Surandar Parkash ke Afsane by Dr. Nisar Ahmad

Articles

سریندر پرکاش کے افسانے

ڈاکٹر نثار احمد

۱۹۶۰ کے آس پاس اردو میں علامتی و تجریدی افسانے کا چلن عام ہوا۔ یہ اتنا حاوی رجحان تھا کہ کم و بیش اردو کا ہر قابلِ ذکر افسانہ نگار ادب میں اپنے وجود کی بقا کے لیے علامت و تجرید کا سہارا لینے پر مجبور ہوا۔ افسانوں میں تجرید پیدا کرنے کے لیے کہانی کے بنیادی صنفی عناصر یعنی پلاٹ ، کردار، واقعہ اور فضا کی ناگزیریت سے انکار کیا گیا اور منجھی ہوئی مانوس اور مربوط زبان کے بجائے نسبتاً ناہموار اور کھردری زبان کے ذریعے پر اسرار فضا کی تخلیق کی سعی کی گئی۔ اس کے جواز کے لیے کہا گیا کہ چونکہ افسانے میں فرد کے باطنی انتشار کی ترجمانی کی جارہی ہے اس لیے اس میں منطقی ربط کے بجائے بے ربط اظہار ضروری ہے۔ کہانی میں علامتی اظہار کے لیے داستان ، حکایت، دیومالا، بودھ جاتک ، یونانی دیومالا اور آسمانی صحائف سے جردار اور واقعات مستعار لیے گئے اور انھیں جدید زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے علامت کی تخلیق میں مدد لی گئی۔ بعض افسانہ نگاروں نے ذاتی علامتیں بھی وضع کیں۔ ان افسانوں میں جدید معاشرے کے ذہنی مسائل مثلاً تنہائی کا احساس ، عدم تحفظ کا کرب، بے سمتی و بے معنویت ، بے چہرگی کا احساس، اخلاقی و روحانی زوال، رشتوں کی بے معنویت، تشکیک اور فطرت سے ہجرت وغیرہ جیسے موضوعات کو پیش کیا گیا۔ اگر سیاسی جبر اور معاشی ناہمواری کو دکھایا گیا تو افسانہ نگار کی پوری توجہ اس کے انسانی باطن پر پڑنے والے اثرات پر رہی۔ اس طرح کے جدید افسانے لکھنے والوں میں ایک منفرد نام سریندر پرکاش کا ہے۔
سریندر پرکاش کے تین افسانوی مجموعے ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ (۱۹۶۸)، ’برف پر مکالمہ‘ (۱۹۸۱ء) اور ’بازگوئی‘ (۱۹۸۸) منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ ان کے علاوہ درجن بھر افسانے مختلف رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ سریندر پرکاش جدید افسانہ نگاروں میں اس اعتبار سے منفرد و ممتاز ہیں کہ انھیں اپنے میڈیم پر فنکارانہ دسترس حاصل ہے۔ وہ الفاظ کو روایتی تلازمات سے آزاد کرکے استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں جدید انسان کی ذہنی و جذباتی کیفیات کی ایسی تصویر سامنے آتی ہے جو دوسروں سے نمایاں طور پر منفرد ہوتی ہے ۔ وہ تجرید اور اسطور دونوں کو فنکارانہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ قدیم ہندو دیومالائی اساطیر اور اسلامی اساطیر سے کام لیتے ہیں اور خود اساطیر خلق بھی کرتے ہیں اور ان کے پرسے میں صنعتی دور کے تھکے ہوئے اور ستائے ہوئے انسان کے روحانی کھوکھلے پن ، ذہنی پراگندگی، رشتوں کی شکست و ریخت، اقدار کی پامالی، رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر نفاق اور تشدد نیز سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے نتیجے میں انسانی ذہن پر پڑنے والے اثرات کی عکاسی فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے یہاں موضوع سے زیادہ اس کی پیشکش پر زور ملتا ہے اور وہ موضوع کی پیشکش کے لیے مختلف فنی تدابیر اختیار کرتے ہیں جس کے سبب ان کی کہانیاں ایک دوسرے کی فوٹو اسٹیٹ کاپی نہیں معلوم ہوتیں جیسا کہ بعض جدید افسانہ نگاروں کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں ایک پراسرار ، خوابناک، مبہم اور انجانی دنیا خلق کرتے ہیں جن میں کردار پرچھائیں نما معلوم ہوتے ہیں۔ ان کرداروں کی شناخت ان کے ظاہری اعمال اور ان کے ناموں سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی باطنی صورتِ حال سے ہوتی ہے۔ یہ کردار اپنے ظاہر میں نہیں بلکہ اپنے باطن میں پھیلتے اور سمٹتے ہیں۔ نیم بیداری کی کیفیتوں سے بنے گئے ان افسانوں میں تحیر و استعجاب کے عناصر پائے جاتے ہیں اور ان کے واقعات میں منطقی ربط نہیں ہوتا بلکہ خواب کی دنیا کے واقعات کی طرح ہم ان میں غیر متوقع اور بعید از فہم واقعات سے دوچار ہوتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے سریندر پرکاش کی علامتوں کو خواب کی علامتوں اور افسانوںکی بافت کو انوکھی بے بدنی سے تعبیر کیا ہے۔ فاروقی صاحب سریندر پرکاش کے پہلے افسانوی مجموعے کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’یہ افسانے محض بے پلاٹ کے نہیں ہیں۔ اگر پلاٹ نہ ہو لیکن کردار زمان میں حرکت کرتا رہے تو بھی افسانے کو ایک داخلی ربط میسر ہوجاتا ہے۔ ان کہانیوں کے کردار بھی کسی نقطۂ وقت پر ٹھہرے ہوئے اور اس میں گرفتار ہیں۔ اگر وہ حرکت بھی کرتے ہیں تو اپنے ذہنوں کی خلائوں میں۔ اس طرح ان کہانیوں میں ایک انوکھی بے بدنی (Bodylessness) پائی جاتی ہے جو بیک وقت مضطربھی کرتی ہے اور متحیر بھی۔‘‘
سریندر پرکاش کے پہلے مجموعے ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ میں چودہ کہانیاں ہیں۔ ’’رونے کی آواز‘‘ اندورنی اظہار کی کہانی ہے جس میں جگہ جگہ خود کلامی کے ذریعے حزنیہ کیفیت پیدا کی گئی ہے اور اسی کے ساتھ شعور کی رو کی تکنیک کے ذریعے متضاد خیالات کی لہروں کو افسانہ نگار کی بے جا مداخلت کے بغیر بہنے دیا گیا ہے۔ کہانی کا واحد متکلم ایک وجودی کردار ہے جو جدید معاشرے کے مختلف مسائل سے دوچار ہے۔ اس کا وجود مختلف حصوں میں بٹ گیا ہے۔ وہ بے چہرگی ، تنہائی اور مایوسی کا شکار ہوکر باطنی کرب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ رشتوں کی ناپائیداری فرد کی بے بسی اور خود غرضی دیکھ کر اسے رونا آتا ہے۔ اس طرح رونے کی آواز مرکزی کردار کے ضمیر کی آواز کی علامت ہے۔ کہانی میں وشنو بابا کو پہلے سرسوتی سے پھر لکشمی سے شادی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وشنو بابا دوسری شادی کے بعد سرسوتی کو روتا بلکتا چھوڑ جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سرسوتی علم کی دیوی ہے اور لکشمی دولت کی۔ ان دیومالائی علامتوں کے ذریعے سریندر پرکاش نے جدید معاشرے میں علم سے بے رغبتی اور دولت سے بے پناہ محبت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہانی کی فضا خوابناک اور پر استعجاب ہے اور زبان میں روانی ہے۔ کہانی کے بنیادی ڈھانچے میں اتنی توڑ پھوڑ نہیں کی گئی ہے کہ کہانی پن مجروح ہوجائے۔
’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ کو عام طور پر سریندر پرکاش کے پہچان کے وسیلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کہانی نہایت پیچیدہ علامتوں کی حامل ہے۔ کہانی میں زرعی معاشرے سے جدید معاشرے کی طرف ہجرت کی داستان بیان کی گئی ہے۔ کہانی کا ایک اقتباس دیکھئے تو بات زیادہ روشن ہوجائے گی:
’’ وادی میں بے ترتیب درخت جابجا پھیلے ہوئے تھے جن کے جسموں کی خوشبو فضا میں گھل مل گئی تھی ۔ نئے راستوں پر چلنے سے دل میں رہ رہ کر امنگ سی پیدا ہوتی۔ سورج مسکراتا ہوا پہاڑ پر سیڑھی در سیڑھی چڑھ رہا تھا۔ میں گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھوڑ کر صاف شفاف چکنی سڑکوں پر آگیا۔ پختہ سڑکوں پر صرف میرے پائوں سے جھڑتی ہوئی گرد تھی جو میں پگڈنڈیوں سے لے کر آیا تھا یا پھر میرے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔‘‘
وادی کے بے ترتیب درخت زرعی معاشرے کی علامت ہے جس میں وسعت اور پھیلائو کے علاوہ فطرت سے قربت کا احساس ہوتا ہے۔ گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھوڑ کر صاف ستھری چکنی سڑک پر آنا زرعی معاشرے سے جدید معاشرے کی طرف ہجرت ہے۔ پختہ سڑک پر آکر گرد کو جھاڑنا ماضی کے آثار و نقوش سے دستبردار ہونے کا اشاریہ ہے۔ بہر حال پوری کہانی نہایت پیچیدہ ہے اور قاری کے فہم و ادراک کو چیلنج کرنے والی ہے۔ کہانی میں صنعتی معاشرے کی تنہائی ، بے رخے پن اور رشتوں کی ناپائیداری کی طرف بھی بلیغ اشارے کیے گئے ہیں۔
’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ میں ’بدوشک کی موت‘ نسبتاً کم پیچیدہ ہے۔ اس کہانی میں جنگ کے دہشت نال ماحول میں عام لوگوں کی مسرتوں اور مسکراہٹوں کے چھن جانے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ’بدوشک‘ دراصل ہندی لفظ ’ودوشک‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی مسخرہ کے ہوتے ہیں۔ بہ ظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بدوشک راوی کا دوست ہے جو مسخرے پن کی حرکتیں کرتا رہتا ہے لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ بدوشک کوئی کردار نہیں بلکہ راوی کی بٹی ہوئی شخصیت ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بدوشک کی موت واقع ہوجاتی ہے تو راوی اور اس کے گھر والے کہتے ہیں وہ ان کی شخصیت کا اٹوٹ انگ تھا اور ان کے ساتھ ۳۵ برسوں سے رہ رہا تھا۔ راوی کی عمر بھی ۳۵ برس کے آس پاس ہے۔ یہ دراصل جنگ کے دہشت ناک ماحول میں مسکراہٹوں اور خوشیوں کے چھن جانے کی علامت ہے۔ کہانی میں جگہ جگہ بارود، ٹینک اور بلیک آئوٹ کا ذکر ہے۔ بدوشک کو اگر کہانی کا ایک کردار بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی کہانی کی علامتی معنویت میں فرق نہیں پڑے گا۔
سریندر پرکاش نے اپنی کہانیوں ’نئے قدموں کی چاپ، پوسٹر، پیاسا سمندر، خشت و گل، رہائی کے بعد، رات روتی ہے، جنگل مہاراج روڈ‘ وغیرہ میں زرعی معاشرے سے ہجرت کرکے صنعتی معاشرے میں آمد اور پھر صنعتی معاشرے کی لعنتوں سے تنگ آکر قدیم تہذیب اور مذہب کی طرف مراجعت کو بڑی فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ’نئے قدموں کی چاپ‘ میں دونوں تہذیبوں کی کشمکش کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ ماضی میں اکتارے پر برہا کے گان کے ذریعے ذہنی سکون حاصل کیا جاتا تھا لیکن جدید معاشرے میں میاں بیوی دونوں روزگار کے سبب مختلف شہروں کی خاک چھانتے ہیں لیکن انھیں کہیں بھی اطمینان اور سکون میسر نہیں آتا۔ اس طرح مادیت کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کے سبب ہر شخص پریشان ہے۔ رشتے ناطے اور بھائی چارہ سب کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہاں پر ہابیل اور قابیل کے قرآنی اسطور کے وسیلے سے بھائی چارگی کے خاتمے کو پیش کیا گیا ہے۔ بالآخر اس سارے شکست و ریخت کا حل ماضی میں نظر آتا ہے جہاں مذہبی نظریات اور عقائد اسے ذہنی سکون عطا کرتے ہیں۔ ’پوسٹر‘ میں بھی جدید معاشرتی نظام اور پاپ کلچر کی لعنتوں کو موضوع بنایا گیا ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ مادی آسائش کے حصول کے لیے جائز و ناجائز طریقوں میں امتیاز نہیں رہا۔ شوہر اپنی بیوی کو غیر کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھتا ہے لیکن سوری کہہ کر بغیر کسی ردِّعمل کے وہاں سے ہٹ جاتا ہے۔ پریم ودا جنسی آزادی کے وسیلے سے زندگی کی مسرتوں کو کشید کرنا چاہتی ہے لیکن بالآخر ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب اسے وجودی خلا کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی بے قراری ، تنہائی اور خودشکستگی کا مداوا سریندر پرکاش مذہب میں دکھاتے ہیں۔ ’خشت و گل‘ میں بھی قدیم و جدید تہذیبوں کی کشمکش کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں قرآن پاک کے حضرتِ نوح کے قصے اور ہندو دیومالا میں منو، برہما، وشنو، مہیش اور گوتم بدھ کے واقعات اور ان سے متعلق تصورات گھلا ملا کر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس طرح کا کامیاب تکنیکی تجربی انتظار حسین نے اپنے افسانوں میں کیا ہے۔
مذکورہ کہانیوں میں سریندر پرکاش نے کہانی کے بنیادی صنفی عناصر کو یکسر مسترد نہیں کیا ہے بلکہ کہانی پن اور فضا سازی کے سبب یہ کہانیاں دوسری جدید کہانیوں سے منفرد شناخت رکھتی ہیں۔ ان کے برخلاف ’نقب زن‘ اور ’تلقارمس‘ خالص تجریدی کہانیاں ہیں۔ اول الذکر افسانے میں مختلف دائروں کے ذریعے تجریدیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور موخر الذکر کہانی اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ سریندر پرکاش کی پیچیدہ تر کہانیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس کہانی کا انگریزی ترجمہ Linda Wentinkنے Indian Literatureکے لیے کیا تھا اور اسے اردو کی نمائندہ تجریدی کہانی قرار دیا تھا۔ بہر حال تلقارمس لفظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی عبرانی یا لاطینی لفظ ہے۔ خاطر نشان رہے کہ سریندر پرکاش کے بعد کی دو کہانیوں ’بازگوئی‘ اور ’ جمغورۃ الفریم‘ میں تلقارمس ایک کردار کے طور پر بھی سامنے آیا ہے۔ پوری کہانی میں کہیں کوئی وقفہ ،سکتہ یا کوئی دوسری علامت نہیں ہے۔ اس کے ذریعے سریندر پرکاش غالباً یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جس دور کو یہ کہانی پیش کر رہی ہے اس میں زندگی بھی بغیر رکاوٹ کے ایک ہی رفتار پر چل رہی ہے۔ کہانی کا ایک اقتباس دیکھئے:
’’ستمبر کے مہینے میں آنسو گیس کا استعمال ٹھیک نہیں۔ ان دنوں کسان شہر سے راشن کارڈ کا بیج لینے آیا ہوتا ہے۔ وہ بڑے مہمان نواز قسم کے لوگ تھے۔ انھوں نے انڈوں کی جگہ اپنے بچوں کے سر ابال کر اور روٹیوں کی جگہ عورتوں کے پستان کاٹ کر پیش کردئے۔ مگر آخری وقت جب میں نزع کے عالم میں تھا وہ میرا راشن کارڈ چرانے کی ترکیبیں سوچ رہے تھے۔ انھوں نے اپنے خوانچے اونچی اونچی دیواروں پر لگا رکھے تھے اور نیچے وادی میں جھونپڑیاں جل رہی تھیں۔ جھونپڑیاں جلنے تک گاڑی پلیٹ فارم پر آجاتی ہے اور سب لوگ آگے بڑھ کر اپنی لاش پہچان لیتے ہیں پھر وہ گرم کباب کی ہانک لگاتے کوئی نہ پوچھتا کس عزیز کے گوشت کے کباب ہیں۔‘‘
اس اقتباس میں جملے جوڑ کر معنی بر آمد کیے جاسکتے ہیں لیکن اس میں کہانی پن کی تلاش سعی لاحاصل ہوگی البتہ اس میں کچھ واقعات اور کچھ باتیں شعور کی رو کی تکنیک کے ذریعے یکجا کردیئے گئے ہیں۔ اس کہانی کی نہ کوئی تھیم ہے نہ کوئی پلاٹ اور نہ ہی کوئی کردار۔ اس میں جدید دور کے بے شمار مسائل کو شعور کی رو کی تکنیک کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح یہ اینٹی اسٹوری کی نمایاں مثال ہے۔
مجموعہ ’’ برف پر مکالمہ‘‘ میں گیارہ افسانے ہیں۔ اس مجموعے کے افسانوں میں دیومالائی عناصر کار فرما نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں انتظار حسین سے مدد ملی۔ ’بن باس ۸۱‘ میں رامائن کے اسطور سے اور ’گاڑی بھر رسد‘ میں داستانوں سے مدد لی گئی ہے۔ ان کے برخلاف ’جمغورۃ الفریم، جبی ژان‘ اور ’برف پر مکالمہ‘ میں اسطور سازی کا رجحان ملتا ہے۔ اس مجموعے کی ایک اہم کہانی ’گاڑی بھر رسد‘ ہے جس کو عام طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کہانی کا موضوع حکمراں طبقے کے ذریعے عوام کا استحصال ہے۔ آزادی سے قبل ہندوستان کے عوام انگریزوں کے ظلم و جبر اور استحصال کا شکار تھے۔ آزادی کے بعد انگریزوں کے ظلم و جبر سے نجات پانے پر انھوں نے خوشیاں منائیں لیکن جب آزادی کے بعد اپنے ہی ملک کے حکمرانوں نے ان کا استحصال شروع کردیا تو ان کے توقعات کی شکست ہوگئی۔اس تھیم کی پیشکش کے لیے سریندر پرکاش نے داستانوں سے مدد لی ہے۔ کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ پہاڑوں کے پیچھے سے ایک پر اسرار سواری آتی ہے اور کچھ کھانے پینے کے سامان کے علاوہ ایک خوبرو نوجوان کو لے کر روانہ ہوجاتی ہے۔ یہ عمل برسوں سے جاری ہے۔ یہ ایک اجتماعی آشوب ہے جس سے بستی والوں کو نجات دلانے والا کوئی نہیں۔ اس کہانی میں سریندر پرکاش نے سواری کا تصور داستان سے لیا ہے لیکن اس میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے نیا مفہوم پیدا کیا ہے۔ داستانوں میں ہوتا یوں ہے کہ قریہ والوں کو اس اجتماعی آشوب سے نجات دلانے کے لیے بالاآخر ایک خطر پسند شہزادہ یا سبز پوش بزرگ آتے ہیں اور بستی والوں کو نجات دلاتے ہیں لیکن اس کہانی میں کوئی نجات دہندہ نہیں آتا ہے۔ اس سے سریندر پرکاش یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ آج آدم زاد جس اجتماعی آشوب میں گرفتار ہے اس سے نجات ممکن نہیں، موجودہ نظام حکومت سے بے اطمینانی کے اظہار کے لیے سواری کے اس تصور سے خالدہ حسین نے اپنی نہایت کامیاب اور پر قوت علامتی کہانی ’سواری‘ میں فائدہ اٹھایا ہے۔ خاطر نشان رہے کہ جدید کہانیوں میں نجات دہندہ کے غائب ہوجانے کے نکتے کی طرف پہلی بار ’سواری‘ پر بحث کرتے ہوئے انتظار حسین نے اشارہ کیا ہے۔ بہر کیف کہانی میں سریندر پرکاش نے جہاں گاڑی کی آمد کو بیان کیا ہے وہاں گاڑی اور گاڑی بان کی جزئیات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اس سے نہ صرف پر اسراریت پیدا ہوتی ہے بلکہ خوف و دہشت کی ایک انوکھی اور پر ہول فضا تیار ہوتی ہے۔ کہانی کی نثر نہایت خوبصورت ہے۔
اس کے بر خلاف ’ بن باس ۸۱‘ میں سریندر پرکاش نے اسطور کے ماخذ کے مطابق کتھا کی زبان سے کام لیا ہے جو نہایت دلکش معلوم ہوتی ہے۔ کہانی میں رام کے بن باس کے اسطور سے کام لیا گیا ہے۔ رامائن کے برخلاف اس کہانی میں بھی رام چندر جی چودہ برس کے بن باس کے بعد واپس نہیں آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ رام چندر جی ہندو قوم کے نجات دہندہ تھے۔داستانوں کی طرح اس کہانی کا آغاز بھی پر اسرار انداز سے ہوا ہے۔ کہانی میں جگہ جگہ طنز سے کام لیا گیا ہے۔ اجودھیا میں رام چندر جی کے نہ آنے کے سبب جو تجارتی صورتِ حال ہے وہ ہمارے دور کا آئینہ ہے۔ وٹھل سیٹھ بھیکو کسان کے اناج لوہے کے باٹ سے تول کر خریدتا ہے اور نمک سونے کے باٹ سے تول کر دیتا ہے۔ کہانی کے آخر میں رامائن کے اسطور کو اسلامی اسطور سے ملا دیا گیا ہے۔ غالباً اس کے ذریعے حقیقت کے ایک ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہانی کی ایک بڑی خوبی اس کی روانی ہے اور اسطور کے ماخذ کے مطابق زبان ہے۔ اس سلسلے میں کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’مجھے شما کردیجئے پتا جی۔ رام کو ایودھیا واپس لانے میں اسپھل رہا ہوں۔ ان کی ہٹ کے آگے میری ایک نہ چلی۔ وہ آپ کی آگیا اور ماں کی اکچھا کا پالن کرنے پر ووش ہیں اور مجھے ان کی آگیا کا پالن کرنے پر ووش ہونا پڑ رہا ہے۔ راج سنگھاسن پر ششوبھت ہونے کے لیے اپنی کھڑاویں دی ہیں۔ وہ تو بن باس ہی رہیں گے پرنتو مجھے آدیش دیا ہے کہ میں ان کھڑائوں کی سہایتا سے راج کاج چلائوں۔ مجھے آشیرواد دیجئے کہ اس کٹھن پریکشا میں سپھل ہوسکوں۔‘‘
اس کے برخلاف ’جپی ژان ، برف پر مکالمہ‘ اور ’ جمغورۃ الفریم‘ میں اسطور سازی کا رجحان ملتا ہے۔ ’جپی ژان‘ سریندر پرکاش کا نمائندہ افسانہ ہے جس پر اس کی اشاعت سے اب تک بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ کہانی کا موضوع جدید معاشرے میں مادیت کے غلبے کے سبب پیدا ہونے والی انجانی ذہنی بے اطمینانی سے نجات حاصل کرنے کے لیے روحانیت کی طرف مراجعت ہے۔ سریندر پرکاش نے ’جپی ژان‘ کو ایک نجات دہندہ روحانی پیشوا کے علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سریندر پرکاش نے اس کے ایک ہاتھ میں کھتری اور دوسرے میں سنکھ دکھایا ہے۔ کھتری کہیں مہرِ نبوت تو نہیں ؟ اور سنکھ کہیں صورِ اسرافیل تو نہیں؟ جس کو قیامت برپا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ نبی کی حیثیت بشیر اور نذیر دونوں کی ہوتی ہے۔ جپی ژان ایک روحانی پیشوا کی علامت ہے اس خیال کو تقویت اس واقعے سے ملتی ہے جس میں عورتیں جپی ژان کے انتظار میں ایک میدان میں اکٹھا ہیں۔ ظاہر ہے کہ عورتیں زیادہ مذہبی ہوتی ہیں اور معجزات و کرامات پر زیادہ یقین رکھتی ہیں۔ بہر حال کہانی میں جپی ژان کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہے لیکن جب اس کو بوسیدہ حالت میں دریافت کرلیا جاتا ہے تو ان کے توقعات کی شکست ہوجاتی ہے۔ کہانی میں جدید دور کے دوسرے مسائل کی طرف بھی اشارے کیے گئے ہیں۔ خوبصورت نثر اور پراسراریت کے سبب کہانی کامیاب ہے۔
’جمغورۃ الفریم‘ میں ہندوستان کے تقسیم در تقسیم کے المیے کو موضوع بنایاگیا ہے۔ جمغورہ غالباً جمہوریت کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ سریندر پرکاش عام طور پر پراسراریت پیدا کرنے کے لیے اس طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر جپی ژان اور تلقارمس جیسے ناموں کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ سریندر پرکاش نے تقسیم کے المیے کو بالکل انوکھے انداز سے برتا ہے۔ ایک کمرہ ہے جس میں ایک کٹی پھٹی لاش پڑی ہے۔ کہیں دور فوارہ چل رہا ہے۔ ایک آدمی سائیکل پر چلا جارہا ہے اور کتا بھونک رہا ہے۔ کتے کو چپ کرانے کے لیے لاش کے کچھ حصے کاٹ کر کتے کے سامنے ڈال دیا جاتا ہے گویا آزادی کے وقت ہندوستان کی حیثیت ایک لاش کی طرح تھی اور اس پر طرہ یہ ہوا کہ کچھ لوگوں نے تقسیم ہند کا مطالبہ شروع کردیا لہٰذا اس لاش کا ایک حصہ کاٹ کر ان کے سامنے ڈال دیا گیا۔ اس طرح تقسیم کے واقعے کو علامتی انداز میں سریندر پرکاش نے پیش کیا ہے۔ کہانی میں داخلی خود کلامی کی تکنیک استعمال کی گئی ہے اور کہانی میں خوف و دہشت کی فضا ہے۔ ’برف پر مکالمہ‘ میں جدید معاشرے کے زوال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ برف در اصل جمود کی علامت ہے اور یہ اخلاقی و روحانی جمود کا اشاریہ ہے۔ کہانی میں اسطور سازی کا عمل ہے۔ اس کے علاوہ ’مردہ آدمی کی تصویر‘ اور ’ ہم صرف جنگل سے گزر رہے تھے‘ میں بھی معاشرے کے زوال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مذکورہ تینوں کہانیاں نہایت پیچیدہ علامتی نظام کی حامل ہیں اس لیے کہانی کی ترسیل میں دشواری ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس مجموعہ کی کہانیوں میں خوبصورت نثر، تحیر کا عنصر ، سیاسی و سماجی حوالے اور معمولی چیزوں کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے اندازنے ان کو انفرادی رنگ عطا کردیا ہے۔
’بازگوئی‘ سریندر پرکاش کی افسانہ نگاری کے نئے موڑ کا اشاریہ ہے۔ اس مجموعے کی کہانیوں میں فکر کا غلبہ ضرور ہے لیکن اسی کے ساتھ سیاسی و سماجی حوالوں کی کثرت بھی ہے۔ ان افسانوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سریندر رکاش ’تلقارمس‘ جیسے چونکانے والے تجربوں کے جادو سے باہر نکل آئے ہیں۔ اس مجموعے کی کہانیاں نسبتاً آسان ہیں۔ ان کی علامتیں اور تمثیلیں قدرے آسان ، مانوس ، واضح اور غیر مبہم ہیں۔ اس لیے قاری کو بہت جلد اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں حالانکہ ان میں بھی سریندر پرکاش نے انہی فنی چابکدستیوں سے کام لیا جو ان کا امتیاز ہے۔
’بازگوئی‘، بجوکا، خواب صورت، جمغورۃ الفریم دو، جنگل سے کاٹی ہوئی لکڑیاں‘ اور ’ساحل پر لیٹی ہوئی عورت‘ میں اسطور سازی کا رجحان ہے۔ ’بازگوئی‘ سریندر پرکاش کی نمائندہ کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کہانی کی پوری فضا داستانی ہے۔ کرداروں ، جگہوں اور شہروں کے نام کے ذریعے بھی داستانی فضا تیار کرنے میں مدد لی گئی ہے۔ بظاہر کہانی مصر کے کسی قدیم شہر کی معلوم ہوتی ہے لیکن اسے اپنے زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سریندر پرکاش نے کہانی کے درمیان مداخلت کرکے ایمرجنسی کے زمانے کی سیاسی صورتِ حال کا ذکر کیا ہے۔ سریندر پرکاش نے یہ تکنیکی تجربہ کم ہمت اور کم کوش قاری کے لیے کیاہے۔ اگر کہانی کو جگہ جگہ مداخلت کرکے سریندر پرکاش نہ کھولتے تو کہانی غیر معمولی طور طاقتور ہوجاتی۔ بہر کیف کہانی کے وسیلے سے سریندر پرکاش یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اقتدار ایک اندھی قوت ہے جو اس کو کنیز بنانا چاہتا ہے خود اس کا اسیر بن جاتا ہے اور اقتدار پر ہمیشہ قابض رہنے کے لیے حاکم ہر طرح کی گھناونی حرکتیں کرتا ہے۔ مختلف زمانوں اور جگہوں پر یہی عمل دہرایا جاتا رہا ہے۔ لطف کی بات تو ہے کہ حاکم اور مخالف دونوں دستور کی دہائی دیتے ہیں۔ ملکۂ شبروزی اسی اقتدار کی علامت ہے۔ تلقارمس ان باغی کرداروں کا نمائندہ ہے جو اقتدار کی ہوا لگنے کے بعد اپنی ساری بغاوت بھول جاتے ہیں۔ کہانی اپنی بے مثال خوبصورت نثر اور پر اسرار داستانی فضا کے سبب قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس طرح کی خوبصورت ، گداز اور نغماتی نثر اور داستانی رنگ و آہنگ ’جمغورۃ الفریم دو‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کہانی وحدتِ آدم کے محور پر گردش کرتی ہے۔ انسان کو وقت اور سیاسی و سماجی صورتِ حال نے مذہب ، رنگ ، نسل اور قبیلہ وغیرہ کے خانوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے۔ کہانی لمحے بھر خارج میں چلتی ہے پھر داخل میں سفر کرنے لگتی ہے۔ اس کے لیے سریندر پرکاش کرداروں کو خوابناک کیفیت سے دوچار کرکے ایک انہونی اور انجانی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ جہاں ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں جن کا حقیقت کی دنیا میں گزر ممکن نہیں۔ بہر حال کہانی میں ہزاروں سال کی تاریخ بولتی ہے۔ ’ساحل پر لیٹی ہوئی عورت‘ بھی بے مثال داستانی رنگ کی کہانی ہے ۔ کہانی کے سیاسی و سماجی حوالوں کو آسانی سے شناخت کرنا ممکن نہیں ہے۔
سریندر پرکاش اپنی افسانوی روایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے استفادہ کرکے اپنی کہانیوں کو روشن کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے بیدی کی کہانی ’بھولا‘ کو بنیادی بناکر ’بھولا کی واپسی‘ کے عنوان سے کہانی لکھی ہے۔ بیدی کی کہانی میں بھولا اپنے ماموں کی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن سریندر پرکاش کی کہانی میں دونوں ایک دوسرے کو تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بھولا کا ماموں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ اس طرح انھوں نے اپنی بے حد خوبصورت اور طاقتور کہانی ’بجوکا‘ میں پریم چند کے ہوری کو کردار بنایا ہے۔ پریم چند کا ہوری آزادی سے پہلے کا ہندوستانی کسان تھا لیکن سریندر پرکاش کا ہوری آزادی کے بعد کے ہندوستانی عوام کا نمائندہ ہے اور بجوکا موجودہ جمہوری نظام کی علامت ہے۔ سریندر پرکاش نے اس کہانی کے ذریعے موجودہ طرزِ حکومت سے اپنی بے زاری اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس کہانی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ سریندر پرکاش نے کہانی میں بہت کم مداخلت کی ہے۔
’بازگوئی‘ کے بعد کی کہانیوں میں ’جیلخانی، ترپوسیاں، چیچو کی ملیاں، بالکنی‘ اور ’ایک اور پناہ گزیں‘ میں پاکستان جانے والے مہاجرین کے دکھوں کی داستان سنائی گئی ہے۔ پچاس برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی پاکستانی معاشرہ نے انھیں قبول نہیں کیا ہے اور ان کے ساتھ سیاسی و سماجی اور معاشی اعتبار سے امتیاز برتا جاتا ہے۔ ان کہانیوں میں حزنیہ کیفیت حاوی ہے۔ ان کہانیوں کے کردار ماضی کی یادوں کے اپنے سینے سے لگائے نظر آتے ہیں۔ ان کہانیوں میں سریندر پرکاش خود راوی کی حیثیت سے موجود معلوم ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود مہاجر ہیں۔ ذاتی تجربے نے کہانیوں میں شدت پیدا کردی ہے۔ سریندر پرکاش کی ان کہانیوں میں مشترکہ تہذیب کے فنا ہونے کا بھی شدید احساس ہے۔
مختصر یہ کہ سریندر پرکاش کا شمار اردو کے ممتاز علامتی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے یہاں موضوعات ، اسالیب اور تکنیک میں تنوع پایا جاتا ہے۔ زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت داستانی فضا کی تعمیر میں چابکدستی ، بظاہر غیر متعلق اور غیر اہم واقعات کو نزاکت و لطافت سے جوڑنے اور تجریدی علامتی رنگ و آہنگ تیار کرنے کی بے پناہ صلاحیت نے ان کے افسانوں کو انفرادیت کا حامل بنا دیا ہے۔