Novel Kai Chand They Sa’ar E Asman

Articles

ناول کئی چاند تھے سرِ آسماں کے تشکیلی عناصر

ڈاکٹر رشید اشرف خان

’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ شمس الرحمن فاروقی کا تخلیق کردہ ایک ایسا کوزہ ہے جس میں ناول نگار نے ہزاروں دریا سمو دیے ہیں ۔ اس شاہکار ادب پارے کو پڑھ کر اردو کے مشہور و معروف ادیب انتظار حسین نے فاروقی سے کہا تھا کہ’’ آپ آدمی ہیں کہ جن؟‘‘
یقینا مؤکل ، شمس الرحمن فاروقی کے تابع ہیں جن سے وہ جب چاہیں ، جیسا چاہیں کام لے لیتے ہیں۔ویسے تو اس ناول کی کہانی کو دراز تر کرنے میں درجنوں کردار ، مقامات ، واقعات اور حادثات سبھی شریک ہیں لیکن سب سے زیادہ نمایاں رول ، جگت استاد ، فصیح الملک نواب میرزا خاں داغ دہلوی کی والدۂ گرامی، وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زہرہؔ دہلوی کا ہے۔ وزیر خانم کا نام زبان پر آتے ہی اردوکے معروف استاد شاعر ثمرؔ ہلّوری کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:
ازل سے تا ابد ، نا محرمِ انجام ہے شاید
محبت ، اک مسلسل ابتدا کا نام ہے شاید
غیر ضروری نہ ہوگا کہ اگران عناصر پر بھی گفتگو کی جائے جن کے اشتراک سے ایک ناول کی تشکیل عمل میں آتی ہے ۔اسی مقصد کے تحت ذیل کی سطو ر میں ناول کے چند تخلیقی عناصر پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
زبانی بیانیہ
بیانیہ یاNarration ایک مخصوص انداز ہے جس سے اردو ادب کی نظم ونثر کی قرأت اور بلند خوانی دونوں میں مدد لی جاتی ہے:
’’ بیانیہ سے مراد صرف ناول یا وہ فکشن نہیں جس کے بنیادی نمونے ہنری فیلڈنگ اٹھارویں صدی اور ہنری جیمس نے انیسویں صدی میں قائم کیے۔ ناول یا فکشن ایک طرح کا بیانیہ ہے ،لیکن ناول کو بیانیہ کا واحد معیار یا واحد اصول ساز نہیں کہہ سکتے ۔ دوسرے الفاظ میں ، ہر بیانیہ کو ناول ،فکشن کے چوکھٹے میں رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے‘‘۱؎
بیانیہ اور زبانی بیانیہ میں فرق ہے۔داستان میں ناول کے بر خلاف الگ ضوابط اور رسومیات ہوتے ہیں۔یعنی داستان کا مطالعہ آزادعلومیہFree disciplineکی حیثیت سے کیا جاتا ہے ۔شاید اس مخصوص disciplin کا نتیجہ تھا کہ جس زمانے میں ہمارے وطن اور بیرون وطن میں ناول کا بول بالا تھاتو ادب کے ماہرین نے بالاتفاق یہ مان لیا تھا کہ ناول کے ہوتے ہوئے کسی اور نثری بیانیہ کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے۔بہت سے اہل علم آج بھی داستان کو ناول کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔منظوم شکل میں جو داستا نیں لکھی گئیں یا قصہ خوانی کے دوران جو مثنویاں جوڑ دی گئیں انھیں ترنم سے یا گا کر پڑھا جاتا ہے اس کے برعکس ناول میں اگر اشعار نقل بھی کیے جاتے ہیںتو انھیں گاکر نہیں پڑھا جاتا۔جیسا کہ ’’کئی چاند تھے سرِآسماں ‘‘ میں اکثر مقامات پر ایسے ٹکڑے ملتے ہیں جو زبانی بیانیہ کے ذیل میں آتے ہیں۔ مثلاََ جب ولیم فریزر کے قتل کے الزام میں نواب شمس الدین احمد خاں پر فردجرم عائد کرکے انگریزوں نے انھیں پھانسی دے دی تو وزیر خانم کی دنیا ہی اجڑ گئی ۔ وہ چپکے چپکے روتی اور دل ہی دل میں نوحے کے انداز میں یہ اشعار پڑھتی تھی:
شربتے از لب لعلش نہ چشیدیم و برفت
روئے مہ پیکراو سیر نہ دیدم و برفت
گوئی از صحبت مانیک بتنگ آمدہ بود
بار بربست و بہ گردش نہ رسیدیم و برفت
اسی طرح ایک مقام پر جب کریم خاں کی گرفتاری کے بعد دلا ورلملک نواب شمس الدین احمد خاں کو کمپنی بہادر کے افسران ،فیروزپور جھرکہ سے دہلی طلب کرنے کے لیے ایک خط روانہ کرتے ہیں۔خط کو پڑھ کر نواب شمس الدین خاں کی زندگی میں طوفان آجاتا ہے ۔وہ اندرون خانہ جاکر اپنی بیگمات اور بچوں سے ملتے ہیں ۔انھیں دلاسہ دیتے ہیں اور بادل ناخواستہ ایک ایک سے رخصت ہوتے ہیں۔شہر فیروز پور کے سبھی عوام وخواص گریہ وزاری کرکے انھیں الوداع کہتے ہیں اور روضہ خوان سیدنا امام حسن کے شہید فرزند حضرت قاسم کا یہ نوحہ پڑھتے ہیں:
آں دم عروس ہے ہے ، رو رو کہے زناں سوں
جاتے ہیں واہ ویلا تنہا ستم گراں سوں
ملنا جو پھر کہاں ہے ، وا حسرتا جہاں سوں
کرکے چلے اندھارا ، دن کو چو شام قاسم
مذکورۂ بالا نمونوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ ضروری نہیں کہ اشعار گاکرہی پڑھے جائیںاگرچہ بعض حالات میں وہ ترنم سے خواندگی کے متقاضی محسوس ہوتے ہیں ۔اس سلسلہ میں ایک بات اور بھی قابل وضاحت ہے:
’’طویل یا مختصر بیانیہ نظموں کو گاکر یا پڑھ کر سنانے کا رواج مغرب میں بھی اتنا ہی مقبول اور اتنا ہی قدیم ہے ،جتنا مشرق میں۔ اور مغرب کی بعض عظیم ترین نظموں کی تنقید اسی وقت بامعنی قرار دی جاسکی جب اس نکتہ کو ملحوظ رکھا گیا۔ مثلاََ ہومرؔ کی ایلیڈ اور اوڈیسی اور ان کی طرح مشرقی نظموں مثلاََ مثنوی کے بھی عناصر یہی دو ہیں یعنی رزم اور بزم‘‘۱؎
داستان کو بیانیہ اس لیے سمجھا جاتا ہے کیوں کہ اس کے سننے والے سامعین ہواکرتے ہیں۔اب تو خیر داستا نیں ، کتابی شکل میں یا فلم کے پردے پر آنے لگیں لیکن دور قدیم میںیہ سننے ہی کی چیز تھی البتہ ناول نویس سنانے کے لیے نہیں بلکہ پڑھوانے کے لیے لکھتا ہے۔دور حاضر میں بھلا کس میں اتنی صلاحیت ہے کہ فاروقی کے مذکورہ ناول کو حرف بہ حرف ازبر کرکے عوام کے مجمع میں سنا سکے۔یہ اور بات ہے کہ ناول نویس کے ذہن میں کچھ مفروضہ سامعین ہوں ،پر ضروری نہیں کہ وہ سامنے موجود ہوں۔
داستانی عناصر
ناول کے مصنف شمس الرحمن فاروقی ،قاری یا ناقد کوئی بھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ یہ تصنیف کسی حیثیت سے داستان کے زمرے میں آتی ہے۔لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار کردیا جائے کہ اس میں ’’داستانی عناصر‘‘ کا شائبہ بھی نہیں ہے۔فن داستان گوئی ، افسانہ نگاری اور ناول نویسی کے اختصاصی مبصر وقار عظیم کا یہ محاکمہ توجہ طلب ہے:
’’چھوٹی بڑی، سب داستانوں میں دلچسپی پیدا کرنے کاایک طریقہ تو یہ ہے کہ قصے کو جہاں تک ممکن ہو طول دیا جائے تاکہ پڑھنے والا زیادہ سے زیادہ عرصے تک حقیقت کی دنیا بھول کر ، رومان اور تخیل کی دنیا کی سیر کرے ۔کہانی کو طویل بنانے کے لیے ہمارے داستان نویسوں نے عموماََ یہ انداز اختیار کیا ہے کہ وہ اصل قصے کے ساتھ’’ ضمنی قصے‘‘ بڑھا کر پڑھنے والے کی توجہ اور انہماک کے لیے نئی نئی باتیں نکالتے رہتے ہیں‘‘۱؎
اس بیان کی روشنی میں اگر ہم جائزہ لیں تو کہانی کا مرکزی کردار الملقب بہ شوکت محل کی داستان حیات بیان کرتے وقت بنی ٹھنی، وسیم جعفر، تعلیم،مہاداجی سندھیا،مہاکالی وغیرہ کو اگرچہ اصل قصے میں انتہائی ہنر مندی سے جوڑ دیا گیا ہے لیکن بغور دیکھئے تو یہ سب چیزیں اضافی نظر آتی ہیں۔بنی ٹھنی کے حسن وجمال، اس کے اعضا وجوارح کی متناسب بناوٹ اور مہا راول گجندر پتی سنگھ مرزاکی چھوٹی جوان بیٹی من موہنی، عرف رادھا ،عرف بنی ٹھنی کی تصویر کشی فاروقی نے بہت تفصیل سے کی ہے۔
’’بنی ٹھنی‘‘ کی اس تفصیل کا داستانی عنصر یہ تھا کہ راجپوتانے کے علاقہ کشن گڑھ میں واقع گاؤں ’’ہندل پروا ‘‘ کے باشندے میاں مخصوص اللہ ایک شبیہ ساز تھے۔نہ جانے کس طرح انھیں یہ توفیق ہوئی کہ بے خیالی میں انھوں نے ’’بنی ٹھنی‘‘ کی شبیہ بنادی۔ مخصوص اللہ اور ان کے گاؤں والوں کی شامت ہی تھی کہ بنی ٹھنی کے خد وخال مہاراول گجندر پتی مرزا کی چھوٹی بیٹی من موہنی سے بالکل مل گئے۔مہاراول یہ سوچ کر آپے سے باہر ہوگیا کہ میری بیٹی کو کسی نا محرم نے دیکھ لیا اور اب میری جگ ہنسائی ہوگی ۔چنانچہ اس نے اپنی بیٹی کو نہایت سفاکی سے قتل کردیا ۔مگر قدرت کے کھیل نیارے ہوتے ہیں ۔ مخصوص اللہ کے پرپوتے یوسف سادہ کار کے گھر میں وزیر خانم پیدا ہوگئی جو شکل وصورت میں بنی ٹھی کی ہم شکل یاTru-copy تھی۔اس قسم کے آوا گون۔دوسرے جنم یاRe-incarnation کے فارمولے کیا اس ناول کے داستانی عنصر کی غمازی نہیں کرتے؟داستانی عنصر کی ایک اور مثال بڑی دلچسپ ہے:
’’یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہر بیانیہ ماضی یا حال یا مستقبل میں واقع ہوتا ہے لیکن داستان کی صفت یہ ہے کہ اس میں مستقبل کی باتیں بسا اوقات پہلے ہی منکشف کردی جاتی ہیں۔مختصراََ یا مطولاََ ۔۔۔اور پھر سارے واقعات اپنے وقت پر دوبارہ بیان ہوتے ہیں۔تجسس کی وہ نوعیت باقی نہیں رہتی جو عام ناولاتی فکشن میں نظر آتی ہے‘‘۱؎
ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘کی ابتدا ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی، ماہر امراض چشم کی یاد داشتوں سے ہوتی ہے لیکن ایک مضحکہ خیز پہلو اس حوالے میں یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا وجود محض خیالی ہے۔ان کانام بھی مستعار ہے یعنی شمس الرحمن فاروقی کے والد مرحوم مولوی خلیل الرحمن اور دادا حکیم مولوی اصغر فاروقی کے ناموں کا مرکب ہے۔یہ التزام شاید فاروقی نے بڑی دوراندیشی سے کیا ہے اس سے موصوف کی ذہنی اپج اور درّاکی کا نمونہ سامنے آتا ہے۔
ڈرامائی پہلو
ڈراما ایک ایسی صنف ادب ہے جس میں منظر بدل جاتے ہیں ،مکالموں پر توجہ دی جاتی ہے، روشنی اور آواز کے اتار چڑھاؤ پر دھیان دیا جاتا ہے۔جذبات نگاری اور موسیقی کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے۔اگر موضوع تاریخی یا سماجی ہے تو زمان ومکاں اور ماحول، زبان، لہجہ ،کردار اور آغاز و اختتام پیش نظر رہتا ہے ۔اکثر خود کلامی ،طنز ومزاح یا لکچر بازی کا بھی التزام رہتا ہے۔
’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ بنیادی طور پر ایک ناول ہے جس میں بیک وقت داستان، ڈراما اور ناول سبھی رنگ نظر آتے ہیں۔ناول کے مطالعہ کے دوران ہمیں ڈرامائی پہلوؤ ں سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔پہلا ڈرامائی پہلو وہاں نظر آتا ہے جب لندن میں ڈاکٹر وسیم جعفر اور ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی کی پہلی تفصیلی ملاقات ہوتی ہے۔دونوں دریائے ٹمیز کے کنارے اتوار کو اس مقام پر ملتے ہیں جہاں پرانی کتابوں کا بازار لگتا ہے۔اسی طرح ناول کی ابتدا میں جب مخصو ص اللہ کی شبیہ سازی کی وجہ سے پورے گاؤ ں والوںکے سرپر موت کے بادل منڈلانے لگتے ہیںاوروہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ایک اور درد انگیز ڈرامائی موقع وہ بھی ہے جب صاحب عالم مرزا فتح الملک بہادر عرف مرز افخرو، ولی عہد سوم ایک مختصر سی علالت کے بعد انتقال کرجاتے ہیںاور چھوٹی بیگم (وزیر خانم) جنھیں مرزا فخرو کی بیگم بننے کے بعد شوکت محل کا خطاب ملا تھا بیوہ ہوجاتی ہیں تو مرزا فخرو کے چہلم کے تیسرے دن بعد ان کی سوتیلی ماں اور بہادر شاہ ظفر کی منظور نظر زینت محل وزیر خانم کو بلواکر کہتی ہیں:
’’ چھوٹی بیگم ،ہمیں تمھاری بیوگی پر بہت افسوس ہے لیکن تم تو ایسے سانحوں کی عادی ہوچکی ہو ۔ اسے بھی سہ جاؤگی‘‘۱؎
کافی دیر تک دونوں کی تلخ وتند گفتگو کے بعد زینت محل نے بڑی بے رحمی سے وزیر خانم کو قلعہ سے نکل جانے کا حکم صادر کردیا۔
تاریخی پس منظر
شمس الرحمن فاروقی نے ناول کے آخر میں یہ اعلان کیا ہے کہ:
’’یہ بات واضح کردوں کہ اگرچہ میں نے اس کتاب میں مندرج تمام اہم تاریخی واقعات کی صحت کاحتی الامکان مکمل اہتمام کیا ہے لیکن یہ تاریخی ناول نہیں ہے۔ اسے اٹھا رویں ، انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب ، انسانی اور تہذیبی وادبی سروکاروں کا مرقع سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہوگا‘‘۲؎
فاروقی کے اس اعلان کی تائید کرتے ہوئے اگر مان بھی لیتے ہیںکہ یہ ناول بنیادی طور پرتاریخی نہیںہے۔اس زاویہ نظر سے ہم اس کتاب سے چند نمایاںمثالیں پیش کر سکتے ہیں۔جس طرح تاریخ لکھتے وقت مورخ قدیم تاریخی ماخذسے استفادہ کرتا ہے اور ہرپیچیدہ مسئلے کو دروغ بر گردن راوی کے فارمولے کے ذریعے قابل اعتماد ویقین بنا دیتاہے۔ اس طرح اگرچہ فاروقی نے اپنی کتاب پر تاریخیت کی مہر ثبت نہیں کی لیکن کتابیات کی سرخی کے تحت قریب قریب سبھی ایسی کتابوں کے حوالے دیے ہیں جن کے استناد میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ناول میں گزشتہ اٹھا رویں اور انیسویں صدی کے واقعات کو زیادہ سے زیادہ جاندار اور پراثر بنانے کے لیے فاروقی نے روسی ناول کی تکنیک Docu-Fictionکا استعمال کیا ہے۔اس ضمن میںانھوں نے نہایت باریک بینی کے ساتھ انگریز افسران کی ذاتی ڈائریوں ، روزنامچوں اور خطوط کا بغور مطالعہ بھی کیا ہے:
’’یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محقق فاروقی ، ناول نگار فاروقی کو پوری طرح کمک پہنچا رہا ہے۔ لہٰذا اس میں ہم تاریخ کو تخلیقی طور پر فکشن کے روپ میں ڈھلتے دیکھتے ہیں‘‘۱؎
اس ناول کا اطلاق اگرچہ سو فیصد تاریخیت پر نہیں ہوتا لیکن اسی عنصر تاریخیت نے ناول میں دلکشی اور سنجیدگی پیدا کردی ہے ۔شاید اسی لیے مظہر جمیل نے لکھا ہے :
’’ناول میں جو تاریخی و نیم تاریخی مواد استعمال ہواہے اس کی حیثیت خواہ تحقیق کی رو سے بہت زیادہ مستند نہ ٹھہرتی ہولیکن طریق اظہار کے ذریعہ بیانیہ اپنا اعتماد قائم کرنے میں کا میاب رہا ہے کیونکہ اس سے ایک مانوس فضا اور التباس حقیقت کا مضبوط تاثر قائم ہوا ہے‘‘۲؎
کئی چاند تھے سرِآسماں کی ورق گردانی کرتے وقت کئی ایسی باتیں سامنے آتی ہیںجن کا تعلق اٹھا رویں اور انیسویں صدی کی تاریخ سے ہے اور جن کی صحت کا آسانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔مثلاََحسیب اللہ قریشی عرف سلیم جعفر سچ مچ ایک مشہور ومعروف ادیب، نقاد اور عروضی تھے ۔انھوں نے نظیر اکبرآبادی کا ایک مبسوط انتخاب ’’گلزار نظیر‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے۔اسی سلسلے میں لاہور میں ۳۰؍جون ۱۷۹۲ء کو دو ہفتوں کے لیے مینا بازار لگا ۔مخصوص اللہ شبیہ ساز کے بیٹے یحییٰ بڈگامی کو اسی مینا بازار میں بصد اعزاز بلایا گیا تھا ،یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔اس ضمن میں یہ تاریخی واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد سے ایک بیٹا تھا جو آگے چل کر فصیح الملک نواب مرزاخاںداغؔ دہلوی کے نام سے مشہور ہوا ۔
مذہبی حوالے
جس طرح شاعری کی صنف مثنوی میں عمومی طورپر دو طرح کی مثنویاں ہوتی ہیں۔ رزمیہ اور بزمیہ۔ پھر آگے چل کر شاعراپنی شعوری جدت طرازیوں اور اختراع پردازیوںکے جوہر دکھانے کی کوشش کرتا ہے توکبھی مثنوی درس اخلاق کا صحیفہ بن جاتی ہے اور کبھی حسن وجمال کا مرقع ، کبھی سوانح اور آپ بیتی کا دفتر بن جاتی ہے اور کبھی داستانوں کا افسوں۔اکثر نمائش علم کا میدان قرار پاتی ہے اور کبھی عرفانیت اور روحانیت کی مبلغ۔ داستانوں میں با لخصوص مذہبی حوالوں اور تعلیمات کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں،جب کہ افسانہ اور ناولوں میں ان حوالوں کی گنجائش کم سے کم رہتی ہے۔قاری ذہنی تفریح اور جذباتی لطف کے لیے ناول پڑھتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ ناول نگار کے انداز نگارش کا مزہ لینے کے لیے،عمدہ جاسوسی ناول علمی ترقی ، زبان وبیان کی چاشنی یا جذبۂ تحیر وتجسس کی تسکین کے لیے ایسے ناولوں کا مطالعہ کرتا ہے۔وقت گزاری اور منھ کا مزا بدلنے کے لیے بھی ناول پڑھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ امر بڑا حیرت افزا ہے کہ فاروقی کا ناول گاگر میں ساگرAll in one کی بہترین مثال ہے۔اس میں تاریخ بھی ہے، تہذیبی پس منظر بھی ہے،مکالمے بھی ہیں،محبت بھی ہے نفرت بھی ہے، مکاریاں بھی ہیں ،شرافت و وضع داری بھی ہے، جنسیت بھی ہے نفسیاتی کیفیات بھی ہیں۔شاعری بھی اور فنون لطیفہ کی لطافت بھی ہے اوران سب سے بڑھ کر مذہبی حوالے بھی ہیں۔فاروقی لکھتے ہیں کہ:
’’ بڑی بیگم کو ایام صبا ہی سے اللہ رسول سے بے حد لگاؤ تھا۔ سات برس کے سن سے اس کی نماز قضا نہ ہوئی ،نو سال کی ہوئی توپابندی سے روزے رکھنے لگی ۔ کلام مجید کی کئی سورتیں، بہت سی حدیث پاک، قصص الا نبیا کے کتنے ہی اجزا ،سب اسے ازبر تھے۔پردے کی سخت پابند، کھیل تماشوں سے اسے کچھ لگاؤ نہ تھایہاں تک کہ بسنت کی بہار بھی نہ دیکھتی‘‘۱؎
جب ناول کے اسٹیج پر وزیر خانم نمودار ہوتی ہے تو بزرگوں کی روایت کے مطابق اسے اپنے والد محمد یوسف سادہ کار کے ہمراہ عرس مبارک کے ایام میں مہرولی شریف خواجہ قطب شاہ کی درگاہ فلک بارگاہ سے واپس آتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ محمدیوسف سادہ کار اور اس کے اہل خاندان مذہبی خیالات رکھتے تھے۔
فاروقی نے شعوری طور پر اس ناول میں مذہبی حوالوں کا التزام رکھا ہے۔فاروقیوں کا حوالہ بڑی چابکدستی سے داکٹر خلیل اصغر فاروقی کی زبانی دیا ہے اس سے وہ قارئین پر یہ راز آشکار کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ اعظم گڑھ(یا مئو) میں رہنے والے فاروقی (جس میں موصوف بھی حسن اتفاق شامل ہیں) ممکن ہے کہ ان کے آبا واجداد برہان پوری فاروقیوں سے تعلق رکھتے ہوں۔
جب ۸؍اکتوبر ۱۸۳۵ ء بروز پنچ شنبہ ۸ بجے دن نواب شمس الدین خاں کوپھانسی دینے کے لیے لے جایا جاتا ہے۔اس وقت کا ایک اندوہ گیں لیکن عجیب وغریب منظر دیکھئے:
’’تختۂ دار پر چڑھنے سے پہلے شمس الدین احمد نے کلمۂ توحید اور پھر کلمۂ شہادت پڑھا ۔انھوں نے جلادوں سے ان کی سرگوشی کے لہجہ میں ان کی ذات اور مذہب پوچھا۔جواب سن کر جو اسی طرح زیر لب دیا گیا تھا، نواب شمس الدین احمد نے آہستہ سے خود کلامی کے لہجہ میں کہا ۔اللہ جانے میرے ڈھیر کو مسلمان کے ہاتھ کی مٹی نصیب ہوگی کہ نہیں ۔اس لیے میں خود ہی اپنی مٹی کی دعا پڑھ لوں‘‘۱؎
اسی طرح آغا مرزا تراب علی رفاعی جب ہاتھیوں اور گھوڑوں کی خریداری کے لیے رام پور سے کافی دور سون پور (بہار)جاتے ہیں۔تب وزیر خانم اور راحت افزا دونوں باری باری آغا مرزا کو امام ضامن باندھتی ہیں۔آغا مرزا بھی اپنے بچوں کو دعائیں اورانھیں ’’اللہ کی امان‘‘ میں دے کر گھر سے نکل جاتے ہیں۔
اسی ناول میں ٹھگوں کے حوالے سے دیوی بھوانی ،کسّی اور بہت سے ایسے الفاظ و مصطلحات کا ذکر کیا گیا ہے جو ان ٹھگوں کے نزدیک ایک سخت ظالمانہ عقیدہ اور مذہب ہے۔
سیاسی حالات
فاروقی کا تحریر کردہ ’’کئی چاندتھے سرِآسماں‘‘ ایک ایسا وسیع وعریض ناول ہے جو دیگر باتوں کے علاوہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہندوستان میں کار فرما سیاسی حالات کابھی بطور خاص احاطہ کرتا ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی منظم ملک کی زندگی میں جہاں اور بہت سے عوامل کام کرتے ہیں وہاں سیاسی حالات کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سات سمندر پار سے آئے ہوئے افرنگیوںنے کس طرح ہندوستان کو رفتہ رفتہ اپنا غلام بنا لیا۔’’سیاست افرنگ ‘‘کے عنوان سے علامہ اقبال نے محض چار مصرعوں میںبہت پتے کی بات کہی ہے:
تری حریف ہے یارب ، سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تونے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس۱؎
مذکورہ ناول ۱۸۵۶ء تک کے زمانے کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔اپنی مقصد بر آوری کے لیے سب سے پہلے انگریز وں نے ہندوستان کی مختلف زبانیں سیکھیں۔عوام تو عوام،افسران بالا مثلاََگورنر جنرل، ریزیڈنٹ اور سفرا ،انگریز ہونے کے باوجود عمدہ ادبی فارسی میں گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ اشعار پڑھتے اور خطابت بھی کرتے تھے۔مثال کے طور پر جب جنرل لارڈ لیک نواب احمد بخش خاں شاہ عالم کی فوج میں شامل ہوئے تو ان کی قیمتی خدمات کے صلہ میں فیروز پور جھرکہ اور الور کے علاقے انھیں بطور انعام ملے تھے ۔ انھیں کی میواتی بیگم سے نواب شمس الدین احمد خاں تھے۔انگریزوں نے فارسی واردو میں خصوصی طور پر ایسا درک حاصل کرلیا تھا کہ غیر ملکی لہجہ ہونے کے باوجود وہ ان زبانوں سے بڑی حد تک بے تکلف ہوگئے تھے۔یہ مشق وہ کسی ادبی معیار کو قائم کرنے کے لیے کم اور سیاسی مقاصدکے حصول کے تحت زیادہ کرتے تھے۔مثال کے طور پرجب نواب یوسف علی خاں والیِ رام پور کی دعوت پر وزیر خانم انگریز ریزیڈنٹ ،ولیم فریزر کی کو ٹھی پر پہنچی اور دربان نے پکار کر وزیر خانم کی آمد کی خبر دی تو ولیم فریزر باہر آیا اور بولا:
’’ اہلاََ و سہلاََ۔ اے آمدنت باعث دل شادی ما۔
حضور نواب صاحب کلاں بہادر ، کنیزک شما و دعاگوئے شما
دیدہ ودل فرش راہ ، اندر تشریف لے چلیں‘‘
انگریزوں کی زبان دانی کی ایک بہترین مثال اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب فریزر کی کوٹھی پر شعری نشست کے دوران فریزرنے مرزا غالبؔ سے کہا :
’’کہ میں نے فرنچ لیکور کا انتظام کیا لیکن شرط نئی غزل کی ہے ۔مرزا صاحب نے مسکراتے ہوئے بوتل کھولی اور کہا منھ میں تو پانی بھر اآرہا ہے لیکن اسے چندے کھلا چھوڑتا ہوں کہ ہوا خوردہ ہوجائے لیکن یہ شرابیں ایسی ہیں کہ سانس لینے کا تقاضا کرتی ہیں۔وللہ مرزا نوشہ ۔آپ کی انھیں باتوں پر تو ہم فدا ہیں۔ولیم فریزر ہنس کر بولا۔آداب مَے نوشی کوئی آپ سے سیکھے‘‘۱؎
ہندوستان میں اپنی ناپاک سیاسی تماشوں کی بساط بچھانے والے انگریز وںکی ایک مثال مرزا فخرو (جن کا پورا نام میرزا محمد سلطان فتح الملک شاہ بہادر عرف مرزا غلام فخرالدین عرف مرزا فخرو تھا)کے ساتھ تاریخی ساز باز ہے۔مرزا فخرو اور انگریز کے مابین یہ طے ہوا کہ اگر مرزا فخرو اپنے والد کے بعد حسب ذیل شرائط پوری کرتے ہیں تو انھیں ولی عہد نامزد کیا جائے گا:
’’ ۱۔ مرزا فخرو جب بھی گورنر سے ملیں تو برابری کے رشتے سے ملیں۔
۲۔ شاہی زمینوں کا بندوبست حکومت بر طانیہ کے ہاتھوں میں ہوگا۔
۳۔ سلاطین مغلیہ کو قلعۂ معلی میں رہنے کا حق نہ ہوگا۔
۴۔ ولی عہد بہادر کے لیے دوامی حکم ہے کہ وہ لال قلعہ خالی کرکے
قطب صاحب چلے جائیں۔‘‘۲؎
مرزا اسدللہ خاں غالب بھی اسی عہد کے ایک نمائندہ شاعر وادیب تھے۔وہ ایک بیدار مغز اور فیصلہ کن ذہن کے دور اندیش بھی تھے لیکن انسانی کمزوریاں اور کمیاں ان میں بھی تھیں۔وہ صرف خیالی دنیا میں رہنے والے محض شاعر بھی نہ تھے۔جیسا کہ خواجہ احمد فاروقی نے لکھا ہے کہ:
’’غالب ؔ کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اب بچی کھچی فصل طاقت کا خاتمہ بہت قریب ہے۔چنانچہ غالبؔ نے اپنے مستقبل کو قلعۂ معلی کے نئے حکمرانوں سے وابستہ کرنے کی کوشش تیز کردی اور ملکۂ وکٹوریہ کی تعریف میں ایک قصیدہ فارسی میں لکھ کر لارڈ ایلن کے ذریعہ انگلینڈ روانہ کیا‘‘۱؎
اسی طرح ناول میں بھی انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور ملکی نظام میں ان کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو مختلف کرداروں کو عمل اور رد عمل کے سبب پیدا ہونے والے حالات اور واقعات کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔اس ناول کا بنیادی مقصد گرچہ ہندوستانی معاشرہ میں مقبول ہنداسلامی تہذیب کے گونا گوںمظاہر کو نمایاں کرنا ہے لیکن جس عہد کے واقعات کو ناول نگار نے اس مقصد کے لیے منتخب کیا ہے ان میں ملک کی ہر لحظہ تبدیل ہوتی سیاسی بساط کی جھلکیاںبھی واضح نظر آتی ہیں۔اس طرح یہ ناول شمس الرحمن فاروقی کے پختہ سیاسی شعور اور سیاست وسماج کی وابستگی میں پوشیدہ اسرار جاننے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہندوستانی معاشرے کی جزئیات
تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ با مزہ و بے مزہ لذتوں کی ایسی حکایت بے پایاں ہے جس کی درازی کا کوئی اُور چھور نہیںہے۔جب بھی ایک قوم دوسری قوم سے ٹکراتی ہے تو دونوں اقوام میں شعوری و لا شعوری طور پر کچھ لین دین ہوتاہے۔اس لین دین کی نوعیتیں جدا گانہ ہو سکتی ہیںلیکن بہر صورت اس کے نتائج بڑے دور رس اور مستحکم ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ زبان ، لباس ، روز مرہ کا رہن سہن ، معاش ،تعلیم،تجارت،ثقافت، سیاست اور تہذیب و تمدن میں واقع ہوتی ہے۔
فاروقی نے کسی نہ کسی حیثیت سے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے حوالے سے آخری دور مغلیہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور عروج کی جزئیات کو بخوبی پیش کیا ہے :
’’تاریخ سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ مغلوں کے زوال آمادہ دور میں اور اس کے بعد بھی اکبری بائی ایسی پیشہ وروں کی کیسی قدر ومنزلت تھی۔امیر وامرا اپنے بچوں کی تربیت دلانے کے لیے ان خواتین کے پاس بھیجا کرتے،یہ بچے یہاں آداب واخلاق سیکھتے ۔ملنے ملانے کے طور طریقوں کے علاوہ علم وادب میں بھی ہنر مندی پیدا کرتے،وزیر خانم کے بچپن کا ایک حصہ اپنی نانی کی رفاقت میں گزراتھا‘‘۱؎
اگرچہ انگریز ،صاحبان عالی شان بن کر انگلستان سے ہندوستان آئے تھے لیکن اپنی عیاریوں ، مکاریوں اور ہندوستانیوں کی فطری بزدلی ،آرام طلبی ،عیاشی ،آپسی رنجش اور بغض و حسد سے فائدہ اٹھا کر وہی غیر ملکی مداخلت کاررفتہ رفتہ ہمارے حاکم اور تقدیر ساز بن گئے۔بہ ظاہر اپنی حکمت عملی اور چالبازیوں سے کام لیتے ہوئے وہ ہمارے برسوں پرانے اور تاریخی سماج میں درانداز ہوگئے لیکن ان کے احساس برتری اور ہندوستانیوں کو ہر لحاظ سے کمتر اور بے وقوف سمجھنے کی فطرت میں قطعاََ فرق نہ آیا۔ہمارے ناول کی ہیروئن وزیر خانم اپنی ضد ، ناعاقبت اندیشی اور غلط جوش جوانی میں ایک انگریز افسر مارسٹن بلیک کے دام محبت میں گرفتا ر ہوگئی۔اہل خاندان کے سمجھانے بجھانے کے باوجود بغیر نکاح کیے اس انگریزسے منسلک ہوکر دہلی کو چھوڑ کر جے پو ر (راجپوتانہ) چلی گئی۔وہاں دونوں ’’زن و شو‘‘ کی طرح رہنے لگے۔ایک بیٹے اوربیٹی کی ماں بھی بن گئی۔لیکن مارسٹن بلیک کی انگریزیت میں ذرہ برابر فرق نہ آیا:
’’وزیر تو یہ دیکھتی تھی کہ مارسٹن بلیک کے گھر میںچوریاں بہت ہوتی تھیں۔مارسٹن بلیک ان چھوٹی موٹی چوریوں سے کسی بڑے مالی نقصان میںتو نہ آتالیکن الجھتا اور جھنجھلاتا بہت تھا۔وہ کبھی کبھی چڑ چڑا کے وزیر سے یہ بھی کہہ گزرتا تم ہندوستانی ہوتے بڑے چور اور بے ایمان ہو‘‘ ۱؎
جب انگریز ریزیڈنٹ دہلی،ولیم فریزر نے ایک مرتبہ اپنی کوٹھی میں ایک شعری نشست رکھی تھی اور نشست کا صدر نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالبؔعرف مرزا نوشہ کو بنایاتو ان کے پہلو میں مظفرالدولہ ناصر الملک مرزا سیف الدین حیدرخاں بہادر کو بٹھایا۔ناصر الملک ، مبارز الدولہ مختارالملک نواب حسام الدین حیدر خاں بہادر کے بڑے بیٹے تھے۔مالک رام( ماہرِغالبیات) لکھتے ہیں:
’’ یہ بھی معلوم ہے کہ میرزا غالبؔ کے تعلقات نواب حسام الدین حیدر خاں کے خاندان سے نہایت ابتدائی زمانے سے تھے اور ان کے صاحب زادے ناظر حسین مرزا ان کے بچپن کے ہمجولی تھے اور یہ خاندان بھی کٹر شیعہ تھا۔اس لیے عین ممکن ہے کہ ان کے اثرات نے مجموعی طور پر مل کر میرزا کو بھی شیعیت کی طرف مائل کردیا ہو‘‘۲؎
فاروقی نے ناظر حسین مرزا کا نام نہیں لکھا لیکن بہر حال ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’میرزا غالب کو تشیع کی طرف مائل کرنے میں لڑکپن کی اس دوستی کو بہت دخل تھا‘‘
ہم دیکھتے ہیں کہ وزیر خانم کے کردار میں بچپن ہی سے ایک قسم کا باغیانہ پن تھا۔یہ باغیانہ پن علامت ہے اس بات کی کہ اٹھارویں صدی اور انیسویں صدی سے ہی ہندوستانی عورت میں یہ خصوصیت پیدا ہونی شروع ہو چکی تھی کہ وہ آزاد خیال ہو ،اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے اور اپنی تقدیر کو بنائے یا بگاڑے۔ ہوسکتا ہے یہ اثرانگریزی تعلیم اور انگریزوں کی صحبت کا بھی تھا۔دراصل اس کی سوچ میں تہذیبی بغاوت تھی۔وزیر خانم تو خیر اس ناول کا مرکزی کردار ہے لیکن اس سے منسلک دوسرے کرداروں کے آئینے میں بھی ہم اس عہد کے تہذیبی اور معاشرتی رویوں کو بہ آسانی سمجھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت کے معاشرہ میں عورت کا کیا مقام تھا۔
جزئیات نگاری کا ایک نمونہ اس وقت سامنے آتا ہے جب صاحب عالم و عالمیان مرزا فخرو بہادر ولی عہد سوم نے وزیر خانم کی تصویر دیکھ لی اور ان پر فریفتہ ہوکر انھوں نے سوچا کہ اپنے معزز دوست اور مشہور عالم شیخ امام بخش صہبائی کو بلا کر اس معاملہ میں پیغام رسانی کا وسیلہ بنائیں۔لہٰذا:
’’اگلی صبح کو مولوی صہبائی ابھی چاشت کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ صاحب عالم و عالمیان کا ایک چوبدار ایک کوزے میں ٹھنڈا دودھ اورایک کوری ہانڈی میں گرم گلاب جامنیںاور دوسری ہانڈی میںمال پُوے لے کر مولوی صاحب کے دروازے پر پہنچاکہ صاحب عالم نے ناشتہ بھجوایا ہے اور ارشاد فرمایاہے کہ مولانا صاحب حویلیِ مبارک میں صاحب عالم و عالمیان کے ایوان خاص میں تشریف لے آویں‘‘۱؎
زیر نظر ناول کے چند ابتدائی صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس مقام پر پہنچتے ہیں جب بنی ٹھنی کی تصویر بنانے والا مخصو ص اللہ اپنے آبائی وطن سے شہر بدر ہونے کے بعد جب بارہ مولہ(کشمیر) پہنچتا ہے ۔وہ وہاں کی جنت نظیر وادیوں کو دیکھ کر ایک بار پھر اپنے آبائی پیشہ شبیہ سازی کا ڈول ڈالنا چاہتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہـ:
’’وہ کشن گڑھ قلم کی مصوری کے لیے رنگ بنانا بھول گیا تھا۔اور کیسے نہ بھولتا ،ان اطراف میں نہ تو وہ جڑی بوٹیاں تھیں ، نہ وہ پتھر اور پانی ،نہ وہ کیڑے مکوڑے،اور سب سے بڑھ کر نہ وہ دیویوںجیسی قد آور اور سنہرے تامڑے رنگ کے ہاتھ پاؤں والی حسین لڑکیاںجن کے ہتھوڑے کی ایک ضرب سے لاجَورد یا زبرجَد کا بظاہرمٹ میلا ،ڈلا تین ٹکڑے ہوجاتا ۔ پھر بڑے پتھر کو وہ آہستہ آہستہ ہلکے پانی میں دیر تک اس طرح سے گھستی رہتیں کہ ان کا سقیم و عقیم حصہ گھس کر زائل ہوجاتا اور نیلے نافرمان والے رنگوں جیسی تتلی یا مصری اسکیرب جیسے فیروزی کیڑے کا رنگ نمایاں ہوجاتا۔کشمیر کی نازک انگلیوں اور لچک دار کلائیوں میں وہ صلابت نہ تھی ۔مخصوص اللہ نے کچھ دن لکڑی پر نقش ونگار بنانے کا کام کیا۔ اور حق یہ ہے کہ خوب کیا‘‘۱؎
ان تمام مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ناول نگاری کا ایک خاص اسلوب جزئیات کا حوالہ بھی ہوتا ہے ۔جزئیات کی مدد سے مصنف اپنے مافی الضمیر کو بھی بخوبی واضح کرسکتا ہے بلکہ وہ اسی کے ساتھ پلاٹ اور کرداروں کی اثر انگیزی میں خاطر خواہ اضافے کرسکتا ہے۔
سماجی اقدار اور دہلوی کلچر
ہر ملک ،ہر زمانہ اور ہر حالت کے مطابق ہی سماجی قدریں بنتی ہیں۔ضروری نہیں کہ ہزار برس پہلے تشکیل شدہ سماجی قدریں آج بھی جوں کی توں برقرار رہیں۔مثال کے طور پر اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران ہندوستان میں ہزاروں سماجی قدریں تھیں ان کے چند نمونے ہم کو زیر مطالعہ ناول میں جگہ جگہ مل جاتے ہیں۔ہوسکتا ہے یہ قدریں اس زمانے میں سکۂ رائج الوقت ہو ں لیکن آج قابل مذمت یا قابل اعتنا نہ ہوں۔
جس زمانے کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں اسی زمانے میں نوابین اور رؤساایک آدھ شادی اپنے ’’کفو‘‘ یا خاندان میں کرتے تھے اور بہت سی عورتوں کو بے نکاحی یا خانگی بنا کر رکھتے تھے۔اس زمانے میں یہ کوئی عیب نہ تھا۔شرفا اور امرا اپنے بچوں کو طوائفوں کے کوٹھے پر بھیجتے تھے تاکہ وہاں ادب ،تہذیب اور شائستگی کا سبق لیں۔
سماجی اقدار کی ایک بہترین مثال ہندو مسلم اتحاد تھا۔دیکھئے کہ پنڈت نند کشور کس طرح مسلمانوں میں شیر وشکرہیں ۔طہارت اور پاکیزگی کا کس قدر خیال کرتے ہیں۔زبان کا کوئی مذہب نہ تھا ۔مسلمان عربی فارسی کے ساتھ ساتھ سنسکرت ،ہندی،علم نجوم اور عربی بھی سیکھتے تھے۔شیعہ سنی میں شادیاں ہوتی تھیں اور میاں بیوی اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے۔مرزا غالبؔ کی بیگم (امراو ٔ بیگم) سنی تھیںاور وزیر خانم کے شوہر آغامرزا تراب علی رفاعی نے شیعہ اور سنی دونوں طریقوں سے اپنا نکاح پڑھوایا تھا۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دہلوی کلچر کی چند مثالیں یہ ہیں کہ ہر ڈیوڑھی پر چوبدار ، لٹھیت ،برچھیت اور دربان ملازم ہوتے تھے۔ جب بھی کوئی ملنے آتا تو وہ آنے والے کو روک کر آواز لگاتے ۔تب اسے اندر جانے کی اجازت ملتی تھی۔ہر گھر میں مامائیں، اصیلیں ،کنیزیں، باندیاں اور مختلف کاموں کے لیے ملازمائیں رکھی جاتی تھیں۔خصوصیت کے ساتھ یہ سب اہتمام رئیسوں اور افسران کے گھروں میں ہوتے تھے۔
ملازم اپنے آقا ، خاتون خانہ اور مہمانوں کو بات بات میں تین سلام اور سات سلام کرتے اورخاص مہمانوں کو وہی جوتیاں پہناتے تھے۔مہانوں کی تواضع شربت ،پان ، عطر، گلاب اور بھنڈے(حقے) سے کی جاتی تھی۔جب کہیں سے کوئی ہرکارہ یا پیغامبر آتا تھا تو اسے انعام دیے بغیر واپس کرنا معیوب سمجھاجاتا تھا۔شب میں مالک یا مالکن سے شب بخیر اور صبح کو ’صبا حکم‘ خیر کہا جاتا تھا۔ خواتین بگھی یا نالکی میں آتی جاتی تھیں۔لیکن اب امرا و رؤسا کے یہاں بھی ایسا اہتمام نہیں کیا جاتا۔یہ تبدیلی بلا شبہ بدلتے وقت کا نا گزیر تقاضا ہے جسے نظر انداز کرکے یا اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پرانے طور طریقوں کے مطابق ہی زندگی بسر کرنے کو عقل مندی بہر حال نہیں کہا جاسکتا ۔لیکن یہ بھی ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ گزرے وقتوں کے طرز معاشرت سے مکمل طور پر عملی نہ سہی لیکن ذہنی وابستگی عصر حاضر کے سماجی ارتقا کی سچی تصویر مرتب کرنے میں معاون ہوتی ہے۔رسم ورواج میں تبدیلی ،انسانی روابط کی بدلتی نوعیت اور وسیع تناظر میں آداب معاشرت کا اختلاف اُسی طور پر بہتر سمجھا جاتا ہے جب تبدیلی کے با وصف انسانی قدروں کے تحفظ کو ترجیح دی گئی ہو۔
یہ ناول جس عہد کے سماج کو پیش کرتا ہے اس میں اور موجودہ معاشرہ کی اقدار کا موازنہ مقصود نہیں لیکن فاروقی نے ناول میں بیان کردہ زمانے کی سماجی اقدار اور کلچر کی جزئیات کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ جسے پڑھنے کے بعد عہد حاضر کے سماج کی خوبیاں اور خامیاں از خود نمایاں ہوجاتی ہیں۔
فنون لطیفہ کے حوالے
فن لطیف یاFine Art اس ہنر مندی یا لیاقت خصوصی کو کہتے ہیںجس کا تعلق ہمارے نازک ترین احساسات اور شدید جذبات سے ہو ۔اس فن کی تشکیل میں ندرت، حیرت افروزی ، جمال آفرینی ، اکملیّت اور سکون دل ودماغ کی شمولیت لازمی اجزائے ترکیبی ہیں۔جہاں تک مجھے ذاتی طور پرعلم ہے کہ فاروقی ایک مستند اور صاحب دیوان شاعر ہیں۔ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوکر قبولیت عام حاصل کرچکے ہیں۔ممکن ہے کہ ان میں ’’لے‘‘ کا مادہ بھی ہولیکن موصوف اپنا کلام ترنم سے کبھی نہیں پڑھتے ۔ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ حسِ موسیقی یاMusic Sense سے بڑی حد تک متصف ہیں۔
کئی چاند تھے سرِ آسماں کے متن کو ذہن میں رکھیں تو شمس الرحمن فاروقی ایک حقیقی عالم نظر آتے ہیں ۔قبائے دانشوری ان کے جسم پر پوری طرح جامہ زیبی کی قسم کھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔جہاں تک فنون لطیفہ کا تعلق ہے وہ کم وبیش سبھی سے گہری دلچسپی رکھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ان کا علم سرسری نہیں بلکہ گہرا ہے۔اس اجمالی بیان کی تفصیل یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ ناول کے آغاز ہی سے ان کے علوم کے نمونے سامنے آنے لگتے ہیں۔
اصل کہانی کے مقدمہ کے طور سب سے پہلے ہماری نظر مخصو ص اللہ کی طرف جاتی ہے جو مفلوک الحال انسان تھے لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ اس کے ہاتھوں میں قوسِ قزحRainbowاور انگلیوں میں صبح اور چاندنی کی روشنیاں، بادلوں اور دھندلکوں کی سیا ہیاں ہیں۔مخصو ص اللہ جیسا کوئی لاجواب شبیہ ساز نہ تھا۔مگر جو کہتے ہیں نہ کہ’’ اے روشنیِ طبع تو بَرمَن بلا شدی! ‘‘یہی شبیہ سازی ،صرف مخصو ص اللہ کو کیا،پورے ہند ل پروا گاؤں کو لے ڈوبی۔
ہندل پروا سے ہجرت کرنے کے بعد مخصو ص اللہ بڈگام(کشمیر) میں سکونت اختیار کرتا ہے ۔ایک دن اچانک یا شیخ العالم ! کا نعرہ لگا کر وہ گھر سے غائب ہوجاتاہے۔ اس کی ملاقات بڈگام کی بڑی مسجد میں ایک ایسے خدا ترس ، رحم دل اور ماہر فن بزرگ سے ہوتی ہے جو قالین بافی(Carpet Weaving) کے استاد ہیں۔اس فن کو وہ تعلیم کے نام سے پکارتے ہیں۔آٹھ سال کی مدت میں شدید محنت و ریا ضت کے نتیجہ میں مخصو ص اللہ کشمیر کا سب سے بڑا تعلیم نگار مان لیا جاتا ہے۔اس وقت اس کی فن کاری کے نمونے ہندوستان کے علاوہ ایران و کاشان تک پہنچ چکے تھے۔
مخصو ص اللہ کے دونوں پوتے داؤد اور یعقوب بھی فن موسیقی میں کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ایک مشہور صاحب ثروت تاجر حبیب اللہ بٹ نے اپنے گھر میں منعقد ہونے والی محفل موسیقی میں شرکت کے لیے دونوں بھائیوں کو بحیثیت فن کار خصوصی طور پر مدعو کیا ۔محفل موسیقی کے آغاز کا نقشہ فاروقی نے کس طرح کھینچا ہے:
’’دونوں بھائیوں کے ہاتھ میں طاؤس، ایک ایک سنتور نواز،اور دف نواز دائیں اور بائیں۔ تین نوجوان سمر قندی سہ تار لیے ہوئے پیچھے کچھ الگ کھڑے ہوئے تھے۔سنتور نواز کے پیچھے ایک سنتور،اور ایک بزرگ نَے نواز نے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی نے ،لیکن بید کی نہیں پیتل کی۔طاؤس اور سہ تار کو ہم آہنگ کرنے کی مشقیں جاری تھیں ۔ دف نواز اور سنتورنواز ابھی خاموش تھے۔حبیب اللہ بٹ نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا ۔ حکم ہو تو محفل کا آغاز کیا جائے۔درایں اثنا سہ تاروں کی صدا میں سنتور کی گنگناہٹ شامل ہوکر بلند ہوئی۔ محمد داؤد نے راگ چاندنی کدارا میں الاپ شروع کیا۔یعقوب نے انترے سے استھائی میں قدم رکھا‘‘۱؎
مذکورۂ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخصو ص اللہ ،اس کا بیٹا محمد یحییٰ بڈگامی ، اور اس کے دونوں سپوت ہنر وارانہ ذہن اور جمالیاتی احساس رکھتے تھے۔شبیہ سازی ، قالین بافی اور علم موسیقی سے فطری رغبت میرے اس دعوے کی دلیل ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس ناول کا بالا ستیعاب مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں فنون لطیفہ سے دلچسپی اور اس میں مہارت ِ تامّہ اس خاندان کے قریب قریب ہر فرد کی موروثی شناخت تھی۔آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ محمد یوسف جو یعقوب بڈگامی اور جمیلہ کا بیٹا تھا وہ بڑا ہوکر سادہ کار یعنی کپڑوں پر بیل بوٹے اور رنگ برنگے ڈیزائن بنانے والے ایک فن کار کے روپ میں دنیا کے سامنے آتا ہے۔ایک اور دلچسپ بات یہ تھی کہ یوسف سادہ کار تک صرف مرد ہی اس خاندان میں فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھتے تھے لیکن یوسف کی تینوں بیٹیاں (انوری خانم، عمدہ خانم اور وزیر خانم) بھی کسی حد تک آر ٹسٹک ذہن کی مالک تھیں یعنی اس شجرہ کی عورتوں میں بھی یہ اثر نفوذکرگیا۔بہت ممکن ہے کہ اپنی نانی ڈیرہ دارنی اکبری بائی فرخ آبادی کی تربیت اور ان کے گھریلوماحول کے زیر اثر یہ جمالیاتی احساس اور فنون لطیفہ کی طرف رجحان کارفرما ہوگیا ہو۔ عمدہ خانم ( منجھلی بیگم) طبیعت کی متین تھی ۔اکبری بائی کی صحبت میں رہ کر اسے نستعلیق گفتگو،بذلہ سنجی ، بات بات پر شعر خوانی ، بیگماتی رکھ رکھاؤ خوب آگئے تھے۔موزوں طبع تھی۔ خود شعر کہتی تھی ۔ ماہؔ تخلص تھا۔زمانے کے نئے سنگیت کی طرزوں ، خیال اور دادرا سے بھی خوب واقف تھی۔پیشے کے طور پر نہیں بلکہ شوق پورا کرنے کے لیے اس فن کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔وزیر خانم (چھوٹی بیگم) بچپن ہی سے نانی کے عشرت کدہ میں گھسی رہتی تھی۔ وہاں اس نے تھوڑا بہت گانا بجانا بھی ضرور سیکھ لیا تھا۔ گلا اس کا شروع ہی سے اچھا تھا۔ نانی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اسے بعض معمولی راگ راگنیاں بھی بخوبی یاد ہوگئی تھیں ۔یمن ، بسنت ، بہار ، باگیسری پھر بہت کچھ دادرا۔ کھتریوں اور چرواہوں کی دھنیں جیسے چیتی ، بنارسی ، ٹھمری وغیرہ۔
فنون لطیفہ کا ایک نادرو نایاب نمونہ اس وقت سامنے آتاہے جب ڈاکٹر وسیم جعفر نے اپنے انتقال سے پہلے ایک لفافہ اور کوئی پچاس اوراق پر مشتمل ایک کتاب ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی کے لیے چھوڑی تھی ۔کتاب کوئی جنّاتی کارخانہ معلوم ہوتی تھی۔ اس میں سے طرح طرح کی آوازیں آرہی تھیں۔
پلاٹ
پلاٹ کو ترتیب ماجرا بھی کہتے ہیں۔قصہ گوئی میں خواہ وہ افسانہ ہو یا ناول ، پلاٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔پلاٹ کی عدم موجودگی میں افسانے یا ناول کی تخلیق کرنے کا امر محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔عہد حاضر میں بہت سے افسانہ نویسوں اور ناول نگاروںنے محض جدت اور ذہانت کے زعم میں بغیر پلاٹ کے بھی کہا نیاں لکھی ہیںاور داد وتحسین بھی حاصل کی ہے لیکن سچ پوچھئے تو یہ صرف جدت برائے جدت اور داد برائے داد ہے،نہ تو ہر کس وناکس بغیر پلاٹ کے کہانی لکھ سکتا ہے اور نہ ہی ہر شخص کی سمجھ میں یہ کہانی آسکتی ہے۔پروفیسر وقار عظیم نے لکھا ہے کہ:
’’ پلاٹ، واقعات یا تاثرات کو ایک فنی ترتیب دیتا ہے۔اسی فنی ترتیب میںقصہ کی ابتدااور انجام کے درمیان ایک منطقی ربط کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ قصہ میں وحدت تا ثر قائم رہے‘‘۱؎
سب سے پہلے پلاٹ کی تعریف اور وضاحت کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اسے پہلے پہل زمانۂ قدیم میں یونانیوں نے اتنی اہمیت دی تھی چنانچہ ارسطو نے اپنی عالم گیر شہرت یافتہ کتاب بو طیقا میں ڈراما کے اہم ترین اجزائے ترکیبی میں شمار کیا تھا ،اس کے نزدیک پلاٹ المیہ ڈرامے کی جان تھا ۔آگے چل کر یہ طے پایا گیا کہ کم ازکم ناول میں ضروری نہیں کہ مکھی پر مکھی بٹھا دی جائے یا ٹی وی سیریل کی طرح کڑی سے کڑی ملائی جائے۔اس اصول کے تحت جب آپ’’ کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کا فنی مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اگرچہ ناول کا مقصد نواب مرزا خاں داغؔ دہلوی کی والدہ وزیر خانم کو مستقل طور پر محل اصلی یاFocusمیں رکھنا ہے اس کے باوجودناول میں تجارتی وقفے نہ سہی ادبی وقفے ضرور موجود ہیں اس سے یک رنگی ویک نوائی (Monotony) سے قاری کو بڑی حد تک نجات حاصل ہوتی ہے ۔یہ زمانۂ موجودہ میں ریڈیو اور ٹی وی کی جدید ترین تکنیک ہے۔
مثال کے طور پر پہلے تو ہم ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی ماہر امراض چشم سے ملاقات کرتے ہیں۔موصوف کے لندن میں ڈاکٹر وسیم جعفر ،پی،ایچ ڈی ۔ ایف آر ایچ ایس وغیرہ سے مل کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے کسی آنے والے ڈرامے کا کتنا شاندار ابتدائیہ کیا ہے۔ہمارا تجسس وہیں سے شروع ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر وسیم جعفر کی پردادی، وزیرخانم کون تھیں اور کیسی تھیں؟
اصل کہانی کا آغاز محمد یوسف سادہ کار کے بیان سے ہوتا ہے۔وہ اپنے اصل وطن اور بزرگوں کا مختصراََ تعارف کراتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے آبا واجداد کس لیے وطن سے ہجرت کرکے راجپوتانے سے بارہ مولہ (کشمیر) جابسے؟ اس بیان کے بعد یکے بعد دیگرے متعدد اور متفرق واقعات سامنے آتے ہیں جن کا بظاہر ایک دوسرے سے کوئی منطقی ربط نہیں ہوتا لیکن دو باتیں ایسی ہیں جو ہمارے تجسس اور دلچسپی کو برقرار رکھتی ہیں۔ایک تو یہ کہ ہر واقعہ اپنے مقام پر مکمل ہے دوسرے وزیر خانم ایک زیریں لہر کی طرح اس دریا ئے واقعات میں ہر جگہ موجود ہے۔بالآخر ہم مارسٹن بلیک تک پہنچتے ہیں جہاں سے قصہ بڑی حد تک سلسلہ وار بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پنڈت نند کشور، راحت افزا،بھرمارو،کسّی،مہاکالی وغیرہ کہانی کاجز ہوتے ہوئے بھی کہانی سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔
تکنیکی زبان میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول کا پلاٹ سادہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی لیکن غیر منظم ہرگز نہیں۔ یہی سبب ہے کہ اس میں یقینی طور پر وحدت تاثر کی کیفیت پائی جاتی ہے جو بہرحال ایک نیم تہذیبی، نیم تاریخی اور رومانی ناول کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
کردار نگاری
پلاٹ کی تعمیر میں کردار کا بہت اہم رول ہوتا ہے ۔کرداروں کاتعارف قرین مصلحت ہم آپ سے اس مقالے کے آغاز میں کراچکے ہیںجہاں موجودہ ناول میں بکھرے ہوئے متعدد افراد کے جغرافیائی وجود کو پیش کرتے ہوئے ان کی اہم حرکات و سکنات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔لیکن ناول کے تشکیلی عناصر پر گفتگو کے دوران مناسب ہے کہ کردار نگاری پر بھی مختصراََ اظہار خیال کیا جائے۔اس ضمن میں جو سب سے اہم اور بنیادی بات ہے وہ یہ کہ ناول نگار نے گو کہ بیشتر کردار ایسے منتخب کیے ہیں جو کہ ہندوستان کی سیاسی، ادبی اور ثقافتی تاریخ میں ایک علاحدہ شناخت رکھتے ہیں لیکن شمس الرحمن فاروقی نے ان کی پیش کش میں ناول نگاری کے فن کو ملحوظ رکھا ہے۔ناول کے مرکزی اور ضمنی کرداروں کی نفسیاتی کشمکش اور ذہنی و جذباتی رویہ کی عکاسی اس انداز میں کی گئی ہے کہ وہ کسی ضابطہ بند ارتقائی عمل سے نہ گزرتے ہوئے اپنے عہد اور زمانے سے متاثر ہوتے ہیں اور اپنی ذات سے اپنے عہد کے سماج کو متاثربھی کرتے ہیں۔بلاشبہ وزیر خانم کا کردار ایسا کردار ہے جسے اردو ناول نگاری کی تاریخ کے چند اہم کرداروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ناول کے اس مرکزی کردار کے علاوہ دیگر کردار بھی اپنے عہد کی تہذیب و معاشرت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسا منظر نامہ مرتب کرتے ہیں جو ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم دور تسلیم کیا جاتا ہے۔
’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ میں فاروقی نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کی دہلی کی تہذیبی ، معاشرتی اور انسانی زندگی کے ہر پہلوکو اس کے تما م تر جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے اس کی سب بڑی مثال وزیر خانم کا جیتا جاگتا کردار ہے۔وزیر خانم کا کردار ناول نگا ر کی حقیقت پسندی اور آزمودہ کار ہونے کی بھر پور دلالت کرتا ہے۔وزیر خانم کے اندر بچپن ہی سے مذہبی بغاوت کا جذبہ تھا۔ علم وآگہی کے ساتھ ساتھ سلجھاہوا ادبی ذوق بھی رکھتی تھی۔اس کے باوجود بھی اس کے مزاج میں شو خی اوربے باکی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔غالباََ اس کی وجہ اس کی نانی اکبری بائی کی صحبت کا اثر تھا ۔یوں سمجھئے کہ وہ انیسویں صدی کی ترقی پسند تھی۔ بالآخر یہی ترقی پسندی ، شوخی اور بے باکی اس کی زندگی کی تباہی کا سبب تھی۔
مارسٹن بلیک، بھلے ہی وزیر خانم کی رضامندی سے اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا اور وہ اس کے ساتھ جے پور میں بڑی شادمانی سے اپنی زندگی گزار رہی تھی۔مارسٹن بلیک کوایک ہندوستانی بیوی سے دوبچے بھی پیدا ہوئے اس کے باوجودبھی اس کے دل کے کسی نہ کسی گوشے میں ہندوستانیوں کے خلاف نفرت کی جگہ تھی اور یہ نفرت کسی حد تک وزیرخانم کے لیے بھی تھی۔
انگریز ریزیڈنٹ ولیم فریزر کا کردا ر یک رخا کردار ہے ۔وہ اپنی مطلق العنانیت اور بربریت کے لیے مشہور تھا۔دیگر ہندوستانی عورتوں کی طرح وزیر خانم کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ فریزر کی کوٹھی پر شعر ی نشست کے دوران عورت ذات کی چھٹی حس نے وزیرخانم کو اشارہ دے دیا تھا کہ ولیم فریزر محض اپنی بدنظری اور بد چلنی کی خاطر وزیر خانم پر بری نگاہ ڈال چکا تھاتو دوسری طرف نواب شمس الدین احمد خاں جن کے چہرے سے امارت کی رعونت اور تجربے کی پختگی کے آثار نمایاں تھے ،وزیر خانم کے حسن وجمال پر فریفتہ ہو گئے۔ خود وزیر خانم بھی نواب شمس الدین کو اپنے دل میں بسانے کا خواب دیکھنے لگی۔
مذکورہ ناول میں نواب شمس الدین احمد خاں والیِ فیروز پور جھرکہ اور لوہارو کاکردار خودداری،نیکی،شرافت ، انسانیت اور ہندوستانی تہذیب کی خاطر خواہ نمائندگی کرتاہے علاوہ ازیںبائی جی، پنڈت نند کشور،مرزاغالبؔ،امام بخش صہبائی،ذوق ؔ دہلوی ،حکیم احسن اللہ خاں ،مرزا داغؔ،کریم خاں ، انیامیواتی،حبیبہ اور راحت افزاکا شمار گرچہ ثانوی،ضمنی اور اضافی کرداروں میں ہوتا ہے لیکن ان کرداروں کی پیش کش کوفاروقی نے نہایت چابکدستی سے برتاہے کہ یہ ناول کا اہم حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ڈاکٹر محمد یٰسین لکھتے ہیں:
’’ناول نگاری میں واقعات اور کرداروں کو نمایاں کرنے کے لیے،واقعیت کے ساتھ حسین دروغ گوئی کا بھی سہارا لیا جاتاہے‘‘۱؎
شمس الرحمن فاروقی نے اس شاہکار ناول میں شاید ہی کہیں ’حسین دروغ گوئی‘ کے حربے سے کام لیاہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فاروقی نے زیب داستاں کے لیے ابتدا میں ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی (ماہر امراض چشم)کی نام نہاد یاد داشتوں کا سہارا لے کر انھوں نے خود اس غائب راوی اور وسیم جعفر کی تشریح کردی ہے۔رہ گیا اس ناول کا اصل متن تو بلاخوف وتردید کہا جاسکتا ہے کہ اس میں تاریخی حقائق کم سے کم ہیں تو حسین دروغ گوئی کی آمیزش بھی خال خال ہے۔اس ناول کو جہاں تک میں نے سمجھا ہے اور بہت حد تک ممکن ہے کہ اس میں منظر کشی اور مبالغہ آرائی کی بہتات ہے مگر کسی بھی طرح ناول یا اس کے فن پر گراں نہیں گزرتا۔
جان دار منظر نگاری
’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ ایک ایسا ناول ہے جو جام ِ جہاں نما کی طرح ہر قسم کی معلومات سے لبریز ہے ۔اسے کثیر الابعاد شیشے Prismکی طرح جیسے جیسے گھماتے جاؤ نئی نئی شکلیں نظر آئیں گی۔ناول کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس ناول کے خالق شمس الرحمن فاروقی محض ایک فکشن نگار ہی نہیں بلکہ وہ عالم گیر شہرت کے مالک ایک شاعر ، صحافی،ادبی نقاد اور دانشور بھی ہیں۔موصوف نے حقیقی معنوں میں دنیا دیکھی ہے شاید یہی سبب ہے کہ فاروقی کو ہر قسم کی منظر نگاری میں ید طولیٰ حاصل ہے۔پہلے ہم نے ان کے مختصرافسانوں میں لاجواب منظر نگاری کے خوبصورت نمونے دیکھے اور اب یہ ضخیم لیکن دلچسپ ناول ایک بڑا کینوس لے کر سامنے آتا ہے۔طوالت کی خاطر جاندار منظر نگاری کی صرف دومثالیں پیش کی جاتی ہیں۔پہلی مثال یہ ہے کہ جب کشن گڑھ (راجپوتانہ) کے گاؤں’’ ہندل پروا‘‘ کے مشہور شبیہ ساز مخصوص اللہ نے ’’بنی ٹھنی ‘‘ کی تصویر بنائی تھی جس کی وجہ سے پورے گاؤں پر مہاراول گجندر پتی سنگھ مرزا کا قہر نازل ہوا ۔ بہر حال فاروقی نے ’’بنی ٹھنی‘‘ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے:
’’چودہ ۔پندرہ برس کی لڑکی ۔سنگ سیاہ کی ایک شکستہ سی چوکی پر یوں بیٹھی ہوئی گویا اب اٹھے گی تو پوری جوان ہی اٹھے گی۔بھر پور جوانی اس کے عضو عضو پر دستک دے رہی تھی۔لہنگا ذرا ڈھیلا اور لمبا،لیکن گلاب کی کلی سے نازک تر ٹخنے اور گلاب کی پنکھڑی سے بھی لطیف ،گلابی لیکن زندہ پھڑکتے ہوئے رنگ کے پاؤں تھوڑے تھوڑے جھلک رہے تھے۔ایک تلوے پر ہلکا سا داغ۔ خدا معلوم تل تھا یا باغ کی کوئی پتی پاؤں کے صدقے ہوکر رہ گئی تھی۔گردن اسی طرح ایک طرف خم ۔صورت ویسی ہی نیم رخ ،لباس شوخ او ر بھڑ کیلانہیں بلکہ سفید اور گلابی اور زعفرانی،لیکن تینوں رنگ اس طرح سے بول رہے تھے کہ تصویر تھر تھراتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔گردن میں صرف ایک سادہ سونے کا ہارجس میں گوریا کے انڈے کے برابرایک انتہائی صفائی سے بیضوی کاٹے ہوئے یاقوت انجم کا آویز،کلائیوں میں صرف ایک ایک گھڑیالی کڑا۔ٹھنڈی پہاڑی جھیل جیسی گہری آنکھوں میں خوش مزاجی اور الھڑپن اور نخوت کاامتزاج۔چہرے پرواضح مسکراہٹ نہیں توکوئی تشویس بھی نہیں،ایک خاموش تمکنت،خود پر کامل اعتماداور دنیا کے ہر خوف سے بیگانہ،مطمئن انداز نشست۔‘‘۱؎
فاروقی کی لاجواب منظر نگاری کا دوسرا نمونہ اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب مرزا اسداللہ خاں غالبؔ کی صدارت میں ولیم فریزر کی کوٹھی پرشعری نشست کے بعد نواب شمس الدین احمد خاں نے وزیر خانم سے ملنے کی پیش کش کی جسے وزیر خانم نے دل وجان سے قبول کیا۔اس کے کچھ دنوں بعد نواب شمس الدین کی دعوت پر وزیر خانم خود ان کے گھر تشریف لے جاتی ہیں ۔وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد خاں کی غالباََ یہ تیسری ملاقات تھی۔اس دن وزیرخانم پوری تیاری کے ساتھ نواب شمس الدین احمد کے یہاں جاتی ہیں:
’’وزیر خانم نے اس دن ترکی وضع کے کپڑے پہنے تھے۔پاؤں میں آسماں رنگ کاشانی مخمل اور پوست آہو کی نکے دار شیرازی جوتیاں ، بہت پتلی ایڑی اور لمبی ڈور ، دیوار بالکل نہ تھی ،ایڑیاں کھلی ہوئی تھیں ۔ جوتیوں کی نوکیں بھی شکر خورے کی چونچ کی طرح بہت لمبی اور اوپر اٹھی ہوئی تھیں اور ان کے سرے پر جنگلی مرغے کے سرخ بیر بہوٹی جیسے پَر کے طرّے تھے۔جوتیوں کے حاشیوں پر باریک بیل تھی جس میں سفید اور سنہرے پکھراج ٹکے ہوئے تھے۔آدمی جوتیوں کی چھب دیکھے تو دیکھتا رہ جائے لیکن اس کے آگے کا منظر دیکھنے کے لیے شیر کا کلیجہ اور تندوے کی بے حیائی درکار تھی‘‘۲؎
درج بالا دونوں اقتباس سے اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ناول نگار شمس الرحمن فاروقی ہر قسم کی منظر کشی کے فن میںمعراج کمال کا درجہ رکھتے ہیں۔
ناول کی زبان
زبان کی تشکیل میں بدلتے ہوئے ماحول ، موضوع گفتگو،وقت ،علاقائیت اور تہذیب وتمدن کا بڑا ہاتھ ہوتاہے۔اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی کا احاطہ کیے ہوئے فاروقی کا یہ ناول اس پہلو پر کافی روشنی ڈالتا ہے کہ اس کی زبان کیسی ہے ؟ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں خصو صیت کے ساتھ دہلی اور اس کے قرب وجوار میں فارسی بولنے اور لکھنے کاچلن عام تھا ۔ناول کو پڑھنا شروع کیجیے تو وہیں یا تو فارسی تراکیب سے گراں بار اردوملتی ہے یا فارسی کے بر محل کلاسیکی اشعار۔مثال کے طور پرجب مرزا غالبؔ، داغؔ دہلوی سے پہلی بار ملے تو کہا کہ پوری دلّی میں تمھاری شہرت پر لگا کر اڑ رہی ہے اورتمھیںصرف مجھی سے ملنا نہیں ہورہاہے۔پھر انھوں نے یہ شعر پڑھا:
اے آتش فراقت ، دلہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جاں ہا خراب کردہ
صاحبزادے ! ہم آج تم سے وہی غزل سنیں گے۔اے سبحان اللہ،یہ عمر اور یہ مضمون یا بیاں؟ سچ ہے صاحب ،خدا جس کو دے۔
اسی طرح جب وزیر خانم سے ملاقات کرنے کے لیے نواب شمس الدین احمد خاںنے چوبدار کے ذریعے ملاقات کاوقت مانگا تووزیر خانم (چھوٹی بیگم) نے تڑپ کر کہا:
دیدہ و دل فرش راہ!
جس عہد کی ہم بات کررہے ہیں اس عہد کی باتوں میں علاقائی محاسن ،وہاں کی سرزمین، لوگوں کی روزمرہ زندگی،مشاغل ،مذہبی رسوم،شادی بیاہ کی رنگ رلیوں اور حسن فطرت کے حوالے کبھی براہ راست اور کبھی با لواسطہ ملتے ہیں۔مثلاََ :
۱)جی ۔جی ۔ ہاں مسافر ہی کہہ لیجیے۔یہاں غریب الدیارہوں۔
۲) بولنے والے کی آواز میں بادشاہوں جیسا اعتماد اور اولیا اللہ جیسی گیرائی تھی۔
۳) واہ بھئی سلیمہ بی بی، اتنے اچھے ہاتھ پاؤں کا بچہ اور اتنا کالا رنگ؟ گویا نشاط باغ کا کالا گلاب۔واہ جی واہ سبحان اللہ۔
’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ موضوع کے علاوہ زبان وبیان کے اعتبار سے بھی اردو کے چند اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔فاروقی نے ناول میں جو زبان استعمال کی ہے وہ اردو اور فارسی کے علاوہ عربی زبان سے بھی ان کی کما حقہ واقفیت کی دلالت ہے۔اس ناول کی زبان وہ کلاسیکی اردو ہے جس کے نشان اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔آج کے اردو قاری کے لیے یہ زبان بھلے تھوڑی مشکل ہو لیکن اس کا اعتراف بہر حال کرنا پڑے گا کہ شمس الرحمن فاروقی نے قدیم اردو لغات اور محاورات سے عصر حاضر کے اردو قاری کو متعارف کرانے کا ایک بڑا ادبی فریضہ انجام دیا ہے۔ناول کی زبان، ناول کے بنیادی موضوع کے ارتقائی عمل میں معاون دیگر واقعات اور حالات کو تمام لوازم اور جزئیات کو کامیابی کے ساتھ منعکس کرتی ہے۔ناول کی زبان اس قدر شستہ اور رواں ہے کہ بیان کردہ واقعات کی تفہیم میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
یہ ناول فاروقی کی ہمہ جہت شخصیت اور مختلف النوع علوم وفنون اورکئی زبانوں پردسترس رکھنے کا تاریخی دستا ویز ہے ۔اس کا اندازہ ناول کے مطالعے سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ ناول نگار دہلی اور اس کے اطراف واکناف میں بسنے والے فرقے ،ان کے مذہب کی تہذیب وتمدن اور معاشرت سے گہری واقفیت رکھتا ہے۔
فاروقی کی تحریریں اس لیے بھی پُر کشش ہوتی ہیں کہ وہ ہر قسم کے بیانیہ میں شاید غیر ارادی طور پر یا عادتاََایسے عبارتی ٹکڑے رکھ دیتے ہیں کہ ایک طرف تو ان کا مافی الضمیر پوری طرح ان کے حسب منشا واضح ہوجاتا ہے اور دوسری طرف وہ ٹکڑاقاری کی مذاق سازی کا کام بھی کرتا ہے۔مختصر یہ کی ناول’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کی زبان، مصنف کے حاکمانہ اقتدار پر دلالت کرتی ہے۔یہ اس دور کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے اگر چہ کہیں کہیں لغت اور اس دور کے شعرا کی مدد بھی لینی پڑتی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے اس ناول میں نہ صرف اس عہد کی زبان کا خاص خیال رکھا ہے بلکہ ایک ماہر سماجیات کی طرح معاشرہ کے ہر اتار چڑھاؤ پر نظر بھی رکھی اور ساتھ ہی ساتھ اس کے اسباب وعلل کو جاننے کی کوشش بھی کی ہے۔ان کی یہ معروضیت ناول کو اس قدر حقیقت سے قریب تر کردیتی ہے کہ اس میں بیان کیے گیے تمام واقعات کے حقیقی ہونے کا گمان گزرتا ہے گوکہ ان میںسے بیشترفاروقی کی قوت متخیلہ کی ایجاد ہیں۔
٭٭٭