Poor Eid a Short Story by Meer Saheb Hasan

Articles

غریب عید

میر صاحب حسن

ابھی چند ہی دن ہوئے تھے مجھے مع فیملی اس علاقے میں شفٹ ہوا تھا مگر پہچان زیادہ تر لوگوں سے ہوگئی تھی شاید اس میں اہم کردار میرے پیشے کا تھا ۔ ہر کوئی صحافی سے ملنا پسند کررہا تھا ۔میں جہاں رہتا تھا وہ علاقہ Re-development میں چلا گیا تھا اب دو یا تین سال مجھے کرائے کے مکان میں رہنا تھا ۔کرایہ مجھے اچھا مل رہا تھا اس لئے میں نے سوچا کیوں نہ کچھ رقم بچائی جائے اس لئے ایسے علاقے میں کرایہ کا مکان تلاش کیا جو سستا تھا اور ساتھ ہی آفس سے قریب۔

میرے ساتھ میری اہلیہ شگفتہ ،ایک بیٹی سارہ اور ایک بیٹاصادق تھے۔ ہم نئے نئے شفٹ ہوئے تو لوگ ملنے آئے ۔جب سنا کہ میں ممبئی کے ہی کسی اخبار میں بطور کرائم رپورٹر کام کرتا ہوں تو وہ سبھی خوش ہوئے کہ چلو اپنے علاقے کے مسائل بھی اخبار میں آجایا کریں گے۔

میں جس علاقے کی بات کررہا ہوں اکثروبیشتر اخبارات میں اس کا تعارف ان لفظوں میں کیا جاتا ہے۔’’مسلم اکثریتی علاقہ ‘‘۔یہ سچ بھی ہے ۔ممبئی کے مضافات میں چیمبور سے واشی جانے کے لئے آگے بڑھتے ہیں تو گورنمنٹ بلڈنگ کہیئے یا مہاڈا کالونی کہہ لیجئے کہ آگے ایک بڑا سگنل پڑتا ہے جہاں قانون کا پالن اسی صورت میں ہوتا ہے جب وہاں کوئی ٹرافک کانسٹبل کھڑا ہو ورنہ پھر سب کی مرضی چلتی ہے جدھر جانا ہے بچ کے نکل جائو ورنہ گالی گلوج برداشت کرو۔ سگنل کے بائیں طرف سڑک اندر جاتی ہے ۔ہاں اسے سڑک ہی کہاجائے گا کیونکہ میونسپل کارپوریشن نے اسے سڑک کا نام دیا ہے۔اسی سڑک سے لگ کر ایک اور سڑک ہے جو دور تک آگے چلی جاتی ہے اور ایک ایسی جگہ سے مڑ جاتی ہے جہاں پہنچ کر ناک پر رومال ڈالنا ضروری ہوجاتا ہے ۔دور سے دیکھنے والے اسے پہاڑ سمجھتے ہیں مگر قربت حاصل کرلینے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوڑا کرکٹ کا ڈھیر ہے اسے ’’ڈمپنگ گرائونڈ ‘‘کہتے ہیں۔اس ڈمپنگ گرائونڈ سے پہلے ہی ایک بڑا نالا ہے جس پر ایک چھوٹا سا پل بنا ہوا ہے۔یہ پورا علاقہ ایک جیسا ہی نظر آتا ہے پہلی بار آنے والا گھنٹوں گلیوں کی خاک چھانتا رہے گا۔ اوہ……..سوری…..سوری علاقہ کانام تو بتایا ہی نہیں ،ممبئی میں رہنے والے بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ گوونڈی ہے۔ ہاں یہ گوونڈی ہے جہاں غربت ،گندگی،بھوکمری غرض کیا نہیں ہے ۔غٖربت کی ہر تصویر یہاں نظر آتی ہے۔

میں ایک صحافی ہوں ،صحافی تو غریب ہی ہوتے ہیں اور پھر اردو صحافی وہ تو ……… صحافی جان کر مجھے پڑوس میں رہنے والے روز ہی ملنے لگے۔میرا بیٹا سات سال کا تھا اس کی بھی دوستی مقامی بچوں سے ہوگئی۔ پڑوسی اچھے ہوں تو رہنا بھی اچھالگتا ہے وہی ہمارے ساتھ ہوا تھا۔اچھے پڑوسی ملے تھے،سکون تھا۔

  ایک شام، میں گھر پہنچا تو ایک خاتون کو موجودپایا جن کے متعلق شگفتہ  نے بتایا کہ یہ نسرین بھابھی ہیں۔اپنے سات آٹھ سالہ اکلوتے بیٹے نثارکے ساتھ رہتی ہیں۔ جو قریب ہی اسکول میںپڑھتا ہے۔ اِن کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے اور دوسری بیوی کو لے کر افریقہ چلا گیاہے۔نسرین بھابھی کی گزر بسرمشکل سے ہوتی ہے۔سامنے والی گلی کی کسی کھولی میں رہتی ہیں۔ مجھے نسرین بھابھی کے حالات جان کر دکھ ہوا۔

جس جگہ میری کھولی تھی وہاں میری لائن میں اور سامنے ،کُل ملا کر بیس کھولیاں تھیں۔زیادہ تر لوگ ذری کا کام کرتے تھے۔وہ لوگ زیادہ پڑھے لکھے تو نہ تھے مگر اب بچوں کی تعلیم پر کافی دھیان دے رہے تھے۔

—————————

مجھے اس علاقے میں رہتے ہوئے کئی ماہ ہوگئے تھے پڑوسیوں سے اکثر اتوار کو ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔بقیہ دنوں میں صبح دس بجے میں گھر سے آفس کے لئے روانہ ہوجاتا اور واپسی دیر رات گئے ہوا کرتی تھی ۔ ہمارے علاقے میں پانی ، بجلی اور گندگی بڑا مسئلہ تھی۔میں خود وہیں رہ رہا تھا چنانچہ کئی بار اخبار میں بھی اس کے متعلق خبر لگائی تھی۔میری کھولی سے دس فیٹ کی دوری پر حاجی چاچا کا نل تھا وہی سب کو پانی سپلائی کرتے تھے ۔دس منٹ پانی لیجئے اور دو سو روپئے ماہانہ دیجئے۔ایک بار رات میں بجلی چلی گئی تو میں نے بجلی محکمہ میں فون کردیا اور کچھ ہی دیر میں محکمہ والے آئے اور بجلی بحال ہوگئی تھی۔سامنے کھولی میں رہنے والے پپو بھائی نے کہا ۔

’’واہ ناصر بھائی!کمال ہوگیا آپ کے فون کرتے ہی لائٹ والے آگئے۔یہ ہوتا ہے فائدہ پترکار ہونے کا۔‘‘

اس کے بعد سے معمول سا بن گیا تھا کہ جب رات میں بجلی جاتی تو لوگ مجھے ہی آواز دیتے کہ بجلی محکمہ کو فون کردوں۔ایسی ہی ایک رات بجلی چلی گئی تھی۔فون کرنے پر معلوم ہوا کہ قریب ہی لوٹس کالونی کا ٹرانسفارمر جل گیا ہے دو گھنٹے لگ جائیں گے بجلی بحال ہونے میں۔شدت کی گرمی میں دوگھنٹے گزار پانا مشکل تھا ۔ابھی رات کے دس ہی بجے تھے ۔چنانچہ میں اپنے بیٹے صادق کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا کہ کچھ دیر ٹہل آئوں۔

تھوڑی دیر تک میں بیٹے کو لئے ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔پھر سوچا کیوں نہ مین روڈ کی کسی ہوٹل میں چائے پی لوں۔مین روڈپر جانے کے لئے ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک گھر کے دروازے پر میں نے نثار کو کھڑا دیکھا۔میرے بیٹے صادق نے بتایا کہ یہ اس کا گھر ہے۔تب تک نسرین بھابھی بھی باہر نکل آئیں شاید نثار نے مجھے دیکھ کر اپنی والدہ کو بتا دیاتھا۔سلام دعا کے بعد نسرین بھابھی نے کہا۔

’’بھائی صاحب! آپ پہلی بار میرے گھر کی طرف آئے ہیں چائے پی کر جائیے۔‘‘میں تو چائے پینے کی غرض سے ہی مین روڈ جارہا تھا۔شکریہ کہتے ہوئے ان کے گھر میں داخل ہوا۔

نسرین بھابھی کے گھر میں پہلی بار آیا تھا مگر ایسا گھر بھی میں نے پہلی بار ہی دیکھاتھا جو شروع ہوتے ہی ختم بھی ہوجاتا ہے۔یہ ایک 6×7کی کھولی رہی ہوگی۔دائیں طرف تین فٹ کی جگہ اور بائیں طرف ایک پلنگ رکھی ہوئی تھی کچھ گٹھریاں ،اسکول بیگ،کپڑے پلنگ پر قرینے سے رکھے ہوئے تھے۔نیچے خالی جگہ پر اسٹو تھا۔ساتھ ہی پانی کا ایک چھوٹا سا ڈرم اور ڈھر ساری پانی کی کچھ خالی کچھ بھری بوتلیں۔میں تعجب سے یہ منظر دیکھ ہی رہا تھاکہ آواز آئی۔

’’بھائی بیٹھئے نا بس دو منٹ میں چائے حاضر ہے۔‘‘میں نے کھولی دیکھتے ہوئے نسرین بھابھی سے سوال کیا۔

’’اتنی بوتلیں کیوں رکھی ہیں؟‘‘

’’پانی بھر کے لاتی ہوں بھائی،پھر کوئی مٹکا بھی نہیں ہے اسلئے ایسے ہی رکھتی ہوں۔پانی پیتے جاتے ہیں بوتلیں خالی ہوتی جاتی ہیں پھر دوسرے دن بھر لاتے ہیں۔‘‘

’’بھر لاتے ہیں……..کیا مطلب……پانی پائپ سے نہیں لیتے؟‘‘میں نے سوال کیا۔

’’نہیں بھائی! پائپ سے لینے کے لئے مہینہ دو سو روپیہ دینا ہوگا۔میں کہاں سے دوں گی۔بڑی مشکل سے تو نثار کو پڑھا رہی ہوں۔‘‘

’’تو پانی کہاں سے لیتی ہیں آپ؟‘‘

’’یہ سب بوتلیں مانخورد ریلوے اسٹیشن سے بھرکرلاتی ہوں‘‘۔میں یہ سن کر دنگ رہ گیا۔

جہاں یہ کھولی تھی وہاں سے تقریباً تین کلومیٹر کی دوری پر یہ اسٹیشن واقع ہے۔کچھ ہی دیر میں نسرین بھابھی نے چائے میرے حوالے کی ۔کسی طرح جلدی جلدی میں نے حلق میں اتاری اور کھولی سے باہر یہ سوچ کر نکل آیا۔

اس دنیا میں کتنا غم ہے

میرا غم کتنا کم ہے

٭٭٭

میں کئی دنوں تک اسی فکر میں لگا رہا کہ کیسے نسرین بھابھی کی پریشانیاں دور ہوں مگر بہت کچھ میرے بس میں نہ تھا ۔پھر بھی میں نے حاجی چاچا سے کہا کہ نسرین بھابھی کو بھی پانچ منٹ کے لئے پائپ دے دیا کرو ۔سو روپئے مہینہ میں دے دیا کروں گا۔

میں صحافی تھا اور میری روزی روٹی اخبارات سے جڑی ہوئی تھی اسلئے روزانہ میرے پاس کئی اخبارات آیا کرتے تھے۔پڑوسیوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ میرے گھر ردی جمع رہتی ہے چنانچہ کسی ضرورت کے موقع پر اکثر کوئی نہ کوئی ردی لے جاتا۔

٭٭٭

ماہ رمضان کی آمد تھی۔

اخبار کے مینجنگ ڈائریکٹردل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے اسپتال میں تھے ان کی بائی پاس سرجری ہونے والی تھی۔آفس میں سب پریشان تھے کہ عید میں کیا ہوگا۔گھر میں وائف کو فکر تھی کہ بچوں کا کپڑا جلد سے جلد آجائے۔کئی بار شگفتہ نے بھی اس ضمن میں ذکر کیا ۔میں نے امید بندھائی کہ ڈائیرکٹر صاحب تو اسپتال میں ہیں مگر ہم لوگوں نے ان کے لڑکے سے بات کی ہے کہ پوری نہ سہی کچھ رقم ہی مل جائے تاکہ عید اچھے سے گزر جائے۔

’’چلئے جو منظور خدا ہوگا ہوکے رہے گا انشاء اللہ‘‘۔یہ کہہ کر شگفتہ نے میری ہمت بندھائی۔

عید کو دو روز باقی تھے۔

پوری گلی میں شور شرابہ تھا ۔بزمِ فلاح والوں نے اندر آنے والی سڑک سے لے کر پوری گلی میں ڈیکوریشن کردیا تھا ۔جسے دیکھئے وہ شاپنگ میں مصروف تھا۔ غرض ہر کوئی عید کی تیاریوں میں تھا۔

اخبار کے ڈائیرکٹر صاحب اب تک اسپتال میں تھے مگر ان کے فرزند ارجمند نے اخبار میں کام کرنے والے سبھی افراد کو تھوڑے تھوڑے پیسے دئے اس وعدے کے ساتھ کہ باقی عید کے دوچار روز بعد ادا کردیا جائے گا۔

مغرب بعد میں گھر پہنچا تو قریبی مسجد سے اعلان ہورہا تھا کہ چاند ہوگیا ہے اور کل عید ہے۔ کھانے کے بعد ہم لوگ لوگوں نے بھی شاپنگ کی ۔

 شگفتہ اور بچوں کے کپڑے ،چپلیں،جوتے ،سوئیاں،مہندی وغیرہ سب خریدا گیا۔شگفتہ نے بہت ضدکی کہ میں اپنے لئے بھی پٹھانی سوٹ خرید لوں۔

’’شگفتہ! بچوں کے اور تمہارے کپڑے وغیرہ زیادہ ضروری تھے ‘‘۔

’’تو ٹھیک ہے پھر ہمارے لئے کیوں لے لیاآپ نے؟آپ نہیں پہنیں گے توہم بھی نہیں پہنیں گے‘‘۔

’’چلو بھئی! اب صبح دیکھوں گا‘‘۔

’’نہیں نہیں دیکھنا نہیں ہے صبح نمازبعد پٹھانی سوٹ لے لیجئے گاپھر ہم لوگ امی کے یہاں چلیں گے‘‘۔

’’ٹھیک ہے بابا‘‘۔

صبح آٹھ بجے نماز عیدباجماعت اداکی۔لوگوں سے گلے ملے۔ مسجد و اطراف میں بچے بوڑھے سبھی کے چہرے دمکتے نظر آرہے تھے ۔بھلا ایسا کیوں نہ ہوتا؟ پورے مہینے انتظار رہتا ہے عید کا۔عید خوشیوں کا دن ہوتا ہے۔

٭٭٭

بعد نماز عید پڑوسیوں سے مل کر گھر آیا۔گھر میں داخل ہوتے ہی شگفتہ نے کہا۔

’’دس بجے تک جاکر سوٹ خرید لیجئے پھر امی کے یہاں چلا جائے گا‘‘۔

’’ارے بھئی!اب کیا کہوں؟………میرے پاس قریب دوہزار روپئے بچے ہیں اور عید کے تین چار دن بعد ہی آفس سے بقیہ پیسے مل پائیں گے‘‘۔

’’کوئی بات نہیں ……..ہزار روپئے تک سوٹ آجائے گااور باقی ہزار تین چار دن کے لئے کافی ہے‘‘۔شگفتہ کے ساتھ بچے بھی ضد کرنے لگے۔

سب کے زور دینے پر میں نے ایک ہزار روپئے شگفتہ کے حوالے یہ کہتے ہوئے کیا ۔

’’یہ رہے ہزار روپئے ،دو تین دن خرچ سنبھالنا۔ہزار میں رکھ لیتا ہوں ابھی کچھ دیر میں جاکر پٹھانی یا کرتا پائیجامہ خرید لوں گا‘‘۔میرے یہ کہنے پر سب خوش ہوگئے اور ہم سبھی سوئیاں پینے لگے۔

ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ نسرین بھابھی کا بیٹا آگیا۔اس نے کہا۔

’’ گھر میں کچھ کام ہے امی نے ردی پیپر مانگے ہیں اور کہا ہے زیادہ پیپر لانا،صفائی کرنا ہے‘‘۔

’’آئو بیٹا بیٹھو! شیر خرما پی لو پھرردی پیپر لے جانا ‘‘میں نے کہا۔

’’نہیں انکل!امی بولی ہے صادق کے یہاں سے ردی پیپر لے کر جلدی آجائو‘‘۔

’’اچھا بیٹا!ردی پیپر ،امی کو دے کر آجانا‘‘۔یہ کہتے ہوئے میں نے گھر میں جمع سارے ردی اخبارات نکال کر ایک جمبو تھیلی میں رکھ کر اس کے حوالے کئے کہ کہیں گرا نہ دے۔وہ دونوں ہاتھوں سے تھیلی سنبھالتے ہوئے چلا گیا۔

شگفتہ نے مجھے یاد دلایا۔

’’ دس بج رہے ہیں جائیے کرتا پائیجامہ لے کر جلدی آجائیں‘‘۔نہ چاہتے ہوئے بھی میں باہر نکلا۔سوچا چلو سگنل کی طرف جو عید بازار ہے وہیں سے خرید لیتے ہیں۔

 ابھی میں گلی سے نکل کر مین روڈ کی طرف جانے ہی والا تھا کہ میری نظر نثار پر پڑی جو سامنے ایک دکان پر کھڑا تھا اور دکان والا اس جمبو تھیلی سے ردی اخبارات نکال کر تول رہا تھا۔جو کچھ دیر پہلے میں نے اپنے گھر پر نثار کے حوالے کئے تھے۔دکاندار نے ردی کو تول کر کچھ روپئے نثار کے ہاتھوں پر رکھ دیے۔نثار دکان سے نکل کر سڑک پر آیا تو میں نے اسے روک لیا۔

’’یہاں کیا کررہے ہو بیٹا؟‘‘میں نے سوال کیا۔

’’امی بولی یہ ردی بیچ کر پانچ روپئے کا دودھ،دو روپئے کی چائے پتی اور پانچ پائو لے کر آئو۔تومیں نے ردی دکان والے کو دے دیا اور دودھ لینے جارہا‘‘۔

’’دکان والے نے ردی پیپر کے کتنے روپئے دیے؟‘‘

’’وہ انکل نے چالیس روپئے دیے ہیں‘‘۔نثار نے جواب دیا۔

’’کیوں بیٹا! تم لوگ چائے نہیں پیئے‘‘۔

’’نہیں انکل! امی کے پاس پیسہ نہیں ہے اور رات میں ہم لوگ کھانا بھی نہیں کھائے‘‘۔

’’کیوں ؟تمہاری امی نے کھانا نہیں پکایا تھا؟‘‘

’’نہیں انکل !بہت دن سے امی کی طبیعت کھراب ہے اور پیسہ بھی نہیں ہے۔اس لئے امی کھانا نہیں پکاتی ہے۔ہم لوگ روجانہ، روجا مسجد میں کھولتے تھے اور کھانا بھی وہیں کھا لیتے تھے۔کل شام پانی لینے کے لئے مانکوراسٹیشن گئے تھے ،دیر سے آئے تو کھانا کھتم ہوگیا تھا۔ہم لوگ بھوکے رہے۔میں ردی امی کے پاس لے گیا تو امی بولی جلدی سے بیچ کر دودھ پائو لا،پھر ہم چائے پیتے ہیں‘‘۔

نثار کی باتیں میرے لئے کسی تازیانے سے کم نہ تھیں۔میں نے جیب سے ہزار روپئے نکال کر اُس کی جیب میں رکھتے ہوئے سمجھایا۔

’’بیٹا!یہ روپئے گرا مت دینا،سیدھے اپنی امی کو جاکر دو۔شیر خرما کھائو اور اپنے لئے امی سے کپڑا لانے کے لئے کہنا……..جائو پہلے گھر جائو‘‘۔

نثار جیب تھامے خاموشی سے تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔

میں وہیں کھڑا سوچتا رہا کہ نثار غریب ہے؟

یامیں غریب ہوں جو اپنے پڑوسی کی خبرگیری نہ کرسکا؟

یا معاشرہ ہی غریب ہے جو اندھا بہرا ہوچکا ہے

 یا پھریہ عید ہی غریب ہے؟
—————————————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Ghareeb ki Eid, Best urdu short story