Qaisarul Jafri ka Muntakhab kalam

Articles

قیصر الجعفری


قیصر الجعفری کا منتخب کلام

 

گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں

مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں

کانٹوں پہ چلے لیکن ہونے نہ دیا ظاہر

تلووں کا لہو دھویا چھپ چھپ کے اکیلے میں

اے داور محشر لے دیکھ آئے تری دنیا

ہم خود کو بھی کھو بیٹھے وہ بھیڑ تھی میلے میں

خوشبو کی تجارت نے دیوار کھڑی کر دی

آنگن کی چنبیلی میں بازار کے بیلے میں


2

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے

تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ مجھے

تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے

جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو

کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے

وہ پھول جو مرے دامن سے ہو گئے منسوب

خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے

نہ جانے کیا ہے کسی کی اداس آنکھوں میں

وہ منہ چھپا کے بھی جائے تو بے وفا نہ لگے

تو اس طرح سے مرے ساتھ بے وفائی کر

کہ تیرے بعد مجھے کوئی بے وفا نہ لگے

تم آنکھ موند کے پی جاؤ زندگی قیصرؔ

کہ ایک گھونٹ میں ممکن ہے بد مزہ نہ لگے


3

پھر مرے سر پہ کڑی دھوپ کی بوچھار گری

میں جہاں جا کے چھپا تھا وہیں دیوار گری

لوگ قسطوں میں مجھے قتل کریں گے شاید

سب سے پہلے مری آواز پہ تلوار گری

اور کچھ دیر مری آس نہ ٹوٹی ہوتی

آخری موج تھی جب ہاتھ سے پتوار گری

اگلے وقتوں میں سنیں گے در و دیوار مجھے

میری ہر چیخ مرے عہد کے اس پار گری

خود کو اب گرد کے طوفاں سے بچاؤ قیصرؔ

تم بہت خوش تھے کہ ہمسائے کی دیوار گری


4

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے

ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو

شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

آنکھوں کو بھی لے ڈوبا یہ دل کا پاگل پن

آتے جاتے جو ملتا ہے تم سا لگتا ہے

اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا

جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا لگتا ہے

دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہیں

شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے

کس کو پتھر ماروں قیصرؔ کون پرایا ہے

شیش محل میں اک اک چہرا اپنا لگتا ہے


5

تری گلی میں تماشا کیے زمانہ ہوا

پھر اس کے بعد نہ آنا ہوا نہ جانا ہوا

کچھ اتنا ٹوٹ کے چاہا تھا میرے دل نے اسے

وہ شخص میری مروت میں بے وفا نہ ہوا

ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی

ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا

مرے خلوص کی صیقل گری بھی ہار گئی

وہ جانے کون سا پتھر تھا آئینہ نہ ہوا

میں زہر پیتا رہا زندگی کے ہاتھوں سے

یہ اور بات ہے میرا بدن ہرا نہ ہوا

شعور چاہئے ترتیب خار و خس کے لیے

قفس کو توڑ کے رکھا تو آشیانہ ہوا

ہمارے گاؤں کی مٹی ہی ریت جیسی تھی

یہ ایک رات کا سیلاب تو بہانہ ہوا

کسی کے ساتھ گئیں دل کی دھڑکنیں قیصرؔ

پھر اس کے بعد محبت کا حادثہ نہ ہوا