Sajjad Haider Yaldaram : Life and Work

Writers

Sajjad Haider Yaldaram : Life and Work

ڈاکٹر قمر صدیقی

سجاد حیدر یلدرم 1880میں بنارس میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد سیّد جلال الدین حیدر مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ یلدرم کا خاندان پڑھا لکھا اور لبرل خاندان تھا۔ آبائی وطن قصبہ نہٹور، ضلع بجنور، اتر پردیش تھا۔ ۷۵۸۱ء کی جنگِ آزادی میں یلدرم کے دادا امیر احمد علی نے بھی انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ لہٰذا اس کی پاداش میں جاگیریں ضبط ہوئیں اور خاندان کی نئی نسل کو انگریزی پڑھنی اور سرکاری ملازمتیں کرنی پڑیں۔ان کے اہل خاندان سرکاری ملازمتوں میں اچھے عہدوں پر فائز رہے۔ یلدرم اور ان کے بھائیوں نے ابتدائی تعلیم بنارس ہی میں حاصل کی۔ بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اے۔ایم۔او کالج،علی گڑھ میں داخل کیے گئے۔1901میں یلدرم نے بی۔اے کیا اور پورے صوبے میں سیکنڈ آئے۱؎۔ یلدرم نے علی گڑھ میں بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ یونین کے سکریٹری اور صدر بھی رہے۔ مولانا محمد علی اور مولانا حسرت موہانی ان کے کلاس فیلو تھے۔علی گڑھ کالج کے زمانے میں انھوں نے حسرت موہانی پر ایک نظم ”مرزا پھویا“ لکھی تھی۔ اس زمانے میں علی گڑھ کی علمی رفعت قابل رشک تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ روزگار اساتذہ علی گڑھ کالج سے منسلک تھے۔ قرۃ العین حیدر نے اس تعلق سے لکھا ہے: ”علی گڑھ ان دنوں گویا آکسفورڈ کا ماڈل بنا ہوا تھا۔ تھیوڈر بک پرنسپل تھے۔ آرنلڈ اور نکلسن انگریزی کے استاد تھے۔ پروفیسر چکرورتی اور ڈاکٹر ضیا الدین ریاضی پڑھاتے تھے۔ مولوی عباس حسین عربی کے استاد تھے اور مولانا شبلی فارسی پڑھایا کرتے تھے۔ یلدرم فارسی میں بہت اچھے تھے لہٰذا شبلیؔ کے پسندیدہ شاگردوں میں تھے۔“ (”خیالستان“‘ مرتب: ڈاکٹر سیّد معین الرحمن۔ ص: ۱۵۲) زمانہئ طالب علمی سے ہی یلدرم کو ترکی سے ذہنی لگاؤ تھا۔ حاجی اسمعٰیل خان رئیس دتاولی جنھیں اردو اور ترکی زبان کا اچھا ذوق تھا۔ان کی صحبت میں یلدرم نے ترکی زبان میں مہارت بہم پہنچائی۔ بی۔ اے کے بعد ایل۔ایل۔ بی کررہے تھے کہ اس درمیان برطانوی فارن آفس نے علی گڑھ کے پرنسپل کو بغداد کے قونصل خانے کے لیے ترکی زبان کا ترجمان مہیا کرانے کے لیے لکھا۔ کسی پروفیسر نے یلدرم سے اس کا ذکر کیا۔ انھوں نے درخواست دی اور تقرر ہوگیا۔ بغداد میں یلدرم کا قیام کئی سال رہا۔ بالآخر ان کا جی بھر گیا اوروہ چھٹی لے کرہندوستان آگئے۔ ہندوستان واپس آجانے کے بعد پھر بغداد جانے کی خواہش نہ ہوئی۔ لہٰذا حکومت نے ان کاتقرر اس زمانے میں کابل کے معزول شدہ امیر یعقوب علی خان کے پولیٹیکل افسر کے طور پر کردیا۔امیر یعقوب کا قیام اُن دنوں مسوری میں تھا۔ امیر کابل کے انتقال کے بعد یلدرم کی خدمات یو۔پی سول سروس میں منتقل کردی گئیں۔ 1920میں ایم۔اے۔او، کالج (علی گڑھ) کو یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ اس وقت مسلم یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار کی حیثیت سے اُن کی خدمات حاصل کی گئیں۔1929 میں وہ دوبارہ یو۔پی سول سروس میں واپس آگئے۔ دوران ملازمت انڈومان و نکوبار جزائر میں تبادلہ ہوا اور غازی پور اور اٹاوے میں بھی تعینات ہوئے۔1935 میں خرابیِ صحت کی وجہ سے وقت سے پہلے ریٹائر منٹ لے لیا۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ہے کہ یلدرم کو ترکی زبان و ادب سے علی گڑھ کالج کے زمانے سے ہی دلچسپی تھی۔ بغداد کے زمانہئ قیام میں ان کی اس دلچسپی کو اور جلا ملی۔1902 میں انھوں نے احمد حکمت کے ایک ناول ”ثالث بالخیر“ کا ترجمہ کیا۔اس وقت یلدرم کا نوجوانی کا زمانہ تھا۔ اسی زمانے میں انھوں نے ”مخزن“ میں لکھنا شروع کیا۔ یلدرم کے افسانوی رجحان میں جس طرح کی رومانیت کا غلبہ تھا وہ بڑی حد تک مغربی اور ترکی رومانیت تھی۔ یلدرم سے پہلے اردو فکشن میں عورت کاکردار بہت نمایاں اور روشن نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے ایک ایسے رجحان کو متعارف کرانے کی کوشش کی جس میں رتن ناتھ سرشار کی سپہر آرا محض چلمن سے جھانکتی نظر نہ آئے بلکہ وہ مردوں کے دوش بدوش ان کے ہمراہ چل سکے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے نسوانی کرداروں کو لکھنؤ اور دلی کی حویلیوں کی چار دیواری سے نکال کر بمبئی کے ساحل پر کھلی ہوا میں سانس لینے کی ادا سکھائی۔ بغداد کے بعد یلدرم کا تبادلہ قسطنطنیہ کے برطانوی سفارت خانے میں ہوا۔ یہاں وہ ترکی ادب میں پیدا ہونے والی نئی تحریکوں سے متعارف ہوئے اور ینگ ترک پارٹی کے ساتھ منسلک ہوکر انقلاب میں عملی حصہ بھی لیا۔ اس ضمن میں قرۃ العین حیدر نے تحریر کیا ہے: ”یلدرم کی یہ انقلاب پرستی رومانیت کے جذبے کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی تھی۔ انھوں نے بہت بڑا خطرہ مول لے کر ینگ ترک پارٹی کے ساتھ کام کیا۔ پھر لطف یہ کہ بعد میں ساری عمر کبھی بھولے سے اس کا ذکر نہ کیا۔ میرے خیال میں اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سنسنی خیز شہرت حاصل کرنے کے لیے بعد میں ہمیشہ کے واسطے لیڈر قوم اور غازی وغیرہ بن جاتا۔“ (”خیالستان“‘ مرتب: ڈاکٹر سیّد معین الرحمن۔ ص: ۹۵۲) یلدرم کی شادی ۲۱۹۱ء میں نذرِ زہرا بیگم (نذرِ سجاد) سے ہوئی۔ نذرِ زہرا بیگم اپنے زمانے کی معروف قلمکار تھیں۔۸۰۹۱ء میں بچوں کے مشہور اخبار ”پھول“ کی ایڈیٹر رہیں۔ یہ رسالہ شمس العلما ممتاز علی کے ”دار الاشاعت پنجاب“ لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ان کا مشہور ناول ”اخترالنسا بیگم“ 1910میں شائع ہو چکا تھا جب ان کی عمر صرف سولہ سال تھی۔شادی سے قبل ہی ان کی تحریریں ’نیرنگِ خیال‘، ’زمانہ‘، ’تمدن‘، ’ادیب‘، ’انقلاب‘ اور ’الناظر‘ جیسے رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔ 1935 میں یلدرم حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔1938میں بیمار ہوئے۔ ان کی آنکھ کے عین اوپر کاربنکل نکلا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی نے آپریشن کیا جو اپنے زمانے میں مشہور ڈاکٹر تھے۔ آپریشن کامیاب رہا لیکن صحت کمزور ہوتی جارہی تھی۔ کمزوری اور نقاہت کے باوجود ہر مصروفیت کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے۔ بالآخر6/ اپریل1943ء کو رات دو بجے حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوا۔ انتقال سے قبل تک وہ علمی و ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ لکھنؤ کے عیش باغ کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔ سجاد حیدر یلدرم نے اپنی تحریروں کے ذریعے جس نوع کے رجحان کو فروغ دینے کی کوشش کی اس میں عورتوں کی تعلیم اور مساوات کو اولیت حاصل ہے۔ اس تعلق سے انھوں نے نہ صرف قلمی بلکہ عملی سطح پر بھی اقدامات کیے۔ خود اپنے خاندان کی بے شمار لڑکیوں کی خاطر یونیورسٹیوں کی اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حصول کے لیے اس زمانے میں کوشاں رہے جب مسلمان لڑکیوں کو اسکول بھیجنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ افسانہ نگاری کے حوالے سے یلدرم اردو زبان میں ایک نئے اور دلنواز اسلوبِ بیان کے موجد تھے۔ان کا شمار اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ”خیالستان“ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔ خیالستان میں انشائیے، تراجم اور مختصر افسانے شامل ہیں۔ گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان“ ہے۔ ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع زاد ہیں۔ ان میں سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔یلدرم علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور تہذیب یافتہ تھے۔ ان کی ادبی زندگی علی گڑھ سے پیدا ہوئی۔ انہیں سرسید اور علی گڑھ سے بے حد عقیدت اور غایت درجہ انس تھا۔ مگر اس کے باوجود یلدرم نے اپنی افسانوی تحریروں میں اس تحریک کی خشک حقیقت پسند ی اور بے نمکی کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا۔ اس مقصد کے لیے یلدرم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے افسانے کے لیے کوئی ایسا موضوع تلاش کریں جو دلچسپ بھی ہو اور زندگی کے ساتھ اس کا گہرا رابطہ بھی ہو۔ محض خیال اور خواب کی دنیا نہ ہو بلکہ اس میں اپنے عہد کی جھلک نظرآئے۔ اس مقصد کے پیش نظر یلدرم نے بطور خاص محبت اور عورت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔چونکہ عورت، مرد کی بہترین رفیق ہے اس لیے یلدرم کے نزدیک اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو بہترین رفیق کے لیے موزوں اور مناسب ہے۔ یلدرم اس بات کے بھی قائل تھے کہ عورت کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری اور نامکمل ہے۔عورت یلدر م کے ہاں عیاشی اور گناہ کا مظہر نہیں، لطافت اور زندگی کی صحت مند تصور کی علامت ہے۔٭٭٭ ۱؎ یہ بیان قرۃ العین حیدر کا ہے۔ مشمولہ ”خیالستان“ ص: ۸۴۲۔ مرتب: ڈاکٹر سیّد معین الرحمن۔ قرۃ العین حیدر کے اس بیان پر مرتب نے فٹ نوٹ لگاکر مشتاق احمد زاہدی کا بیان نقل کیا ہے کہ یلدرم تمام الہ آباد یونیورسٹی میں چوتھے نمبر تھے۔ اس زمانے میں علی گڑھ کالج الہ آباد یونیورسٹی سے منسلک تھا۔