The Role of Literature in Current World Scenario

Articles

موجودہ عالمی صورتِ حال میں ادب کے تقاضے

ڈاکٹر سیّد جعفر احمد

 

اکیسویں صدی کے عصری منظر نامے کی تفہیم اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے اقتصادی محرکات اور عوامل کا بھی شعور حاصل نہ کرلیا جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارا آج کا سیاسی منظر نامہ ہمارے اقتصادی منظر نامے سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ اس وقت ہر طرف گلوبلائزیشن کا دور دورہ ہے اور یہ اصطلاح سکہ¿ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ غور سے دیکھیں تو گلوبلائزیشن بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دنیا نے جب سے سرمایہ دارانہ نظام کا تجربہ کیا ہے یہ گلوبلائزیشن ہمیشہ ہی افق پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح موجود رہی ہے۔ سرمائے کی سرشت میں ہے کہ وہ پھیلتا ہے۔ اس کی طبع میں ہے کہ یہ’ رُکتی ہے تو ہوتی ہے رواں اور ‘۔ اس کے آگے بند باندھنا مشکل ہوتا ہے۔ سو گزشتہ تین چار سو سال سے سرمایہ Globalizeہونے ہی کی طرف مائل تھا اور آج اس کی بن آئی ہے، چنانچہ ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا پر اپنے پھریرے لہراتی پھر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں میں ایسی کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کے بجٹ تیسری دنیا کے کئی کئی ملکوں کے بجٹوں سے زیادہ ہیں۔ یہ حکومتوں کو بنواتی ہیں اور گراتی ہیں، آبادیوں کو تہہ تیغ کرتی ہیں، لاکھوں نفوس ان کی مصنوعات کی تجربہ گاہ بنتے ہیں۔ یہ عالمی مالیاتی نظام اور عالمی تجارت پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انھوں نے اطلاع کو ایک صنعت بناکر اس کو بھی اپنے قبضے میں کرلیا ہے۔ پھر ان کثیر القومی کمپنیوں میں امریکی اور یورپی کمپنیوں کی اکثریت ہے۔یہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چیرہ دستیاں ہیں جن سے آج کا نیا عالمی نظام اپنی شناخت پاتا ہے۔
اس نئے عالمی نظام اور گلوبلائزیشن کے نتیجے میں دنیا میں غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ امیر اور غریب ملکوں کے درمیان تفاوت بڑھا ہے۔ چھوٹے ملکوں کی مختاری اور آزادی جو پہلے ہی بہت محدود تھی اب تقریباً معدوم ہوچکی ہے۔ غریب ملکوں کے بالا دست طبقات تو نئے نظام کا دُم چھلا بن کر اپنی مطلب براری کرلیتے ہیں لیکن زیر دست طبقات کا کوئی پرسان حال نہیں۔ خود امیر ملکوں میں امیر اور غریب کا تضاد روز افزوں ہے۔ معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مقامی آبادی اور تارکینِ وطن کے درمیان خلیج بڑھتی جاتی ہے جس کا مظہر آئے دن کے فرقہ وارانہ اور نسلی ہنگامے ہیں۔
گلوبلائزیشن کے سماجی اثرات سے مربوط اس کے تہذیبی اثرات ہیں۔ گلوبلائزیشن نے چھوٹی ریاستوں اور ان کے تشخص کو ہی پامال نہیں کیا ہے بلکہ اس نے چھوٹے ملکوں اور چھوٹی آبادیوں کی ثقافتوں کو بھی حرفِ غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی ہے۔ گلوبلائزیشن کے زیرِ اثر وہی زبان یا زبانیں برقرار رہنے کا پروانہ حاصل کرپاتی ہیں جو بڑی منڈیوں کی زبانیں ہیں۔ جو زبان بازار میں نہیں بولی جاتی یا بازار میں جس کے لیے مناسب جگہ نہیں بن سکی ، اس کا مستقبل تاریک ہوتا جاتا ہے۔ بیسیوں زبانیں پچھلے چند برسوں میں لسانی منظر نامے سے غائب ہوچکی ہیں اور بہت سی زبانیں ممکنہ مخدوش مستقبل سے دوچار ہیں۔ زبانوں کا معدوم ہوجانا شاید مملکتوں اور ریاستوں کے معدوم ہوجانے سے بھی زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ زبانیں تہذیب کی امانت دار ہوتی ہیں۔ وہ ہمارے ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔ ان میں ہمارے پُرکھوں کے خواب محفوظ ہوتے ہیں، وہ ہمارے خیالات میں ارتفاع پیدا کرتی ہیں، ان کے وسیلے سے ہم اپنی اُمنگوں کو آئندہ نسلوں تک پہنچاتے ہیں۔ ایک زبان کا مَر جانا بہت سے خوابوں ، ان گنت خیالوں اور بہت سی قدروں کا مَر جانا ہوتا ہے۔ گلوبلائزیشن سے آج یہی خواب ، خیال اور قدریں مَر رہی ہیں۔ ہماری تہذیب کا ایک بہت درخشاں حصہ خزاں کے پت چھڑ کی طرح شاخوں سے ٹوٹ کر ختم ہورہا ہے۔
نئے عالمی نظام اور گلوبلائزیشن نے تہذیب کی سطح پر جو دوسرا بڑا وار کیا ہے وہ ثقافتوں اور زبانوں پر حملے سے بھی سنگین ہے اور وہ ہے ذہنوں کو کنٹرول کرنے کا وار۔ بظاہر اس وقت دنیا میں ایک نام نہاد اطلاعات کا انقلاب آیا ہوا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی نے معلومات کے ذخیرے کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے۔ کمپیوٹر نے انسان کے ذخیرہ¿ معلومات میں جس رفتار سے اضافہ کیا ہے خود اس رفتار کو ناپنا بھی اب کمپیوٹر کے بغیر ناممکن ہوچکا ہے۔ سیٹیلائٹس نے انسان کی رسائی ہزاروں چینلز تک کردی ہے اور خبریں جو کبھی ڈھونڈنے سے ملا کرتی تھیں اب سیلاب کی شکل میں ہمارے وجود کو غرق کرنے پر تلی نظر آتی ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کس خبر کو درست سمجھا جائے اور کس کو غلط، یا درست اور غلط کے درمیان جو ہزاروں رنگ ہیں ان میں سے کس رنگ پر اعتبار کیا جائے ۔میڈیا نے گلوبلائزیشن کی محرک قوتوں کے اور نئے عالمی نظام کی قیادت پر فائز حکومتوں کے ہاتھ میں ذہنوں کو کنٹرول کرنے کا ایسا آلہ فراہم کردیا ہے جس کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو کیا رائے قائم کرنی چاہیے، ان کو کس چیز کو منتخب اور کس کو رَد کرنا چاہیے، ان کو اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے کس قسم کے فیصلے کرنے چاہیے ، ان کو کیا پینا چاہیے ، کیا کھانا چاہیے ، کیا سوچنا چاہیے اور کون سے خواب دیکھنے چاہیے ، آج یہ سب کچھ انسان کے اپنے اختیار سے نکل کر میڈیا کو کنٹرول کرنے والے ہاتھوں میں جا چکا ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں شہریوں کے سوچنے اور سمجھنے پر میڈیا کے ذریعے کنٹرول کا حربہ وہاں کے کارپوریٹ سیکٹر اور ریاست کا اب تک کا سب سے کارآمد حربہ ہے۔ نام چومسکی اس صورتِ حال کو Necessary Illussionsسے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ Water Lippmann کے اتّباع میں مغربی جمہوریت کو ’تماش بینوں‘ کی جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ Lippmannکے خیال میں یہ ایسی جمہوریتیں ہیں جہاں بھٹکے ہوئے ہجوم رہنمائی کے طالب تو ہوتے ہیں، با اختیار ہونے کا حق نہیں رکھتے۔ چومسکی کا کہنا ہے کہ ’پروپیگنڈہ مغربی جمہوریت میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو ایک آمرانہ ریاست میں ڈنڈے کو حاصل ہوتی ہے۔ دونوں کا کام لوگوں کو ہانکنا اور ان کو ایک خاص سمت میں لے جانا ہوتا ہے۔‘اپنی کتاب ’ذرائع ابلاغ کا کنٹرول‘ (Media Control) میں چومسکی نے بتایا ہے کہ کس طرح ووڈرو ولسن (Woodrow Wilson) کے زمانے میں صرف چھ ماہ میں ایک خاموش طبع آبادی کو ایک ہیجان اور جنگی جنون میں سرشار آبادی میں ڈھال دیا گیا اور کس طرح بش سینئر کے زمانے میں قوم کو میڈیا کے ذریعے اور پبلک ریلیشننگ کی صنعت کے ذریعے جنگ بازی کے لیے تیار کرلیا گیا۔ چومسکی اور ان جیسے دانشور غلط نہیں ہیں۔ ہم خود بھی دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ کی ہولناک جنگی کاروائیوں ، عراق میں اس کی انسانیت کش سرگرمیوں اور افغانستان اور دنیا کے دوسرے خطوں میں اس کی بربریت کی تہہ در تہہ تفصیلات کے منظرِ عام پر آنے کے باوجود امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد آج بھی اپنی حکومت کے قبضہ¿ قدرت میں ہے۔
گلوبلائزیشن کا تیسرا بڑا حملہ جو بہت خاموشی اور غیر محسوس طریقے سے ہوا ہے ، وہ ہماری زبان ، ہمارے لغت بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ ہماری ترقی پسند زبان اور لغت کے اغوا کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ آج ہماری اصطلاحیں ، ہمارے نعرے، ہمارے استعارے اُن انسان دشمن اور تہذیب ناشناس قوتوں کے تصرف میں ہیں جن کے خلاف ہم جد و جہد کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں۔ چنانچہ صدر بس اور ٹونی بلیئر عراق کو ’آزاد‘ کرواتے ہیں۔ امریکہ عراق اور افغانستان میں ’جمہوری آزادیاں‘ لے کر آرہا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ’حقوقِ انسانی‘ کا شور مچاتی نظر آتی ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو ’بچوں کی محنت‘ شاق گزرتی ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں کو بنیاد پرستی بُری لگنے لگی ہے اور وہ ’مذہبی ہم آہنگی‘ اور ’رواداری‘ کے علمبردار بن چکے ہیں۔ چھوٹے ملکوں کے کاسہ لیس حکمراں اپنے اپنے ملکوں میں ’جمہوریت کو نچلی سے نچلی سطح‘ تک پہنچانے میں مصروف ہیں اور فوجی آمریتیں ‘میانہ رَوئی اور روشن خیالی‘ کی علمبردار نظر آتی ہیں۔ الفاظ و اصطلاحات ، زبان و لغت کے اس اغوا کے بعد ہم جیسے لوگوں کے لیے اب ایک اضافی آزمائش یہ بھی قرار پاتی ہے کہ ہم کس طرح اپنی زبان اور اپنے لفظیات کی بازیافت کرتے ہیں۔
٭٭٭