Pital Ka Ghantta A Short Story by Qazi Abdussattar

Articles

قاضی عبد الستار کا افسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘

مسافروں نے لاری کو دھکا دیا اور ڈھکیلتے ہوئے خاصی دور تک چلے گئے لیکن انجن گنگناتا تک نہیں۔ڈرائیور گردن ہلاتا ہوا اتر پڑا۔کنڈکٹر سڑک کے کنارے ایک درخت کی جڑ پر بیٹھ کر بیڑی سلگانے لگا۔مسافروں کی نظریں گالیاں دینے لگیں اور ہونٹ بڑبڑانے لگے میں بھی سڑک کے کنارے سوچتے ہوئے دوسرے پیڑ کی جڑ پر بیٹھ کر سگریٹ بنانے لگا۔ایک بار نگاہ اٹھی تو سامنے دو درختوں کی چوٹیوں پر مسجد کے مینار کھڑے تھے۔میں ابھی سگریٹ سلگا ہی رہا تھا کہ ایک مضبوط کھردرے دیہاتی ہاتھ نے میری چٹکیوں سے آدھی جلی ہوئی تیلی نکال لی۔میں اس کی بے تکلفی پر ناگواری کے ساتھ چونک پڑا۔مگر وہ اطمینان سے اپنی بیڑی جلا رہا تھا وہ میرے پاس ہی بیٹھ کر بیڑی پینے لگا یا بیڑی کھانے لگا۔
’’یہ کون گاؤں ہے؟‘‘میں نے مینار کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
’’یو _______ یوبھسول ہے۔‘‘
بھسول کا نام سنتے ہی مجھے اپنی شادی یاد آ گئی ۔میں اندر سلام کرنے جا رہا تھا کہ ایک بزرگ نے ٹوک کر روک دیا۔وہ کلاسکی کاٹ کی بانات کی اچکن اور پورے پائچے کا پاجامہ اور فرکی ٹوپی پہنے میرے سامنے کھڑے تھے۔میں نے سر اٹھا کر ان کی سفید پوری مونچھیں اور حکومت سے سینچی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔انہوں نے سامنے کھڑے ہوئے خدمت گاروں کے ہاتھوں سے پھولوں کی بدھیا لے لیں اور مجھے پہنانے لگے۔میں نے بل کھا کر اپنی بنارسی زری پوت کی جھلملاتی ہوئی شیروانی کی طرف اشارہ کر کے تلخی سے کہا۔’’کیا یہ کافی نہیں تھی؟‘‘_____وہ میری بات پی گئے۔بدھیا برابر کیں۔پھرمیرے ننگے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر کہا’’_____اب تشریف لے جایئے۔میں نے ڈیوڑھی پر کسی سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ تھے۔بتایا گیا کہ یہ بھسول کے قاضی انعام حسین ہیں۔
بھسول کے قاضی انعام حسین ،جن کی حکومت اور دولت کے افسانے میں اپنے گھرمیں سن چکا تھا۔میرے بزرگوں سے ان کے جو مراسم تھے مجھے معلوم تھے۔میں اپنی گستاخ نگاہوں پر شرمندہ تھا۔میں نے اندر سے آکر کئی بار موقع ڈھونڈھ کر ان کی چھوٹی موٹی خدمتیں انجام دیں۔جب میں چلنے لگا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دی،مجھے بھسول آنے کی دعوت دیاور کہا کہ اس رشتے سے پہلے بھی تم میرے بہت کچھ تھے لیکن اب تو داماد ہو گئے ہو۔اس قسم کے رسمی جملے سبھی کہتے ہیں لیکن اس وقت ان کے لہجے میں خلوص کی ایسی گرمی تھی کہ کسی نے یہ جملے میرے دل پر لکھ دیے۔
میں تھوڑی دیر کھڑا بگڑی ’’بس‘‘کو دیکھتے رہا ۔پھر اپنا بیگ جھلاتا ہوا جتے ہوئے کھیتوں میں اٹھلاتی ہوئی پگڈنڈی پر چلنے لگا۔سامنے وہ شاندار مسجد کھڑی تھی ،جسے قاضی انعام حسین نے اپنی جوانی میں بنوایا تھا۔مسجد کے سامنے میدان کے دونوں طرف ٹوٹے پھوٹے مکان کا سلسلہ تھا،جن میں شاید کبھی بھسول کے جانور رہتے ہونگے،ڈیوڑھی کے بالکل سامنے دو اونچے آم کے درخت ٹرانک کے سپاہی کی طرح چھتری لگائے کھڑے تھے۔ان کے تنے جل گئے تھے۔جگہ جگہ مٹی بھری تھی۔ڈیوڑھی کے دونوں طرف عمارتوں کے بجائے عمارتوں کا ملبہ پڑا تھا۔دن کے تین بجے تھے۔وہاں اس وقت نہ کوئی آدم تھا نہ آدم زاد کہ ڈیوڑھی سے قاضی صاحب نکلے۔لمبے قد کے جھکے ہوئے،ڈوریے کی قمیض،میلا پائجامہ اور موٹر ٹائر کے تلوؤں کا پرانا پمپ پہنے ہوئے،ماتھے پر ہتھیلی کا چھجہ بنائے مجھے گھور رہے تھے میں نے سلام کیا ۔جواب دینے کے بجائے وہ میرے قریب آئے اور جیسے ایک دم کھل گئے ۔میرے ہاتھ سے میرا بیگ چھین لیا اور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے ڈیوڑھی میں گھس گئے۔
ہم اس چکر دار ڈیوڑھی سے گزر رہے تھے جس کی اندھیری چھت کمان کی طرح جھکی ہوئی تھی ۔دھنیوں کو گھنے ہوئے بد صورت شہتیر رو کے ہوئے تھے ۔
وہ ڈیوڑھی سے چلائے ۔’’ارے سنتی ہو______’’دیکھ تو کون آیا ہے ۔میں نے کہا اگر صندوق وندوق کھولی بیٹھی ہو تو بند کر لوجلدی سے۔‘‘لیکن دادی تو سامنے ہی کھڑی تھیں ،دھلے ہوئے گھڑوں گھڑونچی کے پاس دادا ان کو دیکھ کر سٹپٹا گئے ۔وہ بھی شرمندہ کھڑی تھیں پھر انہوں نے لپک کر الگنی پر پڑی مارکین کی دھلی چادر گھسیٹ لی اور ڈوپٹہ کی طرح اوڑھ لی۔چادر کے ایک سرے کو اتنا لمبا کر دیا کہ کرتے کے دامن میں لگا دوسرے کپڑے کا چمکتا پیوند چھپ جائے۔
اس اہتمام کے بعد وہ میرے پاس آئیں ۔کانپتے ہاتھوں سے بلائیں لیں ۔سکھ اور دکھ کی گنگا جمنی آواز میں دعائیں دیں دادی کانون سے میری بات سن رہی تھیں لیکن ہاتھوں سے جن کی جھریاں بھری کھال جھول گئی گئی تھی دالان کے اکلوتے ثابت پلنگ کو صاف کر رہیں تھیں ۔جس پر میلے کپڑے ،کتھے چونے کی کلیاں اور پان کی ڈلیاں ڈھیر تھیں اور آنکھوں سے کچھ اور سوچ رہی تھیں ۔مجھے پلنگ پر بٹھا کر دوسرے جھولا جیسی پلنگ کے نیچے سے وہ پنکھا اٹھا لائیں جس کے چاروں طرف کالے کپڑوں کی گوٹ لگی تھی اور کھڑی ہوئی میرے اس وقت تک جھلتی رہیں جب تک میں نے چھین نہ لیا۔پھر وہ باورچی خانے میں چلی گئیں ۔وہ ایک تین دروں کا دالان تھا ۔بیچ میں مٹی کا چولہا بنا تھا ۔المونیم کی چند میلی پتیلیاں کچھ پیپے اور کچھ ڈبے کچھ شیشے بوتل اور دو چار اسی قسم کی چھوٹی موٹی چیزوں کے علاوہ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔وہ میری طرف پیٹھ کئے چولہے کے سامنے بیٹھی تھیں ۔دادا نے کونے میں کھڑے ہوئے پرانے حقہ سے بے رنگ چلم اتاری اور باورچی خانہ میں گھس گئے ۔میں ان دونوں کی گھن گھن شرگوشیاں سنتا رہا۔ دادا کئی بار جلدی جلدی باہر گئے اور آئے ۔میں نے اپنی شیروانی اتاری ۔ادھر ادھر دیکھ کر چھ دروزوں والے کمروں کے کواڑ پر پر ٹانگ دی۔نقشیں کواڑ کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ ایک جگہ لوہے کی پتی لگی تھی لیکن بیچوں بیچ گول دائرے میں ہاتھی دانت کا کام ،کتھے اور تیل کے دھبوں میں جگمگا رہا تھا۔بیگ کھول کر میں نے چپل نکالے اور اور جب تک میں دوڑوں دادا گھڑونچی سے گھڑا اٹھا کر اس لمبے کمرے میں رکھ آئے جس میں ایک بھی کیواڑ نہ تھا ۔صرف گھیرے لگے کھڑے تھے۔جب میں نہانے گیا تو دادا المونیم کا لوٹا میرے ہاتھوں میں پکڑا کر مجرم کی طرح بولے۔’’تم بیٹے اطمینان سے نہاؤ۔ادھر کوئی نہیں آئے گا۔پردے تو میں ڈال دوں لیکن اندھیرا ہوتے ہی چمگادڑ گھس آئے گی اور تم کو دق کرے گی۔
میں گھڑے کو ایک کونے میں اٹھا لے گیا۔وہاں دیوار سے لگا ،اچھی خاصی سینی کے برابر پیتل کا گھنٹہ کھڑا تھا۔میں نے جھک کر دیکھا ۔گھنٹے میں مونگریوں کی مار سے داغ پڑ گئے تھے۔دو انگل کا حاشیہ چھوڑ کر جو سووراخ تھا اس میں سوت کی کالی رسی بندھی تھی۔اس سوراخ کے برابر ایک بڑا سا چاند تھا اس کے اوپر سات پہل کا ستارہ تھا۔میں نے تولیہ کے کونے سے جھاڑ کر دیکھا تو وہ چاند تارا بھسول اسٹیٹ کا مونو گرام تھا۔عربی رسم الخط میں ’’قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ‘‘کھدا ہوا تھا۔یہی وہ گھنٹہ تھاجو بھسول کی ڈیوڑھی پر اعلان ریاست کے طور پرتقریباً ایک صدی سے بجتا چلا آ رہا تھا۔میں نے اسے روشنی میں دیکھنے کے لئے اٹھا نا چاہالیکن ایک ہاتھ سے نہ اٹھ سکا۔دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر دیکھتا رہا۔میں دیر تک نہاتا رہا ۔جب باہر نکلا تو آنگن میں قاضی انعام حسین پلنگ بچھا رہے تھے۔قاضی انعام حسین جن کی گدی نشینی ہوئی تھی۔جن کے لئے بندوقوں کا لائسنس لینا ضروری نہیں تھا۔جنہیں ہر عدالت طلب نہیں کر سکتی تھی ۔دونوں ہاتھوں پر خدمت گاروں کی طرح طباق اٹھائے ہوئے آئے۔جس میں الگ الگ رنگوں کی دو پیالیاں ’’لب سوز‘‘چائے سے لبریز رکھی تھیں ایک بڑی سی پلیٹ میں دو ابلے ہوئے انڈے کاٹ کر پھیلا دئے گئے تھے ۔شروع اکتوبر کی خوشگوار ہواکے جھونکوں میں ہم لوگ بیٹھے نمک پڑی ہوئی چائے کی چسکیاں لے رہے تھے کہ دروازے پر کسی بوڑھی نے ہانک لگائی۔
’’مالک‘‘
’’کون‘‘
’’مہتر ہے آپ کا _______ صاحب جی کا بلابے آئے ہے۔‘‘
دادا نے گھبرا کر احتیاط سے اپنی پیالی طباق میں رکھ دی اور جوتے پہنتے ہوئے باہر چلے گئے ۔اپنے بھلے دنوں میں اس طرح شاید وہ کمشنر کے آنے کی خبر سن کر بھی نہ نکلے ہونگے ۔
میں ایک لمبی ٹہل لگا کر جب واپس آیا تو ڈیوڑھی میں مٹی کے تیل کی ڈبیا جل رہی تھی ۔دادا باورچی خانے میں بیٹھے چولھے کی روشنی میں لالٹین کی چمنی جوڑ رہے تھے میں ڈیوڑھی سے ڈبیااٹھا لایا اور اصرار کرکے ان سے چمنی لے کر جوڑنے لگا ۔
ہاتھ بھر لمبی لالٹین کی تیز گلابی روشنی میں ہم لوگ دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔دادا میرے بزرگوں سے اپنے تعلقات بتاتے رہے۔اپنی جوانی کے قصے سناتے رہے۔کوئی آدھی رات کے قریب دادای نے زمین پر چٹائی بچھائی اور دستر خوان لگایا۔بہت سی ان میل بے جوڑ اصلی چینی کی پلیٹوں میں بہت سی قسموں کا کھانا چنا تھا ۔شاید میں نے آج تک اتنا نفیس کھانا نہیں کھا یا۔صبح میں دیر سے اٹھا۔ یہاں سے وہاں تک پلنگ پر ناشتہ چنا ہوا تھا۔دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ دادی نے رات بھر ناشتہ پکایا ہے۔_____جب میں اپنا جوتا پہننے لگا تو رات کی طرح اس وقت بھی دادای نے مجھے آنسو بھری آواز سے روکا ۔مین معافی مانگتا رہا دادی خاموش کھڑی رہیں ۔جب میں شیروانی پہن چکا دروازے پر یکہ آگیا ،تب دادی نے کانپتے ہاتھوں سے میرے بازو پر امام ضامن باندھا،ان کے چہرے پر چونا پتا ہوا تھا۔آنکھیں آنسوؤں سے چھلک رہی تھیں ۔انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا’’یہ اکاون روپے تمہاری مٹھائی کے ہیں اور دس کرائے کے۔‘‘
’’ارے ______ارے دادی ______آپ کیا کر رہی ہیں !‘‘اپنی جیب میں جاتے ہوئے روپیوں کو میں نے پکڑ لیے۔
چپ رہو تم _________تمہاری دادی سے اچھے تو ایسے ویسے لوگ ہیں جو جس کا حق ہوتا ہے وہ دے تو دیتے ہیں _غضب خدا کا تم زندگی میں پہلی بار میرے گھر آؤ میں تم کو جوڑے کے نام پر ایک چٹ بھی نہ دے سکوں _______ میں ________بھیا _______تیری دادی تو بھکارن ہو گئی۔
معلوم نہیں کہاں کہاں کا زخم کھل گیا ۔وہ دھاروں دھاروں رو رہی تھیں ۔دادا میری طرف پشت کئے کھڑے تھے اور جلدی جلدی حقہ پی رہے تھے ۔مجھے رخصت کرنے دادی ڈیوڑھی تک آئیں لیکن منھ سے کچھ نہ بولیں ۔میری پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اور گردن ہلا کر رخصت کر دیا۔
دادا قاضی انعام حسین تعلقدار بھسول تھوڑی دیر تک یکہ کے ساتھ چلتے رہے لیکن نہ مجھ سے آنکھ ملائی نہ مجھ سے خدا حافظ کہا ایک بار نگاہ اٹھا کر دیکھا اور میرے سلام کے جواب میں گردن ہلا دی۔
سدھولی جہاں سے سیتا پور کے لئے مجھے بس ملتی ابھی دور تھا۔میں اپنے خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ میرے یکہ کو سڑک پر کھڑی ہوئی سواری نے روک لیا۔جب میں ہوش میںآیا تو میرا یکہ والا ہاتھ جوڑے مجھ سے کہہ رہا تھا _______میاں ______الی شاہ بھسول کے ساہوکار ہیں ان کے یکہ کا بم ٹوٹ گیا ہے،آپ برا نہ مانو تو الی شاہ بیٹھ جائیں ۔
میری اجازت پا کر اس نے شاہ جی کو آواز دی ۔شاہ جی ریشمی کرتا اور مہین دھوتی پہنے آئے اور میرے برابر بیٹھ گئے اور یکہ والے نے میرے اور ان کے سامنے ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر رکھ دیا۔گھنٹے کے پیٹ میں مونگری کی چوٹ کا داغ بنا تھا۔دو انگل کے حاشئے پر سوراخ میں سوت کی رسی پڑی تھی۔اس کے سامنے قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ کا چاند اور ستارے کا مونو گرام بنا ہوا تھا ۔میں اسے دیکھ رہا تھا اور شاہ جی مجھے دیکھ رہے تھے اور یکے والا ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔یکے والے سے رہا نہ گیا ۔اس نے پوچھ ہی لیا۔
’’کا شاہ جی گھنٹہ بھی خرید لایو؟‘‘
’’ہاں کل شام معلوم نائی کاوقت پڑا ہے میاں پر کہ گھنٹہ دے دین بلائے کے ای ‘‘
ہاں وقت وقت کی بات ہے ________ شاہ جی ناہیں تو ای گھنٹہ_______
’’اے گھوڑے کی دم راستہ دیکھ کے چل ‘‘ ________یہ کہ کر اس نے چابک جھاڑا۔
میں ________میاں کا برا وقت ________چوروں کی طرح بیٹھا ہوا تھا ________
مجھے معلوم ہوا کہ یہ چابک گھوڑے کے نہیں میری پیٹھ پر پڑا ہے۔
=============================================
قاضی عبد الستار کے سوانحی کوائف
اردو فکشن کے اہم ستون پروفیسر قاضی عبدالستار  ۹؍فروی  ۱۹۳۲ کو لکھنؤ سے متصل ضلع سیتاپور کے ایک گائوں مچھر یٹہ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام قاضی عبدالعلی عرف بڑے بھیا اور والدہ کا نام عالمہ خاتون تھا۔ انھوں نے جب آنکھیں کھولیں تو تعلقداری اور زمینداری کا طمطراق پورے شباب پر تھا۔ ایسے ماحول میں ان کی پرورش ناز و نعم سے ہوئی ان کی تعلیم و تربیت ان کے ماموں قاضی جمیل الدین ایڈوکیٹ اور چچا محمود علی رئیس مچھر یٹہ کے زیر سایہ ہوئی۔ بچپن سے ہی ان کی ذہانت اور فطانت  کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرکے  ۱۹۴۸ میں ہائی اسکول اور ۱۹۵۰ میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات آر۔جی۔ڈی کالج سیتا پور سے پاس کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آبائی وطن کو خیر باد کیا اور لکھنو ٔپہنچے۔ وہاں انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور  ۱۹۵۲ میں بی اے (آنرز) اوّل درجہ میں پاس کیے۔انھوں نے اسی یونیورسٹی سے  ۱۹۵۴ میں ایم۔اے (اردو) فرسٹ ڈویثرن اور فرسٹ پوزیشن سے پاس کیا۔ اس بنا پر وہ شنکر دیال شاد گولڈ میڈل کے مستحق ہوئے۔ اس وقت لکھنؤ یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ پروفیسر احتشام حسین پروفیسر آل سرور اور پروفیسر محمدحسن جیسی اردو ادب کی نامی گرامی ہستیاں تھیں۔ قاضی صاحب نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ۱۹۵۷ میں’’ اردو شاعری میں قنوطیت‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالہ کے نگراں اردو کے معتبر ادیب پروفیسر رشید احمد صدیقی تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنے سے پیشتر ہی وہ ۱۹۵۶میں عارضی طور پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو سے بہ حیثیت لیکچرر منسلک ہو گئے اور وہ  ۱۹۶۱میں پرما ننٹ ہوئے۔ اسی شعبہ میں وہ ۱۹۶۷ میں ریڈر اور  ۱۹۸۱ میں پروفیسر ہوئے۔ ۱۹۸۸ میں وہ صدر شعبۂ اردو کے پر وقار عہدے پر فائز ہوئے۔ ۳۷؍سال تک شعبئہ ا ردو کی قابل قدر خدمات انجام دے کر وہ ۱۴؍جولائی  ۱۹۹۳ کو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ درس و تدریس کے دوران انھوں نے اپنی معیاری تحریروں اور بصیرت افروز تقریروں سے جو شہرت حاصل کی وہ بہت کم اساتذہ کو نصیب ہوتاہے۔  افسانوی ادب میں قاضی صاحب کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔                                                                                       قاضی عبدالستار  نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز اسی وقت سے کردیا تھا جب کہ وہ مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھے  ۔انھوں نے ۱۹۴۶میں اپنا پہلا افسانہ ’’اندھا‘‘ لکھا جو لکھنو ٔسے شائع ہونے والے جریدے ’’جواب‘‘ میں شائع ہوا۔ اس وقت ان کی عمر تیرہ سال کی تھی ۔ یہ کہانی اتنی مقبول ہوئی کہ رسالہ ’’مضراب‘‘ میں بھی چھپی۔ اس وقت وہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ صہباؔ  ان کا تخلص تھا۔ وہ بابو گر چرن لال شیداؔ نبی نگری سے اصلاح لیتے تھے۔ ان کا کلام  ۱۹۵۷ تک ہندو پاک کے رسالوں میں شائع ہوتا رہا۔  ۱۹۵۴کا زمانہ ان کی زندگی کا اہم موڑ ہے۔ اسی سال انھوں نے ایم۔ اے۔( اردو) امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی سال ان کا پہلا ناول ’’شکست کی آواز‘‘ منظر عام پر آیا اور اسی سال ان کی ایک نظم ’’گومتی کی آواز‘‘ رسالہ شاہراہ میں شائع ہوئی۔ وہ قاضی صاحب کا تشکیلی دور تھا۔ اس وقت وہ اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ آیا وہ شاعری کے میدان میں آگے بڑھیں یا فکشن میں  لیکن کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے شاعری کو ترک کیا اور نثر کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا اور اسی راستے پرآگے بڑھتے گئے۔ وہ تنقیدو تحقیق کی طرف بھی راغب ہوئے ۔تحقیقی مقالہ کے علاوہ انھوں نے ’’جمالیات اور ہندوستانی جمالیات‘‘ کے موضوع پر معرکتہ الآرا تنقیدی مقالہ لکھا اس کے بعد ان کا تخلیقی سفر برق رفتاری سے آگے بڑھتا گیا ۔ناول نگاری کے میدان کو انھوں نے اپنے لیے مختص کیا اسی میدان میں انھوں نے اپنے قلم کا جوہر دکھایا اور ان کے ایک کے بعدایک ناول تواتر سے منظر عام پر آنے لگے۔ ’’شب گزیدہ، مجو بھیاّ، صلاح الدین ایوبی، بادل، غبار شب، دار شکوہ، غالب، حضرت جان، خالد بن ولید، تاجم سلطان اور تاج پور جیسے ناول لکھ کر انھوں نے تاریخی ناول نویسی میں بھی بلند مقام حاصل کیا۔ اس میدان میں ان کی بڑی قدر افزائی ہوئی۔ ناول کی بہ نسبت انھوں نے افسانے کم لکھے لیکن جو کچھ بھی لکھا ہے۔ وہ معیاری اور ادبی شاہکار ہیں۔ ان کی مقبولیت اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں یکساں ہے۔ان کے ادبی کارنامے کا اعتراف ارباب ادب نے کیا ہے اور انھیں قومی اور عالمی سطح پر پدم شری، غالب ایوارڈ، بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ،عالمی اردو ایوارڈ، یو۔ پی اردو اکادمی ایوارڈ، اقبال سمان جیسے اعزازات سے نوازاگیا ہے۔
======================================
افسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ : تشریح و تجزیہافسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ : تشریح و تجزیہ
قاضی عبدالستار ایک مشہور اور مقبول افسانہ نگار ہیں وہ اپنے منفرد موضوع اور سحر آفریں اسلوب سے اردو افسانہ نگاری کو توانا اور تونگر بنا رہے ہیں۔ اردو کے ممتاز نا قد شمس الرحمن فاروقی نےان کے فکر و فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:                                                                        ’’قاضی عبدالستار  Paradoxes کے بادشاہ ہیں ان کا فن  ایڈ گرایلن پو کی یاد دلاتا ہے۔ ان کے قلم میں گذشتہ عظمتوں اور کھوئے ہوئے ماحول کو دوبارہ زندہ کرنے کی حیرت انگیر قوت ہے۔ ان کی سب سے بڑی قوت حاضراتی صلاحیت ہے جو دو جملوں میں کسی مکمل صورت حال کو زندہ کر دیتی ہے۔ ایڈگرایلن پو  کی طرح اس سے انتہائی مختلف سیاق و سباق میں وہ نفسیات کو اجاگر کرنے کے بادشاہ ہیں‘‘۔        قاضی عبدالستارنے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے اس وقت کیا جب وہ مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ انھوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’اندھا‘‘لکھا جو معروف رسالے میں شائع ہوا۔ اس سے انھیں بحیثیت افسانہ نگار بڑی شہرت ملی لیکن اس کے بعد انھوں نے کافی عرصے تک کوئی افسانہ نہیں لکھا اس اثنا میں انھوں نے کئی یاد گار ناول لکھے، برسوں بعد انھوں نے۱۹۶۴میں ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ افسانہ لکھا  جسے ادبی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے کئی یاد گار افسانے تخلیق کئے اور اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس مجموعہ میں ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ کے علاوہ مالکن رضو باجی، ٹھاکر وارہ، گرم لہو میں غلطاں اور مجریٰ جیسے اہم افسانے شامل ہیں۔ قاضی صاحب کے عزیز شاگرد پروفیسر محمد غیاث الدین نے ۲۸؍ منتخب افسانوں کا مجموعہ ’’آئینہ ایام‘‘  ۱۹۹۵میں شائع کیا ہے۔ جس کی بڑی پذیرائی ہوئی ہے۔ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ کہانی کا تعلق قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ سے ہے۔ آزادی سے پہلے بھسول اسٹیٹ کی جاہ وحشمت اور شان و شوکت قرب و جوار میں مشہور تھی اس اسٹیٹ کے مالکوں کی گدی نشینی ہوتی تھی۔ جن کی عالیشان حویلی تھی، باغات تھے، ہاتھی گھوڑے تھے سپاہی اور نوکر چاکر تھے۔ انھوں نے ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ ان کی زمینداری کئی گائوں میں تھی ان کے یہاں کچہری لگتی تھی اور وہ خود مقدمہ کا فیصلہ کرتے تھے۔ ارباب اِقتدار میں ان کی بڑی عزت تھی لیکن آزادی کے بعد خاتمہ زمینداری اور تعلقداری کا اعلان ہوا تو دھیرے دھیرے ان کی خوشحالی بد حالی میں تبدیل ہوتی گئی۔ عالیشان عمارت کھنڈر میں تبدیل ہوگئی۔ جہاں اہل کاروں اور رشتہ داروں کا ہجوم رہتا تھا اب وہاں آدم نہ آدم زاد فقط دو نفر بوڑھے قاضی انعام حسین اور ان کی بوڑھی بیوی کسمپرسی کے عالم میں زندگی کے باقی دن کاٹ رہے ہیں ایک زمانہ تھا جب کہ عزیز و اقارب کی خاطر داری بڑے اہتمام سے ہوتی تھی۔ اَن گنت نوکر چاکر، غریب، یتیم، مسکین دولت خانہ سے پرورش پاتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مقرب مہمانوں کی میز بانی گراں گزرتی ہے آمدنی اس قدر قلیل ہے کہ میز بانی کے اہتمام میں گھر کے اثاثے بیچنے پڑتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ برسوں بعد جب ان کا داماد ان کے گھر آتا ہے تو اس کی آئو بھگت میں ان کا پیتل کا وہ گھنٹہ بک جاتا ہے جو ان کی ڈیوڑھی پر اعلان ریاست کے طور پر تقریباََ ایک صدی سے بجتا چلا آرہا تھا۔ یہ المیہ اس کہانی کا مرکزی خیال ہے یہ رودادمفلسی فقط انعام حسین کی نہیں ہے بلکہ خاتمہ زمینداری کے بعد اس کہانی میںاودھ کے سارے جاگیردار اور تعلقدار نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت کو قاضی عبدالستار نے اپنے زور ِقلم سے افسانہ بنا دیا ہے جو منشی پریم چند کے افسانہ ’’کفن‘‘ کی طرح لازوال ہوگیا۔ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ مشکل سے چھ صفحات پر مشتمل ایک مختصر سی مگر موثر کہانی ہے۔ اس کہانی کا موضوع آزادی کے بعد زمینداروں اور تعلقداروں کی معاشی اور سماجی بحران ہے۔ جسے فنکار نے بڑی ہنر مندی سے ایک کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے اس کہانی میں اس قدر پختگی اور گہرائی ہے کہ ہر لفظ علامت اور ہر جملہ ایک کہانی ہے۔ غرض یہ کہ اس کی کہانی مشاعرانہ لوازمات اور وسائل پوری طرح جلوہ گر ہیں۔ اس طرح کی کہانی وہی فنکار لکھ سکتا ہے جس کا مطالعہ اور مشاہدہ عمیق ہو، زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہو اور افسانہ کے فن و تکنیک سے کماحقہ واقف ہو۔         قاضی صاحب اپنے افسانوں کا تانا بانا آس پاس کے ماحول اور اپنی ذاتی زندگی سے بنتے ہیں جس میں حقیقت نگاری کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں تجربات اور مشاہدات کا رنگ بڑی چابکدستی سے بھرتے ہیں اور اپنی دلکش زبان سے اسے پر لطف بنا دیتے ہیں۔ خاتمہء زمینداری کے بعد طرز معاشرت میںبڑی تبدیلی آئی زمیندا راور تعلقدار زبوں حالی کا شکار ہوئے اس کی زد میں قاضی صاحب بھی آئے۔ اس سماجی اور معاشی تبدیلی کو انھوںبڑی دیانت داری کے ساتھ اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ پہلی جنگ آزادی کے پس منظر میں انھوں نے ’’نیا قانون‘‘ کہانی تحریر کی ہے اس میں انھوں نے اودھ کی سیاست میں انگریزوں کی مداخلت سے جو تبدیلی ہوئی ہے اسے ایک مورخ کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس افسانے میںایک محب وطن فنکار کا دل دھڑکتا ہے۔  قاضی صاحب سے پہلے منشی پریم چند نے دیہی زندگی کو اپنے افسانوں کا خاص موضوع بنایا ہے۔ جس میں زمینداروں کو ظالم اور جابر بتایا ہے ۔قاضی صاحب نے بھی گائوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے مگر ان کے یہاں گائوں کی کیفیت پریم چند کے گائوں سے مختلف ہے۔ زمانہ کافی تبدیل ہوچکا ہے آزادی کے بعداب زمیندار قابلِ رحم ہے ۔اس کی عزت دائوپر ہے پھر بھی اپنی رواداری اور وضع داری کو نبھارہا ہے ۔ بھلے ہی وہ اثاثہ اور جائیداد سے محروم ہورہا ہے انھیں کی دولت سے ایک دوسرا طبقہ سرمایہ دار بن رہا ہے اور سیاست میں حصہ لے رہا ہے۔ پنچایت اور گائوں کی پردھانی اس کے ہاتھ میں ہے جو نئی نئی سازشوں کا مرتکب ہے۔ عدالت کا بھی کام اطمینان بخش نہیں ہے کمزور انصاف سے دور اور طاقتور غاصب ہے۔ رگھو چمارکا استغاثہ مہتو کی طاقت کے سامنے خارج ہوجاتا ہے۔ قاضی صاحب کے افسانے موجودہ دیہی سیاست کا آئینہ ہیں۔ ہندی کے مشہور ادیب بابا ناگاا رجن نے سچ کہا ہے:  ’’قاضی عبدالستار اردو کے دوسرے پریم چند ہیں‘‘ جس طرح سے قاضی صاحب کے موضوعات متنوّع ہیں اسی طرح سے ان کی کردار نگاری بھی ہے ۔ وہ مو ضوعات کے اعتبارسے کردار تخلیق کرتے ہیںان کے افسانوں میں ہر طرح کے کردار مل جائیں گے۔ اعلیٰ طبقے سے متعلق بادشاہ شہزادی کنیز، تعلقدار، زمیندار کے ساتھ پس ماندہ طبقے کے کردار بندھوا مزدور میکو اور گھیسو چمار بھی ہیںغرض کہ ان کے افسانے تنگ داماتی کا شکار نہیں ہیں۔ ان کے زیادہ تر کردار اودھ کی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس افسانہ میں ایک تعلقدار کی زبوں حالی کو تشبیہاتی اور استعاراتی انداز میں بیان کیا گیا ہے، مثلاََ عمارتوں کاملبہ، چھت کمان کی طرح جھکی ہوئی، دھنیوں کے گھنے ہوئے بدصورت شہیتر اسی طرح ملبوسات اور گھر کے اثاثے کی حالت ہے۔ قاضی صاحب کی ڈوری کی قمیض میلا پائجامہ، بیوی کے دامن میں لگے ہوئے پیوند جسے چادر سے چھپانے کی نا کام کوشش اکلوتا پلنگ جس پر میلے کپڑے۔ المونیم کی چند میلی پتیلیاں پرانہ حقہ، بے رنگ چلم الگ الگ رنگوں کی دو چائے کی پیالیاں، لالٹین کی ٹوٹی ہوئی چمنی، یہ سب اشیاء زبانِ حال سے مفلسی کا اعلان کرتی ہیں۔ اتحاد، اختصار ربط و آہنگ اور عصری آگہی ایک اچھے افسانہ کے محاسن ہیں۔ مختصر افسانہ کے ان اوصاف کے آئینہ میں ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ ایک مکمل اور موثر افسانہ ہے۔ یہ بیانیہ افسانہ واحد متکلم کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ حسب ضرورت مکالمے کے استعمال سے افسانے میں جان پیدا ہوگئی ہے۔ زبان سلیس اور عام فہم ہے اودھی بولی کے برمحل استعمال سے افسانہ دلکش ہوگیا ہے۔اس افسانہ میں الفاظ اور جملے اس قدر مربوط اور ہم آہنگ ہیں کہ ان میں ایک لفظ نہ تو نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ادھر ادھر کیا جا سکتا ہے غرض یہ کہ زبان و بیان اور فن و تکنیک ہر اعتبار سے یہ افسانہ معیاری اور پر وقار ہے۔
=======================================