The Role of Literature Away From Cultural Changes

Articles

تہذیبی تبدیلیوں کے دور میں ادب کا کردار

قمر صدیقی

اگر یہ کہاجائے کہ کرہٗ ارض ایک چھوٹی سی جگہ ہے اور یہ چھوٹی سی جگہ بھی اب مسلسل سمٹ رہی ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ گلوبل ولیج کی سوچ تو سٹیلائیٹ دور کے شروعات کی بات تھی۔ اب انسان 3Gاور4Gکے اس دور میں سائبر اسپیس کا سند باد بن چکا ہے۔ بہت پہلے بل گیٹس نے کہا تھا کہ :
”انٹر نیٹ ایک تلاطم خیز لہر ہے جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے ، اس میں ڈوب جائیں گے۔“
بل گیٹس کی بات خواہ غلط ہو یا صحیح، حقیقت یہ ہے کہ آج ہر جگہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی حکمرانی ہے۔ گھر ہو یا دفتر ، علم ہو یا علاج، معیشت ہو یا ثقافت اور فن ہو یا تفریح ہر شعبہ¿ حیات میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل صاف نظر آتا ہے اورلطف کی بات یہ ہے کہ مختلف ٹیکنالوجیز کے اشتراک سے مزید نئی نئی ٹیکنالوجیزسامنے آرہی ہیں ، بلکہ دیوندر اِسّر کے لفظوں میں تو ساری دنیا گھر کے آنگن میں سمٹ آئی ہے اور آنگن پھیل کر ساری دنیا کی وسعت سے ہم کنار ہورہا ہے۔ الیکٹرانک مشینوں کو کہیں سے بھی ہدایتیں دی جاسکتی ہیں اور انھیں حرکت میں لایا جاسکتا ہے۔ جب ہم گھر پہنچیں گے تو سب کچھ ہماری ضرورت اور ہدایت کے مطابق تیار ہوچکا ہوگا۔ پہلے زمانے کا شاعر دیواروں سے باتیں کرتا تھا ، اب دیواریں شاعروں سے باتیں کریں گی۔ شاید ہمارے غم و انبساط میں بھی شریک ہوں گی!ذہین ،مکین ہی نہیں، ذہین مکان بھی ہوں گے۔ حساس دل بے حس تجربہ گاہوں میں تیار کئے جائیں گے اور منجمد سڑکیں متحرک ہوجائیں گی۔ انسان حادثات سے بچ جائے گا، کاریں آپ کو ڈرائیو کریں گی اور الیکٹرانک آلات آنے والے خطرات سے آپ کو آگاہ ۔ دل کا دورہ ہو یا سڑک حادثہ ،اس پیش خبری کے باعث ٹل جائے گا۔ کلوننگ سے پیدا ڈولی کوبھول جائیے، اب بھیڑیں فیکٹریوں میں تیار ہوں گی۔ جینیٹک انجینئرنگ کی مددسے صرف چار بھیڑوں سے اتنی مقدار میں انسولین تیار کی جاسکے گی جو دنیا بھر کے ذیابطیس کے مریضوں کے لیے کافی ہوگی۔ کمپیوٹر انسانی ذہن کے حامل ہوں گے اور انسان کمپیوٹر کی مانند کام کریں گے۔ انسان اور حیوان کے اعضا ایک دوسرے کے جسم میں منتقل کیے جارہے ہیں۔ ذی روح اور غیر ذی روح میں فرق کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تبدیلی کا ایک ریلا ہمارے شب وروز کو اپنے زور میں بہائے لیے جارہا ہے اور اس بہاﺅ میں عا لمیت ، قومیت، مقامیت، رنگ، نسل ، ذات ، طبقہ، فرقہ، مذہب اور جنس کے علاوہ مغرب اور مشرق کے تفاوت کے ساتھ ساتھ مختلف علوم ، بشریات ، سماجیات ، تاریخ ، فلسفہ ، سیاست اور جانے کیا کچھ آپس میں گڈ مڈ ہونے لگا ہے۔تہذیبی اور تکنیکی سوچ ایک نئی حسیت کی پرورش کررہی ہے۔ میڈیا یعنی ٹی وی ، کمپیوٹر وغیرہ اس سوچ کو پھیلانے کے ہتھیار ہیں۔ میڈیا کے ذریعے اطلاعات کی برق رفتار ترسیل نے بڑی سہولیات پیدا کردی ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ اطلاعات کی اس ترسیل کے ساتھ محض خبروں یا خبروں کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ ہی کی ترسیل نہیں ہوتی بلکہ یہ الفاظ اپنے ساتھ اپناخیال اور اپنی فکر بھی لاتے ہیں ۔ اس خیال اوراس فکر کے رد و قبول کے اختیار کے ساتھ ساتھ مسئلہ یہ بھی ہے کہ میڈیا کے ذریعے اتنے تواتر اورشدت کے ساتھ مختلف طرح کے اقدار و خیالات ہم تک پہنچ رہے ہیں کہ ایک طرح کی ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری اقدار سے مختلف اقدار ٹکرا رہی ہیں۔ اس ٹکراﺅ کی وجہ سے یہ انتشار اور بحران تہذیب کے باطن میں اتر گیا ہے۔
برصغیر ہندو پاک میں یہ مواصلاتی انقلاب ، سماجی اور مذہبی اقدار کی پامالی، خاندانی اور انفرادی سطح پر رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ، انتشار اور بکھراﺅ کے ساتھ داخل ہوا۔آج اخبارات و رسائل ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور فلموں سے ہوتے ہواتے یہ انقلاب کمپیوٹر ، انٹرنیٹ بلکہ سائبر اسپیس کے ذریعے اطلاعاتی شاہراہ کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ 1945ءمیں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سوویت یونین ، یوروپ ، جاپان اور امریکہ میں شروع ہوئی ترقی کی بے نتیجہ دوڑ سے برصغیر ہند و پاک محفوظ تھے مگر اب یہاں بھی الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کے باعث اندھی اور بے لگام صارفیت کی ڈھلان پر ہونے والی یہ ”چوہادوڑ“شروع ہوگئی ہے۔لہٰذا اب ہمارے معاشرے میں بھی انسانی رشتے ہوں یا ٹوتھ پیسٹ ، سب بازار کا مال بنتے جارہے ہیں۔ دراصل گلوبلائزیشن کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ دنیا کی ہرشئے یک مرکزی (بلکہ بازار مرکزی) ہوتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے پل پل خرچ ہوتے وقت کا سارا گوشوارہ بازار یا سرمایہ دار کنٹرول کرتا ہے۔ تفریحی پارک، شیطان کی آنت کی طرح مسلسل قسط در قسط پھیلتے ٹی وی سیریلس، شاپنگ مال،فیس بُک، ٹی – 20کرکٹ یہ سب سرمایہ داروں کے وہ حربے (Tools)ہیں جس کے ذریعے وہ ہمارے وقت کو کنٹرول کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان زندگی کی چمچماتی سڑک پر نہ صرف مشین کی طرح دوڑنے پر مجبور ہے بلکہ وہ ایک ہی دن میں کئی ایام جینے کی اذیت میں بھی مبتلا ہے۔
آج گلوبلائزیشن نے بشمول ہند و پاک تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ایک بار پھر سے نوآبادیاتی صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ سیاست کے بجائے سامراجیت نے معاشی اور تہذیبی ، فکری اور نظریاتی سطح پر اپنی جڑیں پھیلائیں ہیں۔ غور کیجئے ہندوستانی بازاروں میں کس کا مال سب سے اچھا تسلیم کیا جاتا ہے؟ کس کے فیشن کو رائج الوقت تسلیم کرکے اس کی تقلید کی جاتی ہے؟ کس کے افکار و خیالات کو اعتبار و سند کے طور پر پیش کیا جاتا ہے؟ظاہر ہے ہندوستانی بازاروں کو امریکہ اور اس کے حلیف کنٹرول کررہے ہیں۔ ہندوستان میں فیشن کو وہ میڈیا رائج کرواتا ہے جو امریکہ کے کنٹرول میں ہے ۔ ہمارا بڑے سے بڑا دانشور جب تک کسی انگریز مفکر کا حوالہ نہ دے لے اپنی تحریر سے مطمئن نہیں ہوپاتا۔دراصل ہم نفسیاتی طور پر ایک ایسے بے آب و گیاہ صحرا میں آپھنسے ہیں جسے خود استعماریت یا Self Colonization کہتے ہیں۔تعلیم کے میدان میں جس کا ادب کی تخلیق و ترویج سے بھی گہرا تعلق ہے یہ تو محسوس کیا گیا کہ استعماری دور کے نظام تعلیم میں آزادی کے بعد تبدیلی لانی چاہئے مگر زیادہ تر جو تبدیلیاں روا رکھی گئیں وہ یا تو بے ضرورت تھیں یا پھر مغرب کی بے جا تقلید اور یہ سلسلہ کبھی سیمسٹر سسٹم تو کبھی گریڈنگ نظام کی صورت آج بھی جاری ہے۔لہٰذا تعلیم کے روز مرہ وظائف یعنی درس و تدریس ، تربیت اساتذہ، نصابی کتب کی تیاری اور اہلیتوں کی ارزیابی کا معیار متاثر ہونا لازم تھا اور پھر نئی نئی سائنسی دریافتوں کے چلتے بشری علوم اور زبانوں کی تعلیم سے معاشرے کی توجہ بالکل ہٹ گئی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہند و پاک میں بھی آزادی کے بعد غیر ملکی زبانوں میں تحصیل کا معیار قائم رہ سکا نہ ملکی اور قومی زبانوں کی طرف کوئی توجہ دی جاسکی۔ لہٰذا نئی نسل کے طلبہ میں بھی اپنے تہذیبی سرمائے کی طرف رغبت یا دلچسپی نہ پیدا کی جاسکی۔
رسمی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں تہذیبی سرمائے کی طرف رغبت پیدا کرنے میں غیر رسمی تعلیمی ادارے بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔اسی لیے ہرزندہ معاشرہ اپنے جلو میں کچھ ایسے تہذیبی اداروں کی پرورش کرتا ہے جو اگر بالواسطہ نہیں تو بلاواسطہ ادب کی غیر رسمی تعلیم کا انتظام و انصرام کرتے رہتے ہیں۔ ادب کی غیر رسمی تعلیم کے یہ ذرائع نہ صرف تہذیبی سطح پر کارآمد ہوتے ہیں بلکہ زبان و ادب کے ارتقا میں بھی کلیدی کردار اداکرتے ہیں۔مثلاً جب استادی شاگردی کا ادارہ اٹھارویں صدی کی دہلی میں شروع ہوا تو بہت جلد اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی اور آگے چل کر اس ادارے کی اہمیت اس حد تک بڑھی کہ کسی شاعر کی خوبی کا ایک معیار یہ بھی بن گیا کہ وہ کس شاعر کا شاگرد ہے۔ مگر آج ادب کی تعلیم کے یہ غیر رسمی ذرائع محدود ہوگئے ہیں یا غیر موثر بنادیے گئے ہیں۔ محفلیں، اجتماعی سرگرمیاں ، ادیبوں اور فنکاروں کا عام لوگوں سے میل جول اور آپسی ربط و ضبط کے مواقع ، نوواردان ادب کا بزرگان ادب سے مکالمہ اور سب سے بڑھ کر ہند و پاک کی تہذیب کا منفرد ادارہ یعنی مشاعرے ، آج ہماری زندگی سے پوری طرح رخصت نہیں ہوئے تو نظروں سے اوجھل ضرور ہوگئے ہیں۔ مشاعروں کا اہتمام البتہ بہت ہورہا ہے، لیکن شاید ہی کسی کو اس بات کا احساس ہو کہ فی زمانہ مشاعروں کا معیار کیا ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھانڈ اور شاعروں میں تفریق کرنے والے لوگ اب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔رہا سوال نوجوانوں میں اپنے تہذیبی سرمائے کی طرف رغبت پیدا کرنے کے تعلق سے رسمی تعلیمی اداروں (مثلاً اسکول اور کالج وغیرہ)کے رول کا تو ان کا خدا ہی حافظ و ناصر ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے ان کی طرف سے کسی پہل کا تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ بلکہ ہمارے اساتذہ کا حال تو یہ ہے کہ شاید ہی کوئی استاد میر و غالب یا اقبال جیسے مشہور شعرا کے کلام کی کسی تغیر و تبدل کے بغیرصحیح قرا¿ت کرکے شعر کو شعر کی طرح پڑھ سکے۔ لہٰذا ایسے حالات میں نوجوانوں کی فنی نا پختگی کا الزام کس کے سر آئے گا؟

————————————