“The Tailor” A Short Story by Hijab Imtiaz Ali

Articles

درزی

حجاب امتیاز علی

رات کے پون بجے جب شبی نے مجھے کسی درزی کی دکان پر چلنے پر اصرار کیا تو میں حیران ہو کر بولی ’’مگر اس وقت؟‘‘
’’ہاں ہاں اسی وقت روحی… عید کی مصروفیت کی وجہ سے آج کل دن کے وقت درزی نہیں ملتا۔ تم جلدی سے اپنی کار نکالو۔‘‘ شبی نے اصرار کیا۔
’’اچھا…‘‘ میں بادل نخواستہ مان گئی اور گیراج سے اپنی کار باہر نکال لائی۔
شبی گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں اپنے کپڑوں کا بنڈل ہاتھ میں لیے کار میں میرے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد کار چلاتے چلاتے میں نے پوچھا ’’میں اتنی رات گئے صرف تمہاری ضد پر نکلی ہوں۔ لاہور اتنا بھی محفوظ شہر نہیں ہے۔ تمہیں اپنے کپڑے لینے ہیں یا کسی درزی کی تلاش ہے؟‘‘
’’ارے بھئی درزی کی تلاش ہے۔ موزوں درزی نہیں مل رہا۔ عید کا زمانہ ہے، چلو جلدی چلو۔‘‘ اس نے کہا۔

جب ہم گھر سے نکلے تو باہر لوگوں کا ہجوم اُبلتے سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ عید کی خریداری کرنے لوگ یوں دیوانہ وار بازاروں کی طرف رواں دواں تھے جیسے عید پر پھر کبھی نہیں آئے گی۔ میں اور شبی درزی کی تلاش میں بڑی تیزی سے شہر کی طرف جا رہی تھیں۔ شاید کوئی ’خالی درزی‘ مل جائے تو شبی بھی اپنا لباس سلوا لے۔
شبی بڑبڑا رہی تھی ’’دیکھو تو روحی، آج کل انسان کس طرح انسان ہی کے درپے آزار ہے۔ گاہکوں کو درزی نہیں ملتے اور لباس پہننے کی تاریخ سر پر آ جاتی ہے۔‘‘
میں ہنس پڑی اور بولی ’’یہ دنیا کا کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں شبی۔ جب میں سوچتی ہوں تو انسان کے سبھی مسائل مجھے ادھورے ہی نظر آتے ہیں اور تم ایک درزی کے مسئلے کو اتنی اہمیت دے رہی ہو!‘‘
کپڑوں کی تھیلی پچھلی نشست پر پھینکتے ہوئے شبی کہنے لگی ’’ہر انسان کے لیے اپنا مسئلہ اہم ہوتا ہے روحی۔ تم جانتی ہو، دو دن سے میں درزیوں کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہوں کہ خدا کے لیے مرا لباس سی دو۔ مجھے پرسوں پہننا ہے مگر کسی نے ہامی نہ بھری۔ کہنے لگے، چھ چھ مہینوں سے عید کے کپڑے سل رہے ہیں، اب نیا کپڑا نہیں لیا جا سکتا۔‘‘
میں نے کہا ’’ٹھیک تو کہتے ہیں۔ دیکھو اب تو عید سر پر آ گئی ہے۔‘‘
’’لیکن یہ لباس تو مجھے عید سے پہلے پہننا ہے۔‘‘
’’عید سے پہلے؟‘‘ میں نے ذرا تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں…‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’مگر تم یہ بھی جانتی ہو کہ پاکستان میں عید کی تیاریاں تمام رات بلکہ سحر کی اذان تک ہوتی رہتی ہیں۔ درزی بے چارے نمازِ سحر کے وقت دو گھڑی کے لیے دکان بند کرتے اور پھر اپنے کام پر لگ جاتے ہیں۔ اب تم عید کے بعد ہی اپنا جوڑا سلوانا۔‘‘
وہ بھونچکا ہو کر مجھے دیکھنے لگی ’’عجیب باتیں کرتی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر چپ ہوگئی۔ شہر کے درزیوں سے مایوس ہو کر اب ہم گلبرگ واپس جا رہی تھے۔ شہر کا یہ حصہ نسبتاً پرسکون تھا۔ رات کا سناٹا اور تاریکی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں کسی انجانے خوف اور شبی درزی نہ ملنے سے سہمی ہوئی گھر کی طرف لوٹ رہی تھیں۔

اچانک سڑک کنارے کھڑے ایک بڑے تناور درخت پر سے ہولناک ’قوقو‘ کی صدا بلند ہوئی۔ اسے سن کر اسٹیرنگ پر میرے ہاتھ کانپ گئے۔
شبی کو بھی اس کا احساس ہو گیا۔ پریشان ہو کر کہنے لگی ’’سنا تم نے؟ رات کا پرندہ اچانک چیخ اُٹھا۔ خدا کی پناہ۔‘‘
میں بے حد خوف ہو کر کہنے لگی ’’شکر ہے پرندہ تھا، انسان نہیں۔ میں انسانوں سے کتراتی ہوں، پرندوں سے نہیں کہ یہ ظالم نہیں ہوتے۔‘‘
شبی کہنے لگی ’’اس قسم کے پرندے تو ایشیائی گرم راتوں میں چیختے رہتے ہیں۔‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے لرزاں آواز میں کہا ’’لیکن مجھ میں دوبارہ رات کے اس پرندے کی قوقو سننے کی ہمت نہیں۔ شبی! کچھ مخصوص سی آواز تھی۔‘‘
شبی کہنے لگی ’’روحی! کیا حرج ہے ذرا لبرٹی مارکیٹ کے درزیوں سے بھی پوچھ لیں۔‘‘
میں نے کار لبرٹی مارکیٹ کے آخری حصے کی طرف موڑ لی جہاں چند درزیوں کی دکانیں تھیں۔ جب کسی نے بھی ہامی نہ بھری تو ہم مایوس ہو کر لبرٹی مارکیٹ سے ملحق چھوٹے راستے سے گھر کی طرف چل پڑے۔ ہم ہسپتال کے سامنے سے گزر ہی رہی تھے کہ وہ مری کار کے آگے آ گیا۔ شاید وہ سڑک پار کرنا چاہتا تھا۔ اگر میں بڑی ہوش مندی سے بریک نہ لگاتی تو اس کا قیمہ ہو جاتا، مجھے بےحد غصہ آیا۔ کار ٹھہراتے ہوئے میں نے چیخ کر کہا ’’تم ہوش میں ہو؟‘‘
آدمی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی بغل میں ایک پوٹلی تھی جس سے کچھ سفید رنگ کے کپڑے باہر لٹک رہے تھے۔
شبی چیخ پڑی۔ ’’ٹھہرو روحی، ٹھہرو۔ شاید درزی ہو، اس کی بغل میں کپڑے ہیں۔‘‘
میں نے پھر کار سے گردن باہر نکال کر پوچھا ’’تم درزی ہو؟‘‘
’’ہاں…‘‘ اس نے اقرار کیا۔ مگر اس کی آواز میں پھنکار سی تھی، جیسے کوئی گلے کا مریض آہ بھر رہا ہو۔
شبی بے حد خوش ہوگئی، کہنے لگی ’’میں تمہاری بغل میں کپڑوں کا بنڈل دیکھ کر سمجھ گئی تھی۔‘‘
اب میری نظر دوبارہ درزی کے ادھ کھلے بنڈل پڑی۔ کچھ کپڑے باہر لٹک رہے تھے، وہ سفید رنگ کے عجیب بے ڈھنگے سے لمبے لمبے کپڑے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے جھرجھری محسوس ہونے لگی۔
شبی درزی سے کہہ رہی تھی۔ ’’میرا ایک لباس سی دو گے؟‘‘
درزی نے پہلی دفعہ نظر اُٹھا کر ہم دونوں کو دیکھا۔ شاید سوچ رہا تھا کہ ضرورت مند کون ہے۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ درزی کا رنگ دودھ کی طرح سفید ہے۔ وہ میانہ قد اور ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ غور سے دیکھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں کا رنگ بھی سفید ہے، سیاہی کہیں نام کو نظر نہ آئی۔ یا شاید مدھم روشنی میں آنکھ کی سیاہی چھپ گئی۔
بہرحال مجھے وہ اپنی سفید رنگت اور سفید آنکھوں کی وجہ سے انتہائی خوفناک لگا، لیکن میں شبی سے اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ وہ اس وقت خلاف توقع درزی دستیاب ہونے پر بےحد خوش نظر آ رہی تھی۔ اس نے غالباً درزی کو غور سے دیکھا ہی نہیں۔ درزی کا لباس بھی مجھے اچھا نہ لگا۔ اس نے سفید رنگ کی عبا پہن رکھی تھی جو رات کی پراسرار ہواؤں میں متحرک تھی۔
شبی کہنے لگی ’’مگر یہ مقام تو کپڑے دکھانے اور ناپ دینے کا نہیں، میرے گھر آ جاؤ۔‘‘
’’ہاں… مجھے آنا ہی پڑے گا۔‘‘ درزی نے اپنی پست آواز میں کہا۔
جانے کیوں مجھے اس کے یہ الفاظ اور آواز بھی مایوس اور ناگوار لگی۔ بھلا اسے کیا مجبوری تھی کہ اسے آنا ہی پڑے گا؟ یہ کوئی چور ڈاکو یا جاسوس تو نہیں؟ میں سوچنے لگی۔ لیکن شبی یہ ساری باتیں نظرانداز کر رہی تھی اور خوش تھی کیونکہ اسے بمشکل ایک درزی دستیاب ہوا تھا۔
’’گھر کا پتا لکھ دوں؟‘‘ وہ اپنا دستی بٹوا کھولنے لگی تاکہ کاغذ اور پنسل نکال سکے۔
’’اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ درزی کی آواز بہت مدھم پڑ گئی تھی۔ یہ جواب سن کر میں اور بھی بدگمان ہوگئی کہ ضرور یہ کوئی مشکوک آدمی ہے۔
شبی کو بھی شاید کچھ تعجب ہوا، پوچھنے لگی ’’تو پھر پہنچو گے کیسے؟‘‘
’’جہاں مجھے پہنچنا ہو، پہنچ جاتا ہوں۔‘‘ درزی کا یہ جواب بھی مجھے بڑا عجیب لگا۔ میرے شبہات یقین کے درجے پر جا پہنچے۔
’’کب آؤ گے؟‘‘ شبی نے سوال کیا۔
’’کل۔‘‘
’’کس وقت؟‘‘
’’اسی وقت۔‘‘
شبی حیران ہو کر کہنے لگی ’’اس وقت؟… مگر اس وقت تو رات کے دو بج رہے ہیں۔‘‘
’’اس سے پہلے مجھے فرصت نہیں اور یہی وقت ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ یو سی ایچ کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

میں پریشان ہو کر بولی ’’تم نے اچھا نہ کیا شبی، جانے یہ کون تھا!‘‘
’’درزی تھا اور کون ہوتا؟‘‘ شبی چیں بجیں ہو کر بولی۔ پھر کہنے لگی ’’اس کی بغل میں کپڑوں کی گٹھڑی دیکھتے ہی میں سمجھ گئی تھی کہ درزی ہے۔‘‘
’’لیکن تم نے وہ کپڑے بھی دیکھے جو گٹھڑی کے باہر لٹک رہے تھے؟‘‘ میں نے کار چلاتے چلاتے پوچھا۔
’’نہیں تو… کیوں ان میں کیا خاص بات تھی؟‘‘ وہ پوچھنے لگی۔
’’سفید رنگ کے لمبے لمبے سے تھے اور اندھیری رات میں مجھے سفید کپڑا برا لگتا ہے شبی۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ ذرا برا مان کر کہنے لگی ’’توبہ روحی، تمہاری نازک مزاجی نے آفت ڈھا رکھی ہے۔ تمہیں تو متاثر ہونے کا بہانہ چاہیے۔ موسیقی، شعر، رنگ کے سوا تمہیں کوئی چیز پسند نہیں آتی۔‘‘
’’اتنا مبالغہ نہ کرو شبی، مجھے اس کائنات کا سارا حسن پسند ہے۔‘‘ یہ کہہ کر میں چپ ہو گئی۔
اچانک کسی درخت پر رات کا ایشیائی پرندہ بول پڑا۔ ’’قو۔قو۔قو۔‘‘ ساتھ ہی میں نے کار کی رفتار تیز کر دی۔ رات کے سناٹے میں میرے لیے اس کی نامانوس پکار ناقابل برداشت تھی۔

وہ بے حد ویران اور اندھیری رات تھی۔ اندرون شہر، آنے والی عید کی تیاریاں اور ہنگامے جاری تھے، مگر شہر سے باہر گلبرگ حسب معمول خاموش اور کچھ زیادہ ہی پرسکون تھا۔ آسمان پر تارے بھی مجھے دم بخود معلوم ہو رہے تھے۔ ہوا بھی تھم کر چل رہی تھی۔ ہم گھر کی طرف رواں دواں تھیں۔ مجھے جیسے سانپ سونگھ گیا تھا، بالکل خاموش تھی۔
’’اب اتنی چپ کیوں ہو گئی ہو روحی؟ تمہیں تو ہر موضوع پر بات کرنے یا کوئی شعر سنانے کا مرض ہے۔ خدا کے لیے کوئی بات کرو، ہول آ رہا ہے تمہاری خاموشی اور رات کے سناٹے سے!‘‘ شبی نے بیزار بلکہ قدرے خفا ہو کر کہا۔
میں بولی۔ ’’ایک بات کہوں شبی؟‘‘
’’کہو کہو۔‘‘ شبی نے کہا۔
’’جو تمہارا درزی تھا نا… اس کی آنکھیں دودھ کی طرح سفید تھیں۔ مجھے تو اس کی آنکھوں پر سیاہی کہیں نظر نہیں آئی۔ وہ تمہارے کپڑے کیونکر سیے گا؟‘‘
شبی ذرا پریشان ہو گئی، کہنے لگی ’’کیا واقعی؟ میں نے غور ہی نہیں کیا۔ خیر کپڑے سینا اس کی ذمہ داری ہے۔‘‘
’’مگر اس کی آنکھیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
شبی اچانک خوفزدہ ہو کر کہنے لگی۔ ’’کیا واقعی اس کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے تم کہہ رہی ہو؟‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے کہا ’’کم از کم میں نے سیاہی نہیں دیکھی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے مجھ پر ذہنی انتشار طاری ہو گیا۔ ویسے بھی میں ایک بزدل عورت ہوں۔ جس چیز سے ڈرنا چاہیے، اس سے نہیں ڈرتی، جس سے نہیں ڈرنا چاہیے، اس سے خوف زدہ ہو جاتی ہوں۔

گھر پہنچتے ہی میری بوڑھی حبشن خادمہ حسب عادت ناخوش لہجے میں بولی ’’رات گزر چکی ہے خاتون روحی، اور آپ دونوں درزی کی تلاش میں نکلی نکلی اب گھر پہنچی ہیں۔ کافی پئیں گی کہ چائے؟‘‘
’’کافی…‘‘ میں نے کہا
’’درزی مل گیا تھا خاتون شبی؟‘‘ خادمہ نے پوچھا۔
’’ہاں مل گیا تھا زوناش۔‘‘ شبی نے خوش ہو کر کہا۔ پھر کہنے لگی ’’دیکھو وہ کل رات دو بجے آئے گا‘ خیال رکھنا۔‘‘
زوناش یہ سن کر متوحش ہوگئی۔ ویسے بھی بات بات پر دعائیہ انداز میں آیات پڑھنا اس کی عادت تھی۔ ایک عربی دعا پڑھتے ہوئے وہ پوچھنے لگی:
’’دو بجے رات بی بی؟‘‘
’’ہاں ہاں کل دو بجے رات۔ اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی دروازہ کھول دینا۔‘‘ شبی نے تاکید کی۔
زوناش خوف زدہ ہوگئی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
دوسرا دن نکل آیا اور اپنے وقت پر ختم ہو گیا۔ سورج حسب معمول اُفق تلے جا چھپا اور اندھیری رات بیتنے لگی۔
رات کے کوئی ڈیڑھ بجے شبی نے اچانک اپنی خواب گاہ کا دروازہ کھولا اور آواز دی:
’’زوناش زوناش! میرے سر میں درد ہو رہا ہے ’ایسپرو‘ کی گولی لے آؤ۔ پھر ذرا میرے پاس آ بیٹھو اور سر دبا دو۔‘‘
’’بہت اچھا بی بی۔‘‘ کہتے ہوئے خادمہ شبی کے کمرے میں چلی گئی۔ ذرا دیر بعد اس نے میری خواب گاہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ بدحواس ہو رہی تھی۔ کہنے لگی ’’خاتون شبی کے سر میں شدید درد ہے۔ مجھے تو ان کی حالت…‘‘
گھڑیال ٹن ٹن دو بجانے لگا۔ اچانک باہر کے صدر دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے جا کر دروازہ کھول دیا۔ باہر سفید لباس میں ملبوس وہی پراسرار آدمی کھڑا تھا، مجھے دیکھتے ہی بول اُٹھا:
’’میں کفن سینے آ گیا ہوں۔

٭٭٭

بیسویں صدی کے اوائل میں اردو فکشن میں رومانیت ایک رجحان کے طو رپر ابھری جسے سرسید کے عقلیت پسند تحریک کی ضدماناجاتا ہے اس رومانی دورمیں کئی آفاق گیرادبی شخصیتیں منظرِعام پر آئیں۔جن میں ایک نمایا ں نام حجاب امتیاز کا ہے۔
مدراس کے ضلع آرکاٹ (وانم باڑی) میں 1907ءمیں پیدا ہوئیں ۔ والد محمد اسماعیل مدراس کے معزز و معروف شخصیتوں میں سے تھے۔ او روالدہ عباسی بیگم ایک ادیبہ تھیں۔ ابتدائی تعلیم گھر پر والد کی زیر نگرانی ہوئی اورحیدر آباد کے ایک مشن اسکول میں ا نگریزی کی تعلیم حاصل کی ۔والدہ چوں کہ اردوکی پر وردہ تھیں۔ اس لئے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔1930ءمیں اردوکے مشہور ڈرامہ نگارامتیاز علی تاج سے بلہاری میں شادی ہوئی جس کے بعد لاہور کو اپنا گھر بنایا ۔جہاں پر خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تہذیب نسواں کی ادارت کی ذمہ داری بھی نبھانے لگیں ۔
حجاب نے کافی کم عمری میں لکھنا شروع کیا ۔ساڑھے گیارہ سال کی تھیں جب ا نہوں نے اپنا پہلا افسانہ”میری ناتمام محبت“ تحریر کیا۔جو بعد میں نیر نگِ خیال میں شائع ہوا۔ نابالغ ذہن کے تراش شدہ اسی بت کی ساخت میں کئی جگہ بت تراش کی نوعمری او رجذ بات کی ولولہ انگریز ناہموار یاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن زبان وبیان ،فکر و فن ایک عمدہ افسانہ نگار کی آمد کا پتہ دیتے ہیں۔
ان کا دوسرا افسانہ ” ظالم محبت “تھا جو 1940ءمیں شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی افسانے اورناول لکھے۔ جیسے”صنوبر کے سائے“٬ ”نغمات محبت“ ٬ ”لاش‘‘وغیرہ جو اُن دنوں تہذیب نسواں، عالم گیر ، اور نیر نگِ خیال وغیرہ میں شائع ہوئے۔
حجاب نے زیادہ ترافسانے ہی لکھے ہیں ۔مگر اپنے کینو یس اورکردار وں کے دائرہ عمل کے اعتبار سے یہ افسانے ناول ناولٹ کے ذیل میں آتے ہیں ۔ہلکے پھلکے ان رومانی سماجی ناولوں کی بنیاد ان کے عہد کا معاشرہ او ر اس کے مسائل ہیں۔ جس میں محبت عام اخلاقی اصول و اقدار اور سماجی قوانین سے ٹکراتی ہے او ر اسی ٹکرا و میں محبت کی شکست ہو تی ہے ۔سجاد حیدر یلدرم کے زیر اثر انہو ں نے ایسی تخیلی دنیا آباد کی جو مشرق وسطیٰ او ریو رو پین طرز ِمعاشرت کا حسین امتزاج نظر آتی ہے جس میں امرا اور رؤسا ، جو اہرات اور موتیوں میں کھیلتے ہیں اور جن کی خدمت کے لئے بے شمار گل رخ کنینر یں ادھر اُدھر بھا گتی پھر تی ہیں ۔ پوری فضا داستانی رنگ لئے ہوئے ہے جس میں سب کچھ اتفاقی ہے یہا ں تک کہ مسرت اور غم بھی جو ”یاد “بن کر مسرت کا ہی منبع لگتا ہے۔
ان کی کردار نگار ی بھی تخیلی سطح پر کی گئی ہے شاعرانہ اندازمیں پیش کر دہ ان کے کردار اکثرتیسری نسل سے ہیں جن کا واسطہ ماضی کی دونسلوں سے ہے ۔ ان کے اعمال مشرقی معاشرہ کا حصّہ ہیں مگر مغربی تعلیم کے زیرِ اثریہ فرد پچھلی نسلوں سے خود کو علاحدہ کر نے کی جدوجہد کر تے نظر آتے ہیں۔
جہاں تک قصہ کی تکنیک کا سوال ہے ان کی اکثر کہانیاں ”روحی “ بیان کر تی ہے جو کبھی کہانی کااہم کرداربن کرتوکبھی ثانوی کردار کی حیثیت سے دوسروں کی کہا نی پیش کرتی ہے مثلاً ’ ’ میری ناتمام محبت“ کے آغاز میں قبرستان کی پُر اسرار فضا میں” روحی“ اپنی ناکام محبت کو یاد کرکے اس کا افسانہ سنا تی ہے۔
زبان واسلوب کا انتخاب بھی حجاب نے موضوع کی مناسبت سے کیا ہے۔ حسن وعشق چوں کہ ان کا موضوع تھا اس لئے ان کی زبان نہایت لطیف وشیریں اور اسلوب شاعرانہ ہے۔ جہاں تک مکالموں کا تعلق ہے وہ نہایت ہی دلچسپ اور بر محل ہو تے ہیں۔جوکہانی کے ارتقامیں معاون ثابت ہو تے ہیں اور ساتھ ہی کردار وں کے مزاج او رکیفیات کی ترجمانی کر تے ہیں۔
تجزیۂ نفسی کی دلدادہ حجاب نے رومانی ناولوں کے علاوہ کئی نفسیا تی مضامین اور ناول بھی لکھے جو رسالہ ساقی ”میں شائع ہو ا کر تے تھے۔”اندھیرا خوب “ان کا مشہور نفسیاتی ناول ماناجاتا ہے اس کے علاوہ تہذیب نسواں میں” لیل ونہار “ کےعنوان سے انہوں نے روزنامچے بھی لکھے جوان کی ذاتی زندگی کی ترجمانی کرتے تھے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
”شام کو گھر پر رہی اور آسمان کو تکتی رہی، رات کو کھانے کے بعد سا ڑھے نو بجے ”ت“ اور مَیں گورنمنٹ کالج کے ڈرامہ میں چلے گئے ۔ یاسمین نے پہلی دفعہ اسٹیج دیکھا اورخوش ہوئی“….
اپنی ذاتی زندگی میں بے نیاز رہنے والی حجاب کسی اور دنیا کی مخلوق لگتی تھیں۔ ان کے جینے کا انداز اور طرزِ گفتگو وہی تھا جواُن کے افسانوں میں نظرآتا تھا ۔وہ اپنے افسانوں کا خود بھی ایک پیکر تھیں ۔ان کی مختصر دنیا میں صرف تین افراد تھے وہ ،ان کی بیٹی یاسمین،اوران کے رفیق حیات اورساتھ ہی کئی درجن بلیاں ،طوطےوغیرہ بھی ان کے عجائب خانہ کا حصّہ تھے۔
حجاب کو ہو ابازی کابھی شوق تھا۔ وہ ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون ہوا بازتھیں۔ انہوں نے1936ءمیں نارون لاہور فلائنگ کلب سے پائلٹ کا لائیسنس حاصل کیا تھا۔اپنے آخری ایام میں وہ ادبی دنیا سے علاحد گی اختیارکر کے اپنی فیملی کے ساتھ ایک پُرسکون زندگی بسر کر نے لگیں۔ 1999ءکووہ اس دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئی اورلاہور میں مدفون ہوئیں۔
اُردو ادب میں انہیں ایک منفرد مقام حاصل ہے ان کی کئی تخلیقات کو شاہکار مانا جاتا ہے مگر جن مطبوعات کوغیر معمولی شہرت نصیب ہوئیں ان میں” لاش“، ”صنوبر کے سائے“، ” میری ناتمام محبت “، ”ظالم محبت “، ” الیاس کی موت “، ” موت کا راگ“، ”آپ بیتی۔تصویر بتاں“ وغیرہ شامل ہیں۔(حجاب امتیاز علی کا یہ تفصیلی تعارف اسما ارم کا تحریر کردہ ہے)