Muqadma E Hali Aur Ghalib Shanasi

Articles

مقدمۂ حالی اور غالب شناسی

پروفیسر یونس اگاسکر

حالی نے ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ میں ’شاعری کے لیے کیا کیا شرطیں ضروری ہیں‘ کے زیر عنوان سب سے پہلے تخیل کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس شاعر میں قوت متخیلہ اعلا درجے کی ہوگی، اس کی شاعری اعلا درجے کی ہوگی۔ اپنی قوتِ متخیلہ کے زور پر شاعر جو نتیجے نکالتا ہے، وہ منطق کے قاعدوں پر منطبق نہیں ہوتے لیکن جب دل اپنی معمولی حالت سے قدرے بلند ہو جاتا ہے تو وہ بالکل درست معلوم ہوتے ہیں۔
اپنی بات میں تیقن پیدا کرنے کے لیے حالی نے فیضی کے درجِ ذیل فارسی شعر کی مثال دی ہے:
سخت است سیاہیِ شبِ من
لختے ز شب است کوکبِ من
(یعنی میری رات اتنی زیادہ تاریک ہے کہ میری قسمت کا ستارہ بھی اس رات ہی کا ایک ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔)
اس شعر کی توجیہہ میں حالی فرماتے ہیں:
’’رات کی تاریکی سب کے لیے یکساں ہوتی ہے، پھر ایک خاص شخص کی رات سب سے تاریک کیوں کر ہوسکتی ہے؟ اور تمام کواکب ایسے اجرام ہیں جن کا وجود بغیر روشنی کے تصور میں نہیں آسکتا۔ پھر ایک کوکب ایسا سیاہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسے کالی رات کا ایک ٹکڑا کہا جا سکے۔ مگر جس عالم میں شاعر اپنے تئیں دکھانا چاہتا ہے وہاں یہ سب ناممکن باتیں ممکن بلکہ موجود نظر آتی ہیں۔‘‘
عرض کرنا چاہوں گا کہ فیضی کے مذکورہ شعر کی روشنی میں حالی کی راے کو جوں کا توں تسلیم کرنے میں تردّد ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو حالی نے بھی تسلیم کیا ہے کہ تخیل کی ڈور مشاہدات و تجربات سے بندھی ہوتی ہے۔ چناں چہ قوتِ متخیلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجربے یا مشاہدے کے ذریعے سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے، یہ اس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے اور پھر اس کو الفاظ کے ایسے دل کش پیراے میں جلوہ گر کرتی ہے جو معمولی پیرایوں سے بالکل یا کسی قدر الگ ہوتا ہے۔‘‘
اس توضیح کی روشنی میں فیضی کا شعر ایک بار پھر ملاحظہ کیجیے:
سخت است سیاہیِ شبِ من
لختے ز شب است کوکبِ من
اوّل تو یہ شعر فیضی کے احوال سے میل نہیں کھاتا کہ اسے ’’جس عالم میں شاعر اپنے تئیں دکھانا چاہتا ہے وہاں یہ سب ناممکن باتیں ممکن بلکہ موجود نظر آتی ہیں، کے ذیل میں رکھا جاسکے۔ دوسرے یہ کہ اس شعر میں تجربے یا مشاہدے سے زیادہ فارسی اور اُردو شاعری میں مروّج تاریکیِ شب کے تصور کو بنیاد بنا کر محض مبالغے کی مدد سے بات کو دل چسپ بنانے کی کوشش کی گئی ہے جسے معمولی پیرایوں سے الگ پیرایہ سمجھنا بھی محال ہے۔
اس شعر کے مقابلے میں غالب کا یہ شعر جسے حالی نے قابل اعتنا نہیں سمجھا ہے، حالی کے موقف کی بھرپور کفایت کرتا ہے کہ اس میں مشاہدے کے توسط سے حاصل کردہ ذخیرۂ معلومات کو دل کش اور منفرد پیرایے میں اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ دل و دماغ دونوں کے لیے تسکین و راحت کا سامان مہیا ہو جاتا ہے:
کیا کہوں تاریکیِ زندانِ غم، اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں
غالب کے ہاں منطقی ربط بھی ہے کیوں کہ زنداں کے روزنوں میں روئی کے گالے ٹھنسے ہونے سے روشنی کے دُخول کا امکان ہی نہیں رہا۔ چناں چہ ایک گہری تاریکی کا عالم ہے جس میں سفید روئی کے گالوں پر سپیدۂ سحر کا گمان ہونا قطعی فطری تاثر ہے۔ اس کے علاوہ ’اندھیر ہے‘ کے فقرے میں لفظی رعایت کے باوجود بیان کی دل کشی پائی جاتی ہے کہ یہ ٹکڑا متکلم کی بے بسی و ناامیدی کا اشاریہ بھی ہے۔
شاعری کے لیے دوسری شرط حالی نے ’کائنات کا مطالعہ‘ بتائی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’اگر چہ قوتِ متخیلہ اس حالت میں بھی جب کہ شاعر کی معلومات کا دایرہ تنگ اور محدود ہو، اس معمولی ذخیرے سے کچھ نہ کچھ نتائج نکال سکتی ہے ۔ لیکن شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نسخۂ کائنات اور اس میں سے خاص کر نسخۂ فطرتِ انسانی کا مطالعہ نہایت غور سے کیا جائے۔‘‘
اس شرط کی تکمیل کی مثال کے طور پر حالی نے غالب کا ایک اُردو اور ایک فارسی شعر پیش کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
بوے گل ، نالۂ دل ، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
بگذر ز سعادت و نحوست کہ مرا
ناہید بہ غمزہ کشت و مریخ و بقہر
عرض کرنا چاہوں گا کہ غالب کے ان دو شعروں کے مضمون اور انداز پیشکش میں کائنات یا فطرت انسانی کے مطالعے سے زیادہ تخیل کی مدد سے اپنے تجربے اور مشاہدے کو شعر میں ایک نئی ترتیب اور نئی صورت میں پیش کر کے اپنا پسندیدہ نتیجہ اخذ کرنے کی سعی نظر آتی ہے۔
شاعر کو پتا ہے کہ بوے گل ، نالۂ دل اور دودِ چراغِ محفل ان تینوں میں بکھرنے یا پریشان ہونے کی صفت مشترک ہے۔ لیکن وہ اسے معشوق کی بزم طرب سے ناکام و نامراد لوٹنے کا نتیجہ بتاتا ہے ۔ یعنی ایک عمومی مشاہدے کو ایک خصوصی صورت حال سے جوڑتا ہے۔ بوے گل اور دودِ چراغ محفل کی مثال کو اپنے نالۂ دل کے ساتھ شامل کر کے معشوق کی بے اعتنائی و بے رخی کو جو فارسی و اُردو کی غزلیہ شاعری کے مسلمات میں شامل ہے، مزید اجاگر کرتا ہے۔ میرے نزدیک اس شعر کو مطالعۂ کاینات کے ذیل میں رکھنا دشوار ہے۔
غالب نے اپنے فارسی شعر میں عام تصور کے مطابق سعادت و نحوست کے حامل ستاروں ناہید یعنی زہرہ و مریخ دونوں کو اپنے لیے ناموافق و ناسازگار بتایا ہے کیوں کہ قسامِ ازل نے اس کی تقدیر میں صعوبت و کلفت لکھ دی ہے۔ ایسے میں ناہید کاغمزہ بھی وہی کام کرتا ہے جو مریخ کے قہر سے وابستہ سمجھا جاتا ہے ۔ کیوں کہ بربادی و ستم رانی کا شکار ہونا تو متکلّم کا مقدر ہے۔
غالب نے اپنے ایک اُردو شعر میں اسی خیال کو دوسرے لفظوں میں اس طرح باندھا ہے:
میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی
لکھ دیا من جملۂ اسبابِ ویرانی مجھے
حالی نے مطالعۂ کائنات کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے شاعر کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ کائنات میں گہری نظر سے ان خواص و کیفیات کا مطالعہ کرنے کے بعد جو عام آنکھوں سے مخفی ہوں، مشق و مہارت سے مختلف چیزوں میں متحد اور متحد چیزوں سے مختلف خاصیتیں اخذ کر کے انھیں اشعار میں ڈھالے۔ غالب کے مذکورۂ بالا دونوں شعروں سے اس شرط کی تکمیل ہوتی نظر نہیں آتی کیوں کہ ان میں عام آنکھوں سے مخفی خواص و کیفیات کی بجائے معلوم حقایق اور فرد کے ذاتی تاثرات جھلکتے ہیں۔
حالی نے میر ممنون کا یہ شعر متحد اشیا سے مختلف خاصیتیں استنباط کرنے کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے:
تفاوت قامتِ یارو قیامت میں ہے کیا ممنوں
وہی فتنہ ہے لیکن یاں زرا سانچے میں ڈھلتا ہے
یعنی قامت معشوق اور قیامت دونوں فتنہ ہونے میں تو متحد ہیں مگر فرق یہ ہے کہ فتنۂ قیامت سانچے میں ڈھلا ہوا نہیں ہے۔
عرض ہے کہ میر ممنون نے قامت یار کے مسلمہ تصور کو قیامت سے متعلق عقیدے سے جوڑ کر قامت یار کو سانچے میں ڈھلا ہونے کے سبب نہایت قابل قبول و لایق ستایش بتایا ہے۔ زور تخیل اور حسن بیان کے حامل اس دل کش شعر کو مطالعۂ کائنات کی بحث میں شامل کرنا، موزوں نہیں معلوم ہوتا۔ اس شعر کو معشوق کی صفات کی تحسین سے متعلق گفتگو میں شامل کرنا چاہیے۔
مقدمے کے نصفِ دوم میں حالی نے غزل، قصیدہ اور مثنوی پر بہ تفصیل گفتگو کی ہے اور ان تینوں اصنافِ سخن کی خوبیوں اور خامیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے متقدمین و متاخرین شعرا کے تخلیقی کارناموں کا بھی تنقیدی محاسبہ کیا ہے۔ اس مضمون میں غالب کے غزلیہ اشعار پر حالی کے تنقیدی کلمات سے متعلق گفتگو کرنی مقصود ہے۔ متقدمین کے ذریعے غزل میں باندھے گئے مضامین کو متاخرین شعرا نے کس طرح اپنایا اور ان میں کیا اضافے کیے، اس پر بحث کرتے ہوئے حالی نے شفائی صفاہانی کا ایک شعر نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غالب نے اسی شعر سے قصداًیا بلا قصد خیال اخذ کیا ہے اور بہ قول حالی
’’اس مضمون کو اصل خیال کے باندھنے والے سے بالکل چھین لیا ہے۔‘‘

فارسی کا شعر ملاحظہ کیجیے:
مشاطہ را بگو کہ بر اسبابِ حسنِ دوست
چیزے فزوں کند کہ تماشا بہ ما رسید
یعنی ہماری پسند کے لیے معشوق کا روز مرہ کا سامانِ آرایش کافی نہیں ہے، مشاطہ کو چاہیے کہ اس میں کچھ اور اضافہ کرے کہ اس کا نظارہ کرنے کی نوبت ہم تک آپہنچی ہے۔ حالی نے غالب کو اس بات کا کریڈٹ دیتے ہوئے کہ انھوں نے اس مضمون کو بہت بلندی عطا کی ہے، نواب تجمل حسین خاں والیِ باندہ کی مدح میں کہے گئے اس شعر کو نقل کیا ہے:
زمانہ عہد میں ہے اس کے محو آرایش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے
حالی نے اس شعر کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے :
مرزا نے ممدوح کو ایک ایسے کمال کے ساتھ متصف کیا ہے جو تمام کمالات کی جڑ ہے۔ یعنی وہ ہر چیز کو کامل تر اور افضل تر حالت میں دیکھنا چاہتا ہے اس لیے ہر شئے اپنے تئیں کامل تر حالت میں اس کو دکھانا چاہتی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگر یہی حال ہے تو شاید آسمان کی زیب و زینت کے لیے اور ستارے پیدا کیے جائیں گے۔‘‘
ہمیں حالی کی شرح پڑھ کر ان کی سخن فہمی اور ذہنی رسائی پر ایمان لانا ہی پڑتا ہے۔ مگر غالب کو شفائی صفا ہانی کا خوشہ چیں بتانے پر سخت حیرت بھی ہوتی ہے۔کیوں کہ شفائی کا مضمون غالب کے مضمون سے کم تر ہی نہیں مختلف بھی ہے۔ شفائی نے اپنے ذاتی معیار حسن کی تعریف کی ہے جب کہ غالب اپنے ممدوح کی اعلا ظرفی و تکمیل پسندی کی مدح کر رہے ہیں۔ معشوقِ ازلی کے سجنے سنورنے کا مضمون بھی نیا نہیں ہے۔ اور اس کے لیے اسے کسی مشاطہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خود غالب کے ہاں اس کی گونج سماعت فرمائیں۔ غالب کہتے ہیں:
آرایشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دایم نقاب میں
شفائی نے مشاطہ کا ذکر کر کے معشوق ازلی کو معشوق مجازی میں بدل دیا ہے جس سے شعر ادنا درجے کا معلوم ہونے لگا ہے۔ جب کہ زمانے کا نواب تجمل حسین خاں کے لیے محو آرایش ہونا، اس مضمون کو ایک نئی جہت دے رہا ہے۔
غالب کے درج ذیل شعر کے تعلق سے بھی حالی کا کہنا ہے کہ غالب نے عرفی شیرازی کے مضمون کو دوسرے لباس میں جلوہ گر کیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہاے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
حالی کی رائے میں غالب نے عرفی شیرازی کے اس شعر سے اخذِ مضمون کیا ہے:
ہر کس نہ شناسندۂ راز ست وگرنہ
ایں ہا ہمہ راز است کہ معلوم عوام است
حالی کے نزدیک:
’عرفی کا یہ شعر آب زر سے لکھنے کے قابل ہے اور اس جس اسلوب میں کہ یہ خیال اس سے ادا ہوگیا ہے، اب اس سے بہتر اسلوب ہاتھ آنا دشوار ہے۔
اس کے بعد غالب کی وکالت میں کہتے ہیں:
’’مرزا کی جدّت اور تلاش بھی کچھ کم تحسین کے قابل نہیں ہے کہ جس مضمون میں مطلق اضافے کی گنجایش نہ تھی، اس میں ایسا لطیف اضافہ کیا ہے جو باوجود الفاظ کی دل فریبی کے لطفِ معنی سے بھی خالی نہیں ہے۔‘‘
اخیر میں کہتے ہیں:
عرفی کا یہ مطلب ہے کہ جو باتیں عوام کو معلوم ہیں، یہی در حقیقت اسرار ہیں۔ مرزا یہ کہتے ہیں کہ جو چیزیں مانع کشفِ راز معلوم ہوتی ہیں، یہی در حقیقت کاشفِ راز ہیں۔
اب حالی سے یہ کون دریافت کرے کہ حضرت’ جو باتیں عوام کو معلوم ہیں، یہی در حقیقت اسرار ہیں‘ اور ’یہی در حقیقت کاشفِ راز ہیں‘ میں کون سی معنوی مناسبت ہے جس کی بنا پر آپ نے غالب کو عرفی شیرازی کے شعر سے مضمون اُڑا لینے کا مرتکب ٹھہرایا ہے؟
اور یہ بھی کہ جو راز معلوم عوام ہوں وہ بھلا اسرار کیوں کر ٹھہرائے جائیں گے؟
عرفی کے شعر کا معنوی تضاد خود اُن کے شعر کو سبک ٹھہرانے کے لیے کافی ہے۔
اور جہاں تک غالب کے شعر کا سوال ہے اس کا ایک ایک لفظ معنویت سے پر اور پردۂ ساز کی ترکیب غالب کی انفرادیت اوراختراع پسند طبیعت پر دال ہے۔ موسیقی کی اصطلاح میں تاروں والے سازوں میں لگنے والے پیتل کے وہ ٹکڑے جن پر انگلیاں چلا کر یا جنھیں انگلیوں سے دبا کر الگ الگ سُر قایم کرتے ہیں، پردہ کہلاتے ہیں۔ اسی طرح بعض سازوں پر آڑے لگے ہوئے تاروں کو جن پر موسیقار انگلیاں چلا کر راگ یا سر نکالتا ہے، پردہ کہا جاتا ہے۔
غالب نے نہ صرف محرم، نواہاے راز، حجاب اور پردۂ ساز کی لفظی مناسبت سے بیان میں دل کشی پیدا کی ہے بلکہ معنوی اعتبار سے بھی شعر کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں طائرِ خیال کے پر جلنے لگتے ہیں۔
اخیر میں عرض کردوں کہ غالب نے موسیقی کی اصطلاحوں خصوصاً پردۂ ساز کی ترکیب کو ایک سے زیادہ بار استعمال کیا ہے اور ہر جگہ اپنی انفردیت کی چھاپ ڈالی ہے:
غالب کا یہ مشہور شعر کس نے نہیں سنا ہوگا
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
اب دو کم معروف شعر بھی سن لیجیے:
جاں مطربِ ترانۂ ہل من مزید ہے
لب پردہ سنجِ زمزمۂ الاماں نہیں
فریاد اسد غفلتِ رسوائی دل سے
کس پر دے میں فریاد کی آہنگ نکالوں

٭٭٭