Sahir Ludhianvi A Shor Collection

Articles

ساحر لدھیانوی


ساحر لدھیانوی کے کلام کا انتخاب

تاج محل

تاج، تیرے لئے اک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تُجھ کو اس وادئ رنگیں‌سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟

مری محبوب پسِ پردہِ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کے مقابر سے بہلنے والی
مُردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا ساماں نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر، یہ فصیلیں، یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صنائی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ چلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش درودیوار، یہ محراب، یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے

 

کبھی کبھی

کبھی کبھی مرے دل میں‌یہ خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیری جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم رہ کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں‌کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسین فسانوں‌ میں‌ محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی!
ترے لبوں‌سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں‌کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں، ترا غم، تیری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں‌کو لگا چکا ہوں‌گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے چلے آتے ہیں
حیات و موت کے پر ہول خارزاروں سے

نہ کوئی جادہ، نہ منزل، نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں‌رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں‌مری ہم نفس مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں‌ خیال آتا ہے

 

فن کار

میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں

آج دُکان پہ نیلام اٹھے گا ان کا
تو نے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس

آج چاندی کے ترازو میں تُلے گی ہر چیز
میرے افکار، مری شاعری، میرا احساس

جو تری ذات سے منسوب تھے ان گیتوں‌کو
مفلسی جنس بنانے پر اتر آئی ہے

بھوک، تیرے رُخِ رنگیں کے فسانوں‌ کے عوض
چند اشیائے ضرورت کی تمنا ہے

دیکھ اس عرصہ گہِ محنت وہ سرمایہ ہیں
میرے نغمے بھی مرے پاس نہیں‌ رہ سکتے

تیرے جلوے کسی زردار کی میراث سہی
تیرے خاکے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے

آج ان گیتوں‌کو بازار میں لے آیا ہوں
میں نے جو گیت تیرے پیار کی خاطر لکھے​

 

غزلیں
1

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا

کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں
بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

 

2
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا

جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا
جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا

غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا

 

3

تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم

مایوسئ مآل محبت نہ پوچھیے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم