Sogandhi by MujahidSaleem

Articles

سوگندھی

مجاہد سلیم

 آج ہی کی طرح وہ بھی ایک منحوس دن تھا ـ جب وہ اپنے بابو کا ہاتھ تھامے دوسرے گاؤں میں لگے میلے گئی ہوئی تھی ـ اسے اچھی طرح یاد ہے کھلونوں کی بے شمار دکانیں دیکھ کر وہ خوشی سے اچھل پڑی تھی ـ رنگ برنگ غبارے بڑے پیارے لگ رہے تھے ـ حلوائی کی دکان جہاں گرما گرم جلیبی اور امرتی بن رہی تھی، کافی بھیڑ تھی ـ اسکے بغل میں جوس کی دکان تھی ـ اس کے بعد ایک چپل کی دکان جہاں ایک عورت دکاندار سے الجھ گئی تھی اور راہ چلتے لوگ انہیں دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ـ “موت کا کنواں” کے ٹکٹ والے کی آواز بہت تیزی سے گونج رہی تھی ـ آسمانی جھولے کے علاوہ بہت سارے چھوٹے بڑے جھولے تھے ـ ” پنّا لال” گدھے میاں کے شو کیلئے تو لائن لگی ہوئی تھی ـ آئینے والا پنڈال خالی پڑا تھا ـ
 بابو کے ساتھ جب وہ آسمانی جھولے پر بیٹھی اسے بہت ڈر لگ رہا تھا ـ جھولا جب نیچے آنے لگتا تو وہ آنکھیں بند کر کے بابو کو تیزی سے پکڑ لیتی ـ جب وہ جھولے سےاترے تو اسکی سماعت سے ایک آواز ٹکرائی
” ایک روپئے میں تاج محل ، قطب مینار ، لال قلعہ ، چار مینار دیکھو “
اس نے دیکھا ایک بوڑھا شخص سیربین  لے کر بیٹھا تھا ـ اس کا چہرہ بہت معصوم لگ رہا تھا ـ اس نے بابو سے دیکھنے کی فرمائش کی ـ بابو نے اس شخص کو ایک روپیہ دیا تو اس نے باری باری بہت سی تصویریں سیربین  میں دکھائیں ـ پھر ڈھیر سارے کھلونے اور مٹھائیاں خریدیں ـ اور آخر میں بابو نے اسکے سیدھے ہاتھ کی کلائی پر اسکا پیارا سا نام گدوایا ” سوگندھی “
درد کی شدت سے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے ـ
 اور جب وہ لوگ لوٹے تو گاؤں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا جا چکا تھا ـ ڈاکو سوگندھی کی ماں کو اٹھا لے گئے تھے ـ اس نے دیکھا بابو کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ـ اور وہ ہاتھ میں خنجر لئے گھر سے نکلے تو پھر لوٹ کر نہیں آئے ـ اسکے بعد سوگندھی کی پرورش اسکے چاچا جی نے کی ـ
 اور آج کا منحوس دن ـــــ آج ڈاکو سوگندھی کو اٹھا لے گئے تھے ـ سوگندھی جو ڈاکوؤں کے چنگل سے چھوٹ کر اپنے ہمسفر رامو کے پاس لوٹ آئی تھی ـ رامو اسے کھو کر پاگل ہوا جا رہا تھا ـ سوگندھی کو دیکھ کر اسکی جان میں جان آئی ـ وہ گاؤں والوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بیساختہ ہی اس سے لپٹ گیا ـ
 سوگندھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ـ رامو نے اسکے آنسو پوچھے، چپ کرایا اور اپنے مکان کی طرف سوگندھی کا ہاتھ تھامے بڑھنے لگا ـ سوگندھی نے چلتے چلتے ایک نظر گاؤں والوں پر ڈالی ـ گاؤں والوں کی نظریں اسکے بدن کا جائزہ لے رہیں تھیں ـ عورتوں کی کھسر پسر اسکا کلیجہ کاٹے جا رہی تھی ـ اسے پتہ تھا کہ اس وقت لوگ اسکے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے ـ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے رامو نے دروازہ بند کر دیا ـ سوگندھی رامو سے لپٹ گئی ـ
” رامو میرا یقین کرو “
سوگندھی کے لبوں پر ہاتھ رکھ کر رامو نے کہا
” سوگندھی کچھ نہ کہو تم میرے لئے جو کل تھی آج بھی وہی ہو”
چار لڑکیوں میں سے سوگندھی ہی ایک تھی جو لوٹ آئی تھی ـ بقیہ مغویہ لڑکیوں کا کوئی پتہ نہیں تھا ـ تینوں لڑکیاں کنواری تھیں ـ ڈاکوؤں نے سوگندھی کی خوبصورتی دیکھی تو اسے بھی اٹھا لے گئے وہ تھی بھی بھرے پرے بدن والی ـ بالکل کمسن سی دکھائی دیتی تھی ـ رامو سے بیاہ ہوئے دو سال کا عرصہ بیت چکا تھا ـ ان دو سالوں میں امید کی کوئی کرن نہیں جاگی تھی ـ رامو کسان تھا زمین چیر کر بیج بونا اسے اچھی طرح آتا تھا ـ اسے یقین تھا کہ وہ یہاں بھی بیج بونے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا ـ
 اس منحوس دن سے دو تین دن پہلے سوگندھی کو لگا کہ وہ ماں بننے والی ہے ـ وہ رامو کو یہ خوشخبری سنانا تو چاہتی تھی پر اسکے دل میں ایک ڈر بھی تھا کہ اگر یہ بات غلط نکلی تو کہیں رامو کے حوصلے پست نہ پڑ جائیں ـ دل کی بات دل ہی میں رہ گئی ـ
 اور پھر گاؤں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا اور گاؤں کی چار نہایت ہی حسین و جمیل لڑکیوں کا اغواء کر لیا گیا ـ ان ہی میں ایک سوگندھی بھی تھی جو لوٹ آئی ـ رامو سوگندھی کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنے لگا تھا جیسے اسکا دکھ بانٹ رہا ہو ـ سوگندھی رامو سے جب بھی اس دن کے بارے میں بتانا چاہتی رامو اسے پیار سے کہتا
” سوگندھی تم پوتر ہو “
آج صبح ہی سے سوگندھی کی عجیب سی حالت تھی ـ رہ رہ کر اسکا جی متلا رہا تھا ـ اور پیٹ میں بھی ہلکا ہلکا درد سا تھا ـ جب درد کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تو اس نے رامو سے یہ بات بتائی ـ رامو فورًا ہی وید کو لے آیا ـ وید نے سوگندھی کو دیکھ کر رامو سے کہا
” مبارک ہو تم باپ بننے والے ہو “
سوگندھی نے خوشی سے رامو کی طرف دیکھا ـ رامو کی آنکھوں میں پل بھر کیلئے چمک جاگی اور پھر غائب ہو گئی ـ اور چہرے پر اداسی چھا گئی ـ اور وہ گھر سےباہر نکل گیا ـاس کے ذہن میں ایک سوال گونج رہا تھا ـ
“کس کا ہے یہ بچہ؟ “
وہ سوچنے لگا
 سوگندھی کو جب ڈاکو اٹھا لے گئے تھے تو اس کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا ہو گا جسے وہ اور گاؤں والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں ـ
” تو کیا اسکے اندر ہی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ـ اگر گاؤں والوں کو یہ بات معلوم پڑ گئی تو….. ــــــــــــــــــــــ
 نہیں نہیں کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں چلے گا ـ کیونکہ وہ اس بچے کو گرا دیگا ـ ہاں نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری “
شام کو جب پرندے اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹنے لگے وہ بھی ایک فیصلہ لئے لوٹ آیا ـ
” سوگندھی” اس نے دھیرے سے کہا
” ہاں ” سوگندھی نے رامو کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” مجھے یہ بچہ نہیں چاہئیے گرا دو اسے “
سوگندھی کیلئے یہ اسکا حکم تھا ـ
 سوگندھی رامو کی بات سن کر رو پڑی ـ رامو خاموش کھڑا رہا ـ سوگندھی نے آنسوؤں کو دوپٹے میں پوچھا اور سسکیاں لیتی ہوئی رامو سے مخاطب ہوئی ـ
” رامو تم چاہتے ہو نا کہ یہ بچہ گرا دیا جائے ٹھیک ہے مگر اس سے پہلے میری بات تو سن لو “
 ” کہو کیا کہنا ہے ـ “
رامو نے بے رخی سے کہا
 جانتے ہو رامو وہ لوگ مجھے اٹھا کر جس شخص کے پاس لے گئے تھے اس کا مانوس چہرہ دیکھ کر میں اسے دیکھے ہی جا رہی تھی ـ جس طرح عقاب کی نظر اپنے شکار پر ہوتی ہے اسی طرح اسکی نظر میرے جسم پر رینگتی ہوئی میری کلائی پر آ کر ٹک گئیں ـ اور وہ دھیرے سے کچھ بڑبڑایا ـ پھر وہ میرے قریب آنے لگا تو میں روپڑی اور اس سے رحم کی بھیک مانگنے لگی ـ اس نے میرے سیدھے ہاتھ کو اٹھا کر کلائی کی طرف دیکھا جہاں پر میرا نام لکھا تھا ” سوگندھی”
بے موسم بارش کی طرح اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ـ اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈھیر ساری دعائیں دیں ـ اور میں سہمی ہوئی اسے دیکھتی رہی اس نے اپنے آدمیوں سے کہا
” جاؤ اسے اسکے گھر حفاظت کیساتھ چھوڑ آؤ “
رامو حیرت سے سوگندھی کی طرف دیکھتا رہا ـ
“لیکن وہ شخص تھا کون “
رامو نے سوال کیا
“وہ میرے بابو تھے ـ