NAIYYAR MASOOD KE AFSANY BY QAMAR SIDDIQUI

Articles

’نیّر مسعود کے افسانے طاﺅس چمن کی مینا‘ کی تکنیک

قمر صدیقی

قمر صدیقی

’نیّر مسعود کے افسانے طاﺅس چمن کی مینا‘ کی تکنیک

 

نیّر مسعود اردو افسانے میں کئی حیثیت سے ممتاز مرتبے کے حامل ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے میں علامتی بیانے کا ایک نیا در کھولا۔بیان کے ہنر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انھوں نے زبان کے تفاعل اور جملوں یافقروں کی نثری ساخت کوبھی اہمیت دی۔ بیانیہ میں شعری برتاﺅ سے شعوری انحراف کرتے ہوئے نیر مسعود نے افسانوی بیانیہ کو نثری خصوصیات سے متصف کیا۔ ان کے افسانوں میں خواب ، سرّیت، خواہش اور احساس کو واضح ترجیح حاصل ہے۔ جبکہ کئی افسانوں میں میجک رئیلزم کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے۔ نیّر مسعود کے فن کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی میجک رئیلزم کی بنیاد سرّیت پر استوار ہے جس کی وجہ سے افسانوں میں قاری کو پیچیدگی نظر آتی ہے۔ ”شیشہ گھاٹ“، ” عطرِ کافور“ ، ”نصرت“ اور ”مراسلہ“ جیسے افسانے اس کی مثال ہیں۔ اِن افسانوں میں بلا کی Readability ہے اور ان کی فنی کی وقعت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے تاہم یہ افسانے تفہیم کی سطح پر ذرا مشکل ہی سے کھلتے ہیں۔ اس کے برعکس ”طاﺅس چمن کی مینا“ کی ترسیل عام قاری تک ہوجاتی ہے۔
افسانے کے فن کی توضیح کرتے ہوئے پروفیسر قاضی افضال حسین نے لکھا ہے کہ:
” اگر بالکل سادہ غیر تنقیدی زبان میں کہیں تو افسانہ جھوٹ کو سچ کردکھانے کا فن ہے۔ اس لیے نہیں اس میں بیان کردہ واقعات ”سچے“ نہیں ہوتے /ہوسکتے بلکہ اس اعتبار سے کہ افسانہ نگار ، ہر وہ فنی تدبیر استعمال کرتا ہے جس سے وہ اپنے قاری کو یقین دلا سکے کہ وہ افسانہ نہیں لکھ رہا ہے بلکہ سچا واقعہ سنا رہا ہے اور اگر اس نے افسانے کی تشکیل کے لیے کوئی خاص یا مکانی عرصہ منتخب کیا ہے ، جس کا تعلق ماض؟ی بعید سے ہوتو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ افسانے کے خیالی بیانیہ کو تاریخی واقعہ کی شکل دے کر قاری کو یقین دلا دے کہ وہ ”فرضی“ کہانی نہیں سنا رہا ، ایک خاص انداز سے تاریخ بیان کررہا ہے۔
(تحریر اساس تنقید۔ از: پروفیسر قاضی افضال حسین۔ ص: ۳۵۲۔ ایجوکیشنل بک ہاﺅس، علی گڑھ۔ ۹۰۰۲ئ)
اس طرح کے تاریخی افسانے کے لیے ایک ترکیب یہ ہے کہ ماضی کے کسی زمانے کا تعین کرکے جگہ ، اس عہد کے مخصوص افراد ، تعمیرات، اسمائے خاص اور لوگوں کو پیش آنے والے واقعات کو بطور حوالہ شامل کردیا جائے۔مذکورہ اسما یا واقعات کا شدید حوالہ جاتی کردار بیان کی افسانویت کی پردہ پوشی کرتا ہے اور قاری افسانے کو ایک مکمل سچا واقعہ سمجھ کر پڑھتا ہے۔ اس نوع کی سب سے روشن مثال ڈراما انار کلی ہے۔ جس کی افسانویت کواکثر کم پڑھے لکھے لوگ آج بھی سچ سمجھتے ہیں۔ عہد حاضر میں نیر مسعود اور شمس الرحمن فاروقی نے اس طرز کے افسانے لکھے ہیں۔ نیّر مسعود کا افسانہ ”طاﺅس چمن کی مینا “ اس نوع کا ایک منفرد اورمتنوع افسانہ ہے۔ یہ افسانہ اپنی فنی خوبیوں کے سبب پچھلی ایک دہائی سے اردو میں بہت زیادہ موضوع بحث رہنے والے افسانوں میں سے ایک ہے۔
افسانہ ”طاﺅس چمن کی مینا“ تاریخ اور تہذیب کے پس منظر میں اپنے قصے کو پیش کرتا ہے۔ افسانے کا راوی کالے خان جو کہانی کا مرکزی کردار بھی ہے ، صیغہ¿ واحد حاضر میں پوری کہانی بیان کرتا ہے۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ کالے خان کی بیوی انتقال کے وقت ایک چھوٹی سی بچی چھوڑ جاتی ہے جس کا نام فلک آرا ہے۔ بیوی کی ناگہانی موت سے کالے خان ذہنی طور پر پریشان ہوجاتا ہے ۔ اسی پریشانی کے عالم میں اسے گھومتا دیکھ کرشاہی جانوروں کے داروغہ نبی بخش نے اس پر رحم کھا کر اسے قیصر باغ کے طاﺅس چمن میں ملازمت دلا دی۔ ملازمت ملنے کے بعد وہ اپنی بچی کی طرف ملتفت ہوتا ہے۔ بچی کالے خان سے ایک پہاڑی مینا لانے کی ضد کرتی ہے۔ لیکن کالے خان کے معاشی حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ بچی کی اس خواہش کو پوری کرسکے۔ کیونکہ بیوی کی وفات کے بعد سے وہ بے روزگار تھا لہٰذا تنخواہ کا پیش تر حصہ قرض کی ادائیگی کی نذر ہوجاتا تھا۔ اس درمیان اسے اطلاع ملتی ہے کہ سلطان عالم طاﺅس چمن کے لیے ایک ایجادی قفس بنوا رہے ہیں جس میں پرندے رکھے جائیں گے۔ ایجادی قفس تیار ہوجاتا ہے۔ اس میں چالیس پہاڑی مینائیں رکھی جاتی ہیں۔ اُدھر کالے خان کی بچی کی ضد روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔وہ سوچتا ہے کہ قفس میں کل چالیس مینائیں ہیں لیکن ان کا شمار کرنا مشکل ہے کہ پوری چالیس ہیں یا ان میں سے ایک کم ہے۔ لہٰذا بچی کی معصومانہ خواہش کی خاطر کالے خان ایجادی قفس کی ایک مینا جس کا نام سلطان عالم نے فلک آرا رکھا ہے چُرا لاتا ہے۔چونکہ یہ مینا کالے خان کی بچی کی ہم نام تھی اس لیے اِس مینا سے اسے پہلے ہی سے کچھ کچھ انسیت تھی۔ایک روز سلطان عالم ایجادی قفس کی طرف چلے آتے ہیں اور میناﺅں کو دیکھ کر محسوس کرلیتے ہیں ان میں فلک آرا نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ وہ داروغہ نبی بخش سے سوال کرتے ہیں ۔ داروغہ انھیں بتاتے ہیں کہ وہ انھیں میناﺅں میں کہیں چھپی ہوگی اور سلطان عالم مطمئن ہوکر چلے جاتے ہیں۔ لیکن کالے خان کا اطمینان رخصت ہوجاتا ہے ۔ وہ مینا فلک آرا کو اپنے گھر سے واپس لاکر ایجادی قفس میں ڈال دیتا ہے۔ ایک روز سلطان عالم پورے اہتمام سے کچھ انگریزوں کو اپنا ایجادی قفس اور اس کی میناﺅں کے کرشمے دکھانے لاتے ہیں۔ ان کے ساتھ پرندوں کو پڑھانے والے میر داﺅد بھی ہیں جنھوں نے ان میناﺅں کو گانا سکھایا ہے۔مینائیں میر داﺅد کے پڑھائے اشعار گاتی ہیں لیکن دیگر میناﺅں کے برخلاف فلک آرا مینا کالے خان کی بیٹی کے پڑھائے جملے بولتی ہے۔ سلطان عالم ناراض ہوجاتے ہیں اور یہ راز کھل جاتا ہے کہ یہ مینا ایجادی قفس سے باہر لے جائی گئی تھی۔ کالے خان کے خلاف کاروائی ہوتی ہے۔ اُس کی نوکری چھن جاتی ہے اور مقدمہ چلانے کی تیاری ہوتی ہے۔ داروغہ نبی بخش کی رہنمائی کے سبب کالے خان سلطان عالم تک اپنا مکمل احوال پہنچاتا ہے۔ سلطان عالم اس کا قصہ سن کر اسے معافی دے دیتے ہیں اور وہ پہاڑی مینا بھی اس کی بیٹی فلک آرا کو نواز دیتے ہیں۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ یہاں سے ایک پیچیدگی اور شروع ہوتی ہے کہ مذکورہ مینا کے بول ایک انگریز عہدیدار کو بھا جاتے ہیں اور وزیر اعظم اُس انگریز سے اس مینا کے لیے وعدہ کرلیتے ہیں۔ ہرچند کہ وزیر اعظم سلطان عالم سے آگے جانے کی سکت نہیں رکھتے تاہم کسی حیلے بہانے سے وہ مینا کالے خان سے حاصل کرکے انگریز کو نذر کرنے کا ذہن بنا لیتے ہیں۔ داروغہ نبی بخش اور کالے خان نہیں چاہتے کہ اس طرح کا کوئی معاملہ ہو اور سلطان عالم کو اس سے رنج پہنچے۔ لہٰذا نبی بخش کی حکمت عملی کے مطابق مینا اور فلک آرا کو نبی بخش کہیں اور لے کر چلے جاتے ہیں۔ جبکہ اپنا منصوبہ ناکام ہوتا دیکھ کر وزیر اعظم کالے خان کو جیل بھیج دیتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد لکھنو¿ پر انگریزوں کا تسلط ہوجاتا ہے اور بہت سے قیدی رہا کردیئے جاتے ہیں۔ ان رہا کیے گئے قیدیوں میں کالے خان بھی ہے۔ وہ جیل سے باہر آتا ہے تو لکھنو¿ کا نقشہ بدلا ہوا ہے۔ سلطان عالم قید کرکے جلا وطن کردیئے گئے ہیں۔ وہ اپنی بیٹی فلک آرا کے پاس جاتا ہے ۔ جو اُس کی گود میں بیٹھ کر اُس پہاڑی مینا کے قصے بیان کرنے لگتی ہے۔یہاں پر افسانہ اختتام پذیر ہوتا ہے ۔
نیّر مسعود نے اس افسانے کا آخری پیراگراف اس چابکدستی سے لکھا ہے کہ گویا یہ افسانہ ختم ہوکر بھی قاری کے ذہن میں جاری رہتا ہے۔ ملا حظہ ہو:
” لکھنو¿ میں میرا دل نہ لگنا اور ایک مہینے کے اندر بنارس میں آرہنا، شاون کی لڑائی، سلطان عالم کا کلکتے میں قید ہونا، چھوٹے میاں کا انگریز سے ٹکرانا، لکھنو¿ کا تباہ ہونا، قیصر باغ پر گوروں کا دھاوا کرنا، کٹہروں میں بند شاہی جانوروں کا شکار کھیلنا، ایک شیرنی کا اپنے گورے شکاری کو گھائل کرکے بھاگ نکلنا، گوروں کا طیش میں آکر داروغہ نبی بخش کو گولی مارنا، یہ سب دوسرے قصے ہیں اور ان قصوں کے اندر بھی قصے ہیں۔ لیکن طاﺅس چمن کی مینا کا قصہ وہیں پر ختم ہوجاتا ہے جہاں ننھی فلک آرا میری گود میں بیٹھ کر اس کے نئے نئے قصے سنانا شروع کرتی ہے۔“
(طاﺅس چمن کی مینا۔ از: نیّر مسعود۔ ص: ۵۰۲۔ عرشیہ پبلی کیشن۔ نئی دہلی۔ ۳۱۰۲ئ)
اس افسانے میں قصے کے ساتھ تاریخی و تہذیبی عناصر بالکل چپک کر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ افسانے کا راوی یعنی کالے خان تاریخ کی کتابوں میں کہیں موجود نہیں ہے لیکن سلطان عالم یعنی واجد علی شاہ ایک تاریخی فرد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی افسانے میں تہذیبی طور پر بہت سے عناصر سلطان عالم کی تاریخیت کو مستحکم کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً حسین آباد کا امام باڑہ، لکھنو¿ کی معاشرت میں اس کی اہمیت، نواب نصیر الدین حیدر کا انگریزی دوا خانہ ، لکھّی دروازہ ، قیصر باغ ، درشن سنگھ باﺅلی وغیرہ تو بالکل سامنے کے وسائل ہیں۔
یہ افسانہ نیّر مسعود نے اپنے عام ڈکشن سے ہٹ کر لکھا ہے۔ البتہ زبان و بیان کی وہی خوبی اس افسانے میں بھی ہے جو نیّر مسعود کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہے۔ جزیات نگاری کا کمال اس افسانے میں بھی صاف جھلکتا ہے۔ روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتیں ، اہم اور غیر اہم واقعات ، آدھے ادھورے خواب ، یاداشتیں الغرض کہ اس افسانے میں اتنی ہما ہمی اور اتنا رنگ ہے کہ پورا افسانہ مختلف رنگوں کا ایک کولاژ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اِس کولاژ میں اصل کہانی کا رنگ دیگر رنگوں کی بہ نسبت زیادہ روشن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی قاری کے ذہن میں اترتی چلی جاتی ہے۔ عصری افسانے میں اس افسانے کا اختصاص یہ ہے کہ اس کی تقلیدیا تتبع تو نہیں لیکن اس طرز میں چار افسانے شمس الرحمن فاروقی نے لکھے ہیں۔ اور یہی اس افسانے کے رجحان ساز ہونے کی دلیل بھی ہے۔
٭٭٭