Naguib Mahfouz by Qamar Siddiqui

Articles

معنی کے طرزِ وجود کا فکشن نگار: نجیب محفوظ

ڈاکٹر قمر صدیقی

 

نجیب محفوظ نے اپنی ادبی زندگی کا آغازمعروف عربی جریدے ’المجلہ الجدید‘، مصر سے شروع کیا تھا۔ اس میں شائع ہونے والی تحریریں ترقی پسند نظریات سے نجیب کی وابستگی کا اعلان نامہ تھیں۔اگرچہ ابتدائی دورمیں شائع ہونے والی ان کی تین سلسلہ وار کہانیاں فرعونوں کی تاریخ کے پس منظر میں تحریر کی گئی تھیں تاہم اُن کہانیوں میں بھی مارکسی اثرات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب نجیب محفوظ نے اعلان کیا تھا کہ وہ سائنس، سوشلزم اور برداشت میں یقین کرنا سیکھ رہے ہیں۔ بعد ازاں نجیب سر رئیلسٹ فکشن نگاری کی طرف ملتفت ہوگئے ۔بعض ناقدین نے سر ریئلزم سے نجیب کے اس التفات کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا ۔ حتیٰ کہ انھیں قنوطیت پسند فکشن نگار کے لقب سے بھی نوازا گیا:
’’نجیب محفوظ نے اپنی سوشلسٹ آیڈیالوجی سے ہٹ کر گہری قنوطیت کی راہ اختیار کر لی اور اپنے ارد گرد برے شکون کا دائرہ کھینچ لیا۔‘‘
( ایڈرورڈ بون ۔ ٹائمس لٹریری سپلیمنٹ۔ ص: ۹دسمبر ۔ ۱۹۹۰ء)

لیکن نجیب اپنے اِس اسلوب پر کاربند رہے۔بطور ایک سر رئیلسٹ فکشن نگار انھوں نے اپنی کہانیوں میں تصوف اور مابعدالطبعیاتی تجربات کو کامیابی کے ساتھ برتنے کی کوشش کی۔انہوں نے اپنی گویائی وہاں سے شروع کی جہاں سائنس خاموش ہوجاتی ہے۔ آگے چل کر انھوں نے ایسی کہانیاں تحریر کہیں جن میں سائنسی سماجیات اور روحانیت کسی حدتک آپس میں ہم آغوش ہیں۔1945ء میں شائع ہونے والا ان کا پہلا ناول ’خان الخلیلی‘ اسی کشمکش کی عکاس ہے۔اِس ناول کی اشاعت کے بعد نجیب محفوظ کو عرب دنیا میں ایک ناول نگار کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔ البتہ اُن کے ملک مصر میں انھیں ایک ممتاز فکشن نگار کی حیثیت اُس وقت حاصل ہوئی جب ۱۹۵۷ء میں تین ہزار صفحات پر مشتمل اُن کی مشہور رزمیہ تصنیف ’’قاہرہ سے متعلق تین سلسلہ وار ڈرامے‘‘کی اشاعت ہوئی۔ یہ رزمیہ دراصل تین سلسلے وار ناول ہیں۔ پہلے ناول کا نام ہے ’ محل کی سیر Walk Palace The ، دوسرے ناول کا نام ہے ’ خواہشات کا محل‘ Palace of Desir اور تیسرے ناول کا نام ہے ’چینی کی گلی ‘ Sugar Street ۔تین ہزار صفحات کا احاطہ کرنے والے اس رزمیے میں قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کے سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کو فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ رزمیے کی اشاعت کے بعد نجیب کو مصر میں نوجوان نسل کا ایک بڑا ناول نگار قرار دیا جانے لگا۔ البتہ عرب دنیا سے باہر نجیب کی شناخت ۱۹۶۰ء کے بعد قائم ہونی شروع ہوئی جب ان کی تصنیفات کے انگریزی، فرانسیسی ، جرمن ، اردو اور روسی زبانوں میں تراجم ہونے شروع ہوئے۔ نجیب کی اِس شہرت کو ۱۹۸۸ء میں ادب کا نوبل پرائز ملنے کے بعد گویا پَر لگ گئے اور وہ پوری دنیا میں عظیم ناول نگار تسلیم کیے جانے لگے۔
نجیب محفوظ روایتی فکشن نگار نہیں ہے اور روایتی ذہن کے ساتھ نجیب کی تحریروں کی قرأت عموماً ترسیل کی ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔ دراصل نجیب معنی کی ترسیل کا نہیں بلکہ معنی کے طرزِ وجود (یعنی Ontology) کا فکشن نگار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تحریریں مثلاً شوگر اسٹریٹ وغیرہ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں باب در باب معنی کی تعمیر نہیں بلکہ معنی کے انہدام کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔دراصل اس ناول میں معنی خیزی کا منبع اِس کے قصے سے ماورا ،اِس کے اجزا کے باہمی ارتباط کا مرہون منت ہے۔ نجیب نے جن جگہوں، عمارات اور اشخاص کا ذکر اِس ناول میں کیا ہے غور کریں تووہ اِس ناول کی بافت یا فریم سے باہر اپنی اُس معنویت سے محروم ہوجاتے ہیں ، جو انھیں مذکورہ ناول میں حاصل ہے۔ یعنی ناول سیاق سے باہر قاہرہ وہ قاہرہ نہیں رہتا جو کہ ناول میں ہے۔ یا پھر کردار اور معاشرہ کے تعلق سے گفتگو کریں تو اس ناول میں جو ایک بھرا پُرا خاندان ہے اُس کی معنویت کا تعین ناول کے فریم اور اُس کے متن سے باہر شایدہی ممکن ہوسکے۔ لہٰذا ناول شوگر اسٹریٹ کو اس کے متن سے باہر نکل کر سمجھ پانا قدرے مشکل ہے۔
اسی طرح نجیب کا ایک پیچیدہ افسانہ ’’وقت اور مقام‘‘ ہے۔ اس افسانے میں پیچیدگی شاید اس لیے در آئی ہے کیوں کہ افسانے میں ایک ہی سطح پر دو زمانوں کو پیش کرنے کا تجربہ کیا گیا ہے۔ جس میں مابعد از طبیعات اور سائنسی سماجیات آپس میں کھل مل گئی ہیں۔افسانہ کا قصہ کچھ یوں ہے کہ راوی ،اس کا ایک بھائی اور ایک بہن مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اپنے آبائی مکان کو فروخت کرکے وہ ایک آرام دہ فلیٹ میں منتقل ہوجائیں۔ اس بیچ راوی اپنے آبائی مکان میں ایک میٹا فیزکل تجربے سے گزرتا ہے۔ اسے ایک ایسا شخص دکھائی دیتا ہے جو اس کا ہم شکل ہے ۔ ایک بوڑھا شخص راوی کے اُس ہم شکل کو ایک صندوقچی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ چونکہ اس زمانے میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے اس لیے وہ اِس صندوقچی کو کسی مناسب مقام پر دفن کردے اور وقت آنے پر اسے نکال کر اس میں لکھی ہدایات پر عمل کرے۔ راوی کو یہ سب خواب جیسا معلوم ہوتا ہے۔ تاہم تلاش کے بعد راوی وہ جگہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جہاں واقعی صندوقچی دفن ہوتی ہے۔اُس کے تحیر کا ٹھکانہ نہیں رہتا اور وہ اپنے بھائی اور بہن کے مکان فروخت کرنے کے فیصلے سے خود کو الگ کرلیتا ہے۔ وہ صندوقچی کھول کر اُس میں پڑے کاغذ کے پرزے کی ہدایت پر عمل کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ’’ تو حافظ حرم اور ہمارے پیر عارف البلقانی سے مل۔ ‘‘ خط میں پیر عارف البلقانی کے گھر کا پتہ بھی درج ہے۔ راوی خط پڑھ کر عارف البلقانی کے مکان کو تلاش کرتا ہوا پتے تک پہنچتا ہے۔ وہ مکان پولیس کی نگرانی میں ہے ۔ راوی کے وہاں پہنچنے پر اُسے گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔مکان میں پہلے سے ہی ایک شخص قید ہے ۔ پولیس راوی کواُس کا گرگا تسلیم کرکے جیل میں ٹھونس دیتی ہے۔
اس طرح کے افسانوں کے لیے جس نوع کی فن کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے تعلق سے پروفیسر قاضی افضال حسین نے تحریر کیا ہے کہ :
’’اگر بالکل سادہ غیر تنقیدی زبان میں کہیں تو افسانہ جھوٹ کو سچ کر دکھانے کا فن ہے، اس لیے نہیں کہ اس میں بیان کردہ واقعات ’’سچے‘‘ نہیں ہوتے ؍ ہوسکتے بلکہ اس اعتبار سے کہ افسانہ نگار ، ہر وہ فنی تدبیر استعمال کرتا ہے جس سے وہ اپنے قاری کو یقین دلا سکے کہ وہ افسانہ نہیں لکھ رہا ہے بلکہ سچا واقعہ سنا رہا ہے اور اگر اس نے افسانے کی تشکیل کے لیے کوئی خاص زمانی یا مکانی عرصہ منتخب کیا ہے، جس کا تعلق ماضی بعید سے ہوتو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ افسانے کے خیالی بیانیہ کو تاریخی واقعہ کی شکل دے کر قاری کو یہ یقین دلا دے کہ وہ ’’فرضی‘‘ کہانی نہیں سنا رہا ، ایک خاص انداز سے تاریخ بیان کررہا ہے۔ اس نوع کے تاریخی افسانے کی سب سے آسان ترکیب یہ ہوتی ہے کہ بیان میں ماضی کے ایک زمانے میں ایک مخصوص جگہ، موجود افراد ؍ تعمیرات کے اسمائے خاص اور لوگوں کو پیش آنے والے واقعات کا حوالہ شامل کردیا جائے۔ اِن اسماء یا واقعات کا شدید حوالہ جاتی کردار بیان کی افسانویت ، یعنی اُس کی لسانی تشکیل ہونے پر دبیز پردے ڈال دیتا ہے۔ قاری پر افسانہ نگار کے اس فریب کا راز نہیں کھلتا اور ہم ایک صاف ’’جھوٹ‘‘ کو بے ملاوٹ ’’صداقت ‘‘ سمجھ کر پڑھ رہے ہوتے ہیں۔‘‘

(تحریر اساس تنقید۔ از: پروفیسر قاضی افضال حسین۔ ص: ۲۵۳۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ ۲۰۰۹ء)

افسانے کی بُنت میں نجیب نے مذکورہ بالا فنی چالاکیوں سے کام لیتے ہوئے ایک ایسا بیانیہ خلق کیا ہے جس میں جگہ جگہ سر ریئلزم کے رنگوں کی چھاپ بھی نظر آجاتی ہے۔ ایک نامانوس اور تحیر خیز کیفیت سے شروع ہونے والے اس افسانے کا اختتام مانوس مگر ناپسندیدہ ماحول پر ہوتاہے۔ مثلاًافسانے کا ابتدائی حصہ ہے کہ :
’’ ہماری بیٹھک نجانے کہاں کھو گئی اور اس کی جگہ ایک لمبے چوڑے دالان نے لے لی۔ جس کا دوسرا سرا چوک کی موٹی سفید دیوار تک جا پہنچا تھا۔ دالان میں کہیں گول گول اور کہیں دوج کے شکل میں گھاس اُگی ہوئی تھی اور درمیان میں ایک کنواں تھا ۔ کنویں سے کچھ فاصلے پر کھجور کا ایک اونچا درخت تھا۔ میں دو احساسات کے بیچ جھولنے لگا۔ کبھی لگتا کہ کچھ ایسا دیکھ رہا ہوں جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ کبھی لگتا کہ ان میں کچھ بھی میرے لیے ان دیکھا نہیں ہے۔مدھم ہوتی ہوئی روشنی سورج کے غروب ہونے کا اشارہ کرنے لگی اور اس کے ساتھ ہی کنویں اور کھجور کے درخت کے بیچ ایک ادھیڑ آدمی بھی آن کھڑا ہوا جو قطعی میری پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ میں نے دیکھا کہ کوئی اُس ادھیڑ شخص کو ایک چھوٹی سی صندوقچی دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ :’’اس زمانے میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اسے زمین میں گہرا گاڑ کر چھپا دے۔ صحیح وقت آنے پر نکالنا۔‘‘

(وقت اور مقام ۔از: نجیب محفوظ۔ ص: ۹۸۔رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء
)
خواب اور واہمے کے درمیان کی کیفیت کے اِس ابتدائی بیانیے کے بعد اس

افسانے کا اختتام بھی ملاحظہ فرمانے کی زحمت کریں :
’’خاموشی کی دبیز چادر ہم پر چھاگئی۔ میں نے نئے مکان میں بیٹھے ہوئے اپنے بھائی ، بہن کا تصور کیا اور پرانے مکان میں بنے ہوئے گڑھے ، کنویں اور کھجور کا بھی۔ ساری چیزیں میرے سامنے اس طرح پیش ہوئیں جیسے میں اس کے اندر ہوتے ہوئے بھی ان کو باہر سے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔ مگر کوئی میری او‘ر نہیں گھوما ۔کسی نے خاموشی نہیں توڑی۔‘‘
(وقت اور مقام ۔از: نجیب محفوظ۔ ص: ۱۰۲۔رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء )

افسانے کے ابتدائی اور اختتامی حصوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات کسی قدر واضح ہوتی ہے کہ افسانے کی تفہیم کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اُسے پہلے سے رائج تصورات کی مدد سے ہی سمجھا جاسکے۔ ہر بڑا فن پارہ اکثر اپنے پیش رو طریقۂ تفہیم کی نفی بھی کرتا ہے اور اپنی ترسیل کی نئی روایت کی بافت بھی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ متن ہمیشہ ایک شفاف میڈیم کے طور پر سامنے آئے جیسا کہ حقیقت پسند افسانے میں پہلے سے موجود سچائی کو دوبارہ پیش کرتے ہوئے سامنے آتا ہے۔ اِس افسانے کا متن بھی سبب اور نتیجے والی افسانے کی روایتی منطق سے انکار کرتے ہوئے اپنی پیچیدگی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ البتہ سبب اور نتیجے کے عمل اور فیصلے کے لیے قاری کو راوی کے جبر سے آزاد کردیتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا دونوں پیراگراف کی مدد سے افسانے کی تعبیر اور تشریح کی تمام تر کوششوں کے لیے قاری آزاد ہے۔مثال کے طور پر افسانے کو ایک ایسی ناصحانہ تحریر کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے محض تخیل کی مدد سے کیے گئے عمل کا نتیجہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ یا اگر پورے متن کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے اور اس مطالعہ میں مصر کی سماجی اور سیاسی صورتِ حال کو سامنے رکھا جائے تو یہ افسانہ ایک ایسی انڈر گراؤنڈ تحریک کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اُس وقت کی مصری حکومت کے طرز عمل سے نالاں ہے۔ راوی کے لاشعور میں اُس تحریک کے تئیں ہمدردی کے جذبات موجود ہیں لہٰذا اسے اس طرح کا خواب دکھائی دیتا ہے۔ خود افسانے کے متن میں بھی اِس کے شواہد موجود ہیں۔ مثلاً خط میں تحریر کیے جملے کی نوعیت ملاحظہ ہو:

’’ اپنا مکان مت چھوڑ ، کیوں کہ یہ قاہرہ میں سب سے خوبصورت ہے اور پھر اہلِ ایمان کے لیے تو بس یہی ایک مکان ہے۔ یہی ایک محفوظ مقام ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تو حافظ حرم اور ہمارے پیر عارف البلقانی سے مل۔ تو اُن کے مکان میں جا۔ ‘‘
(وقت اور مقام ۔از: نجیب محفوظ۔ ص: ۱۰۰۔رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء )
مصر کے سماجی اور خاص طور سے سیاسی حالات کو نگاہ میں رکھیں تو حکومت سے اختلاف، ایسی ہی علامتی کہانی کے ذریعے ممکن تھا۔ لہٰذا اس افسانے کی ایک یہ بھی تفہیم ممکن ہے۔


مضمون نگار سہ ماہی رسالہ ’’اردو چینل‘‘ اور ادبی ویب پپورٹل ’’اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ کے مدیر ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

[email protected]

09773402060