My Village is me the best

Articles

میرا گاؤں مجھے سب سے پیارا لگے

انظر حسین کرھی

 

دوستو: ابھی بھی گاؤں کے موسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی دن میں وہی جون ماہ والی گرمی سورج میں وہی تمازت ہوا میں وہی حرارت لیکن شام ڈھلے سرمئی شام کے بیچ سورج کے ڈوبنے کا دلفریب انداز نہر کے پانی کا زردی مائل ہوجانا اور درخت پر انگارے جیسی شعاعیں بکھیرنا یہ خوبصورتی صرف گاؤں کو ہی میسر ہو سکتی ہے ۔ اس لئے یہ مقولہ عام ہے کہ دیہات کو خدا نے بنایا ہے اور شہر کو انسان نے
میرا تعلق جس علاقے سے ہے یہ علاقہ مردم خیز ہے یہاں کے لوگوں کا اکثر پیشہ زراعت ہے اور اس علاقے کا شمار ترقی یا یفتہ علاقوں میں ہوتا ہے ۔ یہاں پہلے کے مقابلے اسکولوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جگہ جگہ پرائیویٹ نرسری اور کالج اور اسکولوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔ لیکن پھر بھی یہ علاقہ تعلیمی میدان میں اب بھی دوسرے علاقوں سے بہت پیچھے ہے میرے بلاک میں ایک سو سے بھی زیادہ گرام پنچایت ہیں میری خواہش ہے کہ میں ہر گرام پنچایت میں پہنچوں اور وہاں کے حالات سے آپ سبکو بھی رو شناس کراؤں اور یہ بھی بتاؤں کہ کس گرام پنچایت میں ترقی کی روشنی کتنی پہنچی ہے جس کا اندازہ اس گاؤں کی سڑک نالے اور صاف اور صفائی سے ہی لگایا جا سکتا ہے لیکن دوستوں ایک بات واضح کردوں میرا مقصد واللہ کسی گاؤں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانے کا ہے اور نہ ہی اس گاؤں کے قائد پر کیچڑ اچھالنے کا ۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ ہر گاؤں کے قائد کی کچھ مجبوریاں بھی رہتی ہونگی اور ہر انسان یکساں ہوتا بھی نہیں کمیاں سب کے اندر ہوتی ہیں ۔ لیکن کوشش اور جد جہد انسان کے زندگی کا حصہ ہے اسے ہمیشہ جاری و ساری رکھنا چاہئے ۔
آج میں نے جن گاؤں کو دیکھنے کا انتخاب کیا وہ بلاک سمریانواں کے شمالی جانب تھے ۔ ان گاؤں میں مجھے سب سے تیز ترقی حاصل کرنے والا گاؤں دیوریا ناصر لگا 10 سال پہلے اس گاؤں میں جانے کے لئے کوئی آسان راستہ نہیں تھا بارش میں اس گاؤں کا تعلق شہر اور بلاک سے منقطع ہوجاتا تھا ۔ مجھے آج بھی یہاں جانے سے پہلے میرے ذہن میں اسی وقت کا تصور تھا ۔ سمرہانواں سے نماز ظہر ادا کرکے اپنی سفری گاڑی کو اس جانب چلنے کا حکم دیا ۔ اور اس بات کا خیال رکھا کہ دیوریاں ناصر جاتے وقت اور بھی گاؤں کی زیارت ہوجائے تو بہتر ہوگا اس لئے راستے کا انتخاب کہریانواں چوراہے سے پہلے بائیں طرف مڑنے والی پکی سڑک کا کیا کیونکہ اس راستے میں۔ کنڑجا ، پرسوہیاں ، مصرولیا ۔ بھی آتا ہے ۔ تقریبا 500 میٹر چلنے کے بعد کنڑجا کا چوراہا گاؤں کے بائیں جانب جو واقع ہے مجھے ملا ۔ اس چوراہے پر چائے کی دوکان زیادہ دیکھنے کو ملی اور ایک سرکاری پن چکی بھی گاؤں گھنے درختوں کی اوٹ میں چھپا تھا گاؤں کے چاروں طرف لمبے اور سایہ دار درخت گاؤں کو اپنی آغوش میں چھپا رکھا تھا جس سے گاؤں اور خوبصورت نظر ارہا تھا دل چاہتا تھا کہ دیکھتا ہی رہوں ۔ لیکن گاڑی کے پہیہ کے ساتھ وقت بھی بہت تیزی سے دوڑ رہا تھا جس بنا پر مجھے بغیر کسی ٹہراؤ کے سفر جاری رکھنا تھا کنڑجا کے حدود سے نکلتے ہی کرما خان کا حدود مل جاتا ہے جبکہ گاؤں آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ کرماں خان جاتا تو وقت زیادہ صرف ہوتا لہذا میں نے اپنی گاڑی کا رخ پرسوہنیا کی طرف موڑدیا اس کے بعد ہی دیوریا تھا مگر میں نے سیدھا دیوریا ناصر جانے کے بجائے مصرولیا کی طرف مڑ گیا مصرولیا اور پرسوہیاں کے کونے پر ایک پرائمری اسکول ہے اور یہیں سے ایک راستہ مصرولیا اور ایک دیوریا ناصر کو جاتا ہے میں نے پہلے مصرولیا دیکھنے کا عزم کیا سڑک بہت زیادہ کج رو کے باوجود عمدہ تھی گاڑی بغیر جنبش اور کھڑکھڑاہٹ کے اپنی فطری رفتار سے دوڑ رہی تھی پہلے اس گاؤں کا نام سنکر کچھ عجیب سا لگتا تھا کہ یہ گاؤں بہت پچھڑا ہوگا اس گاؤں میں گندگی کا انبار ہوگا مکان کچے اور خستہ حال ہونگے لیکن اس گاؤں کو دیکھکر دل خوش ہوگیا گاؤں کے دونوں جانب شہر سے جوڑنے والی پختہ سڑک تھی گندگی کا کوئی نشان نہیں تھا سڑکیں صاف و شفاف اور وسیع تھیں گاؤں والوں نے اپنے گھروں کو بہتر انداز میں تعمیر کیا تھا سڑک کے کنارے جتنے بھی گھر مجھے ملے انکے سامنے زمین خالی ملی پہلے یہ گاؤں کہریانواں گرام سبھا سے ملحق تھا اس گاؤں کا پردھان کہریانواں کا ہوتا تھا لیکن اس گرام سبھا کے انتخاب کے وقت سرکار نے کچھ گاؤں کو گرام سبھا کا درجہ دے دیا تھا اس گاؤں میں کوئی چائے کی دوکان نہ ہونے کی وجہ سے یہاں رکنا اور یہاں کی معلومات لینا میرے لئے مشکل تھا کیونکہ اس گاؤں کے لئے میں اجنبی تھا اور اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اس گاؤں میں داخل ہوا تھا۔ اس لئے بغیر کسی معلومات کے لوٹ گیا اب اگلی منزل میری دیوریا ناصر تھی جس کے دیدار کی غرض سے میں اپنے گھر سے نکلا تھا مصرولیا سے 3 منٹ کی دوری پر دیوریا ناصر تھا ماشاءاللہ اب اس گاؤں کو جانے والی سڑک بھی بن چکی ہے اس گاؤں کو لیکر جیسا میرا تصور تھا سب اس کے عکس نکلا میں نے اب تک جتنے گاؤں دیکھے سب سے تیز رفتار ی سے ترقی کرنے والا گاؤں مجھے یہیں کا محسوس ہوا ۔ سڑک تو بن ہی گئی ہے پہلے گاؤں میں داخل ہوتے ہی آپکے استقبال میں چھپر اورپھوس کی عمارتیں ملتی تھیں ۔ لیکن اب خوبصورت نئے طرز اور شہری نمونے کی کشادہ عمارتیں آپ کے خیر مقدم کے لئے کھڑی ملیں گی۔ اس کو دیکھکر میرے دل میں مزید اس گاؤں کو دیکھنے کا شوق پیدا ہونے لگا اس لئے میں یہاں کے عربیہ مدرسہ کے باب زکریا سے ہوکر سیدھا باہر نکل گیا راستے کے دونوں جانب مجھے نئے مکانات زیر تعمیر نظر آئے جو گاؤں کی خوشحالی کی شہادت دے رہے تھے اور یہاں کے لوگوں کا ذوق تعمیر کا نمونہ پیش کر رہے تھے ۔ میں نے اپنے گاڑی کی رفتار بڑھائی تاکہ کرماخان کا بھی دیدار چلتے چلتے ہوجائے ارادہ تو ڈنڑواں مالی بھی جانے کا تھا یہ گاؤں پرانا ہے مگر ابھی یہ نئے زمانے کی نئے طور طریقوں سے نا آشنا ہے یہ گاؤں دینی اور دنیاوی اعتبار دونوں سے پیچھے ہے بچوں کے تعلیم کا بھی کوئی خاص بند و بست نہیں یہاں دینی تعلیم کی بھی سخت ضرورت ہے ۔ میں چاہ کر بھی اس گاؤں میں نہیں جا سکا کیونکہ راستہ خراب تھا بارش کی وجہ سے ابھی تال میں پانی تھا اس لئے مجھے ملتوی کرنا پڑا ۔ کرماں خان تو راستے میں ہی پڑا تھا مگر راستہ مشکوک تھا اور کوئی رہنمائی کرنے والا بھی نہیں دکھائی دے رہا تھا میں نے گاڑی تھوڑی دیر کے لئے دیوریا ناصر مسلم قبرستان کے پاس کھڑی کردی اور نگاہیں دور تک دوڑانا شروع کردیا کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ مجھے راہ بتانے والا مل جائے خیر کچھ دوری پر مجھے بھینس چرواہے دکھائی دیئے میں نے سرپٹ گاڑی اس طرف دوڑا دی ان سے کرماں خان کا راستہ معلوم کیا اور انکی ہدایت پر چل دیا ایک کلو میٹر چلنے کے بعد مجھے ایک باغ اور اسکے بیچ میں ایک سرکاری اسکول نظر ایا چرواہوں نے یہیں سے مڑنے کی مجھے ہدایت دی تھی
میں انہیں کے نشان پر اپنے داہنی جانب مڑ گیا راستہ اینٹ کا وہ بھی پرانا تعمیر شدہ تھا جگہ سے جگہ ٹوٹا ہوا گاڑی کے ہچکولے کے ساتھ گاؤں میں داخل ہوگیا گاؤں کے اندر انٹر لاکنگ اور نئے طرز کا شہری ماڈل نالا تو بن گیا مگر پھر بھی کام باقی ہے کرما خان کو شہر سے جوڑنے والی سڑکیں اب بھی مخدوش اور کچی ہیں جس کے تعمیر کی سخت ضرورت ہے کیونکہ یہی سڑکیں گاؤں کے ترقی اور دیگر سہولیات کی شہ رگ ہوتی ہیں انہیں راستوں سے گذر کر گاؤں میں ترقی داخل ہوتی ہے اب اس کے دونوں جانب شہر کی سڑکیں ابھی تک کیوں نہیں تعمیر ہوئیں یہ تو اس گاؤں کے سرکردہ افراد بتائیں گے یا اس گاؤں کے مکین ہوسکتا ہے اس کے تعمیری کام میں کوئی رکاوٹ ہو وہ تو وہیں کے لوگ بہتر بتائیں گے میں گاؤں کے پل کے پاس پہنچکر پان کی ٹنکی والے سے اپنے گاؤں کرہی جانے کے لئے سہل راستہ دریافت کیا پان والے نے بڑے ہی خندہ پیشانی سے مجھے میرے گاؤں کو جانے والا نہر کا راستہ بٹایا راستہ پر خطر اور تنگ ضرور ہے مگر میرے گاؤں کی مسافت کو کم کرنے میں بہتر ہے اور مجھے ایسے راستوں کی تلاش رہتی ہے تاکہ قدرت کے کچھ اچھے تخلیقی نمونوں کا دیدار کرسکوں نہر پر چرواہے اور مچھلی کے شکاری مجھے جگہ جگہ ملے اور نہر کی بلندی سے مجھے دور تک کئی اور گاؤں کے حسین منظر دکھائی دیتے رہے گنبد و محراب کے نظاروں سے اللہ کی یاد آتی رہی میں ابھی اپنے مالک و خالق کی حسین تخلیقات میں ایسا محو تھا کہ میرا گاؤں اگیا ۔ لیکن دوستوں گاؤں کوئی بھی ہو لیکن سب ایک جیسے ہوتے ہیں سبزہ زاروں سے زمین ڈھکی ہوتی ہے گھنے درخت کے سائے سے چاند اور سورج کی روشنی چھن چھن کر دھیرے دھیرے زمین پر اترتی ہے بانس اور تارکول کے چومتے درخت ہوا کی ہلکی سے حرکت پر جنبش کرتے رہتے ہیں قدرت کے ہر قسم کے پھل اور سبزیوں سے گاؤں والے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں گاؤں کی زندگی بڑی ہی فرحت بخش ہوتی ہے یہاں کے لوگ خالص غذا کھاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ شہری لوگوں کی نسبت زیادہ توانا اور صحت مند ہوتے ہیں ۔ گاؤں کے لوگ بہت سادہ اور مخلص ہوتے ہیں انکی زندگی میں تکلف بناوٹ ریاکاری مکر و فریب اور دکھاوا نہیں ہوتا وہ خلوص اور صاف دلی کا پیکر ہوتے ہیں اور انکی زندگی میں کوئی ایچ پیچ نہیں ہوتا ۔ گاؤں کے لوگ قناعت پسند ہوتے ہیں وہ طمع لالچ اور حرص سے دور ہوتے ہیں وہ اپنی قسمت پر شاکر و صابر رہتے ہیں اس لئے اطمینان کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ گاؤں کیسا بھی اسکی خوبصورتی میں کوئی کمی نہیں آتی موسم کے ساتھ قدرت نے گاؤں کو بھی اہنگ کردیا ہے اور گاؤں کی زمین کو موسم کی تبدیلی کے ساتھ کاشت کے لئے ہموار کردیا ہے ۔دوستوں گاؤں کو کبھی نہ بھولنا گاؤں ہمارے پرکھوں کی وراثت ہیں گاؤں کی وجہ سے رشتے قائم ہیں گاوں میں پیار ہے الفت ہے محبت ہے گاؤں دو جدا دل کو ملاتا ہے گاؤں کی ہر شئی نرالی ہے جب بھی فرصت ملے گاؤں کو یاد کرلینا تنہائ میں جب دل گھبرائے تو گاؤں کی رعنائیوں اور یہاں کی دلفریبی کو یاد کرکے دل کو بہلا لینا ۔گاؤں کی سڑکوں پر اب بھی آپ کے قدموں کے نشان باقی ہیں یہاں کی فضاؤں میں اب بھی آپکی آواز قید ہے آپ کا گاؤں ہمیشہ آپ کا رہے گا اپنے گاؤں کی عزت کبھی نیلام نہیں ہونے دینا جہاں بھی رینا اپنے گاؤں کا نام روشن کرنے کی کوشش کرنا مجھے تو میرا گاؤں سب سے عزیز ہے خیر دوستوں آپ بھی اپنے گاؤں سے محبت کریں اور مجھے اجازت دیں۔ کیونکہ رات کے 1 بجنے والے ہیں سکون جان کے لئے نیند بھی ضروری ہے ان شاءالله کل پھر ملاقات ہوگی اگر زندگی نے وفا کی دعا کرتے رہیں اللہ سے مجھ سیہکار کے لئے ۔

ہو جیسے ایک ہی کنبے کی ساری آبادی
فضا ہمارے محلے کی گاؤں جیسی ہے