San by Mustaq Ahmad Yusufi

Articles

سن

مشتاق احمد یوسفی

 

اوروں کا حال معلوم نہیں، لیکن اپنا تو یہ نقشہ رہا کہ کھیلنےکھانےکےدن پانی پت کی لڑائیوں کے سن یاد کرنے، اور جوانی دیوانی نیپولین کی جنگوں کی تاریخیں رٹنے میں کٹی۔ اس کا قلق تمام عمر رہے گا کہ جو راتیں سکھوں کی لڑائیوں کے سن حفظ کرنے میں گزریں،وہ ان کےلطیفوں کی نذر ہو جاتیں تو زندگی سنور جاتی۔ محمود غزنوی لائق صد احترام سہی، لیکن ایک زمانے میں ہمیں اس سے بھی یہ شکایت رہی کہ سترہ حملوں کی بجائےاگر وہ جی کڑا کر کے ایک ہی بھرپور حملہ کر دیتا تو آنے والی نسلوں کی بہت سی مشکلات حل ہوجاتیں۔بلکہ یوں کہنا چاہیےکہ وہ پیدا ہی نہ ہوتیں (ہمارا اشارہ مشکلات کی طرف ہے)۔
اولاد آدم کے سر پر جوگزری ہے، اس کی ذمہ داری مشاہیر عالم پرعائدہوتی ہے۔ یہ نری تہمت طرازی نہیں بلکہ فلسفہ تاریخ ہے، جس سےاس وقت ہمیں کوئی سروکارنہیں۔ہم تواتناجانتےہیں کہ بنی نوع آدم کوتواریخ نےاتنانقصان نہیں پہنچایاجتنامورخین نے۔ انھوں نےاس کی سادہ اورمختصرسی داستان کو یادگار تاریخوں کاایک ایساکیلنڈربنادیاجس کےسبھی ہندسےسرخ نظر آتے ہیں۔ چنانچہ طلبابوجوہ معقول ان کےحق میں دعائےمغفرت نہیں کر سکتے اور اب ذہن بھی ان تعینات زمانی کااس حد تک خوگرہوچکاہےکہ ہم وجودانسانی کاتصوربلاقیدسن دسمبت کرہی نہیں سکتے:
“جوسن نہ ہوتےتوہم نہ ہوتے، جو ہم نہ ہوتےتوغم نہ ہوتا“ معلوم ایسا ہوتاہےکہ مورخین سن کوایک طلسمی طوطاسمجھتےہیںجس میں وقت کےظالم دیو کی روح مقید ہے۔ کچھ اسی قسم کے عقیدے پر میل بورن کےخضرصورت آرچ بشوپ مانکس نےتین سال پہلےطنزکیاتھاکہ جب ان کی ٣٩ویں سالگرہ پر ایک اخبار کے رپورٹر نے اپنی نوٹ بک نکالتے ہوئے بڑے گمبھیر لہجے میں دریافت کیا:
”آپ کےنزدیک ٣٩کی عمرتک پہنچنےکی اصل وجہ کیاہے؟“
”برخودار! اس کی اصل وجہ یہ ہےکہ میں1845 میں میٹرک کےامتحان سےکچھ دن قبل مرزاعبدالودودبیگ نےاس رازکوفاش کیا(ہرچندکہ طلبااس کھولانہیں کرتے)کہ شقی القلب ممتحن بھی سن ہی سےقابومیں آتے ہیں۔ چنانچہ زیرک طالب علم ہر جواب کی ابتداکسی نہ کسی سن سےکرتےہیں۔خواہ سوال سے اس کادورکاتعلق بھی نہ ہو۔ذاتی مشاہدےکی بناپرعرض کرتاہوں کہ ایسےایسےغبی لڑکےجونادرشاہ درانی اوراحمدشاہ ابدالی میں کبھی تمیزنہ کرسکے، آج تک چنگیزخاں کومسلمان سمجھتےہیں، محض اس وجہ سےفرسٹ کلاس آئےکہ انھیں قتل عام کی صحیح تاریخ اورپانی پت کی حافظہ شکن جنگوں کےسن ازبر تھی۔ خود مرزا، جو میٹرک میں بس اس وجہ سےاول آگئےکہ انھیں مرہٹوں کی تمام لڑائیوں کی تاریخیں یادتھیں، پرسوں تک اہلیہ بائی کوشیواجی کی رانی سمجھےبیٹھےتھے۔ میں نےٹوکاتوچمک کربولے:
”یعنی کمال کرتےہیں آپ بھی!اگرشیواجی نےشادی نہیں کی تونانافرنویس کس کالڑکاتھا؟“
ترقی یافتہ ممالک میں مارچ کامہینہ بےحدبہارآفرین ہوتا ہے۔ یہ وہ رت ہےجس میں سبزہ اوس کھاکھاکرہراہوتاہےاورایک طرف دامن صحراموتیوں سےبھر جاتاہےتودوسری طرف

موجہ گل سےچراغاں ہےگزرگاہ خیال

اس تمہیددل پذیرسےمیرایہ مطلب نہیں کہ اس کےبرعکس پس ماندہ ممالک میں اس مست مہینےمیں پت جھڑہوتاہےاور

بجائےگل چمنوں میں کمرکمرہےکھاد

توجہ صرف اس امرکی جانب دلاناچاہتاہوں کہ برصغیرمیں یہ فصل گل آبادی کےسب سےمتصوم اوربےگناہ طبقےکےلیےہرسال ایک نئےذہنی کرب کاپیغام لاتی ہے، جس میں چارسال سےلےکرچوبیس سال کی عمرتک کےسبھی مبتلانظرآتےہیں۔ہمارےہاں یہ سالانہ امتحانوں کاموسم ہوتاہے۔ خداجانےمحکمہ تعلیم نےاس زمانےمیں امتحانات رکھنےمیں کونسی ایسی مصلحت دیکھی،ورنہ عاجزکی رائےمیں اس ذہنی عذاب کےلیےجنوری اورجون کےمہینےنہایت مناسب رہیں گے۔ یہ اس لیےعرض کررہاہوں کہ کلاسیکی ٹریجڈی کےلیےخراب موسم انتہائی ضروری تصورکیاگیاہے۔
بات سےبات نکل آئی،ورنہ کہنایہ چاہتاتھاکہ اب جوپیچھےمڑکےدیکھتاہوںتویک گونہ افسوس ہوتاہےکہ عمرعزیزکی پندرہ سولہ بہاریں اورمیوہ ہائےباغ جوانی اسی سالانہ جانکنی کی نذرہوگئی۔ یادش بخیر!وہ سلوناموسم جس کواگلےوقتوں کی زبان میں ’جوانی کی راتیں،مرادوں کےدن،کہتےہیں،شاہ جہان کےچاروں بیٹوں کی لڑائیاں اورفرانس کےتلےاوپراٹھارہ لوئیوں کےسن ولادت ووفات یادکرنےمیں بسر ہوااورتنہافرانس کاسفرکیامذکور۔برطانیہ کی تاریخ میں بھی چھ عددجارج اور آٹھ آٹھ ایڈورڈاورہنری گزرےہیں،جن کی پیدائش اورتخت نشینی کی تاریخیں یادکرتےکرتےزبان پرکانٹےاورحافظےمیںنیل پڑگئے تھے۔ ان میں ہنری ہشتم سب سےکٹھن اورکٹھورنکلا۔اس لیےکہ اس کی اپنی تخت نشینی کےعلاوہ ان خواتین کی تاریخ وفات بھی یادکرناپڑی جن کو اس نےاپنےاوپرحلال کررکھاتھااورجنھیں باری باری تختہ نصیب ہوا۔
قیاس کہتاہےکہ تاریخی نام رکھنےاورتاریخ وفات کہنےکارواج اسی مشکل کوحل کرنےکی غرض سےپھیلاہوگا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی مدد سے حافظے کوایسی تاریخیں یادرکھنےمیں آسانی ہوتی ہے، جن کابھول جاناہی بہترہوتا۔بعض شعراءبہ نظراحتیاط ہرسال اپنا قطعہ تاریخ وفات کہہ کررکھ لیتے ہیں تاکہ مرنےکی سندرہےاوروقت ضرورت پس ماندگان کےکام آئے۔کون واقف نہیں کہ مرزاغالب نےجو مرنےکی آرزومیں مرتےتھے، متعددباراپنی تاریخ رحلت کہہ کرشاگردوں اوقرض خواہوں کوخوامخواہ ہراساں کیاہوگا۔لیکن جب قدرت نےان کومرنےکاایک سنہری موقع فراہم کیاتو یہ کہہ کرصاف ٹال گئےکہ وبائےعام میں مرناہماری کسرشان ہے۔
مارچ 1942 کاذکرہے۔ بی ،اےکےامتحان میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا۔ میں روہیلوں کی لڑائیوں سےفارغ ہوکرمرزاعبدالودودبیگ کےپاس پہنچاتودیکھاکہ وہ جھوم جھوم کرکچھ رٹ رہےہیں۔پوچھا”خیام پڑھ رہےہو؟“
کہنےلگی”نہیں تو!ہسٹری ہے۔“
”مگرآثارتوہسٹیریاکےہیں!“
اپنی اپنی جگہ دونوں سچےتھے۔ انھوں نےغلط نہیں کہا،اگرچہ میرا خیال بھی صحیح نکلاکہ وہ شعرسےشغل فرمارہےہیں۔البتہ شعرپڑھتےوقت چہرے پر مرگی کی سی کیفیت میں نےقوالوں کےسواکسی اورکےچہرےپراس سےپہلےنہیں دیکھے تھے۔ پھرخودہی کہنےلگے ”چلوہسٹری کی طرف تواب بےفکری ہوگئی۔قبلہ ناناجان نےپچاس مشاہیرکی تاریخ ولادت ووفات کےقطعےکہہ کرمیرےحوالےکردئےہیں۔جن میں سے آدھےحفظ کرچکاہوں۔“اس کےبعد انھوں نےتیمورلنگ کی پیدائش اوررنجیت سنگھ کی رحلت کےقطعات بطورنمونہ گاکرسنائے۔
گھرپہنچ کرتخمینہ لگایاتواس نتیجہ پرپہنچاکہ فی کس دوقطعات کےحساب سےاس شاہنامہ ہندکےچارسومصرعےہوئےاوراس میں وہ ذیلی قطعات شامل نہیں جن کاتعلق دیگرواقعات وموضوعات(مثلاًجاناپرتھوی راج کاسوئمبرمیں بھیس بدل کراورلےبھاگناسنجوگتاکوگھوڑےپر۔آنا نادر شاہ کاہندوستان میں واسطےلینےکوہ نورہیرابرابرانڈےمرغابی کے۔ داخل ہوناواجدعلی شاہ کاپہلےپہل مٹیابرج میں معہ چھ بیگمات کےاوریادکرنابقیہ بیگمات کو)یاتاریخی چھٹ بھیوں(ثانوی ہیرو)مثلاً راناسانگا،ہیموں بقال،نظام سقہ وغیرہ سےتھا۔ایک قطعہ میں توضلع جگت پراترآئےتھے۔ یہ اس نیم تاریخی حادثےسےمتعلق تھا،جب نورجہاں کےہاتھ سےکبوتر اڑگیااورجہانگیرنےاس کو(یعنی نورجہان کو)پہلی بار”خصم گیں“ نگاہوں سےدیکھا۔
حالانکہ دماغی طورپرمیں پانی پت کی لڑائیوں میں بری طرح زخمی ہوچکاتھا،لیکن آخری قطعہ کوسن کر میں نےاسی وقت دل میں فیصلہ کرلیا کہ امتحان میں باعزت طریقےسےفیل ہونااس اوچھےہتھیار سےہزار درجہ بہترہوگا۔بہرحال مرزانےایک ہفتےبعداس کلیدکامیابی کوامتحان میں بےدریغ استعمال کیا،جس میں انھیں دودشواریوں کاسامناکرناپڑا۔بڑی دشواری تویہ کاپی میں قطعات اورحروف ابجدکاحساب دیکھ کرکمرہ امتحان کانگراں،جوایک مدراسی کرسچین تھا،بارباران کےپاس لپک کرآتااورسمجھاتا کہ اردوکاپرچہ کل ہے۔مرزاجھنجھلاکرجواب دیتےکہ یہ ہمیں بھی معلوم ہےتووہ نرمی سے پوچھتا کہ پھریہ تعویزکیوں لکھ رہےہو؟پایان کارمرزانےوہیں کھڑے کھڑے اس کوفن تاریخ گوئی اوراستخراج سنین کےرموزونکات سےغلط انگریزی میں آگاہ کیا۔حیرت سےاس کا منہ ٧ کےہندسہ کی ماندپھٹاکاپھٹارہ گیا۔حروف واعدادکوبہکی بہکی نظروں سےدیکھ کرکہنےلگا:
”تعجب ہےکہ تم لوگ ماضی کےواقعات کاپتہ بھی علم نجوم سےلگالیتےہو!“
اس مجسم دشواری کےعلاوہ دوسری دقت یہ ہوئی کہ ابھی پانچوں سوالات کےجملہ بادشاہوں ،راجاؤں اورمتعلقہ جنگو ں کےعدداورسن بہ سہولت تمام نکلےبھی نہ تھےکہ وقت ختم ہوگیااورنگراں نےکاپی چھین لی۔بڑی منت وسماجت کےبعدمرزاکوکاپی پراپنارول نمبرلکھنےکی اجازت ملی۔
جیساکہ عرض کرچکاہوں،مجھےسن یادنہیں رہتااورمرزاکووہ واقعہ یادنہیں رہتاجواس سن سےمتعلق ہو۔فرض کیجئے۔ مجھےکچھ کچھ یادپڑتاہےکہ فرانسیسی انقلابیوں نےکسی صدی کےآخرمیں قلعہ باستیل کامحاصرہ کیاتھا۔ لیکن سن یادنہیں آتا۔اب مرزاکویقینا اتنایادہوگاکہ 1799 میں کچھ گڑبڑ ضرورہوئی تھی۔ لیکن کہاں ہوئی اوراورکیوں ہوئی-یہ وہ بغیراستخارہ کیےنہیں بتاسکتے۔ چنانچہ مارچ 1924 ہی کاذکرہے۔ہم دونوں ایک دوسرےکی کمزوری پرافسوس کررہےتھےاورلقمہ دیتےجاتےتھے۔ وہ اس طرح کہ وہ مجھےروس کہ بیوہ ملکہ کیتھرین اعظم کاسن ولادت اورتاریخ تاج پوشی وغیرہ بتارہےتھےاورمیں ان کواس کےمنہ بولےشوہروں کےنام رٹوارہاتھا۔اچانک مرزابولےیار!
یہ بڑےمرکےبھی چین سےنہیں بیٹھنےدیتی۔
مرنےوالےمرتےہیں لیکن فناہوتےنہیں
میں نےکہا”کارلائل کاقول ہےکہ تاریخ مشاہیرکی سوانح عمری ہے۔“
کہنےلگے ”سچ تو کہتا ہے بچارا! تاریخ بڑے آدمیوں کااعمال نامہ ہےجوغلطی سےہمارےہاتھ تھمادیاگیا۔اب یہ نہ پوچھوکس نےکیاکیا،کیسےکیااورکیوں کیا۔بس یہ دیکھوکہ کب کیا۔“
عرض کیا”دیکھوتم پھرسن اورسمبت کےپھیر میں پڑگئے۔ایک مفکر کہتا ہے٠٠٠٠“
بات کاٹ کر بولے” بھئی تم اپنےاچھےبھلےخیالات بڑے آدمیوں سےکیوں منسوب کردیتےہو؟لوگ غورسےنہیں سنتے۔“
مکررعرض کیا”واقعی ایک مفکرکہتاہےکہ عظیم انقلابات کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔تم دیکھوگےزبردست تبدیلیاں ہمیشہ دبےپاؤں آتی ہیں۔تاریخی کیلنڈرمیں ان کاکہیں ذکرنہیں۔سب جانتےہیں کہ سکندرنےکس سن میں کون ساملک فتح کیا۔لیکن یہ کوئی نہیں بتاسکتاکہ بن مانس کون سےسن میں انسان بنا۔اتناتواسکول کےبچےبھی بتادیں گےکہ سیفوکب پیداہوئی اورسقراط نےکب زہرکاپیالہ اپنےہونٹوں سےلگایالیکن آج تک کوئی مورخ یہ نہیں بتاسکاکہ لڑکپن کس دن رخصت ہوا۔لڑکی کس ساعت نایاب میں عورت بنی۔جوانی کس رات ڈھلی۔ادھیڑپن کب ختم ہوااوربڑھاپاکس گھڑی شروع ہوا۔“
کہنےلگے”برادر!ان سوالات کاتعلق تاریخ یونان سےنہیں،طب یونانی سے ہے۔“
سنہ عیسوی سےکہیں زیادہ مشکل ان تاریخوں کایادرکھناہےجن کےبعدمیں ”قبل مسیح “ آتاہے۔اس لیےکہ یہاں مورخیں گردش ایام کوپیچھےکی طرف دوڑاتےہیں۔ان کوسمجھنےاورسمجھانےکےذہنی شیس آسن کرناپڑتاہےجواتنادشوارہےجتناالٹےپہاڑےسنانا۔اس کوطالب علم کی خوشی قسمتی کہیےکہ تاریخ قبل میلادمسیح نسبتاً مختصراورادھوری ہے۔ اگرچہ مورخیںکوشاں ہیں کہ جدیدتحقیق سےبےزبان بچوں کی مشکلات میں اضافہ کردیں۔بھولےبھالےبچوں کوجب یہ بتایاجاتاہےکہ روم کی داغ بیل ٣٥٧ قبل مسیح میں پڑی توننھےمنےہاتھ اٹھاکریہ سوال کرتےہیں کہ اس زمانہ کےلوگوں کویہ پتہ کیسےچل گیاہےکہ حضرت عیسیٰ کےپیداہونےمیں ابھی ٣٥٧ سال باقی ہیں۔ان کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ ٣٥٧ ق۔م کوساتویں صدی شمارکریں یا آٹھویں ۔عقل منداستادان جاہلانہ سوالات کاجواب عموماً خاموشی سےدیتےہیں۔ آگےچل کہ جب یہی بچےپڑھتےہیں کہ سکندر٦٥٣ق۔م میں پیداہوااور٣٢٣ق ۔م میں فوت ہواتووہ اسےکتابت کہ غلطی سمجھتےہوئےاستادسےپوچھتےہیں کہ یہ بادشاہ پیداہونےسےپہلےکس طرح مرا؟ استادجواب دیتاہےکہ پیارےبچو!اگلےوقتوں میں ظالم بادشاہ اسی طرح مراکرتےتھے۔
کلاسیکی شاعراورانشاپروازکچھ سوچ کرچپ ہوجانےکہ نازک فن سےآشنا ہے۔بالخصوص ان مقامات پرجہاں لطف گویائی کولذت خموشی پرقربان کردینا چاہیے۔ وہ اس ”جادواں ،پیہم دواں،ہردم جواں“ زندگی کووقت کےپیمانوں سےنہیں ناپتااورسن وسال کی الجھنوں میں نہیں پڑتا۔چنانچہ وہ یہ صراحت نہیں کرتاکہ جب مصرکوانطونی نےاورانطونی کوقلوپطرہ نےتسخیرکیاتواس گرم وسیزرچشیدہ ملکہ کی کیاعمرتھی۔شیکسپیئر محض یہ کہہ کرآگےبڑھ جاتاہےکہ وقت اس کےلازوال حسن کےسامنے ٹھہر جاتا ہے، اورعمراس کاروپ اوررس نہیں چراسکتی۔اس کےبرخلاف مورخیں نےدفترکےدفتراس لایعنی تحقیق میں سیاہ کرڈالےہیں کہ اپنےصندلی ہاتھوں کی نیلی نیلی رگوں پراترانےوالی اس عورت کی اس وقت کیاعمرہوگی۔اب ان سےکوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ جب خودانطونی نےامورسلطنت اورسن ولادت کےبارےمیں تجاہل عارفانہ سےکام لیاتو آپ کیوں اپنےکو اس غم میں خواہ مخواہ ہلکان کیے جارہے ہیں؟ اسی طرح جس وقت ہماراانشاپروازاس جنسی جھٹ پٹےکی طرف اشارہ کرناچاہتاہےجب دھوپ ڈھل جاتی ہےمگردھرتی بھیترہی بھیترمیٹھی میٹھی آنچ میں تپتی رہتی ہے، تواپنی پسندکےجوازمیں بس اتناکہہ کرآنکھوں ہی آنکھوں مسکرادیتاہےکہ”چھڑھتی دوپہرسےڈھلتی چھاؤں زیادہ خوش گوارہوتی ہے۔“
اس اعتبارسےان خواتیں کاکلاسیکی طرزعمل لائق تحسین وتقلیدہی،جواپنی پیدائش کی تاریخ اورمہینہ ہمیشہ یادرکھتی ہیں۔لیکن سن بھول جاتی ہیں۔
اوریہ واقعہ ہےکہ حافظہ خراب ہوتوآدمی زیادہ عرصہ تک جوان رہتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہےکہ وقت احساس بذات خودایک آزارہے، جس کواصلاحاً بڑھاپا کہتےہیں۔ڈاکٹرجانسن نےغلط نہیں کہا”یوں تومجھےدو بیماریاں ہیں- دمہ اورجلندھر۔لیکن تیسری بیماری لاعلاج ہےاوروہ ہےعمرطبعی!“ لیکن غور کیجئے تو عمربھی ضیمراورجوتےکی مانندہے،جن کی موجودگی کااحساس اس وقت تک نہیں ہوتاجب تک وہ تکلیف نہ دینےلگیں۔ میں یہ ثابت کرنےکی کوشش نہیں کررہاکہ اگرسن پیدائش یادرکھنےکارواج بیک گردش چرخ نیلوفری اٹھ جائے، توبال سفیدہونےبندہوجائیں گے۔یااگرکیلنڈرایجادنہ ہواہوتاتوکسی کےدانت نہ گرتے۔ تاہم اس میں کلام نہیں کہ جس شخص نےبھی ناقابل تقسیم رواں دواں وقت کوپہلی بارسکینڈ،سال اورصدی میں تقسیم کیا،اس نے انسان کوصحیح معنوں میں پیری اورموت کاذائقہ چکھایا۔وقت کوانسان جتنی بارتقسیم کرےگا،زندگی کی رفتاراتنی ہی تیزاورنتیجہ موت اتنی ہی قریب ہوتی جائےگی۔اب جب کہ زندگی اپنےآپ کوکافی کےچمچوں اورگھڑی کی ٹک ٹک سےناپتی ہے، تہذیب یافتہ انسان اس لوٹ کرنہ آنےوالےنیم روشن عہد کی طرف پیچھےمڑمڑکردیکھتاہے، جب وہ وقت کاشماردل کی دھڑکنوں سےکرتاتھااورعروس نورات ڈھلنےکااندازہ کانوں کےموتیوں کے ٹھنڈے ہونے اور ستاروں کےجھلملانےسےلگاتے تھے :
نہ گھڑی ہےواں نہ گھنٹہ نہ شماروقت وساعت
———————-