Story of Pen by Achariya Atre

Articles

قلم کی لکھی کہانی

اچاریہ اَترے

قلم کی لکھی کہانی

مصنف: اچاریہ اَترے
مراٹھی سے ترجمہ : پروفیسر صاحب علی

میز پر چاندی کے شمع دان میں ایک موم بتی رکھی ہوئی تھی۔بہت خوبصورت موم بتی تھی وہ۔ اس کا رنگ گلابی تھا، اس کا قد لمبا اور نازک تھا۔ اس کے گاو دم  پرکجلائی ہوئی سیاہ بتی خوب زیب دیتی تھی۔
اسے لگتا تھا سارے کمرے میں اس سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں۔
سامنے دیوار پر لگے ہوئے آئینے میں اسے اپنا چہرہ دکھائی دیتا۔ گھنٹوں وہ اپنا روپ نہارتی رہتی۔
اس کے قریب ہی کانچ کی ایک خوبصورت سی دوات اور ایک منقش قلم رکھا ہوا تھا۔ لیکن ان سے وہ موم بتی کبھی بات تک نہ کرتی۔ سارا وقت اپنی اکڑ میں رہتی۔ قریب کی کھڑکی سے دھوپ کمرے میں آتی۔ دھوپ کو دیکھ کر
کانچ کی دوات اور چاندی کے قلم کو بڑی خوشی ہوتی۔ ان کے چہرے خوشی

سے چمکنے لگتے۔ اس بات پر موم بتی کو اُن پر بہت غصہ آتا۔ ’’سورج کو دیکھ کر تمھیں اتنی خوشی کیوں ہوتی ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
ایک بار اس نے چڑ کر کہا۔ ’’ایسا کون سا بڑا راجا ہے وہ!‘‘ کہے بغیر اس سے رہا نہ جاتا۔

’’راجا ہی ہے وہ‘‘ دوات بولتی۔ ’’اس کے جتنا بڑا راجا دنیا میں کوئی دوسرا
ہے ہی کون؟‘‘
’’واہ رے راجا‘‘ موم بتی نے کہا ’’ایک چھوٹا سا بادل بھی اسے ڈھانک سکتاہے۔ کبھی آرام نہیں کرسکتا، کبھی دیر سے نہیں آسکتا۔ ایک نوکر کی طرح
سارے کام مقررہ وقت پر ہی کرنے پڑتے ہیں اسے۔ اور رات میں منہ کالا
کرکے رفو چکّر ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا کام مجھے کرنا پڑتا ہے۔ میں ایک دن
اسے اپنے آگے گردن جھکانے پر مجبور کردوں گی۔‘‘دوات اور قلم نے کچھ نہیں کہا۔ اور وہ جواب دیتے بھی تو کیا دیتے؟ ایک دن نوکر کمرہ صاف کرنے آیا تو اس نے میز کو اٹھا کر کھڑکی کے قریب رکھ دیا۔ اس وجہ سے باہر سے آنے والی سورج کی دھوپ پوری میز پر چھا گئی۔ موم بتی کا دھوپ میں بیٹھنے کا یہ پہلا ہی موقع تھا۔
تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اسے کچھ عجیب سا لگنے لگا۔ اسے محسوس ہوا کہ
اسے چکر سا آرہا ہے۔
قریب ہی دوات اور قلم خوشی سے چمک رہے تھے۔
موم بتی کا سرخ چہرہ دیکھ کر دوات نے کہا ’ ’کیوں بھئی؟ تمھارا چہرہ ایسا
کیوں نظر آرہا ہے؟ لگتا ہے تمھیں گرمی لگ رہی ہے۔ ذرا ٹھہرو، ابھی کوئی
بادل آکر سورج کو ڈھانک لے گا اور تھوڑی ٹھنڈک محسوس ہوگی۔‘‘’’تم سے کسی نے کچھ پوچھا؟‘‘ موم بتی نے کہا ’’بی اماں میں اتنی نازک نہیں۔ پوچھ رہی ہو گرمی تو نہیں ہورہی؟ مجھے کچھ نہیں ہورہا ہے۔ سورج میرا کیا بگاڑ لے گا؟‘‘دھوپ تیز ہونے لگی۔ اب موم بتی سے اس کی تپش سہن نہیں ہورہی تھی۔ اسے سچ مچ چکر آنے لگا اور ایک لخت اس نے اپنی گردن نیچے ڈال دی۔
دوات کو ٹھونگا لگاتے ہوئے قلم نے کہا ’’یہ دیکھو!  موم بتی کو کیا
ہوگیاہے؟‘‘ ’’ہاں سچ مچ! یا خدا اس کی کیا حالت ہوگئی ہے، مجھے لگ ہی رہا تھا کہ ایسا کچھ ہوگا۔‘‘ ’’ایسا لگ رہا ہے سورج کو نمسکار کر رہی ہے۔‘‘ قلم من ہی من ہنس کر بُدبُدایا۔
تھوڑی ہی دیر میں نوکر اندر آیا۔ اس نے ایک نظر ڈال کر موم بتی کو دیکھا اور
اسے اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔
’’ختم ہوگئی بے چاری کی زندگی‘‘ دوات نے کہا۔
’’اب میں اس پر کہانی لکھوں گا‘‘ قلم نے بڑھ کر کہا
قلم نے کہانی لکھی
وہی کہانی ہے یہ۔