Shabkhoon ka Tauzihi Ishariya

Articles

شب خون کا توضیحی اشاریہ : ڈاکٹر انیس صدیقی کی معرکہ آرا تحقیقی کتاب

ڈاکٹربی محمد داؤد محسن

ڈاکٹر انیس صدیقی کا شمار کرناٹک کے ان معدودے چند اردو قلم کاروں میں ہوتا ہے جن کی پہچان ادبی حلقوں میں ہے بھی اور نہیں بھی ۔ یہ ان قلم کاروں میں سے نہیں ہیں جو ہر دوسرے ہفتہ اپنی تخلیقات کے ساتھ کسی نہ کسی اخبار کے ادبی صفحات کی زینت بڑھاتے ہیں اورنہ رسائل کی رونق بڑھاتے ہیں۔ ان کا شماران نام نہاد ، کثیر جہات قلم کاروں میں بھی نہیں ہوتا جنھوں نے نظم و نثر کی کم کم ہی اصناف کو اپنی طبع آزمائی سے محفوظ رکھا ہے۔ سمیناری لکھاریوں کی فہرست میں بھی ڈاکٹر انیس صدیقی شامل نہیں ہیں۔ فیس بک اور واٹس اپ کی واہ واہی خرافات سے بھی خود کو بچائے رکھا ہے۔ لیکن یہ اپنی سنجیدہ علمی و ادبی کاوشوں کی وجہ سے اردو کے پڑھے لکھے طبقے میں نہ صرف اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں بلکہ قدر کی نگاہ سے بھی دیکھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر انیس صدیقی نے ابتدائی زمانے میں ہی اپنے میلان طبعی کا محاسبہ کیا، اپنے لیے منزلیں طے کیں اور ان تک رسائی کے لیے راستوں کا انتخاب کیا۔ آج بھی وہ نہایت تندہی اور دل بستگی کے ساتھ ان ہی راہوں پر گامزن ہیں۔ ادبی صحافت ، ترتیب و تدوین اور تحقیق، ادب کے باب میں ان کی ترجیحات ہیں۔ چنانچہ زمانۂ طالب علمی میں اپنا ادبی رسالہ ’نوائے عصر‘ جاری کیا۔ کالج اور یونیورسٹی کے مجلّوں کی ادارت کی۔ کئی مقامی ادبا اور شعرا کے کلام کو ترتیب دیا اور انھیں شائع کیا۔ کرناٹک اردو اکادمی کے رکن نامزد ہوئے اور اکادمی کے ترجمان ’اذکار‘ کی ادارت ان کوتفویض کی گئی تو انھوںنے ممتاز شیریں کے ’نیا دور‘ اور محمود ایاز کے’سوغات‘ کی طرح ’اذکار ‘کی بھی قومی سطح پر شناخت بنائی۔ انجمن ترقی اردو ہند(شاخ) گلبرگہ کے ترجمان ’انجمن ‘کے کئی شمارے بھی ڈاکٹر انیس صدیقی نے ترتیب دیے ہیں۔ گلبرگہ کے مقامی روز نامہ ’کے بی این ٹائمز‘ کے ادبی صفحہ ’ادب نما‘ کے مرتب کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات قابل لحاظ رہی ہیں۔
ڈاکٹر انیس صدیقی کی اولین تحقیقی کاوش ان کا پی ایچ ڈی کے لیے لکھا گیا تحقیقی مقالہ تھا جو بعد میں ’کرناٹک میں اردو صحافت ‘ کے زیر عنوان کتابی صورت میں منظر عام پر آیا ۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگاکہ کرناٹک کی مختلف جامعات کے اردو شعبہ جات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے درجنوں مقالے لکھے اور لکھوائے گئے لیکن ان مقالوں میں زیور طباعت سے آراستہ ہونے والے مقالوں کی تعداد غالباً ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم ہے۔ اس کے اسباب و علل پر گفتگو ایک دفتر کا متقاضی ہے اور یہاں صرف اس بات کا اظہار مقصود ہے کہ ڈاکٹر انیس صدیقی نے اپنا تحقیقی مقالہ شائع کیا اور یہی ان کی محقق کی حیثیت سے پہچان کا سبب بنا۔ اس کے بعد اپنے مختلف احباب کی شراکت سے گلبرگہ کے ادبا و شعرا کا انتخاب ’افلاک‘ ، گلبرگہ کے شعر و ادب کی سمت و رفتار پر انجمن ترقی ہند اردو(شاخ) گلبرگہ کے سمیناروں کے مقالوں پر مشتمل کتاب ’گلبرگہ میں شعر و ادب‘ ترتیب دی ۔ پھر ممتاز شاعر ، ادیب و نقاد شمس الرحمن فاروقی صاحب کے مختلف کتابوں اور رسالوں میں شائع شدہ انٹرویو کو یکجا کرکے ’فاروقی : محوِ گفتگو‘مرتب کیا۔اسی طرح ’خاکہ نگاری اردو ادب میں‘ ان کی مرتبہ ایک اور کتاب ہے جس میں انھوں نے خاکہ نگاری کے آغاز و ارتقا اور اس کے فن پر تا حال شائع شدہ مضامین کو نہایت سلیقہ سے ترتیب دے کر اسے ایک دستاویزی حیثیت دی ہے۔
پیش نظر کتاب ’شب خون کا توضیحی اشاریہ‘ ڈاکٹر انیس صدیقی کے تحقیقی جنون و جستجو کی مظہر ایک ایسی عدیم المثال کتاب ہے جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے اپنے اشاعتی پروگرام کے تحت تقریباً 1500 صفحات پر مشتمل کتاب کو دو ضخیم جلدوں میں شائع کیا ہے ۔اس کتاب کے ایک ایک صفحے سے ان کی تحقیقی ژرف نگاہی اور عرق ریزی کا پتہ چلتا ہے۔
اشاریہ سازی اردو میں بہت زیادہ قدیم فن نہیں ہے۔ محققین کو مواد کی رسائی میں آسانی فراہم کرنے والا تحقیق کے فن کا ہی یہ ایک شعبہ ہے۔ حالیہ دو تین دہوں میں اردو کے اہم اور غیر اہم ادبی ، مذہبی ، علمی و سائنسی رسائل کے اشاریے سامنے آئے ہیں۔ جامعاتی سطح پر بھی اس فن میں کام ہوا ہے ۔لیکن اردو کے رجحان ساز رسالہ ’شب خون‘ کااشاریہ تیار کرنے کا سہرا ڈاکٹر انیس صدیقی کے سربندھا۔ ’شب خون‘ اردو کی ادبی صحافت کی تاریخ کا روشن ترین نام ہے اس رسالہ نے اردو میں جدیدیت کے رجحان کی بنیاد رکھی اور اس رجحان کو فروغ دینے اسے مستحکم اور توانا کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ۔ ڈاکٹر انیس صدیقی کے مطابق ؛
’’شب خون نے اردو ادب میں جدیدیت کے انقلاب آفرین رجحان کی اساس رکھی اور اس کی معنویت اور اہمیت کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔’شب خون‘ نے نئے فکری و معنوی ابعاد اجاگر کیے ۔ قاری کے فکر و ذہن کو مرتعش کرنے والے فکر انگیز مباحث کو جنم دیا۔ جدید ادب کے مالہ و ماعلیہ پر عالمانہ انداز کے حامل مضامین شائع کیے ، جدیدیت کی تائید و تردید ، افہا م و تفہیم ،وضاحت اور حد بندیوں پر کثرت سے مضامین شائع کی ہیں۔ ‘‘
جہانِ شعر و ادب میں اردو کی ادبی صحافت کے منارۂ نور’ شب خون‘ کے اشاریہ کی ترتیب و تدوین اور اس کی ضرورت کا جواز ڈاکٹر انیس صدیقی نے یوں پیش کیا ہے؛
’’ اردو ادب کے توانا اور مقبول ترین رجحان جدیدیت کے آغاز و ارتقا ، اس کا تاریخی پس منظر، اس کے صحیح خد و خال ، نظم و نثر کی تمام اصناف پر اس کے اثرات و اطلاقات، اس کے رجحان سے متاثر اور اس کے ہم نوا اہل قلم سے متعلق کسی بھی موضوع پر تحقیقی کام ’شب خون‘ میں شائع ہوئی تحریروں کے حوالے کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا ’شب خون ‘کا پیش نظر اشاریہ ، ان تحقیق کاروں کے لیے مفید ہوگا جو جدید ادب اور اس کے متعلقات کے کسی موضوع پر کام کررہے ہیں۔ ‘‘
’شب خون کا توضیحی اشاریہ‘ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ جلد اول میں دو باب اور جلد دوم میں تین ابواب شامل ہیں۔ پہلا باب ’شب خون‘ کے تعارف پر مبنی ہے۔ جس میں ہندوستان کی اردو ادبی صحافت کے تاریخی سیاق و سباق میں ’شب خون ‘کے اجرا ، ادارت ، ضخامت ، کتابت و طباعت اور اس کے مستقل کالموں سے متعلق معلومات افزا مواد کے علاوہ شب خون کی ادبی خدمات سے متعلق مشاہرین ادب کی آراء کو بھی پیش کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا دوسرا باب ’شب خون‘ میں شائع شدہ نثری نگار شات کا احاطہ کرتا ہے۔ جس میں اصناف کے اعتبار سے زمرہ بندی کی گئی ہے۔ اس باب کا سب سے اہم حصہ مضامین سے متعلق ہے۔ اس میں ڈاکٹر انیس صدیقی نے ’شب خون ‘میں شائع ہوئے سات سو سے زائد تنقیدی و تحقیقی مضامین کی توضیحات قلم بند کی ہیں۔ اس کی افادیت یہ ہے کہ تحقیق کار کو ان مضامین کے مندرجات اور ان کی کیفیت و کمیت کا پتہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔
تیسرا باب شعری نگارشات پر مشتمل ہے۔ یہاں بھی اشاریہ ساز نے اصناف کے اعتبار سے شعری نگارشات کی تفصیلات کو درجہ بند کیا ہے۔ چوتھا باب شب خون میں شائع ہوئے تراجم پر محیط ہے اس حصہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شب خون میں دیگر زبانوں کے ادبیات کے سیکڑوں ادبی شہ پاروں کو اردو قارئین سے متعارف کرانے میں بڑا اہم کام انجام دیا ہے۔
پانچواں اور آخری باب سب سے اہم ہے جسے ’ماحصل ‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس باب میں شب خون کے کل 293شماروں میں شائع شدہ قلم کاروں اور ان کی نثری و شعری نگارشات کے تعلق سے دلچسپ معلومات اعداد و شمار اور گراف کے توسط سے پیش کی گئی ہیں۔ مثلاً بتایا گیا ہے کہ ’شب خون ‘کے کل 293شماروں میں 1357قلم کاروں کی 16721شعری و نثری تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 710نگار شات شمس الرحمن فاروقی کی ہیں۔ ’شب خون ‘میں شائع ہونے والی خاتون قلم کاروں کی تعداد صرف 91ہے جو کل تعداد کا 6.7فی صد ہے۔ غیر مسلم اردو قلم کاروں کی تعداد 138بتائی گئی ہے نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’شب خون‘ میں شائع شدہ کل 16721تخلیقات میں 2748کا تعلق نثر سے اور13169کا تعلق شاعری سے ہے۔ جب کہ تراجم کی تعداد 806ہے۔ ’شب خون ‘کے تعلق سے اس طرح کی کئی اور معلومات اس حصہ کو نہ صرف دلچسپ بناتی ہیں بلکہ قاری کو حیرت انگیز مسرت سے بھی دو چار کرتی ہیں۔ کتاب کے آخر میں دو مفصل اشاریے الگ الگ اردو اور غیر اردو زبانوں کے قلم کاروں کے شامل ہیں۔
اس مضمون کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوگا جب تک کہ اس کتاب پر لکھے گئے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے مقدمہ کا ذکر نہ کیا جائے۔ فاروقی صاحب کے تبحر علمی ، کثیر جہات ، وقیع اور گراں قدر ادبی خدمات کا ذکر کرنا الفاظ کا زیاں ان معنوں میں ہے کہ اسکالر ، دانشور، نابغۂ روزگار ، عبقری شخصیت ، لیجنڈ جیسے الفاظ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے محاذی بونے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ ادبی دنیا واقف ہے کہ فاروقی صاحب ہی شب خون کے روح رواں تھے اور یہ ڈاکٹر انیس صدیقی کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ایسی شخصیت نے اس کتاب کی تیاری میں نہ صرف ان کی رہنمائی کی بلکہ اس کتاب کے لیے مقدمہ بھی قلم بند کیا۔ فاروقی صاحب کے مطابق ؛
’’حالاں کہ اشاریہ سازی یا فہرست سازی خالص علمی اور شماریاتی کام ہے لیکن اشاریہ اورفہرست سازی خاص کر کتابوں یا رسالوں کی اشاریہ سازی اور فہرست سازی میں فہرست ساز کی اپنی رائے (یا اپنے تعصبات)کی جھلک کہیں نہ کہیں نظر آجاتی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ انیس صدیقی نے خود کو ہر طرح کے تعصب اور خود درائی سے محفوظ رکھا۔ مشمولات میں اس قدر تفصیل اور اندراجات میں اس قدر تنوع ہے کہ یہ اشاریہ عام کتاب کے طورپر ، عام دل چسپی کی خاطر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ ‘‘
شمس الرحمن فاروقی صاحب اور ’شب خون ‘کی مداحی اور پرستاری کے دعوے دار، ان کی وابستگی کے حوالے سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے کئی احباب شمالی ہند کی مختلف جامعات میں اہم مناصب پر فائز ہیں۔ لیکن کسی نے اس رسالے کی خدمات پر کام کرنے یا کروانے کی جانب توجہ نہیں کی۔یہ بات ہمارے لیے باعث فخر و انبساط ہے کہ اس کام کو جنوبی ہند کے محقق ڈاکٹر انیس صدیقی نے انجام دیا اور بہت بہتر طریقہ سے انجام دیا۔ بہر حال ڈاکٹر انیس صدیقی نے اپنی کتاب کے ذریعہ ’شب خون ‘کی نہایت غیرمعمولی اور روشن ادبی خدمات پر جمتی ہوئی زمانے کی گرد کو اپنی بے لوث تحقیقی جستجو سے صاف کرنے اور نئی نسل کو اس تاریخ ساز رسالے کی خدمات سے واقف کرانے کا اہم کام انجام دیا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں میں ڈاکٹر انیس صدیقی کی اس گراں قدر تحقیقی کتاب کی پذیرائی ہوگی اور ’فاروقیات‘کے باب میں ایک اہم اضافہ تصور کی جائے گی۔
٭٭٭