Sanat-e-Ghair Manqootah Mein Manzoom Seeratunnabi

Articles

صنعتِ غیر منقوطہ میں منظوم سیرت النبی

ڈاکٹر رشید اشرف خان

اسلام ایک ایسا نو ر تھا جس کی کرنیں عرب کی سر زمینِ حجازسے پھوٹیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم کو منورکرگئیں اور آج تقریباََ ڈیڑھ ہزار سال کی مدت کے درمیان دنیا کے ہرمکتبۂ فکر کے علما اور شعرا نے سیرتِ نبوی کو اپنا موضوع بنایا اور ہزاروں کی تعداد میں اپنی یا د گار تحریریں نظم ونثر کے پیرائے میں چھوڑی ہیں۔

اس تاریخی حقیقت سے کوئی صاحب علم انکار نہیں کر سکتاکہ جس طرح مختلف دنیوی علوم کو سمجھنے کے لیے مشکل کتابوں کی لغتِ اصطلاحات ،تراجم ، تفسیر یا زندہ استاذ کی مدد درکار ہوتی ہے اسی طرح کلام اللہ کوبخوبی سمجھانے والااور اس کی عملی تشریح کرنے والا بھی کوئی چاہئے۔ اس مقصد کے حصول کا واحد قابل قبول اور سا ئنٹفک وسیلہ سوا اس کے اور کچھ نہیں کہ ہم حضور کی سیرتِ طیبہ سے بھر پور استفادہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت کی زندگی میں براہ راست اور آپ کے وصال کے بعد ، آپ کے اہلِ بیت ،آئمہ صحابۂ کرام اور محدثین ومؤرخین نے بالواسطہ آپ کی سیرت پاک اور اعمال و اقوال کو کتابوں کی شکل میں محفوظ کرلیا۔ ہر خطۂ زمین میں سیکڑوں زبانوں میں یہ اسلامی ادب لکھ لیا گیا اس کی تبلیغ وتشہیر کی گئی نیز اس پر مباحثے ،مناظرے ، محاکمے اور مصاحبے ہونے لگے۔ معلوم ہوا کہ قران حکیم کی صحیح قرأت اس کے مطالب کی صحت مند تفہیم اور تبلیغ کے لیے آپ کی سیرت مبارک بے حد مفید ، نا گزیر اور سبق آموز قرار پائی ۔ دیگر زبانوں سے قطع نظر صرف اردو زبان میں لکھی گئی سیرت کی کتابوں پر نظر ڈالئے تو آپ کو کئی مشہور کتابیں ملیں گی ۔ سر ولیم میور لفٹننٹ گورنر کی گستاخانہ کتابLife of Mohammad کے جواب میں لکھی ہوئی سر سید احمد خاں کی کتاب ’’ خطبات احمدیہ‘‘ کو بھلا کون بھلا سکتا ہے ؟ اسی طرح ہم شمس العلما مولانا شبلی نعمانی کو بھی فراموش نہیں کر سکتے جنھوں نے ۱۹۱۳ء میں بڑے روحانی جوش وسر مستی کے ساتھ ’’ سیرت النبی‘‘ لکھنے کا کام شروع کیا۔ اسی ضمن میں مولانا شبلی نے لکھاتھا کہ:

عجم کی مدح کی ، عباسیوں کی داستاں لکّھی

مجھے چندے، مقیمِ آستانِ غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرتِ پیغمبرِ خاتم

خدا کا شکر ہے ، یوں خاتمہ با لخیر ہونا تھا

اور واقعی خاتمہ بالخیر ہوا۔ وہ سیرت النبی کی پہلی جلد ختم کرکے دوسری جلد لکھ رہے تھے کہ ۱۸ نومبر ۱۹۱۴ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ وصیت کے مطابق ان کے لائق اور فرماں بردار شاگرد مولانا سید سلیمان ندوی نے چھ جلدوں میں سیرت نگاری کی۔

اسلام کے تعلق سے اردو شاعری میں ’’ مدوجزر اسلام‘‘ (مسدس حالی )کا مرتبہ ہی کچھ اور ہے ۔ یہ مسدس مولانا حالی ؔ نے سر سید کی دوستانہ فر مائش پر ۱۸۷۹ء میں تصنیف کیا تھا۔قدرے تفصیلی مسدس حالی پر گفتگو نہ کرتے ہوئے صرف ایک بند پیش کرتا ہوں جس کا تعلق حضور کی سیرت پاک سے ہے:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروںکا ملجا ، ضعیفوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی ، غلاموں کا مولا

نبیِ رحمت کی منظوم سیرت پاک کا ایک اور نادر نمونہ ’’ شاہنامہ اسلام ‘‘ بھی ہے جسے ابو الاثر حفیظ جالندھری نے نظم کرکے دنیاے ادب پر اپنا سکہ جمایا تھا ۔ حفیظ جالندھری کی تاریخ ولادت ۱۴ جنوری ۱۹۰۰ء بمقام جالندھر اور تاریخ وفات ۲۱ دسمبر ۱۹۸۲ء بمقام لاہور ہے۔

’’شاہنامہ اسلام‘‘ کا آغاز ایک خوبصورت اور وجد آور سلام سے ہوتا ہے جس کے اشعار آج تک خوش عقیدہ اربابِ ادب اور فرزندان توحید جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں:

سلام اے آمنہ کے لعل ، اے محبوب سبحانی

سلام اے فخر موجودات ، فحرِ نوع انسانی

سلام اے ظلّ رحمانی ، سلام اے نور یزدانی

ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوح پیشانی

ترا در ہو مرا سر ہو ، مرا دل ہو ترا گھر ہو

تمنا مختصر سی ہے ، مگر تمہید طولانی

چار جلدوں پر مشتمل ’’شاہنامہ اسلام ‘‘ کی پہلی جلد جو مثنوی کی شکل میں تھی ۱۹۲۹ء میں پہلی بار منظر عام پر آئی تھی ۔ حفیظ جالندھری نے اپنی نظم کے لیے بحر ہزج مثمن سالم ( مفاعی لن ، مفاعی لن ، مفاعی لن ، مفاعی لن )کا انتخاب کیاہے جو عموماََ رزمیہ شاہناموں میں استعمال نہیں کی جاتی۔اردو میں حفیظ جالندھری کی یہ تصنیف پیرایۂ نظم میں اپنے موضوع پر پہلی کتاب تھی جس نے علم وادب کی دنیا میں شاہکار تصنیف و تخلیق کا مرتبہ ومقام حاصل کیا۔ ’’شاہنامہ اسلام ‘‘ کے بعد ایک مدت تک اس موضوع پر کوئی کام نہیں ہو ا لیکن انیسویں صدی میں اسی(۸۰) کی دہائی میںسیرت النبی کے موضوع پر ایک علمی کارنامہ پاکستان کی سر زمین سے وجود میں آیا ۔ پاکستان کے عالم مولانا ولی رازیؔکی فضیلت آفریں نورانی تالیف ’’ ہادیِ عالم‘‘ کے نام نامی کو فراموش نہیں کرسکتے۔یہ نثری تصنیف جو بے نقط اور سلسلۂ سیر مقدس میں اپنے انداز کی وجہ سے منفرد مرتبہ کی مالک ہے ۔مثال کے طور پر یہ اقتباس دیکھیے:

’’اس دور کی عام رسم رہی کہ مکہ کے سرداروں کے سارے لڑکے کسی دائی کے حوالے ہوں اور گاؤں کی کھلی ہوا کے عادی ہوں۔ رسول اکرم کی والدۂ مکرمہ کا ارادہ ہوا کہ رسم ِ مکہ کی رُو سے ولد مسعود کسی دودھ والی کے حوالے ہواور وہاں کا ماحول رسول اللہ کو سادگی کا عادی کرے‘‘
(ہادیِ عالم صفحہ نمبر ۴۵)

ہندوستان کی مشہور درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے اجتماع میںیہ سعادت، مقام دریاباد ، پوسٹ دودھارا ، ضلع بستی(یوپی) متوطن مولانا صادق علی قاسمی کے نصیب میں تھی کہ اجتماع کے دوران مولانا صادق صاحب کے کرم فرما مولانا عبدالرحیم صاحب کی ایما پر مولانا صادق نے یہ طے کیا کہ وہ مولانا رازی ؔ کی کتاب ’’ ہادیِ عالم ‘‘ کے نثری اور بے نقط متن کو لبا س نظم پہنائیں گے اور وہ بھی صنعت غیر منقوطہ کی مدد سے۔بظاہر یہ ایک بڑا چیلنج تھا لیکن جوش ایمانی اور فضل ربانی نے یہ مشکل بہر حال آسان کردی اور مولانا نے ۱۲۱ صفحات پر مشتمل پہلی جلد تخلیق کی۔جس کا تعلق مکی دور اور اسلامی معرکے سے ہے۔ ارباب علم اس بات کو بہ خوبی جانتے ہیں کہ اردو حروف تہجی میں غیر منقوط حرف کی تعداد بہت ہی کم ہے اور اس تنگ دامنی کے ساتھ شعری حدود وقیود کی پابندی، اسلوب اور زبان وبیان کی چاشنی کو بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ سیرت النبی کے تقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے مولانا صادق نے ’’ داعیِ اسلام ‘‘ لکھ کر جو نادرو نایاب تحفہ اہل اسلام اور اردو ادب کو دیا ہے اس کی نظیرپوری تاریخ اسلام اوردنیاے اردوادب میں نہیں ملتی۔اس کا اعتراف مذہبی علوم میں دسترس رکھنے والی بر گزیدہ شخصیات کے علاوہ زبان وادب کے ماہرین نے بھی کیا ہے ۔ مولانا صادق علی کی مذکورہ تصنیف کی تقریظ ممتاز عالمِ دین اور زبان وبیان کے نبا ض قاضی اطہر مبارک پوری نے لکھی تھی ۔تقریظ کے درج ذیل اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا صادق کی اس علمی وادبی کاوش کی تعلیم یافتہ طبقہ میں بھر پور پذیرائی ہوئی تھی ۔فضیلت الاستاذ قاضی اطہر مبارک پوری کی حسبِ ذیل تقریظ کا اقتباس ملاحظہ فرمایئے:

’’ صنعت بے نقط میں دس پانچ سطر یا صفحہ دو صفحہ لکھنا زیادہ مشکل نہیں اور نظم ونثر میں اس کی مثالیں پائی جاتی ہیںمگر اس تنگ دائرے میں رہ کر منظوم کتاب لکھنا دشوار سے دشوار تر کام ہے ۔اس کی پہلی مثال ’’ داعیِ اسلام ‘‘نامی کتاب ہے جس کو دارالعلوم دیوبند کے بوریہ نشین فاضل نے نظم میں لکھا ہے جس کے سامنے اردو زبان کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو اعتراف و عقیدت کے ساتھ سر نگوں ہونا چاہیے‘‘
داعیِ اسلام صفحہ نمبر ۱۴؎

ٍ دور مغلیہ میں تاریخ ہندوستان گواہ ہے کہ جلال الدین محمد اکبر کے نورتنوں میں فیضی ؔ نے قران مجید کی غیر منقوطہ تفسیر ’’ سواطع اللہام ‘‘ فارسی نثر میں لکھی جسے ایک کمال سمجھاگیا تھا اسی طرح دور موجودہ میں مولانا محمد ولی رازی نے اپنی کتاب ’’ ہادیِ عالم ‘‘ غیر منقوطہ نثر میں پیش کی لیکن مولانا صادق بستوی نے غیر منقوطہ اور منظوم سیرت النبی تخلیق فرما کر ادب میں ایک نیا سنگ میل قائم کیا ہے ۔ مثال کے طور پر داعی اسلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے جس کا تعلق وحی اول کی آمد سے ہے:

رہی عمرِ مکرّم ساٹھ کم سوسال داعی کی

حرا کی گود سے آمد ہوئی وحیِ الٰہی کی

کہا ! کرکے سلام اس کو کہو ، امرِ الٰہی ہے

کہا ! اُمّی ہوں ، ڈر کر ، حاکمِ کُل کی گواہی ہے

اب ہم اختصار کے ساتھ اس عہد ساز سیرتِ پاک ’’ داعی اسلام ‘‘ کی چند علمی وفنی خوبیوں کا ذکر کریں گے ۔یہ کتاب داعی اسلام کے صرف دور اول ( ماحول مکہ اور اسلامی معرکوں تک) کا احاطہ کرتی ہے ۔اس کتاب کے مطالعے سے مولانا کی فطرت ذہانت ،غیر معمولی قوت آخذہ اور الفاظ ولغات پر عبورکاپتہ چلتا ہے۔اکثر مقامات پر حقیقت اور شاعری کا اتنا دلکش امتزاج ہوجاتا ہے کہ اس پر منجانب اللہ الہام کا گمان گزرتاہے مثلاََیہ اشعار:

سلام اس کو کہ اک اُمّی ، مگر اک ہادیِ کامل

مطہّر اور طاہر ، اک رسول اک حاکمِ عادل

اسی دم لا الٰہ کہہ کے الّااللہ کہہ ڈالا

اسی لمحہ محمد کو رسول اللہ کہہ ڈالا

مولانا صادق نے اس کتاب میں عربی ، فارسی اور اردو الفاظ کے علاوہ ہندی اور کھڑی بولی کا بھی بے تکلفانہ استعمال کیا ہے ۔بس اس امر کا خیال رکھا ہے کہ کہیں نقطہ نہ آنے پائے ۔اس بارے میں ضرورتِ شعری یاPoetic Liscence سے بھی کام لیا ہے یعنی حرکات و سکونات کو بھی حسب مرضی کم اور زیادہ کردیاہے۔دوسری زبانوں کے الفاظ کے استعمال کے ضمن میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ:

’’ شاعر نے عربی وفارسی کے علاوہ ہندی اور مقامی بولیوں کے الفاظ بھی ایسی چابک دستی سے استعمال کیے ہیں جو اس نظم کے مزاج سے اس طرح ہم آہنگ ہوگئے ہیں کہ کہیں جھول محسوس نہیں ہوتااگرچہ دو ایک جگہ ان کا استعمال کھٹکتا ہے پھر بھی کلام کی سادگی اور سلاست وروانی میں کہیں فرق نہیں آتا‘‘
داعیِ اسلام صفحہ نمبر ۲۴؎

’داعیِ اسلام‘‘ کی زبان و بیان کے متعلق گوپی چند نارنگ کے درج بالا خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس منظوم و غیر منقوط سیرت النبی میں سلاست و روانی نمایاں خصوصیت ہے ۔چند اشعار جو بطور مثال اوپرپیش کیے گئے ہیںان سے ہی بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نظم کے تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے شاعر نے مفہوم کی ادائیگی کے لیے کسی طرح کے تخلیقی جبر کو خود پر مسلط نہیں کیا ۔ہر چند کہ جس طرز کی یہ نظم ہے اس میں ایک ایک شعر کے لیے تفحص الفاظ کی انتہائی دشوار کن منزکوں سے گزرنا پڑتا ہے جس کا عکس تصنیف پر واضح طور پر نظر آتا ہے ۔لیکن ’’داعیِ اسلام ‘‘ از ابتدا تا انتہاسلاست وروانی کی بہترین مثال ہے۔اس کے علاوہ مقامی بولیوں کے غیر منقوط الفاظ کا فن کارانہ استعمال لسانیاتی سطح پر مولانا صادق علی صاحب کی بالغ النظری کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔

مولانا صادق صاحب نے ’’ داعیِ اسلام‘‘ کی شکل میں جو تاریخی اور مثالی تخلیق پیش کی ہے اس کے لیے بیک وقت کم از کم دو علوم پر مکمل پر مکمل دسترس درکار تھی۔موضوع کے اعتبار سے مذہبی تاریخ سے واقفیت اور اسلوب کے اعتبار اردو زبان پر مکمل دسترس کے علاوہ شعری تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری تھا۔ اس حوالے سے کہا جاسکتاہے کہ مولانا ان دو نوں مراحل سے بہ حسن وخوبی گزرے ہیں ۔ ان کی یہ شعری کاوش اردو کے ادبی سرمائے کا بیش قیمت شاہکار ہے جس پر اردو شعر وادب کو ہمیشہ ناز رہے گا۔