Tahzeeb ka Janaza by Shams Wodood

Articles

تہذیب کا جنازہ"(انشائیہ)

شمس ودود

 خلاف معمول آج “اخلاق” صاحب اپنے متعینہ وقت سے پہلے ہی خواب غفلت سے بیدار ہوگئے, کافی تلاش و جستجو کے بعد بھی جب وقت کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا تو بستر پہ لیٹے ہی لیٹے اپنا نیک نام زمانہ “لیپ ٹاپ” ہی آن کر دیا, متعدد جمائیاں لینے کے بعد وقت پر نظر جمی تو بڑی حیرت ہوئی, برجستہ زبان سے نکلا “ارے! یہ تو میں دو گھنٹہ پہلے ہی بیدار ہو گیا……ابھی تو دس بھی نہیں بجے ہیں”! پھر کیا تھا….. نیند نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور فرار ہو چلی, اب “اخلاق ” صاحب بڑے ہی شش و پند میں مبتلا ہوئے کہ آیا اب کیا کیا جائے؟ ……انگلیوں سے لاشعوری طور پر حرکت ہوئی اور فیس بک (Facebook )……”کتابی چہرہ” یا “چہروں کی کتاب” …..کھول بیٹھے, اب کیا تھا….. حرکت تو سرزد ہو ہی گئی لیکن پھر حیرت و استعجاب سے ان کی آنکھیں انگریزی کے حرف “O” کا طواف کرنے لگیں, (اضطراری طور پر یہ حرکت آپ سے بھی سرزد ہو سکتی ہے……کوئی بات نہیں, تجربہ انسان کو نکھار دیتا ہے). جب حیرانگی ذرا کم ہوئی تو فیسبک پہ آئے ہوئے ایک پوسٹ کو پڑھنے لگے, پھر بھی جب اس پوسٹ کو سمجھ نہ سکے تو بآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا (اگر چہ تنہا ہی تھے)……”ایک عرصے سے علالت میں رہنے کے بعد آج “بروز اتوار “تہذیب” (صاحب یا جناب کے بغیر) کا انتقال ہوگیا “- “انا للّٰہ وانا الیہ راجعون” تہذیب کی نعش “جامعہ ھذا” کے باہر شاہراہ سنسان پر لاوارث پڑی رہی, جس پر گھنٹوں کسی آدم زاد کی نگاہ نہیں پڑسکی”- گھبراہٹ اور تجسس کے امتزاج کے ساتھ جب “کمنٹ باکس” کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ متعدد لوگوں نے تعزیتی جملے کہے ہیں- کسی نے مرحوم کی تعریف کی تھی, تو کسی نے اپنے غم کا اظہار کیا تھا اور کچھ لوگوں نے تو غم و غصہ دونوں کا اظہار کیا تھا- ایک صاحب نے لکھا تھا کہ…… “تہذیب صاحب کو میں نے کبھی دیکھا تو نہیں لیکن ان کے بارے میں سنا خوب ہے, کافی نامور شخص تھے”- ایک اور صاحب نے لکھا تھا …….”تہذیب صاحب کی ’’جامعہ ھذا “سے خوب راہ و رسم تھی, جامعہ کے قیام سے لیکر ٢٠ویں صدی تک دونوں کا بڑا گہرا تعلق رہا, لیکن نہ جانے کیوں “مغرب” کی جانب سے چلنے والی “گرم ہواؤں” نے انہیں احساس کم تری کا شکار بنا دیا اور پھر دن بدن لاغر ہوتے گئے اور آج اس دار فانی سے بھی کوچ کر گئے”- ایک اور صاحب نے تہذیب کے اعزہ و اقرباء, لاحقین و احباء کو صبر و تحمل سے ملاقات کرنے کی تجویز پیش کی, ……اسی طرح سے متعدد افراد نے کچھ نہ کچھ بطور تعزیت ضرور کہا تھا, مگر “فہم و فراست” کے سوال نہایت مضحکہ خیز اور غور طلب تھے, ان دونوں کا مشترکہ سوال یہ تھا کہ……. “تہذیب تھے کون؟ کیا مرد تھے ؟ یا زن ؟ یا……وغیرہ, ان کا ملنا جلنا کس قسم کے لوگوں سے رہتا تھا”؟ بہرکیف “اخلاق صاحب” تھے بڑے خود سر, کسی کے پاس اپنی مرضی سے گئے تو گئے, ورنہ مجال کیا کسی کی جو انہیں کچھ وقت تک اپنے پاس رکھ سکے – صبر اور تحمل سے تو ناتا ہی توڑ رکھا تھا, کہیں آتے بھی تھے تو غرض کو ساتھ لئے بغیر کبھی تشریف نہ لاتے, لیکن تہذیب کی میت پر ان کی دہلیز تک گئے- اب جب کہ پورے جامعہ میں تہذیب کے انتقال کی خبر پھیل گئی, تمام لوگ “اخلاق صاحب کے ساتھ ان کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشریف لائے, لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں, ہر شخص ایک دوسرے سے تہذیب ہی کے تعلق سے گفتگو میں محو تھا, پھر کسی جانب سے رسم و رواج دونوں آتے ہوئے دکھائی دئے, پھر کیا تھا….. سب نے ملکر (بشمول مرد و زن, بوڑھے, بچے اور جوان وغیرہ) تہذیب کا پرتو الٹا, پھر رسم و رواج دونوں نے سنت سے مشورہ کر کے قبل از تدفین کے تمام مراحل سے گزار کر تہذیب کو کفن پہنایا, عطر و کافور ملا گیا – لیکن تمام لوگ اس بات لو لیکر بڑی حیرت میں تھے کہ “روح قبض ہو جانے کے باوجود بھی تہذیب کے “ماتھے کا شکن” نہ گیا اور ان کی انگلی بھی (شہادت کی) عوام کی جانب اٹھی ہوئی یوں لگ رہی تھی گویا کوئی حکم صادر کر رہے ہوں, یا “کسی کو اس کے کسی فعل پر تنبیہ کر رہے ہوں”- دوسری طرف “اخلاق” صاحب بڑے بے چین پھر رہے تھے کہ آیا “لوگوں نے تہذیب کی میت پر آنسو ہی نہیں بہایا یا روتے روتے سب کے اشک خشک ہو گئےہیں”؟ ع: دل رو رہا ہے میرا مگر آنکھ نم نہیں لیکن ایسی بے چینیوں سے اب کیا ہو سکتا تھا, اب تو مرحلہ تھا کہ میت کو چار کاندھوں پر اٹھایا جائے اور درگور کر دیا جائے, عین اسی وقت “تہذیب” کا وکیل “مروت” ایک جانب سے بھاگا بھاگا آیا اور جنازے کو روک کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے کہنے لگا کہ تہذیب صاحب کا وصیت نامہ تو سن لیجئے, جو انہوں نے مجھ سے لکھواکر “شرمندگی” کے پاس بطور امانت رکھوا دیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ “میرا جنازہ اٹھنے سے پہلے یہ وصیت نامہ لوگوں کو ضرور سنا دینا”، میری تاخیر کا سبب بھی یہی ہے کہ میں “شرمندگی” کو تلاش کرنے نکل پڑا تاکہ اسے آپ لوگوں کے سامنے حاضر کر سکوں, ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر چند وقفے کے بعد جب پر تکلف انداز میں شرمندگی تشریف لائی (تھیں بھی محترمہ کھجور کے تنے کی طرح لمبی اور الف کی طرح سیدھی کہ خراما ہوتیں تو اطراف سے لوگ یہ کہنے پہ مجبور ہوجایا کرتے تھے کہ اماں! ذرا سنبھل کے ) اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر کے بے حد تکلف کے ساتھ وصیت نامہ پڑھنا شروع کیا جو کچھ یوں تھا کہ: – قسم تمہاری قسم ہے تم کو, نہ دینا کاندھا اٹھے گا جب بھی جنازہ میرا………!
————————————
انشائیہ نگار جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ایم۔اے ۔ کے طالب علم ہیں۔