Punjabi Story by Ajeet Kaur

Articles

اب میرا انتظار کر

اجیت کور

 

پسلیوں سے ذرا سا نیچے درد کا ایک طوفان اٹھتا اور رشید دُہرا ہوجاتا۔زمین گھوم جاتی اور آسمان سے راکھ برسنے لگتی۔آخر وہ اسپتال چلاگیا۔کئی ٹیسٹ ہوئے۔’’ایک چھوٹا سا آپریشن کرنا پڑے گا۔‘‘ ڈاکٹروں نے کہا۔
’’آپریشن ؟کس کا آپریشن کرنا پڑے گا؟‘‘
’’بائی آپسی۔‘‘
’’بائی آپسی؟یعنی؟کینسر کا شک ہے کیا؟‘‘
’’نہیں،ٹیسٹ شکوں کی تصدیق کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔ہر قسم کا شک دور کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔‘‘
وہ راضی ہوگیا۔’’کب آجائوں؟‘‘
’’اگلے منگل کو۔ٹھیک؟کوئی ساتھ تو آئے گا ہی۔پہلے دن جنرل وارڈ میں وہ بھی آپ کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ،کوئی نہیںآئے گا۔میں ہی آئوں گا۔کافی نہیں؟‘‘وہ مسکرایا۔
’’آپ کی بیوی؟بچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ ہنس دیا۔’’بیوی تو پچھلے برس ہی سے اﷲ میاں کے گھر بیٹھی چرخہ کات رہی ہے اور بیٹا دور ہے، امریکہ۔‘‘
بائی آپسی ہوئی۔تقریباً چھ ہفتوں کے بعد جب وہ بائی آپسی کی رپورٹ لینے اسپتال گیاتو ڈاکٹر پھر سے اس کے بیٹے کے بارے میں پوچھنے لگے۔
’’آپ لوگ میرے بیٹے کو مجھ سے زیادہ عقل مند سمجھتے ہیں؟مجھ سے زیادہ پختہ اور طاقتور؟ آپ رزلٹ بتائیں،مجھ میں حوصلہ ہے سننے کا۔‘‘وہ مسکرایا۔
’’ڈاکٹروں نے بے حد نرم اور ملائم آواز میں اسے بتایا کہ اس کے پیٹ میں کینسر ہے۔
کینسر؟اس کے جسم میں اس بنا سلائی کے،لپٹے لپٹائے تھیلے کے اندر اس کا پیٹ آہستہ آہستہ سڑرہاتھا۔باسی گوشت کے ٹکڑے کی طرح اور اس میں لاکھوں ننھے ننھے کیڑے رینگ رہے تھے اور اسے خبر تک نہ ہوئی۔بدبو بھی نہ آئی!وہ حیران ،سوچ رہا تھا۔
بڑے ڈاکٹر نے سوچا،رشید اس بھیانک خبر کی وجہ سے خاموش ہوگیاہے۔بڑی اپنائیت سے اس نے رشید کا ہاتھ دبایا۔’’آپ میرا کہا مانئے،بیٹے کو امریکہ سے بلالیجئے۔کینسر کا علاج کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔آپریشن ہوسکتا ہے۔دوائیں ہیں،بجلی کا علاج ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔آج کل تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
رشید مسکرایا،’’اگر علاج کیا جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتنی دیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
ڈاکٹر نے کہا،’’سال دو سال!کچھ زیادہ بھی شاید۔مگر دوائیں پابندی سے لینی ہوںگی۔ چیک اپ لگاتار کرواتے رہنا ہوگا۔اس کے بعد شاید درد بڑھ جائے اور آپ کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑے۔ گھبرانے کی بات نہیں۔ہر درد کے لیے دوائیں موجود ہیں۔ویسے میری یہ صلاح ہے کہ آپ بیٹے کو بلوالیں۔دوچار ہفتوں میں ہی ہسپتال میں داخل ہوجائیں۔تاکہ ہم اپنی پوری کوشش کرسکیں۔‘‘
’’اور اگر دوائیں نہ لی جائیں؟یعنی کچھ بھی نہ کیا جائے،تو؟‘‘
’’یہ تو پھر خودکشی ہے۔‘‘
’’نہیں،میرا مطلب تھا کہ اگر مجھے پتہ ہی نہ چلتا،درد ہی نہ ہوتا،اگر ہوتا بھی تو میں اجوائن پھانکتا رہتااور آپ کے پاس نہ آتا،ٹیسٹ نہ ہوتے،تو کتنی دیر زندہ رہ پاتا؟‘‘
ڈاکٹر نے کندھے اچکائے۔گردن میں خم سا دیتے ہوئے کہا،’’چھ مہینے،پانچ مہینے،آٹھ مہینے۔کیا کہا جاسکتا ہے؟قسمت پر بھی تو ایسی باتیں ٹکی ہوئی ہیں۔‘‘
گھر پہنچ کر رشید نے اپنی زندگی کا حساب کتاب کرنا شروع کیا۔جوڑنے لگا تو سارے جواب منفی میں ہی آئے۔’’کمال ہے۔‘‘اس نے سوچا۔’’اتنے برس بیت گئے اور میںنے کبھی اس طرح سے اپنی زندگی کا بہی کھاتہ کھول کر دیکھا بھی نہیں کہ کیا کمایا اور کتنا نقصان ہواہے۔ ہے نا حیرانی کی بات؟‘‘
اچانک اسے لگا کہ وہ اور لوگوں سے زیادہ قسمت والا تھا۔نہیں؟ورنہ موت کے مقام کا کسے پہلے سے علم ہوتا ہے؟اچانک بیٹھے ہوں اور اچانک لڑھک جاتے ہوں۔بس ختم!اور ایک وہ تھا کہ اسے پتہ تھا کہ پانچ چھ مہینے اس کے پاس ہیں اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بعد میں سوچیں گے،بھئی!فی الحال وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچوں کے بہائو کو جتنا بھی روک لو ،وہ رکتا ہے کیا؟کچھ نہ سوچنے کا فیصلہ کرنے کے باوجود اس کی پوری زندگی اس کے سامنے گھومنے لگی۔مگر یار ہے نا کمال کی بات؟اتنے برس سوچا ہی نہیں کہ یہ گزررہی ہے،زندگی۔رشید خود سے باتیں کرتا رہا۔
فریدہ،میری جان،شاید تم ہی مجھے پکا ررہی ہو۔وہاں اکیلے میں دل نہیں لگتا نا تمہارا؟وہ پیار سے اپنی بیوی کے تصور سے پوچھتا۔
وہاں ،کہاں یار؟وہ تو قبر میںلیٹی ہے،آرام سے۔اما تم بھی کیا اپنے دوست رمیش کی طرح سوچتے چلے جارہے ہو۔آلتو فالتو باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ اس کی بیٹی اوپر کہیں،بادلوں کی دوسری اور ،چاند تاروں کی دنیا میں رہ رہی ہے۔یہ تو ہندوئوں کی سوچ ہے۔کافر کہیں کا۔
اتنے برس تو وہ دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر کا فاصلہ طے کرتا رہا تھا۔ اور دفتر میں اپنی میز سے صاحب کے کمرے کا فاصلہ۔بس!قبیلہ داری؟کہاں۔
فرماں بر داری بھی نبھائی اس نے۔اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کی تھی۔چھوٹے بھائی کو پڑھایا تھا۔بہنوں کی شادیاں کی تھیں۔خود اپنے تین بچے پیدا کئے تھے،پر دو اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ایک ہی باقی تھا،اسلم۔اسلم ڈاکٹری کی پڑھائی ختم کرکے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلاگیا تھا۔
خود ہی بھیجا تھا میں نے۔بچوں کی خوشی میں ہی ماں باپ کی خوشی ہوتی ہے۔ہے یا نہیں؟
مگر یہ تو نہیں کہا تھا میں نے اسے کہ پھر لوٹ کے آئے ہی نہیں۔پڑھائی ختم کی اوروہیں سیٹل ہوگیا۔نالائق!چٹھی لکھی،جس میں اطلاع دی تھی کہ وہیں نوکری جوائن کررہا ہوں۔احمق! کم سے کم اجازت تو لے ہی سکتا تھا۔نہیں؟
رشید نے دفتر سے استعفیٰ دے دیا۔کسی کو کچھ نہیں بتایا،ساتھ میں کام کرنے والوں سے یہی کہا کہ وہ اب جاکر اپنے گاؤں میںرہنا چاہتا ہے۔گاؤں میں اپنا پرانا گھرہے۔پکی حویلی ہے۔ شہر کے شور میں کیا رکھا ہے صاحب!بہت ہوگیا۔اتنے برس دریا گنج کے ایک چھوٹے سے،اندھیرے سے گھر میں رہ کر بتادیئے۔اب ذرا کھلی ہوا میں سانس لوں گا۔
رمیش جو اس کے دفتر میں ساتھ والی میز پر بیٹھتا تھااور دوپہر کو کھانا بھی دونوں اکٹھا کھایاکرتے تھے،اس کا اکلوتا دوست،حیران تھا۔’’مگر رشید صاحب،وہاں اکیلے کیا کریں گے؟‘‘
’’اکیلا؟اور یہاں کیااکیلا نہیں ہوں میں؟‘‘اور وہ ہنس پڑا۔بات کو ہنسی میں اڑا دیا، ’’بھائی جان ،وہاں بھینسیں رکھوں گا،کتّے پالوں گا،بلّیاں پالوں گا۔گائوں میں کیسا اکیلاپن؟اکیلا پن تو شہر میں ہوتا ہے،ماچس کی ڈبیوں جیسے گھرو ں میں۔‘‘
’’اسلم سے پوچھ لیا؟‘‘
’’اسلم؟اس نالائق سے کیا پوچھنا؟میں اس کا باپ ہوں کہ وہ میرا باپ ہے؟‘‘رشید قہقہہ لگاکر ہنس پڑا۔اتنا کھل کر ہنستے ہوئے اسے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔
اسلم کو سچ مچ اس نے کچھ نہیں لکھا۔ویسے بھی تو چھ مہینے میں ایک آدھ چٹھی ہی تو آتی ہے اس کی۔چھ مہینوں کی ہی تو بات ہے ساری۔اسے تو پتہ بھی نہیں چلے گاکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رشید سوچتا رہا۔
ویسے بھی یار،اگر دو چاردنوں میں ہی مرنا ہوتو لکھ دوں اسے کہ آجا اور کام نبٹاکر لوٹ جا۔ اب میں چھ مہینے پہلے کیوںاسے دکھی کروں؟کھانے پینے کی عمر ہے اس کی،نہیں؟وہ اپنے من میں خود کو ہی بچوں کی طرح سمجھاتا۔
کہوں بھی تو کیا کہوں؟کہ آ،میرے پاس بیٹھ،اینڈ واچ می ڈائنگ اے سلو دیتھ!
بھئی جانا ہی ہے تو اپنی مرضی سے جائیں گے۔نہ اسلم کے رحم پر نہ ڈاکٹروںکے رحم و کرم پر!آکر کرے گا بھی کیاآخر؟ہسپتال میں بھرتی کروادے گا،دوائیں!بدبو!ٹیکے!اور چھ آٹھ مہینے کُڑھتا رہے گاکہ بوڑھا نہ آر ہوتا ہے نہ پار!
غلط،غلط رشید میاں!بوڑھے کب سے ہوگئے آپ؟ابھی تو اچھے خاصے ہیں بھلا۔ دفتر کی کوئی بھی لڑکی ابھی تک آپ کے پاس بے تکلفی سے نہیں بیٹھتی۔جب لڑکیاں آپ سے دکھ سکھ کی باتیں کرنے لگیں اور صلاح مانگنے لگیں،تب ہی بزرگی میں قدم رکھتے ہیں،سمجھے آپ حضرت؟وہ مسکراتا۔
گھر کا سب سامان اس نے بیچ دیا۔صرف ایک بستر رکھ لیااور پہننے کے کچھ کپڑے، کچھ تکیے کے غلاف،چادریںاور تولیے۔ایک صندوق کتابوں سے بھرلیا۔دوچار برتن دوسری پیٹی میں ڈالے۔ گیس کا چولہا فروخت کرکے بازار سے اسٹو خریدا اور قندیل۔ایک جوڑی چپل اور موٹے ربڑ سول کے کینوس کے جوتے سیر کرنے کے لیے۔بڑھیا سے کاغذوں کا ایک پیکٹ، داڑھی بنانے کا سامان اور ایک چھوٹی سی بوتل پرفیوم کی۔
رشید میاں ،لگتا ہے بارات میں جارہے ہو یار۔خدا کی بارات میں۔بس،اب آنکھوں میں سرمہ بھی نہ مٹکالیناکہیں!وہ اپنے آپ سے مذاق کرتااور مسکرادیتا جیسے سچ مچ کہیں چھٹیاں منانے جارہا ہو۔پھول سا ہلکا محسوس ہوتا اسے اپنا دل اور بدن!
بیٹی بیٹے،ماں باپ،بہن بھائی یہ سب انسان کو باندھے رکھتے ہیں۔پھر گھر گھر میںمکڑی کے جال کی طرح سو ضرورت کی اور باون سو غیر ضروری چیزوں کا جال!پھر مجھے دیکھ رمیش بھائی، دیکھ حسد سے جل۔سارے مایاجال کاٹ کر پھینک دیئے ہیں۔سارے جالے جھاڑ پونچھ کرباہر پھینک دیئے ہیں۔ہے یا نہیں؟وہ دل ہی دل میں رمیش کو چیلنج دیتااور ہنستا۔
سب کچھ بیچ باچ کر اور ضرورت کی چیزیں خریدکر اس نے پیسوں کا حساب لگایا تو اسے لگا کہ اتنی بادشاہت تو اس نے زندگی بھرنہیں دیکھی تھی۔اتنے سارے پیسے بچ گئے تھے اور سارے اسے چھ سات مہینے میں اڑادینے تھے۔
واہ یار!رئیس ہوگئے ہو تم تو یار!چاہے دو گھوڑوں والی بگھی خرید لو۔کوچوان گھوڑوں کو سوٹے مارمارکر چلائے۔بید کی چھڑی ہوا میں لہراتاہوا اور تو پچھلی سیٹ پر بیٹھادنیا کے نظارے دیکھ۔زندگی میں پہلی بار رشید نے فرسٹ کلاس میں سفر کیا۔اسٹیشن سے گائوں تک ٹیکسی لے لی اور پشتینی حویلی کے سامنے اترا۔اس کی چال میں ایک عجیب سی مستی اور دل میں امنگ تھی۔حویلی کے موٹے دروازے برسوں سے بند پڑے تھے۔دروازے پر لکڑی کی نقاشی تھی جس میں پیتل کی کیلیں جڑی ہوئی تھیں۔
کتنے سال کے بعدگائوں آیا ہو ں میں؟سوچتا ہوا وہ اپنی جیب سے لمبی چابی نکالنے لگا۔ چابی تالے کے سوراخ میں ڈالی،لیکن وہ گھومی ہی نہیں۔شاید تالے کو زنگ لگ گیا ہوگا۔’’کیوں یار،ترے پیٹ میںبھی کینسر ہے۔‘‘اس نے آہستگی سے تالے سے کہا اور پھر اداس ہوگیا۔
تم بھی رشید میاں!بڑے نا معقول آدمی ہو۔گھر کے اندر پائوں رکھتے وقت کوئی اچھی بات سوچنی چاہئے اور تم ہو کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے بس تھوڑے سے تیل کی ضرورت ہے۔تیل؟میرے پاس تو ہے۔وہ کہاں ہے میرا وینٹی بیگ؟وینٹی بیگ؟رشید مسکرایا،’’وینیٹی!‘‘
سر میں لگانے والا خوشبودار تیل میںچابی کو ٹھیک سے بھگواکر اس نے جب تالے میں گھمائی تو تالا کھل گیا،’’تم بھی دوست دنیا کی نبض خوب پہچانتے ہو۔کسی نیتا ویتا کا سایہ پڑالگتا ہے تم پر بھی۔تیل دیے بنا بات ہی نہیں کرتے۔‘‘اس نے تالے سے مذاقاً کہا۔لکڑی کے موٹے پَلّے چرمراکر،چرچراکر کھل گئے۔ٹھہرجائو یار،ذرا دم لو۔پلاتا ہوں تیل تمہیں بھی۔شور کیوں مچائے جارہے ہو؟
شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ٹیکسی کی آواز سن کر محلے کے بچے گھروں سے بھاگتے ہوئے نکل آئے۔پہلے تو ذرا دور کھڑے ٹکر ٹکر دیکھتے رہے،پھر دھیرے دھیرے کھسکتے ہوئے ان کا گھیرا تنگ ہوتا گیا۔سب چپ چاپ اسے ہی دیکھتے رہے۔
اس نے کنکھیوں سے انہیں دیکھا،رشید یار،اب ان آفتوں سے دوستی نہ کرنے بیٹھ جانا۔ ورنہ رات دن تمہیں گھیرے رہیں گے۔تم یہاں مستی کرنے آئے ہو یا ان بچوں کو بہلانے پچکارنے؟اور اس نے بچوں سے نظر نہیں ملائی،تالا کھول کر وہ سامان اندر لے جانے لگا۔ٹیکسی والا کتابوں کا بھاری صندوق اٹھاکر اندر لے آیا۔اس نے اس کے پیسے ادا کئے اور بچوں کی نظروں سے بچتے اوپر پیڑوں کی شاخوں کو دیکھتے ہوئے اس نے دروازہ اندر سے بند کردیا۔
حویلی کے ایک ایک کمرے کو کھول کر وہ دیکھ رہاتھا۔ہر کمرے میں بہت سااندھیرا دُبک بیٹھا تھا۔اور اندھیرے میں باسی گرد اور باسی ہوا کی گھٹی ہوئی سانسیں گھلی ہوئی تھیں۔’’گھر بھی کیا چیز ہوتا ہے یار رشید!اس میں رہتے رہو۔اسے استعمال کرتے رہو۔دھوتے پونچھتے ،رگڑتے گھستے رہو تو اس میں سوندھی خوشبو آتی ہے۔عورت کی طرح!عورت کو پیار کرتے رہو،اس کے ساتھ سوتے ،جاگتے رہو،گھر میں روٹیاں سینکتی ہے وہ۔نئی نویلی،نرم ملائم سی پورے گھر میں چھم چھم کرتی گھومتی رہتی ہے۔اگر گھر چھوڑکر چلی جائے یا پاس رہتے ہوئے بھی نہ چھوئو تو اسی طرح بھوتوں کا ڈیرا بن جاتا ہے اس کا بدن بھی۔‘‘
رشید اداس ہوگیا۔رومال سے اس نے چوڑے پلنگ سے مٹی جھاڑی اور بیٹھ گیا۔دونوں کہنیاں گھٹنوں پر ٹیک دیں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنساکران پر ٹھڈی ٹکادی۔فریدہ اس کے سامنے جیسے چلنے پھرنے،ہنسنے بولنے لگی۔گوشت کی ہنڈیا میں کڑچھل گھمانے لگی۔اور تندور سے سوندھی سوندھی مہک والی روٹیاں پکانے لگی۔تندور سے نکلی تازہ گرم روٹیوں کی سوندھی خوشبوئو ں میں رشید کھو سا گیا۔
دوسرے دن صبح سویرے چڑیوں کی چہچہاہٹ نے اور کبوتروں کی غٹرغوں نے اسے جگا دیا۔ ابھی اجالا پوری طرح پھیلا نہیں تھا۔دودھیا اندھیرا دھیرے دھیرے اجالے میں تبدیل ہوتا جارہاتھا۔وہ پہلے تو نیند کی خماری میں ہی سلیپر میں پیر ٹکاکر دروازے کی اور چلنے لگا۔دو قدم ہی چلاتھا کہ اچانک رک گیا،مسکرایا۔کیوں رشید میاں دروازے کے باہر بڑا اخبار لینے جارہے ہو؟تاکہ سگریٹ سلگاکر مزے مزے سے دنیا کے حال احوال کا معائنہ کیا جاسکے؟حضور یہ دریاگنج نہیں ہے۔یہ تو اپنا گائوں ہے۔
اور آپ چودھری صاحب ذرا ہوش سنبھالیے۔جاگ جائیے،لوٹا پکڑئیے اور چلئے باہر، کھیتوں میں ،کیا کہتے ہیں۔اسے؟باہر سے خالی لوٹاہاتھ میں جھلاتا ہوا،وہ لوٹا تو بچپن کی صبحیں یاد آگئیں۔
واپسی پر کیکر کی ٹہنیاں توڑی ہوتی تھیںاور ٹہنیوں سے کانٹے چھیلنے ہوتے تھے اور چھوٹی چھوٹی داتونیں کاٹ کر گھر لانی ہوتی تھیں۔ایک داتون راستے میں مزے مزے سے چبانی ہوتی تھی۔
گھر لوٹ کر سبھی کو داتونیں بانٹنا اس کا کام ہواکرتا تھا،یہ سوچتے ہوئے رشید کا من نرم گیلی مٹی سا ہوگیا۔چاروں طرف کھیت لہلہارہے تھے۔ہوا میں خنکی تھی۔اکتوبر آدھا بیت چکا تھا، اکتوبرنومبر دسمبرجنوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رشید دل ہی دل میں ایک بار پھر گنتی گن رہا تھا۔ویسے یہی گنتی وہ پچھلے کچھ دنوں میں سینکڑوں بار گن چکا تھا۔
مارچ؟مارچ کا بھی بہت خوبصورت مہینہ ہوتا ہے یار رشید۔نہ سردی ،نہ گرمی۔ بہت خوشگوار ہے مارچ کا مہینہ۔نرم اور نازک۔سفر پر جانے کے لیے،کوئی بھی کام کرنے کے لیے۔ موسم کا اور وقت کا درست ہونا بہت اہم ہے،نہیں؟مرنے کے لیے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہی مرنا!کون سا عجیب و غریب کام ہے بولیے!سارے ہی کرتے ہیں چاروں اور دن رات یہی تو!سوچ کر پھر اداس ہونے لگاوہ،زیادہ خورشید اور مریم کے لیے ،اس کے اپنے بچے جو نہیں رہے تھے اور فریدہ کے لیے ،اس کی بیوی جو اسے تنہا چھوڑکرچلی گئی تھی۔
اوئے رشید میاں،ارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں چل دیئے،اونٹ کی طرح منہ اٹھاکر؟اپنے گھر کا موڑ تو پیچھے چھوٹ گیا اور وہ واپس گھوم گیا۔اب وہ گائوں کی گلی میں تھا۔اپنے گھر کی گلی میں۔ آتے جاتے لوگ ذرارک کراسے پہچاننے کی کوشش کرتے۔پہچان لیتے تو سلا م کرتے۔
’’کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’بس ذرا گھر کاخیال آگیا۔‘‘
’’اچھاہے اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر خبر لینی چاہئے۔گھر تو گھروالوں سے ہی بنتے ہیں جی، کیوں جی؟‘‘
’’سوتو ہے۔‘‘وہ مسکرادیتا۔
’’اسلم کیا کررہا ہے آج کل؟‘‘
’’ڈاکٹری۔‘‘
’’اچھااچھا۔پروردگار کابہت شکر ہے جی۔ڈاکٹری!واہ واہ!نام روشن کردیا خاندان کا۔ گائوں کا بھی تو!کبھی کبھی یہاں بھی تو آتاجاتا رہے گا۔دیکھئے نا یہاں آنکھوں کی بیماری بہت ہے۔ چالیس پار کیے نہیں کہ آنکھوں میں موتیا اترنا شروع ہوجاتا ہے۔شہروں میں تو سنا ہے موتئے کا آپریشن منٹوں میں کردیتے ہیں۔‘‘
’’اسلم تو امریکہ میں ہے۔‘‘
’’امریکہ!بلّے بلّے!خیر سے!امریکہ!‘‘
’’جب بھی آئے گا ،اسے یہاں ضرور لائو ںگا۔خدمت کرے گا آپ سب کی۔‘‘اور رشید من ہی من مسکراتا،واہ کیسی صفائی سے جھوٹ بولتے ہو!
جھوٹ!کاہے کا جھوٹ بھائی؟دوسرے کا دل رکھ لیا،جھوٹ کی کیا بات ہے۔ گھر کی کھیتی ہے سچ جھوٹ تو۔دوسرے کی پل بھر کی خوشی پر سو سچ قربان،میری جان۔
رشید نے بہت لگن سے گھر کی صفائی شروع کی۔ کتنی ہی چیزیں فالتو پڑی تھیں۔ بے شمار چیزیں جو اس بات کی گواہ تھیں کہ کبھی یہ گھر بھی انسانوں سے بھرا رہتا تھا۔
گھر کے آس پاس اس نے گلاب کے پودے لگادیئے۔حساب کرنے لگا کہ پھول کب کھلیں گے۔مارچ سے پہلے یا مارچ کے بعد؟بہت سے کبوتر پال لیے رشید نے۔سفید اور سرمئی، بھورے اور چتکبرے کبوتر۔بہت پیار کرتا ان سے۔دل ہی دل میں ان سے باتیں کرتا۔’’ذرا سانس تولو۔ کیوں شور مچارہے ہو؟صبر نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
صبح اٹھتا تو کبوتروں کو ننھے بچوں کی طرح ڈانٹتا،’’شورتو اتنا مچاتے ہو کہ بس!جگادیا نا مجھے!‘‘
اسے لگتا چڑیاں اسے ہی نیند سے بیدار کرنے کے لیے گارہی تھیں،’’اکیلے آدمی،اٹھ۔ سو نے کے لیے تمام وقت پڑا ہے۔قیامت کے روز تک اور چار مہینے بعد سونا ہی تو ہے اور کرنا ہی کیا ہے۔ فی الحال تو جاگ جائو،آس پاس دیکھو۔دیکھو قدرت کے رنگ۔دیکھوآسمان کس طرح جگمگارہا ہے۔ پیڑوں کے پتے ننھے بچوں کی طرح چھوٹی چھوٹی ہتھیلیوں سے تالیاں بجابجاکرکھلکھلارہے ہیں۔ بھوری مٹی کی خوشبو آرہی ہے۔گلابوں کے پودوں میں نئی کونپلیںپھوٹ رہی ہیں۔دھوپ ہے، ہواہے،زندگی ہے۔‘‘
ایک وقت ہی ہے جو واپس نہیں آتا رشید میاںاور سب کچھ واپس آجاتا ہے۔ موسم، اندھیرے اجالے،دھوپ ،روشنی،ہوا ،پتے،پھول،فصلیں سبھی واپس آجاتے ہیںمگر وقت جو گزرگیا وہ محض ایک خواب بن جاتا ہے۔
انسان بھی تو کھاد بن جاتا ہے قبر میں لیٹے لیٹے۔مگر وہ قیامت کا دن ؟قبر میں سے اٹھنے کا دن؟یا جسے رمیش کہتاتھا دوسرا جنم؟
سب بیکار باتیں ہیںرشیدمیاں۔دل بہلانے کو گڑھی گئی ہیں۔جو لوگ آخرکو آخر ماننے کو تیار نہیں ہوتے انہیں بہلانے پھسلانے کے لیے۔
رشید جاگتاتو اسے لگتا وہ سویا توتھا ہی نہیں۔
وہ آس پاس دیکھ کر حیران ہوتا رہتا۔یہ قسم قسم کے پرندے،چڑیاں،کبوتر،مینا،بگلے اور بھی کئی۔جن کے نام اسے معلوم نہ تھے مگر جنھیں دیکھتے ہی وہ پہچان لیتاتھا۔رشید حیرانی سے انہیں دیکھ کر سوچتا۔’’یہ سب کے سب میری ہی دنیا میں رہ گئے تھے کیا؟سد اسے؟کہاں چھپے تھے سب اتنے سال؟‘‘
وہ کہاں پوشیدہ تھے یار رشید!پوشیدہ تو زندگی تونے گزاری ہے۔
اتنے سال،جب وہ گھر سے دفتراور دفتر سے گھر کا فاصلہ طے کررہا تھا۔جب وہ اپنی تنخواہ اور اخراجات کا حساب کتاب جوڑتوڑکر کھینچ تان کر بیٹھا رہا تھا۔جب وہ آفیسر کی ہر ڈانٹ سے غمزدہ اور ہر ترقی سے خوش ہوتا رہاتھا۔
جب وہ صبح اٹھ کر اخبار پڑھتا اور چائے پیتا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر خود رشید کو،مریم کو اور آخر میںفریدہ کو دیگر کئی دوستوں کو رخصت کرکے زمین کے نیچے سلاتا رہاتھا،ان تمام برسوں میں یہ تمام رنگین حسین زندگی کیسے اس کے پاس سے سرک کر گزرتی چلی گئی تھی۔خاموشی سے جشن مناتی ہوئی۔
رشید دیکھتا رہا،کبوتروں کے جوڑے کیسے گلے کی گہرائیوں میں سے پیار کے دھیمے بول بولتے ہوئے ایک دوسرے کی گردنوں کو اپنی چونچوں میں پکڑتے،پروں کو دلارتے اور کپکپی کی ننھی ننھی لہریں ان کے بدن کو تھرتھراتی رہتیں۔
تین چار آوارہ بلیّاں بھی رشید کے پاس آکررہنے لگی تھیں۔ویسے تو بلّی کبوتر کو چھوڑتی نہیں،مگر ان بلّیوں کو شاید معلوم تھا کہ اس گھر میں رہنا ہے تو کبوتروں کی جانب میلی نگاہوں سے دیکھنا بھی نہیں۔
پیٹ میں درد کے نشتر جب بھی چبھتے تو وہ درد سے بے حال ہوجاتا۔ایسے لگتا جیسے ساری کی ساری جان گڈمڈہوکر اس کے سڑتے ہوئے پیٹ کے اندر جاچھپی ہے۔مگر دواخانے جانے کے لیے اس کا دل انکار کردیتا۔
اس نے سناتھااور کتابوں میں پڑھاتھا کہ ان دوائوں سے پہلے تو انسان گنجا ہوجاتا ہے۔ چڑیا کے نوزائیدہ بچے کی طرح،جو ابھی ابھی انڈے سے باہر آیا ہو۔وہ سوچتا اور پیار سے اپنے گھنے بالوں میں انگلیاں پھیرتا،پھر بالوں سے مخاطب ہوتا۔فکر مت کرو،تم رہوگے، میرے ساتھ ہی، آخری وقت تک، دوائیوں کی ایسی کی تیسی۔
جب بھی درد بڑھتا،وہ یا تو باہر پھولوں کی کیاریوں میں دو چار قلمیں اور لگانے لگتا،یا پھر پتوں کے مرجھانے اور نئی کونپلوں کے پھوٹ آنے کے جادو کو دیکھتا رہتا۔اڑوس پڑوس کے بچوں کو بلاکر کہانیاں سنایا کرتا۔اسکول کے بچوں کا ہوم ورک کروادیتا۔کئی بار حیران ہوکر خود سے پوچھتا، ’’مگر رشید میاں،تیری ایک بات پلّے نہیں پڑی یار!تیرے پیٹ کے درد کا بچوں سے یا کبوتروں، بلّیوں سے کیا تعلق ہے،ذرا سوچ کر سمجھا تو سہی۔‘‘
اس بار درد کا طوفان اٹھا تو وہ جاکر کہیں سے رنگ برنگ طوطے خرید لایا۔ پھر کئی دن وہ ان کے لیے پنجرے بناتا رہا۔لمبے چوڑے پنجرے تیار ہوگئے تو اس میں طوطے براجمان کردیئے۔ پھر نیچے پانی کے تسلے بھرکر رکھے،دانے کے برتن،مرچی اور سب چیزوں کی روزانہ صفائی!ان سب کاموں میں دن کدھر سے چڑھتا اور کدھر ڈھلتا ،احساس ہی نہ ہوتا۔
لے بھئی،ایک اور دن کو لوٹ لیا۔بدّھو بناکر بھگادیا۔واہ رشید میاں،جواب نہیں تمہارا بھی۔وہ مسکرایا۔رات کو چاہے نیند آئے یا نہ آئے،صبح سویرے اٹھتا تو اسے لگتا وہ تو ابھی ابھی پیدا ہوا تھا۔یہ زمین،یہ کائنات بھی ابھی ابھی تعمیر ہوئی تھی ،صرف اس کے لیے۔یہ سبزہ زار، پیڑ جن میں ہوا اور دھوپ پاس پاس بیٹھ کر کانپتی رہتی۔
جب وہ گائوں آیاتھاتو گرمی کا موسم گزرچکا تھا،ہوا میں صبح و شام ہلکی ہلکی خنکی رہتی تھی۔ وہ اس میٹھی رُت میں اپنی چارپائی باہر کھلے آنگن میں ڈال کر سوتا۔یااوپر کھلی چھت پرتو آسمان کے سبھی ستارے ذراسا نیچے جھک جاتے اور اس سے باتیں کرنے لگتے۔سارا گزرا ہوا بچپن اس کی چارپائی کے سرہانے آکر بیٹھ جاتا۔
دوپہر کی دھوپ آج کل بے حد نرم ہوگئی تھی۔خرگوش کے بدن کی طرح نرم۔وہ دھوپ میں بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگتا۔واہ میرے پروردگار۔اتنی نعمتیںدیتا ہے تو انسان کو۔اور انسان ہے کہ بس اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے کولہو کے بیل کی طرح گول دائرے میں گھومتا چلاجاتا ہے۔اگر مجھے بھی ڈاکٹر نہ بتاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ چھ مہینے والی بات نہ کہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو یہ ساری خوبصورتی ،کائنات کا یہ سارا حسن،کنوارا ہی مرجاتا۔
ایک دن اس نے بھنتی کے بیٹے کا سر سہلاتے ہوئے کہا،’’بیٹا،کل اسکول سے لوٹ کر ذرا میرا ہاتھ بٹانا۔پیچھے جو مویشیوں کا کوٹھا ہے اس کی صفائی کردیں گے۔اب تو نہ کوئی گائے نہ بھینس نہ گھوڑا نہ بیل۔وہ کوٹھا یوں ہی ویران پڑا ہے۔صفائی کردیں گے تو کل کو مویشیوں کے کام آئے گا۔‘‘
ویسے وہ سوچ رہا تھا،کس کے مویشی؟کون سے مویشی؟ارے رشید میاں کوئی تو آکر رہے گا اس چھت کے نیچے۔دروازہ کھلا چھوڑجائوں گا نہ میں۔اسلم تو آکر رہنے سے رہا۔گھر ویران پڑے رہیں۔بھوتوں کا ڈیرا بن جائیں اس سے تو اچھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن اس نے بھنتی کے بیٹے کے ساتھ مل کر صفائی کی۔صفائی کرتے ہوئے اسے اپنے بچپن کے دن یاد آتے رہے۔دودھ سے بھری بالٹیاں،مویشیوںکے گلے میں بجتی گھنٹیاں، سب کچھ یاد آتارہا۔اب یہ کوٹھا ویران پڑاتھا۔کوٹھے کی صفائی کرتے کرتے بہت تھکان ہوگئی رشید کو۔دل بھی بہت بجھا بجھا سا ہوگیاتھا۔
باہر آکر اس نے پمپ سے ہاتھ دھوئے اور دھوپ میں بچھی ہوئی چارپائی پر لیٹ گیا۔
بھنتی کا بیٹا بھی باہر آکر اس کی چارپائی کے پاس رک گیا۔
’’کیا نام ہے تیرا بیٹے؟‘‘
’’جی،شام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اچھا،اچھا شام!بتایا تھا تونے کل بھی۔میں ہی بھلکڑ ہوتا جارہا ہوں۔‘‘رشید مسکرایا۔ شام بھی مسکرایا۔کچھ دیر خاموشی رہی۔’’تو پتنگ اڑاتا ہے کبھی؟‘‘رشید نے شام سے پوچھا۔
’’پچھلے برس اڑائی تھی،بسنت کے میلے میں۔‘‘لڑکے نے نگاہیںنیچی کرکے،شرماکر جواب دیا۔
رشید نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔پانچ روپے نکالے اور کہا،’’لے،یہ لے لے۔جاکر پتنگ اور ڈور لے آ۔یہاں آکر پتنگ اڑا۔میں دیکھوں گا۔‘‘
پھر اس نے ذرا سوچ کر ایک اور نوٹ نکالا اور لڑکے کو پکڑادیا۔’’لے اور رکھ لے۔کیا پتہ آج کل ڈور اور پتنگ کتنی مہنگی ہے؟‘‘
لڑکادوڑتا ہواگیااور پتنگ جھلاتا ہوا لوٹ آیا۔دونوں نے مل کر ڈور سے پتنگ باندھی، جھول پرکھا،ہموار کیا،پتنگ اڑنے کے لیے تیار تھی۔
’’لے تو ذرا پیچھے ہٹ،دونوںہاتھوں میں کَس کر پکڑے رکھنا ڈور کو۔میں جب اسے یہاں سے اوپر اڑائوں گا تو جلدی سے ڈور کھینچنا۔پتنگ اڑنے لگے گی۔‘‘شام پیچھے کی طرف چلنے لگا قدم در قدم۔
اچانک رشید کو لگا یہ اس کا بیٹا اسلم تھا۔برسوں کے دوسرے سرے سے اسے دیکھ رہا تھا۔ دریاگنج والے گھر میں ہی ایک دن ضد پکڑ کر بیٹھ گیا کہ ابّو ہم تو پتنگ اڑائیں گے۔بڑی منت سماجت سے کہاتھا اس کا شرٹ پکڑکر،’’ابّو،سکھادیجئے نا ہمیں بھی پتنگ اڑانا۔‘‘
اور اس نے کہاتھا،’’نادان ہے توتو،اتنی تنگ گلیوں،مکانوں پر اونچی اونچی پانی کی ٹنکیوں اور ٹیلیفون کے ایریل،پتنگ کہاں اڑائے گاتو؟‘‘
اسلم کو پیچھے ہٹاکر رشید شام کو دیکھ رہا تھا۔وہ مزیددوچارقدم پیچھے چلاگیا۔تاکہ فاصلہ زیادہ ہوجائے پتنگ کو وہ جب جھٹکا دے کر اونچا کرکے چھوڑے تو ایک ہی جھٹکے سے وہ ہوا سے باتیں کرنے لگے۔
فاصلہ کافی ہوگیاتھا۔رشید نے پتنگ کے دونوں سروں کو پکڑا اور اوپر اچھال دیا، ’’شام،جھٹکا مار۔‘‘ایڑیاں اٹھاکر اس نے پتنگ ہوا میں چھوڑ دی۔
اُس ایک ہی جھٹکے سے پیٹ میں درد کا ایک خنجر پیوست ہوگیا۔درد کا طوفان،خون کا ایک گھونٹ منہ سے باہر اور آسمان کی تمام نیلاہٹ اس کی آنکھوں میں سمٹ کر کالی ہوگئی۔
شام کا دھیان آسمان میں تیرتی،جھومتی اور رقص کرتی پتنگ کی جانب تھااور پتنگ کے آس پاس آسماں میں رشید کے گولے کبوتر تیررہے تھے اور نیچے آنگن میں طوطے گارہے تھے۔


ترجمہ: قاسم ندیم

پنجابی کہانی