انھوں نے غالباً کچھ چینی کہانیوں کے ترجمے ’’نظام‘‘ میں چھپوائے تھے _____بعد میں عالی جعفری نے شاعری اور افسانہ نگاری تو برائے نام ہی کی مگر وہ ایک اچھے معلم ثابت ہوئے اور اب وہ بمبئی کے علمی حلقوں میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ۔
قدوس صہبائی کے دفتر میں ہی بھوپال کے نوجوان جرنلسٹ احمد علی سے ملاقات ہوئی بہت ہی سنجیدہ طبع نوجوان _____اوراب ۱۹۸۲ء میں ان سے کراچی میں ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ ’ڈان‘ کے ایڈیٹر ہیں اور ہاجرہ مسرور کے شوہر۔
انجمن ترقی پسند مصنفین پر شباب آگیا تھا اور اس کی ہفتہ وار نشستیں بنے بھائی کے مکان ۹۶؍ والکیشور روڈ پر نہایت پابندی اور باقاعدگی سے منعقد ہونے لگی تھی۔
اتوار کو دوپہر بعد ہر ادیب و شاعر کا راستہ بنے بھائی کے گھر کی طرف جاتا تھا کوئی باقاعدہ عہدوں کی تقسیم نہیں تھی، سب ممبر تھے۔ حمید اختر نے سکریٹری کاکام سنبھال لیا تھا اور باقاعدہ سچی سچی اور دلچسپ رپورٹ لکھتے تھے ____ ’’قومی جنگ‘‘ کے ادارہ میں ایک کبھی نہ پر ہونے والا خلا پیدا ہوگیا تھا اور ایک خوشگوار اضافہ بھی ہوگیا تھا۔ خلا تھا سیّد سبطِ حسن کے ذاتی سلسلے میں امریکہ چلے جانے کی وجہ سے اور خوشگوار اضافہ تھا ،ظ۔ انصاری کی آمد سے۔ دلّی کے پارٹی آفس سے سبطِ حسن کی جگہ ظ۔ انصاری بمبئی لائے گئے تھے_____ظ۔ انصاری ان دنوں انجمن کے جلسوں میں رونق اور تفریح کا سامان بنے تھے ______ظ۔ انصاری (ظل حسین انصاری) میرٹھ کی شیعہ درس گاہ منصبیہ کالج کے پڑھے ہوئے تھے اور کچھ عرصہ پہلے روزنامہ ’’انصاری‘‘ دہلی میں کام کرتے تھے۔ صحافی بھی تھے اور شاعر بھی۔ہماری انجمن کی میٹنگ میں عام طور پر ایک نظم پڑھی جاتی ، ایک افسانہ اور ایک آدھ مقالہ اور کھل کر بحث ہوتی _____بحث کا ایک پیٹرن بن گیا تھا۔ عام طور پر سب سے پہلے ظ۔ انصاری مکتبی قسم کا اعتراض کرتے۔ اس کی ’’ہ‘‘گری ہے ، اس کا ’’الف‘‘ زیادہ ہے، یہ مصرعہ یوں نہیں یوں ہونا چاہیے یا ٹکنیک کمزور ہے اور بحث شروع ہوجاتی۔ جب دوچار آدمی بول چکتے تو سردار جعفری اپنے فیصلہ کن انداز میں مختصر تقریر کرتے _____اور موضوع اور اس کی اہمیت پر زیادہ زور دیتے اور محفل کو اپنا ہم نوا بنالیتے _____لیکن ظ۔ انصاری آخر میں کہتے ’’ مگر میرا اعتراض باقی ہے‘‘۔ ایک میٹنگ کی بات یاد آئی _____ساحرؔ لدھیانوی نے اپنی تازہ نظم ’’جہانگیر ‘‘ سنائی اس کا ایک مصرع تھا :
’’ہم کوئی بھی جہاں نورو جہانگیر نہیں‘‘
مگر ظ۔ انصاری نے کہا ____جہاں نور غلط ہے ۔ مصرع یوں ہونا چاہیے:
’’یاں کوئی نور جہاں اور جہانگیر نہیں‘‘
سردار نے اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ مصرع خوبصورت اور رواں دواں ہے اور ’’جہاں نور‘‘ کہنے میں ایک خاص معنویت ہے۔ مگر سب کی سننے کے بعد وہ یہی بولے _____’’میرا عتراض باقی ہے۔‘‘
ان کا اعتراض باقی رہتا اور صاحب صدر میٹنگ کی کاروائی آگے بڑھانے ا شارہ کرتے۔
جب بات زیادہ الجھ جاتی تو بنے بھائی بولتے تھے ۔ جن کا سب لوگ احترام کرتے تھے۔ اصل میں بنے بھائی کی وجہ سے ایک توازن قائم تھا۔ انھوں نے انجمن کے دروازے کسی پر بند نہیں کیے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ سکّہ بند ترقی پسندوں کے علاوہ وہ ادیب اور شاعر بھی ان میٹنگوں میں آئیں جن کا براہ راست تحریک سے تعلق نہیں ہے۔ کاروائی میں حصہ لیں، بحث و مباحثہ ہو اور ذہنوں میں زیادہ کشادگی پیدا ہو، اورحلقۂ ادب اور وسیع ہو۔
یہ ان کی وسیع النظری کا ہی نتیجہ تھا کہ ان جلسوں میں جگرؔ صاحب بھی شریک ہوتے اور یگانہ چنگیزی بھی ، ذوالفقار بخاری اور پطرس بخاری بھی ۔جن کا بائیں بازوں کی سیاست یا ادب سے کوئی تعلق نہیں تھا ان لوگوں کے کلام اور خیالات کو نہایت احترام سے سناگیا۔ جس میٹنگ میں پطرس بخاری کو خصوسی طور پر بلایا گیا تھا وہ بہت دلچسپ تھی۔ پطرس سے مختلف باتوں کے علاوہ علامہ اقبال کے بارے میں پوچھا گیا _____انھوں نے کئی دلچسپ باتیں بتلائیں۔ مثلاً یہ کہ اقبال کو کسی خاص سیاسی مسلک سے کٹر پن کی حد تک وابستگی نہیں تھی۔ وہ تو شاعر تھے جو کچھ سامنے آیا اس پر نظم لکھ دی۔ کارل مارکس یا لینن کے متعلق ان کی نظمیں پڑھ کر یہ سمجھنا کہ وہ کمیونسٹ تھے غلط ہوگا۔ کہنے لگے ، ایک بار مجھ سے کسی بات پر گفتگو ہورہی تھی جس نے بحث کی شکل اختیار کرلی۔ اگلے دن جو میں علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کہنے لگے میں نے تمہارے بارے میں ایک نظم لکھی ہے اور وہ نظم سنائی ۔ ’’فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام‘‘۔
بنے بھائی کے گھر کبھی کبھی بہت دلچسپ میٹنگیں ہوتی تھیں۔ جوشؔ صاحب مستقل طور پر تو پونہ رہتے تھے مگر کبھی کبھی بمبئی آتے اور اتوار ہوتا تو پی ڈبلیو اے کی میٹنگ میں ضرور آتے۔ چنانچہ ایک میٹنگ میں آئے تو اپنی برقعہ پوش محبوبہ کو بھی ساتھ لائے اور پورے موڈ میں اپنا کلام سنایا۔ محبوبہ کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھالیا۔ ان سے چہرے سے نقاب اٹھانے کو کہا _____اور خوبصورت تشبیہوں اور استعاروں سے بھر پور اپنی وہ حسین نظم سنائی۔
’’برقعہ برفگن‘‘ ____یہ نظم ان کے کسی مجموعہ کلام میں چھپی ہے اور کالے برقعہ میں ملبوس بے نقاب مگر محبوب حسن پر کئی معرکتہ الآرا رباعیاں بھی ہیں ____یہ کلام اسی برقعہ پوس حسینہ کارہینِ منت ہے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کی میٹنگوں کی اہمیت اور افادیت مسلم تھی۔ بمبئی کے سب ادیب نہایت سنجیدگی اور پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ کرشن چندر ، خواجہ احمد عباس، بلراج ساہنی ، رامانند ساگر، اختر الایمان ، نیاز حیدر ، مجروح سلطان پوری، قدوس صہبائی، وشوا متر عادل، پریم دھون اور وہ سب جن کا ذکر گزشتہ صفحات میں آچکا ہے انجمن کے روح رواں تھے ۔
اس زمانے میں ہم لوگوں کی نظمیں انجمن کی میٹنگوں سے چھن کر ہی رسائل میں چھپتی تھیں۔ معقول اور تعمیری تنقید کی روشنی میں نظر ثانی کی جاتی تھی ____ نظریاتی بحث پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین بمبئی کا خوشگوار دور اس وقت تک جاری رہا جب تک بنے بھائی بمبئی رہے۔ ان کے ترکِ وطن کرنے کے بعد انجمن کے جلسوں کی جگہ اور نوعیت بھی بدل گئی اور وہ وقت کے سخت تھپیڑے کھانے لگی۔
بمبئی جد و جہد آزادی کا اہم مرکز تھا۔ اس شہر نے خلافت کا شباب دیکھا۔ یہیں انڈین نیشنل کانگریس کے بہت سے اہم جلاس ہوئے _____خاص طور پر ۱۹۴۲ء کا وہ اجلاس جس میں ’’ہندوستان چھوڑو دو‘‘ ریزولیشن پاس ہوا اور جس کے نتیجے میں پورا ملک انقلاب زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا اور انگریزی سامراج کو پسینے آگئے_____۱۹۴۶ء میں ملاحوں کی ہڑتال کا مرکز یہی شہر تھا جس نے برٹش حکومت کی جڑیں کھوکھلی کردیں۔ مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز یہی شہر تھا جس کی سرگرمیوں کی وجہ سے آخر کا ر ملک تقسیم ہوا اور پاکستان وجود میں آیا۔
بھلا اس شہر میں جشن آزادی نہ منایا جاتا تو کہاں منایا جاتا _____تین دن اور تین رات یہ شہر مسلسل جاگتا رہا اور لوگوں نے جھوم جھوم کر جشن آزادی منایا۔ بسوں اور ٹراموں میں وہ بھیڑ کہ خدا کی پناہ ،راتیں دن کو شرماتی تھیں اور پورا شہر بقعۂ نور بنا ہوا تھا ______ادیبوں اور شاعروں اور فنکاروں نے کھل کر آزادی کے گیت گائے _____سردار جعفری نے اپنی توانا آواز اور نظم آزاد کے لہجے میں پکارا:
ناگہاں شور ہوا
لو شبِ تار غلامی کی سحر آپہنچی
اور مطرب کی ہتھیلی سے شعائیں پھوٹیں
ان دنوں پریم دھون کا ایک گیت جسے اپٹا کے کلاکاروں نے پریم دھون کے ساتھ گایا تھا _____بہت مقبول ہوا اور بچے بچے کی زبان پر تھا :
ناچو آج ، گائو آج ، گائو خوشی کے گیت
اندھیارے کی ہار ہوئی ہے اجیارے کی جیت
(کچھ عرصے بعد مجروح سلطان پوری نے اس مکھڑے کو پریم دھون کی اجازت سے ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ایک فلم کے گیت کا مکھڑا بنا دیا۔ جس میں دوسرا مصرع بدل دیا گیا تھا۔
’’آج کسی کی ہار ہوئی ہے آج کسی کی جیت‘‘
یہ گیت مکیش نے گایا تھا۔
آزادی آئی لیکن لہو لہان ______
بہت جلد یہ خوشی ماتمی دھن میں بدل گئی جب پنجاب اور دہلی کے قتل و غارت کی خبروں نے فیضؔ کے ان مصرعوں کی تفسیر پیش کردی:
یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
تو بنے بھائی کا گھر ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور آزادی کے بعد انجمن کے جلسوں میں نیا جوش و خروش آگیا تھا _____کچھ ادیب چلے گئے تھے اور بہت سے ادیب ادھر ادھر سے بمبئی آگئے تھے۔ لکھنؤ سے ممتاز حسین ایک خوشگوار اضافہ تھے، جن کی تنقید بہت گاڑھی اور ادق ہوتی تھی۔بنے بھائی اپنے مخصوص متبسم انداز میں کہا کرتے تھے کہ ممتاز حسین ترقی پسندوں کا محمد حسن عسکری ہے۔ ساحرؔ اور حمید اختر اور ابراہیم جلیس چلے گئے تھے۔ (ساحرؔ کچھ عرصہ بعد پھر بمبئی واپس آئے) اور اب انجمن کے جلسے کی رپورٹیں مہندر ناتھ لکھتے تھے۔ مہندر ناتھ بھی مشہور افسانہ نگار تھے۔ اس لیے حمید اختر کی طرح ان کی رپورٹوں میں بھی ادبی چاشنی ہوتی تھی _____ اور ’’نظام‘‘ ویکلی کے بند ہونے کے کچھ دن بعد ’’شاہد‘‘ ویکلی نکلا تھا جس کے مالک سلطان صاحب تھے اور ایڈیٹر عادل رشید۔ یہ ویکلی رسالہ جب تک چلا ترقی پسند مصنفین کا غیر سرکاری آرگن بنا رہا۔
پنجاب سے کئی ادیب آگئے تھے جن کی آمد سے بمبئی کی ادبی فضا میں اور گیرائی پیدا ہوگئی تھی _____رامانند ساگر آئے اپنے ناول ’’اور انسان مر گیا ‘‘ کے ساتھ۔ انھوں نے اس ناول کی کئی قسطیں انجمن کے جلسوں میں پڑھیں۔ یہ ناول فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔ اس پر بہت بحثیں ہوئیں اور رامانند ساگر کے قنوطی نقطۂ نظر سے کھل کر اختلاف کیا گیا اور کہا گیا کہ انسان اس قتل و غارت کے باوجود زندہ ہے _____بلراج ساہنی کے چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی بھی بمبئی آگئے۔ وہ ہندی ادیب ہیں اور اب ایک عرصہ سے دلی رہتے ہیں۔ ذاکر حسین کالج میں پڑھاتے ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین اور آفرویشیائی رائٹرس کانفرنس کے سرگرم رکن ہیں _____مگر وہ بمبئی میں اتنے نمایاں نہیں ہوسکے تھے۔
آزادی کے کچھ سال قبل پونہ اردو ادیبوں اور شاعروں کا مرکز تھا۔ ڈبلو زیڈ احمد نے شالیمار فلم کمپنی بنائی تھی جس کی مشہور فلمیں تھیں ’’ من کی جیت‘‘ اور ’’غلامی‘‘ ۔ اس فلم کمپنی میں جوش ملیح آبادی ، ساغر نظامی، کرشن چندر، اختر الایمان ، مسعود پرویز ، بھرت ویاس اور اردو ہندی کے کئی ادیب اور شاعر تھے _____ مگر اس کمپنی کا شیرازہ آہستہ آہستہ بکھرا تھا اور ایک ایک کرکے سبھی ادیب اور شاعر بمبئی آگئے تھے۔تقسیم وطن سے کچھ دن پہلے ،جاز بھی کچھ عرصے کے لیے بمبئی آئے تھے اور کھیت واڑی کمیون ہی میں ٹھہرے تھے۔
۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ء _____بمبئی کی ایک نہایت خوشگوار اور پربہار شام ۔ ریڈفلیگ ہال میں ایک ایسی مبارک تقریب ہے جس میں کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کے علاوہ اردو کے بیشتر ادیب و شاعر جمع ہیں۔ عورتوں نے بالخصوص زرق برق لباس پہنے ہیں۔ آج علی سردار جعفری اور سلطانہ بیگم کی شادی ہے _____ پارٹی کی رسم کے مطابق دو کمیونسٹ ممبران کی شادی ____ہال کھچاجھچ بھرا ہوا ہے _____رسم تو پوری ہوچکی ہے۔اب احباب مبارکباد دے رہے ہیں۔ نئے جوڑے کو تحائف پیش کررہے ہیں۔ میراجی نے ایک نظم پڑھتے ہوئے نئے جوڑے کو ایک دلچسپ تحفہ دیا ہے _____بک شلف ، لکڑی کے دو خوبصورت مینڈھے ۔ آمنے سامنے ۔ ممتاز بہن اور ملک نورانی نے بجلی کی کیتلی دی ہے تاکہ چائے فوراً تیار ہوسکے _____(یہ دونوں میاں بیوی ہم سب لوگوں کے بہت پیارے دوست تھے۔ اب بھی ہیں مگر کراچی میں) کیفی اعظمی نے اس موقع پر چھوٹی سی خوبصورت تقریر کی ہے کہ میں نے سردار جعفری سے بہت کچھ سیکھا مگر ایک چیز میں نے ان کو سکھائی ____شادی کرنا _____اور کیفی نے ایک خوبصورت نظم پڑھی :
یہ خوبصورت تقریب اختتام کے قریب تھی کہ ریڈیو پر شام کے چھ بج کر دس منٹ کی خبریں سنتے ہی ہندی کے مشہور ادیب رمیش سنہا مائک پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ گاندھی جی کی پرارتھنا سبھا میں انھیں کسی نے گولی ماردی _____مجمع پر سناٹا چھا جاتا ہے اور ماحول یکسر بدل جاتا ہے۔ اس زمانے کی فضا کو دیکھتے ہوئے یہی خیال ہوتا ہے کہ کسی مسلمان نے گولی ماردی ہوگی۔ اور اس خیال کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ فساد کی آگ یک لخت بھڑک جانے کا اندیشہ ہے۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگنے لگتے ہیں۔ گاندھی جی کی موت کی خبر آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل جاتی ہے _____بسیں اور ٹرامیں بند ہیں۔ شہر میں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ ہوگیا ہے۔ جہاں یہ خوبصورت تقریب منائی جارہی تھی ، کھیت واڑی پر ہے۔ ذرا دو قدم پر گولی پیٹھا ____پھر بھنڈی بازار۔ ساغر صاحب نے زوردار شیروانی پہن رکھی ہے اور ذکیہ بھابی نے غرارہ۔ میرے بھائی امتیاز بھی شیروانی میں ملبوس ہیں۔ ظاہر ہے ایسے موقعوں پر آدمی اپنے لباس سے فوراً پہچانا جاتا ہے۔ ہم لوگ گلی گلی ہوتے ہوئے کسی طرح اپنے گھر کھڑک پہنچتے ہیں ، سب دم بخود ہیں کہ دیکھئے اب کیا ہونے والا ہے۔ اس وقت ریڈیو اتنا عام نہیں تھا کہ گھر گھر سٹ یا ٹرانزسٹر ہوں۔ ہمارے پڑوس میں ریڈیو بج رہا تھا اور سب لوگ اس کی آواز پر کان لگائے ہوئے تھے۔ وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی آواز آئی کہ ایک پاگل نے باپو کو گولی ماردی _____ اس کا نام ناتھو رام گوڈسے بتایا گیا تو سب کی جان میں جان آئی اور اس فساد کا خطرہ ٹلا جو ہمارے ذہنوں پر منڈلا رہا تھا۔
بنے بھائی کے بمبئی سے چلے جانے کے بعد بمبئی کی ادبی فضا تیزی سے بدلی۔ اگرچہ انجمن ترقی پسند مصنفین میں نام نہاد عہدوں کی تقسیم نہیں تھی اور اپنی اپنی بساط اور حیثیت کے مطابق سبھی خلوص دل سے کام کرتے تھے۔مگر ظاہر ہے سربراہی کا سہرا سجاد ظہیر ہی کے سر تھا۔ ان کے چلے جانے کے بعد یہ ذمہ داری علی سردار جعفری کے سر آگئی _____ان دونوں شخصیات میں بہت بڑا فرق تھا۔ میرے نزدیک بنیادی بات یہ تھی کہ بنے بھائی کو اپنے ادبی کیریئر کی کوئی فکر نہ تھی۔ ان کا ایک مقام متعین تھا جو صرف ان کے لیے مخصوص تھا (اور اسی لیے ان کی جگہ آج تک خالی ہے) وہ اپنی ذات سے بے نیاز ہوکر ادب ، ادیب اور معاشرے کی بہبودی کے لیے کام کرتے تھے۔ مگر سردار جعفری کی شخصیت زیرِ تشکیل تھی۔ بے شک وہ ترقی پسند مصنفین کے بہترین وکیل تھے اور ان کے زورِ خطابت کے آگے اچھے اچھوں کی دلیلیں بے وزن ثابت ہوجاتی تھیں۔ مگر ان کی مشکل یہ تھی کہ بحیثیت شاعر وہ اپنی شخصیت منوانے میں منہمک تھے اور اس وقت شعرا کی صفوں میں ان سے کہیں زیادہ مقبول شعرا موجود تھے۔ مخدومؔ محی الدین ، فیضؔ، جذبیؔ، جاں نثار اخترؔ، اختر الایمان _____اور ذرا ادھر دیکھئے تو ن۔ م۔ راشد اور میراجی _____یہ سب کم و بیش سردار جعفری کے ہم عصر تھے۔ مگر اس وقت کے تنقیدی شعور نے ان شعرا کو قابل توجہ تسلیم کرلیا تھا اور ادبی رسائل ان کے ذکر سے بھرے رہتے تھے۔ ان سب نے شاعری کی نئی جہتیں تلاش کی تھیں، جبکہ سردار جعفری کا کوئی خاص تذکرہ نہیں کیا جاتا تھا اور نہ سردار کا کوئی قابل ذکر کارنامہ سامنے آیا تھا۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’پرواز‘‘ شاید ۱۹۴۵ء میں چھپا تھا جس کی کوئی خاص پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔ سردار جعفری کی جس کتاب نے ایک گروہ (یعنی ترقی پسند) کے ناقدین کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ ان کی طویل نظم ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ ہے جس میں سردار نے روایتی شاعری کی ڈگر سے ہٹ کر آزاد نظم کی تکنیک کو برتا۔ اگرچہ ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ کی آزاد شاعری میں راشد کی شاعری جیسا سحر انگیز آہنگ اور تہہ داری تو نہیں ہے مگر ایک شکوہ ہے اور مکالماتی قوت ہے جو سردار کے شعری آہنگ کو ممیز کرتی ہے _____مگر ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ غالباً اوائل ۱۹۴۷ء میں چھپی ہے اور اردو میں کسی کتاب کو مقبول ہوتے ہوتے دو تین سال تو لگ ہی جاتے ہیں۔
غرض سردار کے ہاتھ میں انجمن کے زمام آتے ہی اس کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے اور آہستہ آہستہ وسیع النظری اور ادبی رواداری میں کمی آنی شروع ہوئی۔ مگر اس کا احساس شروع شروع میں اس لیے نہیں ہوا کہ ملک کے حالات تیزی سے بدل رہے تھے اور بین الاقوامی تبدیلیوں کا دبائو بھی انجمن کی کارکردگی پر پڑنا لازمی تھا۔ اب مقصدیت کی سلپ ہر تخلیق کے ماتھے پر چپکائی جانے لگی اور ادبی محاسن کو طاق میں رکھنے کا چلن شروع ہوگیا اور سردار جعفری کی شہرت نے فراٹے بھرنے شروع کیے۔ ان کے نثری مضامین ان کی پشت پناہی کا فرض انجام دینے لگے اور انھوں نے فیضؔ کی :
’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘
والی نظم کو رجعت پرستانہ قرار دیا اور دلیل دی کہ آزادی کے اجالے کو داغ داغ تو مسلم لیگ بھی کہتی ہے اور آر ایس ایس بھی _____چونکہ یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ تاثر ’’عوام‘‘ کا ہے اور نظم واضح نہیں ہے۔ اس لیے ترقی پسند نہیں ہے (اس وقت میرے سامنے وہ مضمون نہیں ہے مگر سردار کے اس مضمون سے سب اہل نظر واقف ہیں) سردار کے ان ترقی پسندانہ تجزیوں نے ان کے لیے ایک نئی راہ کھول دی اور انھوں نے ’’نیا ادب‘‘ میں ’’دار و رسن‘‘ کے عنوان سے جارحانہ مضامین کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس میں شعرا کی تخلیقات کا جائزہ لے کر انھیں دار و رسن پر چڑھایا جاتا تھا اور سادہ لوح قارئین سے کہا جاتا تھا کہ ان کی شاعری زہرناک ہے۔ مضامین اٹھا کر دیکھئے ، کون کون سولی پر نہ چڑھا یا گیا۔ حیدر آباد میں مخدومؔ کو چھوڑ کر باقی سب شاعر ، پنجاب میں احمد ندیم قاسمی کو بھی نہیں بخشا گیا ، بمبئی میں ساغر نظامی کو بھی در پر کھینچ دیا _____اور سردار کے ان کارناموں کی اتنی واہ واہ ہوئی کہ اس وقت کے نئے شاعروں اور ادیبوں کی عاقبت خراب ہوئی سو ہوئی ، اچھے خاصے مقبول شاعر اور ادیب بھی اپنی اپنی روش سے بہک گئے:
رقص کرنا ہے تو پھر پائوں کی زنجیر نہ دیکھ
جیسی مرصع شاعری کرنے والے شاعر نے مطلع نکالا:
امن کا جھنڈا اس دھرتی پر کس نے کہا لہرانے نہ پائے
ہے یہ کوئی ہٹلر کا چیلا ، مار لے ساتھی جانے نہ پائے
اس دور کا ایک مشہور شعر ملاحظہ ہو ، غزل کا شعر:
اس طرف روس، ادھر چین ، ملایا ، برما
اب اجالے مری دیوار تک آپہنچے ہیں
تو میں عرض کر رہا تھا کہ آزادی کے کچھ ماہ بعد علی سردار جعفری انجمن کے سربراہ بن گئے جسے انھوں نے شخصیت سازی کے لیے استعمال کیا _____کچھ عرصہ بعد بمبئی کی ادبی محفل میں کچھ اور لوگ بھی آگئے _____راجندر سنگھ بیدی آئے مگر وہ جلسوں میں آتے تو تھے ، نئے افسانے نہیں پڑھتے تھے۔ انھوں نے کہیں لکھا ہے کہ وہ ایک عرصہ تک خاموش رہے اور اس نئے ماحول میں نیا پیرایۂ بیان تلاش کررہے تھے۔ بیدی بھی فلم انڈسٹری میں آئے اور کرشن چندر کے برعکس ان کی فلمی زندگی کامیاب رہی۔ ساحر لدھیانوی لاہور سے ’’نیا سویرا‘‘ اور دہلی سے ’’شاہراہ‘‘ جیسے معیاری ادبی پرچے نکالنے کے بعد واپس بمبئی آگئے ____اور جدو جہد کی دلدل میں پھنس گئے _____جب یک مضبوط جگہ کھڑے ہوگئے تو پھر ادب کی طرف مائل ہوئے _____ بھوپال سے جاں نثار اختر ، کالج کی نوکری چھوڑ کر بمبئی آئے۔ جاں نثار اختر بھی ’’مقصدیت زدہ ‘‘ ادب کا شکار ہوئے اور بہت دن تک ایسی سپاٹ نظمیں کہتے رہے جو ان کے اپنے رنگ و آہنگ سے مطابقت نہ رکھتی تھیں اور جن پر وہ ’’راہ راست‘‘ پر آنے کے بعد شرماتے ضرور ہوں گے۔ کیونکہ صفیہ کے انتقال کے بعد جاں نثار اختر کی شاعری کا نیا جنم ہوا اور ان کی دل میں اتر جانے والی نظمیں اور غزلیں ’’خاک دل‘‘ اور ’’پچھلا پہر‘‘ میں شائع ہوئیں جن کے ذریعے جاں نثار اختر نے اپنی بازیافت کی ______ورنہ پہلے مجموعہ کلام ’’سلاسل‘‘ کے بعد ان کا مجموعہ ’’جاوداں‘‘ بہت کمزور اور وقتی قسم کی نظموں پر مشتمل ہے۔ یادش بخیر جاں نثار اختر بہت مخلص آدمی تھے۔ نہایت شریف اور دلچسپ اور خوددار انسان۔ جانے کیسے کیسے سہانے خواب دیکھ کر بھوپال سے بمبئی آئے تھے مگر یہاں انھیں ٹھکانہ ملا تو جے جے اسپتال پر آرکیڈیا بلنڈنگ کے ایک کمرہ میں جو ایک دھان پان سے بزرگ خلیل صاحب کا کمرہ تھا ۔ جاں نثار مدتوں وہیں رہے۔ اسی کمرے میں انھوں نے صفیہ کے محبت بھرے خط پڑھے۔ بستر مرگ سے اپنی چہیتی بیگم کے خط ، جن میں تقاضا ہوتا تھا ، التجا ہوتی تھی کہ تم آجائو اور مجھے موت کے منہ سے نکال لو۔ میں ابھی مرنا نہیں چاہتی ____اسی کمرے میں جاں نثار اختر نے صفیہ کی موت کے بعد ان خطوط کو ترتیب دے کر ’’زیرِ لب‘‘ چھاپی ____پھر کچھ عرصہ بعد اسی کمرے میں گوالیار سے نئی محبوبہ خدیجہ کو بیاہ کر لائے _____جاں نثار اختر مدتوں ساحر لدھیانوی کی پرچھائیں بنے رہے۔ یہ عالم ہوگیا تھا کہ اگر کوئی ان سے کہتا کہ جاں نثار کچھ سنائو ____تو وہ جواب میں کہتے تھے _____’’ ہاں پہلے ساحرؔ سے ان کی تازہ نظم سنو‘‘ ____ جاں نثار نے فلمی گانے بھی لکھے ۔ بہو بیگم فلم بھی بنائی ____مگر دولت مند کبھی نہ بن سکے ___ بس اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے۔ ترقی کرکے آرکیڈیا بلڈنگ کے کمرے سے باندرہ کرایے کے فلیٹ میں چلے گئے تھے اور بس ‘ ہاں آخری عمر میں ان کی شاعری پر جوانی آگئی تھی اور انھوں نے وہ قرض چکا دیا جو اردو شاعری کا ان کے سر تھا۔
ذکر تھا انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں کا اور درمیان میں آگئے کچھاحباب ۔ اب انجمن کے جلسوں کی مستقل جگہ ۹۶؍ والکیشور روڈ ختم ہوگئی تھی اور کچھ دن ہمارے جلسے اوپیرا ہائوس پر دیودھر اسکول آف میوزک کے ہال میں ہوئے۔ ملک کے حالات کروٹیں بدل رہے تھے اور حکومت وقت کی تنقید ترقی پسندی کا منصب قرار پایا تھا اور اسی مناسبت سے ترقی پسند ادیبوں پر حکومت کی کڑی نظر تھی۔ نشستوں میں اور پبلک جلسوں اور مشاعروں میں گرم نظمیں اور دھواں دھار تقریریں ہونے لگیں اور نوبت سربرآوردہ ادیبوں کی گرفتاریوں تک پہنچی۔ بلاسس روڈ پر پروفیسر سامری کے مشاعرے میں لائوڈ اسپیکر کے اوقات کے خلاف ورزی کرنے کے جرم میں نیاز حیدر اور مجروح سلطان پوری کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوگئے۔ نیاز تو جلد ہی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے مگر مجروح سات آٹھ ماہ تک روپوش رہے۔ لیکن ایک دن مستان تالاب کے مشاعرے میں مجروح شریک ہوئے ۔ مطلع پڑھا:
مجھے سہل ہوگئیں منزلیں کہ قدم کے خار نکل گئے
ترا ہتھ ہاتھ میں آگیا تو چراغ راہ میں جل گئے
اور جب مشاعرہ ختم ہوا تو خفیہ پولیس کے انسپکٹر نے مجروح کا ہاتھ پکڑ کر کہا:
ترا ہاتھ ہاتھ میں آگیا تو چراغ راہ میں جل گئے
مجروح کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور اس وقت وہ مالی دشواریوں کا شکار تھے ۔اس نازک وقت میں راجندر سنگھ بیدی نے مجروح سے حق دوستی نبھایا اور سات آٹھ مہینے ، جتنے دن مجروح جیل میں رہے بیدی نے کفالت کی۔
تھوڑے دن بعد سردار جعفری کو پولیس ان کے گھر سے پکڑ لے گئی اور وہ کئی ماہ آرتھر روڈ جیل میں رہے۔ سردار نے پتھر کی دیوار والی اکثر نظمیں اسی جیل میں لکھی ہیں جن میں ذاتی غم اور یادوں کی چاشنی ہے۔
ظ۔ انصاری اور بلراج ساہنی بھی گرفتار ہوگئے مگر کچھ دن بعد سنا کہ یہ دونوں انقلابی جیل میں جاکر اس قدر صلح پسند ہوگئے کہ ’’مشروط‘‘ طور پر رہا کردیے گئے۔ مگر رہائی کے بعد ان دونوں کے رخ بدل گئے۔ بلراج ساہنی نے تو ’’اپٹا‘‘ کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی کرکے فلمی لائن اختیار کرلی۔ فلم ’’ہم لوگ‘‘ میں بہت عمدہ رول ادا کیا اور اداکاری کی اعلیٰ منزلیں طے کرنے لگے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب انھوں نے تھیٹر کا شوق پورا کرنے کے لیے اپنے مکان پر ہی ’’جوہو آرٹ تھیٹر‘‘ بنیاد ڈالی جو شاید اب تک چلتا ہے۔
ظ۔ انصاری جو کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ ممبر تھے ، اب پارٹی کی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں بھی ان کا گزر نہیں تھا۔ اب وہ ’’انقلاب‘‘ اخبار کے ادارہ سے وابستہ ہوگئے اور کچھ ادھر ادھر کے کام کرتے نظر آئے جیسے کسی سرمایہ دار کو ٹیوشن پڑھانا وغیرہ وغیرہ۔
ظ۔ انصاری نے ادھر ادھر پیر مارنے شروع کیے۔انھیںدنوں ان کے انشائیوں کی کتاب چھپی ’’ورق ورق‘‘ وہ شمع والے حافظ محمد یوسف کے ہفتہ وار اخبار ’’آئینہ‘‘ کی ادارت کرنے دلی آگئے۔ اور وہاں سے ماسکو پرواز کی۔ بہر حال بمبئی ان سے اور وہ بمبئی سے چھوٹ گئے، ایک لمبے عرصے کے لیے ۔اب تو ظ۔ انصاری پھر بمبئی آگئے مگر ان کے مشاغل اب دوسرے ہیں۔ اب تو وہ خیر سے پروفیسر ظ۔ انصاری ہیں اور بمبئی یونیورسٹی کے قابل ذکر استاد۔
ادیبوں اور شاعروں کی گرفتاریوں سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا تھا اور عوام میں جوش و خروش کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی تھی۔ اس امر کا سب سے شاندار مظاہرہ سردار جعفری کی گرفتاری کے موقع پر ہوا۔ انجمن کی ہنگامی میٹنگ ہوئی۔ رمیش سنہا نے کہا کہ ’’ سردار جعفری رہائی تحریک ‘‘ چلائی جائے۔ شاہد لطیف نے ایک چھوٹا سا تاثراتی مضمون پڑھا جس کا ایک جملہ اب تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔ آج ایسا لگتا ہے کہ کرشن چندر سردار جعفری کے بغیر یتیم ہوگئے ہیں۔ دراصل اس زمانے میں ہم لوگ خوش فہمی کے شکار تھے کہ انقلاب اب آیا ۔ سب یہی سوچتے تھے کہ :
اب اجالے مری دیوار تک آپہنچے ہیں
سردار کی غیر موجودگی میں انجمن کی کمان کیفی اعظمی نے سنبھالی۔ پہلے وہ صرف نظمیں پڑھتے تھے۔ اب جلسوں میں تقریر کرنے لگے۔ کیفی کی مقبولیت اتنی بڑھ گئی کہ جب سردار جعفری جیل سے چھوٹ کر آئے تو انھیں دوبارہ اپنے مقام پر کھڑے ہونے میں جد و جہد کرنی پڑی
انجمن کے دیودھر اسکول کے جلسوں میں میراجی بھی اکثر آتے تھے۔ وشوا متر عادل جو لاہور، اور اس کے بعد میراجی کے نقش قدم پر چلنے والے شاعروں میں سے تھے اب یکسر بدل گئے تھے اور اچھی خاصی علامتی شاعری کو چھوڑ کر دو اور دو چار کی شاعری کرنے لگے تھے اور وقتی واہ واہ کے پیچھے بھاگنے لگے تھے۔ ان کی اس ’’تالیف قلب‘‘ میں اپٹا کی ایک کلاکار سے دوستی کا بھی ہاتھ تھا اور سننے میں آیاتھا کہ در اصل میراجی اور وشوا متر عادل میں معاصرانہ نہیں ، رقیبانہ چشمک شروع ہوگئی تھی۔ بہر حال حقیقت کچھ ہو، عادل گھٹیا شاعری کرنے لگے اور آہستہ آہستہ شاعری کے اسٹیج سے دور چلے گئے۔
دیودھر ہال میں ہی وہ جلسہ ہوا جس میں عصمت چغتائی نے قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا خاکہ اڑایا تھا اور ’’پوم پوم ڈارلنگ‘‘ کے عنوان سے عینی کے فن اور ان کی افسانہ نگاری کو نشانۂ ملامت بنایا تھا اور سب ترقی پسندوں نے بغلیں بجائی تھیں۔ عصمت کے اس مضمون کی بہت دنوں تک دھوم رہی تھی۔
دیودھر ہال میں ہی انجمن ترقی پسند مصنفین کا وہ جلسہ جس میں خواجہ احمد عباس کی خبر لی گئی ، انھیں رجعت پسند کہا گیا تھا اور جب سب کی سننے کے بعد خواجہ صاحب نے جوابی تقریر میں کہا تھا : ’’ ساتھیو ! اپنے ضمیر میں جھانک کر دیکھو کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو ٹھیک ہے۔‘‘تو گیت کار شیلندر نے کہا تھا کہ ضمیر کو دیکھنے کے لیے کون سی سرچ لائٹ ہوتی ہے، ہمیں نہیں معلوم اور رمیش سنہا نے کہا تھا کہ جب عباس ہمیں ’’ساتھیو !‘‘ کہہ کر خطاب کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس ریاست کا وزیر اعلیٰ ہم سے مخاطب ہے۔ (یعنی ہم عباس کو اپنا ساتھی ماننے کو تیار نہیں ہیں)۔
دیودھر اسکول کے بعد صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ میں ، جی پی او کے سامنے کوٹھاری مینشن میں اور آخر آخر میں کمیونسٹ پارٹی کے کمیون کے ہال میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے ہفتہ وار جلسے ہوتے رہے۔ حاضری کبھی کم ہوتی تھی ، کبھی زیادہ۔ بعض بعض ہفتے چار پانچ آدمی ہی آئے مگر جلسہ ضرور ہوا۔ لیکن اس باقاعدگی کے باوجود انجمن دن بہ دن بے روح ہوتی جارہی تھی۔ تازہ تخلیقات پر تنقید میں وہ ادبی دیانت داری اور مخلصانہ رویہ مفقود ہوتا جارہا تھا جو کبھی انجمن کا طرۂ امتیاز تھا۔ اب یا تو نظرانداز کرنے کی توہین آمیز پالیسی پر عمل کیا جاتا، یا لٹھ مار تنقید کی جاتی تھی۔ کچھ جلسے بڑے معرکتہ الآرا ہوئے جن کی تلخ و شیریں یادیں اور تاثرات ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔
اختر الایمان ، میراجی ، مدھو سودن اور ظ۔ انصاری ، ان چار ادیبوں کی ادارت میں ایک ماہانہ رسالہ ’’خیال‘‘ نکلا۔ خالص ادبی اور معیاری رسالہ ادھر ’’نیاادب‘‘ نکل رہا تھا جس پر کمیونسٹ پارٹی کے نظریات کا غلبہ تھا اور معیاری اور دار و رسن کا بازار گرم تھا۔ جس پرچے کے ایڈیٹر میراجی ؔ ہوں اس میں جنسیات زدہ ادب کا نہ چھپنا تعجبات میں سے ہے ۔’’خیال‘‘ ہمہ رنگ ادبی رسالہ تھا۔ اور اس میں سیاسیات کا گزر نہیں تھا۔ پرچے کی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی جو ’’نیاادب‘‘ کی ساکھ پر اثر انداز ہوسکتی تھی چنانچہ دار و رسن والے خدائی فوجدار بن کر میدان میں نکل آئے۔ بمبئی جیسے لاکھوں کی آبادی والے شہر میں مٹھی بھر اردو کے ادیب و شاعر تھے۔ صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں حشر برپا ہوا اور سب اپنے اپنے اعمال نامے لے کر حاضر ہوگئے۔ جلسہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا ۔ صدارت علی سردار جعفری کی ، مدعی بھی وہی ۔ سردار نے حوالے کے لیے میز پر کتابوں اور رسالوں کا ڈھیر رکھا اور مجھے پرانے زمانے کے مذہبی مناظروں کا منظر یاد آگیا۔ اور بجائے اس کے کہ صدر آخر میں بولے ، صدر صاحب بحیثیت علی سردار جعفری کے شروع ہی میں شعلہ زن ہوگئے اور حسب معمول دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ ’’خیال‘‘ ترقی پسند نظریات کا حامل نہیں ہے اور کہا کہ کسی بھی ترقی پسند ادیب کو ’’خیال‘‘ میں نہیں لکھنا چاہیے۔ اہل محفل کا خیال تھا کہ سردار کی تقریر حرفِ آخر ہے۔ اب کون بول سکتا ہے اس شعلہ بیان کے آگے۔ مگر ایک صاحب ہیں جو طالب علمی کے زمانے سے ہی سردار کے مقابلے میں اسٹیج پر بولتے رہے ہیں اور سردار کی طرح ان کی گاڑی سیدھی سپاٹ ایک رفتار سے نہیں چلتی ، بلکہ وہ اپنی تقریر میں زیر و بم اور مد و جزر کی کیفیت پیدا کرنے پر قادر ہیں اور سامعین کواپنے ساتھ بہا لے جانا اس مقرر کی خصوصیت ہے اور وہ صاحب ہیں اختر الایمان ۔ اختر نے نرم لہجے میں تقریر شروع کی۔ ’’ صاحب صدر بڑی تیزی میں گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ اور اختر نے جملہ اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ادب پر پارٹی ڈسپلن عاید ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ ایک ہی ایسی بات ہے جس کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے منشور میں بھی کہیں نہیں ہے کہ انجمن کمیونسٹ پارٹی کے مقرر کردہ اصولوں پر چلے گی۔ بلکہ لفظی طور پر اس مفروضے کی نفی کی جاتی رہی ہے۔ یہ ادیب کاذاتی معاملہ ہے کہ وہ کیا سیاسی خیالات رکھتا ہے چونکہ خواجہ احمد عباس پہلے بھگت چکے تھے اس لیے آج وہ اختر الایمان کے ساتھ تھے ۔ انھوں نے بھی عمدہ تقریر کی اور کچھ لوگ ادھر ادھر سے بولے۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔ کرسی صدارت کے فیصلے کے مطابق تمام ہندوستان میں انجمن کی شاخوں کو سرکلر بھیج دیے گئے تھے کہ’’ خیال‘‘ کے لیے کوئی نہ لکھے اور اختر الایمان نے اس کے بعد بہت دلچسپ بات کہی کہ میں آج سے اپنا نام اختر الایمان رجعت پرست لکھا کروں گا۔ دیکھیں میرا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اختر نے تو یہ بات محض تفریحاً کہی تھی مگر واقعہ یہ ہے کہ وقت نے ثابت کردیا کہ یوں عدالتیں قائم کرکے ادب نہیں پیدا کیا جاسکتا اور ادب اور ادیب پر آسانی سے لیبل لگانا اپنی کور ذوقی کا مظاہرہ ہے۔ ڈنڈے کے زور سے نہ کبھی ادب تخلیق ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اختر الایمان میں غضب کی خود اعتمادی ہے ۔ وہ کسی بھی جعفریانہ پروپیگنڈے سے مرعوب نہیں ہوئے اور اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں لکھتے رہے اور بیرونی اثرات کے باعث اپنا شعری رویہ نہیں بدلا۔ اور ان کا ادبی مرتبہ وقت کے ساتھ بلند ہوتا گیا۔
کوٹھاری مینشن میں بھی بعض یادگاری نشستیں ہوئیں۔ دو نشستوں کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں اور انجمن کے مخصوص ماحول کو سمجھنے کے لیے یہ ذکر ضروری بھی ہے۔
ساحر لدھیانوی ویسے بے پروا اور بے نیاز قسم کے انسان نظر آتے ہیں ، مگر اپنے معاملات میں وہ بہت محتاط اور سنجیدہ تھے اور جب کوئی پروگرام ترتیب دیتے تھے تو اس کی کامیابی کے لیے جملہ پہلوئوں پر غور کرتے تھے اور ضروری ہوا تو ہر طرح کی پیش بندی کرتے تھے۔ میرے خیال میں ان کی اسی خصوصیت نے انھیں فلموں میں بھی اس قدر کامیاب کیا۔ ساحر اور کیفی اعظمی میں بہت پرانی دوستی تھی۔ اس قدر کہ حیدر آباد کانفرنس سے لوٹنے کے بعد ساحر نے اپنی ایک نظم کیفی اعظمی کے نام منسوب کی تھی ۔اس نظم کا پہلا مصرع ہے:
اب تک میرے گیتوں میں امید بھی تھی پسپائی بھی
ان دونوں دوستوں میں کسی بات پر اختلاف ہوگیا۔ کوئی ادبی مسئلہ نہ تھا بلکہ قطعاً ذاتی اور رومانی قسم کی بات تھی مگر ایسا اکثر ہوا ہے کہ یارلوگوں نے ذاتی رنجشوں کو ادب کے اسٹیج پر لاکر زور آزمائی کی اور نتیجہ کے طور پر ادبی تحریک پر منفی اثر پڑا۔ چنانچہ اس موقع پر بھی ساحر لدھیانوی بے حد جذباتی ہوگئے اور نھوں نے منصوبہ بند طریقے سے نجی محفلوں میں کیفی کی شاعری کی برائی کرنی شروع کی اور اس کے خلاف لابی تیار کی۔ اور جب فضا سازگار ہوگئی تو ساحر نے کیفی اعظمی کی شاعری پر ایک مضمون انجمن کے جلسے میں پڑھا جس کا پروپیگنڈا شد و مد سے کیا گیا تھا اور ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سردار جعفری جلسے کی صدارت کررہے تھے۔ کیفی اور ان کی بیگم بھی جلسے میں موجود تھے۔ ساحر نے مضمون پڑھا جس میں کیفی کی شاعری کے معائب ہی کو اجاگر کیا گیا تھا، اور ہرزاویے سے نقائص ہی نقائص تلاش کیے گئے تھے اور نفسِ مضمون یہ تھا کہ اول تو کیفی شاعر ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو گھٹیا درجے کا۔ ساحر مع اپنے مخصوص احباب کے جلسے میں تشریف لائے تھے اس لیے اہل محفل نے مجموعی طور پر مضمون پر واہ واہ کی۔ کچھ بحث ہوئی مگر مجمع کا موڈ ہی کچھ اور تھا۔ آج سب کو کیفی کی شاعری میں صرف خامیاں ہی خامیاں نظر آرہی تھیں۔ صاحبِ صدر نے حسب معمول جوشیلی تقریر کی مگر وہ بھی ساحر کے مضمون کا طلسم پوری طرح نہ توڑ سکے۔ سردار نے جب ادب لطیف اور سویرا کی ان تحریروں کا حوالہ دیا جس میں ساحر نے بحیثیت ایڈیٹر کے کیفی کی تعریف میں اپنا زور قلم صرف کیا تھا تو ساحر نے برجستہ کہا کہ وہ میرے کمرشیل نوٹ تھے، ناقدانہ رائے نہیں تھی۔ غرض ساحر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ کیفی جلسے کے آخر تک موجود رہے مگر انھوں نے ایک لفظ بھی اپنی صفائی میں نہیں کہا۔ ان کی گمبھیر خاموشی کا مطلب تھا : ’’بکتے رہو ، میرا کیا بگاڑ سکتے ہو؟‘‘
سردار جعفری بہت بھنّائے اور انھوں نے پی ڈبلو اے کی اگلی میٹنگ میں ایک جوابی مضمون ساحر لدھیانوی کی شاعری کے بارے میں پڑھا۔ اس میں بھی یک رخا پن تھا ۔ سردار نے ساحر کی مشہور نظم ’’تاج محل‘‘ پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اس نظم میں ہندوستان کے تہذیبی ورثے اور تاریخی عظمت کا مذاق اڑایا گیا ہے اور یہ رویہ نہایت رجعت پرستانہ ہے اور یہ نظم نہایت کمتر درجے کی ہے۔ ساحر کی اور نظموں کی بھی اسی طرح درگت بنائی ۔
جب مضمون ختم ہوگیا تو ساحر لدھیانوی بہت اطمیان سے اپنی جگہ سے اٹھے اور پورے قد کے ساتھ اٹھ کر کہا :’’ اس مضمون سے آپ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ساحر لدھیانوی گھٹیا شاعر ہے ، مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ کیفی اعظمی اچھا شاعر ہے۔‘‘
ساحر کے اس ایک ہی جملے نے سردار کے مضمون کا اثر زائل کردیا اور سردار کی بدنیت کو واضح کردیا۔
بمبئی صفِ اول کے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کا مرکز تھا مگر ان سربرآوردہ ادیبوں کی اس طرح کی چشمکوں نے انجمن کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا اور آہستہ آہستہ عوام کے دلوں میں اس کی وقعت کم ہونے لگی، کیونکہ انجمن کوئی جامد شے نہیں ہے بلکہ افراد کے اجتماع اور ان کے عمل کا نام ہے۔ مختلف ادیبوں کی شعوری ہم آہنگی سے انجمن کو فروغ حاصل ہوا تھا اور اس کے فقدان سے انجمن ترقی پسند مصنفین کا شیرازہ بکھرنے لگا ۔ جس انجمن کے پلیٹ فارم سے تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے بھرپور جد و جہد کی گئی تھی اور ’’پانی کا درخت‘‘ اور ’’کالو بھنگی‘‘ جیسے افسانے اور ’’نیلا پرچم‘‘ اور ’’ابن مریم‘‘ جیسی نظمیں اردو کو دی تھیں اس کی صفوں میں انتشار پیدا ہوا تو سب اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ گانے بجانے لگے۔ جس کا جدھر منہ اٹھا چل دیا اور اپنا اپنا کیریئر تلاش کرنے کوئی فلم کی طرف گیا ، کوئی روس اڑا ، کوئی چین:
کھاکے لندن کی ہوا عیش وطن بھول گئے
٭٭٭

مشمولہ : ’’ترقی پسند تحریک اور ممبئی‘‘ از: پروفیسر صاحب علی ۔۔۔۔۔ تلخیص : ڈاکٹر قمر صدیقی