Pique Between Qurratulain Hayder and Parveen Shakir

Articles

قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر کے بیچ رنجش

رئوف خیر

اردو ادب میں قلمکار خواتین کی پذیرائی جی کھول کر اور بانہیں پھیلا کر کی گئی ہے مگر اس کے لیے ان خواتین کا بے باک ہونا شرطِ اول ہے۔ عصمت لحاف سے باہر نکل کر ٹیڑھی لکیر پر چل پڑتی ہیں۔ رشید جہاں انگارے ہاتھوں میں لینے کا حوصلہ رکھتی ہیں وہیں انھی انگاروں سے فہمیدہ اور رضیہ سجاد ظہیر کے ساتھ ساتھ یکے از زیدیان اپنے سگریٹ سلگاتی ہیں اور ان کا ساتھ دینے میں تسلیمہ ’’لجا‘‘ محسوس نہیں کرتیں۔ کشور کشائی میں اک غیرت ناہید نے اپنی بری کتھا لکھنے میں کوئی عار نہیں سمجھا ، یا پھر کوئی بانو اپنے دستر خوان کے ذریعے مشہور و ممتاز سمجھے جانے والے ادیبوں ، شاعروں ، ناقدوں کو نان و نمک پیش کرکے ایوانِ ادب میں داخل ہوتی ہیں۔ مشاعرہ باز متشاعرات کا ذکر ہی یہاں مقصود نہیں کہ یہ زیریں لہر صرف منتظمین مشاعرہ اور عوام کو متاثر کرتی ہیں اور ان کی زلف سخن خاصان ’’نظم‘‘ کے شانوں پر اور عامیانِ غزل کی آنکھوں پر لہراتی ہے۔
مگر بعض ایسی قلمکار خواتین بھی ہیں جنھوں نے اپنے قلم کا لوہا منوایا ہے۔ انھی میں قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر بھی شامل ہیں۔ قرۃ العین حیدر 20؍ جنوری 1927ء کو علی گڑھ میں اپنے زمانے کے منفرد ادیب سجاد حیدر یلدرم کے گھر پیدا ہوئیں۔ (ان کی پیدائش کے سال میں اکثر رسائل نے اختلاف کا اظہار کیا ہے کہیں 1926ء تو کہیں 1928ء بھی چھپا ہے۔) روشن خیال آزادہ رو خاندان کی فرد ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے قلم کو شتر بے مہار ہونے نہیں دیا۔ مغربی تہذیب کی دلدادہ ہونے کے باوجود نہ وہ ’’واہ امریکہ‘‘ ۔۔۔۔۔۔ کہتی ہیں نہ اپنی عنبریں کی نتھ اترواتی ہیں، نہ کسی کردار کو اترن پہنا کر لطیفے کو کہانی بناتی ہیں۔ ان کی چاندنی بیگم چائے کے باغ کے کنارے ہائوسنگ سوسائٹی میں گردشِ رنگِ چمن پر گہری نظر ڈالتی ہیں تو کبھی ستمبر کے چاند کا لطف لینے کے لیے سفینۂ غمِ دل میں بیٹھ کر آخرِ شب کے ہم سفر کے ساتھ آگ کا دریا پار کرنے کی کوشش کرتی ہوئی جہانِ دیگر پہنچتی ہیں۔
اردو ادب میں علامہ اقبال سے زیادہ پڑھا لکھا شاعر نہ پیدا ہوا ہے ، نہ ہوگا اسی طرح قرۃ العین حیدر سے بڑی ادیبہ نہ ہوئی ہے نہ ہوگی۔
قرۃ العین حیدر کی علمیت کا اعتراف نہ کرنا اپنی لاعلمیت کا ثبوت دینا ہے۔ ان کی تعلیم لکھنؤ سے لے کر کیمبرج یونیورسٹی اور لندن کے مایہ ناز اسکولوں میں ہوئی۔ ظاہر ہے یہ سارا پس منظر ان کا مزاج بنانے میں اپنا حصّہ ادا کرتا رہا ہے اور پھر انھیں اپنے معیار پر پورا اترنے والا کوئی فرد ملا ہی نہیں اس لیے انھوں نے زندگی کا سفر تنہا ہی طے کرنے کی ٹھانی۔ اسی لیے مزاج میں خود سری Dogmatismتھی۔
بعض وقت وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خفا ہوجاتی تھیں۔ انٹرویو دینے سے تو بہت گریز کرتی رہیں۔ فوٹو کھنچوانے کے سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ڈاکٹر ابرار رحمانی نے بیان کیا ہے کہ ماہنامہ ’آج کل‘ (دہلی) کے دفتر میں وہ محو گفتگو تھیں کہ سرکاری فوٹو گرافر نے فوٹو کھینچ لیا۔ ’’پھر کیا تھا تھوڑی دیر کے لیے ان کی خوش کلامی کو بریک سا لگ گیا اور سخت ناراضگی کے آثار ان کے چہرے پر نظر آنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر تک وہ بھڑاس نکالتی رہیں، جب بھڑاس نکال چکیں تو اپنے پرس سے آئینہ اور کنگھی نکالی اور رُخِ زیبا سنوارنے لگیں۔ تھوڑی سی لپ سٹک بھی لگائی تب چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا:’’ اب تصویر کھینچئے۔‘‘(ماہنامہ ’ایوانِ اردو، جنوری 2008ء)
اپنے آپ سے پیار کسے نہیں ہوتا ہے۔ منظر میں رہنا ہر شخص چاہتا ہے۔ فن کارتو ہوتا ہی منظر کے لیے ہے۔ بلکہ بعض نام نہاد فن کاروں اور متشاعروں کے پس منظر میں بھی فن کار ہی ہوتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر اپنی شرطوں پر جینے کی عادی تھیں۔ وہ اپنی بات منوا کر رہتی تھیں۔ ماہنامہ ’’شاعر‘‘ (ممبئی)جنوری 2008ء میں افتخار امام صدیقی نے ایک دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ قرۃ العین حیدر کی زندگی میں وہ ان پر فضیل جعفری اور سلمیٰ صدیقی سے مضامین لکھوا رہے تھے۔
’’ میں نے اپنی پریشانیوں کا آغاز کیا کہ عینی آپا کو بتا دیا کہ فضیل جعفری اور سلمیٰ صدیقی صاحبہ نے اپنے اپنے مقالے لکھ کر اشاعت کے لیے دیئے ہیں۔ اب عینی آپا بضد کہ پہلے وہ دونوں مضامین پڑھیں گی اس کے بعد ہی وہ شائع ہوں گے۔ مذکورہ دونوں قلم کاروں کا اصرار کہ ہمارے مضامین عینی آپا کو دکھائے بغیر ہی شائع کئے جائیں۔ عینی کی دھمکیاں شروع ہوگئیں کہ پریس اور ’’شاعر‘‘ دونوں کو بند کروا دوں گی ، میرے پڑھے بغیر مضامین کی اشاعت ہرگز نہ کرو۔‘‘
’’شاہد احمد دہلوی ۔۔۔۔۔۔۔ پکچر گیلری کی ایک تصویر‘‘ کے عنوان سے لکھے ہوئے خاکے میں قرۃ العین حیدر نے خود ہی بیان کیا کہ:
’’میرے بھانجے عاصم زیدی نے ایک روز مجھے بتایا کہ آپ کے متعلق ایک نہایت بے ہودہ مضمون ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ کسی نے لوسی فر کے فرضی نام سے لکھا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مضمون میں آج پڑھتی تو بے حد ہنسی آتی لیکن اس وقت شدید غصّہ آیا۔ اس وقت تک شاہد صاحب سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے انھیں ریڈیو اسٹیشن پر فون کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ جیسے مہذب انسان سے یہ توقع نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ انھوں نے بھی کافی سختی سے جواب دیا۔ میں نے کہا بالکل بلاوجہ آپ میرے خلاف اس قسم کا بے بنیاد مضمون کیوں چھاپ رہے ہیں۔ پھر میں نے کہا’’ساقی‘‘ یہاں مالی مشکلات کاسامنا کررہا ہے اور شاید آپ کا خیال ہے کہ اس طرح سنسنی خیز مضامین سے پرچہ بک جائے گا۔ مگر مجھ غریب کو بے قصور نشانہ کیوں بنائیے؟(شاہد احمد) کہنے لگے اچھا کل آپ ریڈیو اسٹیشن آئیے۔ وہاں وہ مجھ سے پھر الجھ گئے اور کہنے لگے اچھا اب ہماری آپ کی ملاقات عدالت میں ہوگی۔ میں حیران پریشان ۔ دوسرے روز وہ مضمون کا پروف لے کر آئے۔ مگر پروف شاہد صاحب نے اسی وقت پھاڑدیئے۔‘‘ (سہ ماہی ’’سفیر اردو‘‘لندن اکتالسواں شمارہ جولائی، ستمبر 2007ء )
یہ وہی شاہد احمد دہلوی ہیں جن کے بارے میں قرۃ العین نے اپنے اسی مضمون میں یہ بھی لکھا :’’ بہت ممکن تھا کہ Teenage Hobbyکی حیثیت سے تھوڑے بہت افسانے لکھ کر چھوڑ دیتی مگر شاہد احمد صاحب کی مسلسل فرمائش اور اصرار سے بڑی سخت ہمت افزائی ہوئی ۔ میرے پہلے افسانے کا تذکرہ انھوں نے اپنے ایڈیٹوریل میں کیا۔‘‘
پروین شاکر 1952ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں یعنی قرۃ العین حیدر سے عمر میں تقریباً 25برس چھوٹی تھیں۔
ایک کرم فرما جناب تفنن مجازی سے (تفنن مزاجی بھی کہا جاسکتا ہے) پروین شاکر کو عورتوں کی اختر شیرانی تک کہتے ہیں مگر وہ اپنے خیال سے رجوع کسی بھی وقت کرسکتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو پروین شاکر کی طرح شعر کہنے کا سلیقہ بہت ہی کم شاعرات اور بہت کم شاعروں کو ملا ہے۔ کچھ تو اللہ نے انھیں صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا اور کچھ انھیں گاڈ فادر بھی اچھے مل گئے ، وہ چل نکلیں۔ کم عمری میں انھیں کئی تجربات سے گزرنا پڑا۔ کئی اعزازات بھی ملے۔ اس ماہِ تمام کی رویتِ ہلال 1977ء میں ’’خوشبو‘‘ سے ہوئی۔ پھر تو یہ گلِ صد برگ اپنی بہار دکھانے لگا۔ ایم ۔اے (انگریزی لسانیات) کرنے کے بعد وہ انگریزی کی لیکچرر ہوگیں۔ 1982ء میں پاکستان سِول سروس کا امتحان کامیاب کرکے حکومت کے اس اہم شعبے میں آگئیں۔ پاکستان ٹی وی کے لیے انھوں نے کئی مشاہیر کے انٹرویو لیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1976ء میں اُن کی شادی اُن کے خالہ زاد ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ پروین 1979ء میں ایک بیٹے کی ماں بنیں اب وہ بیٹا تیس سال کا ہوچکا ہے ۔ وہ بامُراد پتہ نہیں اپنی ماں پر شاکر ہے یا اپنے باپ کی نصرت کررہا ہے۔ نہ جانے کیا بات ہوئی کہ صرف دس گیارہ سال تک ہی پروین شاکر اور نصیر ساتھ ساتھ نباہ کرسکے۔ 1987ء میں دونوں میں طلاق ہوگئی۔ اس ’’کفِ آئینہ‘‘ کے پیچھے ’’انکار‘‘ و اثبات کے زنگار سے فی الحال ہمیں کوئی علاقہ نہیں کہ ہم تو اس ’’ماہِ تمام‘‘ کے مہتابِ سخن کی ’’خوش کلامی‘‘ کے گرویدہ ہیں۔ پروین شاکر نے عورت کی نفسیات اور ماقبل و مابعد بلوغت کے احساسات کو جس بلاغت سے پیش کیا ہے وہ کسی اور شاعر کے پاس ایسے تہذیبی پیرایۂ اظہار میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ پروین شاکر کے لب و لہجہ میں حسن کی تہذیب بھی ہے اور تہذیب کا حسن بھی ہے۔
فکش میں قرۃ العین حیدر جتنی مقبول و ممتاز ہیں ، شعر و ادب میں پروین شاکر بھی اتنی ہی مقبول ہیں ۔ زندگی نے وفا نہ کی ورنہ بہت ممکن تھا کہ وہ کئی او ر شاہکار اردو ادب کو دے جاتیں۔ 26؍ دسمبر 1994کو کار کے ایک حادثے میں وہ جاں بحق ہوگئیں ۔ گویا صرف 42بہاریں ہی وہ دیکھ پائیں مگر شہرت ان کے قدم چومتی تھی۔
اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ 1978کے اواخر میں وہ ہندوستان آئی تھیں۔ واپس جاکر انھوں نے اپنے سفر کی یادگار کے طور پر کئی نظمیں لکھیں جن میں تین نظمیں بطور خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ تاج محل، فراق گورکھپوری اور قرۃ العین حیدر پر لکھی ہوئی وہ نظمیں ’’سیپ‘‘ کراچی ۔شمارہ 38(اکتوبر ؍نومبر1978ء) میں شائع ہوئی تھیں۔’’سیپ‘‘ کا یہ شمارہ جب قرۃ العین حیدر تک پہنچا تو انھوں نے اپنے اوپر لکھی گئی نظم کے ردِّ عمل کے طور پر مدیر ’سیپ‘ نسیم درانی اور پروین شاکر کے نام الگ الگ دو خطوط ارسال کیے۔ پروین شاکر کے نام خط یوں تھا:
ممبئی۔۔۔۔۔۔3 ؍ جنوری 1979؁ء
محترمہ پروین شاکر صاحبہ
’سیپ‘ میں آپ کی نظم دیکھی جس میں آپ نے اپنی شاعری اور تخیل کے جوہر دکھائے ہیں۔میں آپ سے بہت خلوص و اپنائیت سے ملی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ،آپ نے میرے متعلق اس قدر لچر الفاظ کس طرح اور کیوں استعمال کیے اور آ پ کو میں کس طور پر ایسی Figure of the tragedy & frustationنظر آئی یا اس قسم کی Sickنظمیں لکھ کر آپ اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ آپ شاید بھولتی ہیں اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں۔ میں ۶ تاریخ کو تین ماہ کے لیے دلی جارہی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ مندرجہ ذیل پتے پر مجھے لکھیں گی کہ آپ نے یہ نظم کیا سوچ کر لکھی یا آپ کی واقعی اتنی Sickذہنیت ہے کہ آپ میری شخصیت کواس طرح مسخ کرکے پیش کریں۔ نہ میری آپ سے پرانی دوستی ہے نہ آپ میری ہم عمر ہیں۔ آپ نے دو تین بار کی سرسری ملاقات کے بعد میرے طرز زندگی پر جو قطعی میرا اپنا انتخاب اور میرا معاملہ ہے فیصلے صادر کرکے یہ ظاہر کیا ہے کیا آپ بمبئی آکر بوکھلا گئی تھیں۔or you must be light out of your mind
قرۃ العین حیدر
دوسرا خط مدیر ’سیپ‘ نسیم درانی کے نام یوں تھا:
جناب مدیر ’سیپ‘ نسیم درانی صاحب ، تسلیم!
آپ کے رسالے میں پروین شاکر صاحبہ کی نظم دیکھ کر افسوس ہوا اور تعجب بھی۔ ادیبوں کی شخصیت کو بلا وجہ اور بلا جواز Unprovokedمسخ کرکے پیش کرنا یا اُن پر کیچڑ اچھالنا ہمارے اردو رسالوں کا وطیرہ بن گیا ہے اور یہ وبا عام ہوچکی ہے۔ اس قسم کی Viciousnessکی وجہ کیا ہے۔ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ امید ہے آپ مجھے بتائیں گے۔ والسلام
پتہ دیا تھا: معرفت مسٹر ایم آئی قدوائی ، وائس چانسلر ہائوس ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، پی۔او ۔ جامعہ نگر ، اوکھلا۔ نئی دہلی۔۲۵
قرۃ العین حیدر کا خط پاکر پروین شاکر حیران ہوئیں کہ خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی ہوئی نظم کا یہ الٹا اثر ہوا۔ انھوں نے تمام تر احترام ملحوظ رکھتے ہوئے قرۃ العین حیدر کو جواب دیا اور اس کی ایک نقل مدیر ’سیپ‘ نسیم درانی کو بھی بھیج دی۔ نسیم درانی نے مدیرانہ ذمہ داری اور مدیرانہ تہذیب کے پیش نظر وہ خطوط اُس وقت شائع نہیں کیے مگر ’سیپ‘ کی ایک خاص اشاعت شمارہ 75 ، 2006ء میں دونوں قلم کارخواتین کے خطوط شائع کرتے ہوئے یہ نوٹ لگایا:
’’ادارے نے اپنی مدیرانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اِن خطوط کو اس وقت اس لیے شائع نہیں کیا کہ اردو کی سب سے عظیم نثر نگار اور ایک حساس شاعرہ کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش ایک مستقل نزاع کی صورت نہ اختیار کرلے۔‘‘
اب جبکہ نہ پروین شاکر ہی سلامت ہیں اور نہ قرۃ العین حیدر ، یہ خطوط ان کے مزاج کوسمجھنے کی دستاویز ہوکر رہ گئے ہیں۔ پروین شاکر کا خط پڑھنے سے پہلے آئیے اک نظر اُس نظم پر ڈال لیں جس کا قرۃ العین نے منفی تاثر قبول کیا۔ نظم کا عنوان ہے:
قرۃ العین حیدر
جیون زہر کو متھ پر امرت نکالنے والی موہنی
بھرا پیالہ ہاتھوں میں لیے پیاسی بیٹھی ہے
وقت کا راہو گھونٹ پہ گھونٹ بھرے جاتا ہے
دیوی بے بس دیکھ رہی ہے
پیاس سے بے کل ۔۔۔۔۔۔۔اور چپ ہے
ایسی پیاس کہ جیسے
اس کے ساتوں جنم کی جیبھ پہ کانٹے گڑے رہے ہوں
ساگر اس کا جنم بھون
اور جل کو اس سے بیر
ریت پہ چلتے چلتے اب تو جلنے لگے ہیں پیر
ریت بھی ایسی جس کی چمک سے آنکھیں جھلس گئی ہیں
آبِ زر سے نام لکھے جانے کی تمنا پوری ہوئی پر
پیاسی آتما سونا کیسے پی لے؟
اک سنسار کو روشنی بانٹنے والا سورج
اپنے بُرج کی تاریکی کو کس ناخن سے چھیلے
شام آتے آتے کالی دیوار پھر اونچی ہوجاتی ہے (’سیپ‘ ، شمارہ 38، اکتوبر ؍ نومبر 1978ء)
اس نظم کے ردِّعمل کے طور پر 3، جنوری 1979ء جو خط قرۃ العین حیدر نے پروین شاکر کو لکھا تھا اس جواب 8فروری 1979ء کو پروین شاکر نے دے دیا تھا۔ چونکہ انھیں خط مدیر ’سیپ‘ نسیم درانی کی معرفت ملاتھا ، انھوں نے اس خط کی ایک نقل مدیر ’سیپ‘ کو بھی بھیجی تھی۔ پروین شاکر کا یہ خط بجائے خون اُن کی خوش سخنی و خوش کرداری کا غماز ہے:
عینی آپا ۔ آداب
معذرت خواہ ہوں کہ میری کوئی تحریر آپ کی دل آزاری کا سبب بنی۔ یقین کیجئے میرا ہرگز یہ منشا نہیں تھا۔ نہ نظم میں نے آپ کو خوش کرنے کے لیے لکھی تھی ، نہ ناراض کرنے کے لیے۔ یوں جان لیں کہ یہ ایک تاثراتی قسم کی چیز تھی۔ آپ بہت بڑی ادیب ہیں، ہم نے تو آپ کی تحریروں سے لکھنا سیکھا۔ آپ مجھ سے خلوص اور اپنائیت سے ملیں ، بڑا کرم کیا۔ یقیناً یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا ، میں نے اس نظم میں کسی قسم کا لچر لفظ کہاں استعمال کیا ہے (کیوں اور کس طرح کا سوال تو بعد میں اٹھتا ہے) آپ تو مجھے بہت پیاری ، بہت گہری خاتون لگی تھیں۔ Frustratedاور Sick-Figuresلوگ ایسے تو نہیں ہوتے۔ ہاں جہاں تک Tragedyکا تعلق ہے تو اپنا یہ تاثر میں Ownکرتی ہوں۔ دکھ کس کی زندگی میں نہیں ہوتے، فرق یہ ہے کہ آپ جیسے اعلیٰ ظرف لوگ اسے جھیلنا جانتے ہیں ، آنسو کو موتی بنادیتے ہیں، ہماری طرح سے اسے رزقِ خاک نہیں ہوتے دیتے۔ لیکن آپ اگر اس بات سے انکاری ہیں تو چلئے یہی سہی۔ آپ خوش رہیں، آپ کے عقیدت مندوں کی اس کے سوا دعا ہے بھی کیا؟
نہیں عینی آپا جسارت کررہی ہوں مگر غلط فہمی ہوگی اگر آپ یہ سمجھیں کہ اس قسم کی نظمیں لکھ کر میں اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہوں۔ شہرت تو محبت کی طرح روح کی اپنی کمائی ہوتی ہے، کسی نام کی زکوٰۃ نہیں(مولانا الطاف حسین حالی اور جیمس باسویل کبھی میرے آئیڈیل نہیں رہے!)
آپ کا کہنا درست ہے کہ ’’اگر میں بدنفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں‘‘۔ مجھ سمیت کوئی ذی نفس جس کی پہچان حرف ہے، آپ کے قلم کی طاقت سے بے خبر نہیں، بسم اللہ۔
چونکہ آپ نے سوال اٹھایا ہے اور جواب نہ دینا گستاخی ہوگی لہٰذا یہ وضاحت مجھ پر لازمی ہوگئی ہے کہ میں نے نظم کسی خاص محرک کے تحت نہیں لکھی۔ ہندوستان سے واپسی کے بعد جب ذہن سے سفر کی گرد اتری تو سونے کے کچھ ذرات میری سوچ کی انگلیوں پر لگے رہ گئے۔ تاج محل، گنگا سے، اے جگ کے رنگ ریز(امیر خسرو) بوے یاسمین باقسیت، قرۃ العین حیدر اور سلمیٰ کرشن۔ یہ میری وہ نظمیں ہیں جو اس سفر کا عطیہ ہیں۔ رہی میری ذہنیت کے Sickہونے کی بات تو اس کا فیصلہ کوئی سائیکا ٹرسٹ ہی کرسکتا ہے لیکن اگر آپ حرف کی حرمت پر یقین رکھتی ہیں تو میری بات مان لیجیے کہ ان تمام نظموں میں آپ سمیت کسی شخصیت یا عمارت کو مسخ کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی گئی۔
اب بات آتی ہے میرے اور آپ کے تعلقات کی……تو عینی آپا آپ سے ایک بار پھر درخواست ہے کہ نظم دوبارہ پڑھیں، کہیں بھی نئی یا پرانی کسی دوستی کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔ ہم عمر ہونے میں تاریخی اور طبی عوامل بھی حائل ہیں! وہ ملاقاتیں یقینا سرسری ہی تھیں اور آپ کے طرزِ زندگی پر جو قطعی طور پر آپ کا اپنا انتخاب اور اپنا معاملہ ہے طویل اور گہری ملاقاتوں کا اعزاز حاصل کرنے والے بھی فیصلہ صادر کرنے کا حق نہیں رکھتے!
Out of Mindہونے کے متعلق فیصلہ میں پہلے ہی ایک تیسرے شخص کے ہاتھ میں دے چکی ہوں البتہ ایک بات واضح کرتی چلوں کہ بمبئی اتنا بڑا شہر بہر حال نہیں ہے کہ کراچی کا کوئی رہنے والا وہاں جاکر بوکھلا جائے۔ خدا میرے پاکستان کو سلامت رکھے۔ کبھی فرصت ملے تو ذرا علی سردار جعفری صاحب سے پوچھئے گا کہ آپ کے شہر کے بارے میں میرے تاثرات کیا ہیں؟
نظم کی ناپسندیدگی پرشرمندہ ہوں اور درگزر کی خواستگار !
میں ذاتی خطوط کی نقلیں مدیران جرائد کو دینے کی قائل نہیں ہوں مگر چونکہ آپ نے لکھا ہے کہ اس خط کی نقل مدیر ’’سیپ ‘‘ کو بھیجی جارہی ہے لہٰذا میں نے بھی مجبوراً یہی قدم اٹھا یا ہے لیکن اتنا اطمینان رکھیں کہ آپ کی رضامندی کے بغیر یہ خط کہیں شائع نہیں ہوگا۔ کہیے کیا حکم ہے؟
ہاں یاد آیا ۔ یہ تو آپ نے لکھا ہی نہیں کہ ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ کی رائلٹی یہاں پاکستان میں آپ کے کس رشتہ دار کو دی جائے؟
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے
’’برا ئے سیپ‘‘
نیاز مند
پروین شاکر
پتہ نہیں پروین شاکر کا یہ خط پڑھ کر قرۃ العین حیدر پر کیا گزری تھی۔
٭٭٭

یہ مضمون رسالہ اردو چینل کے شمارہ 27  جلد بارہ ، شمارہ 1 تا 2 ، بابت اپریل 2010سے ماخوذ ہے۔
مضمون نگار جناب رئوف خیر اردو کے معروف شاعر ہیں ۔ حیدر آباد ، تلنگانہ ، ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔