Taraqqipasand Shairi Khalilurrahman Azmi ki Nazar Mein

Articles

ترقی پسند شاعر ی — خلیل الرحمن اعظمی کی نظر میں

پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی

ہماری ادبی تاریخ کے معدودے چند اہلِ قلم، جنھوں نے بیک وقت تنقید اور شاعری دونوں میں اپنی صلابتِ فکر کے جوہر دکھائے، خلیل الرحمن اعظمی (1978-1927) اُن میں سے ایک ہیں۔ خلیل صاحب نے چونکہ بہت تھوڑی عمر پائی اور صرف 51 برس میں راہیِ ملک عدم ہوگئے، اس لیے انھوں نے شاعری اور تنقید دونوں میدانوں میں کچھ بہت وافر سرمایہ نہیں چھوڑا، تاہم اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حوالوں سے ان کے جس قدر بھی اکتسابات ہیں، ان کی نمایاں ادبی حیثیت اور قدر و قیمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک اعلیٰ درجہ کے تخلیق کار ہونے کے لحاظ سے خلیل صاحب کو یقینا یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ نسبتاً زیادہ گہری بصیرت اور ذہنی ہمدردی کے ساتھ تخلیقی متون کی تعیین قدر کرسکتے تھے، جس کا انھوں نے صحیح معنوں میں اپنے تنقیدی مطالعات میں ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔
خلیل صاحب کی زندگی کے نشیب و فراز پر جن کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ ملکی آزادی سے قبل 1945 میں تقریباً 18برس کی عمر میں ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے اور علی گڑھ میں تعلیم کے دوران بحیثیتِ سکریٹری بڑی سرگرمی کے ساتھ ترقی پسند فکر و فلسفہ کی ترویج و اشاعت میں منہمک تھے۔ اِس جرم کی پاداش میں انھیں قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔ 1947 کے فرقہ وارانہ ماحول کے دوران دہلی سے علی گڑھ کے سفر میں چلتی ٹرین سے پھینکے بھی گئے، تاہم وہ انسانیت کی سربلندی اور نجات کے لیے اپنے مشن اور ذہن و قلم سے جہاد کے فرض سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ البتہ ترقی پسند تحریک چونکہ بنیادی طور پر اپنا ایک سماجی نظریہ، سیاسی کردار اور انقلابی منشور رکھتی تھی، شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ وغیرہ اس کی محض ذیلی و ضمنی شاخیں تھیں، جن کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اشتراکی سیاست، معیشت اور قانون کی گاڑی کو ایک خاص سمت اور ڈھرے پر چلانے میں معاونت کرنی تھی۔ ان کی اپنی کوئی خودمکتفی آزادانہ حیثیت ہرگز نہ تھی۔خلیلؔ صاحب جو ایک مفلوک الحال زمیندارانہ مذہبی گھرانے کے فرد تھے، طبعاً انسانی شرافت، رواداری، عدل و انصاف اور خدمتِ خلق کی اعلیٰ اقدار کے دلدادہ تھے، ترقی پسندی کی انسانی فلاح اور مساوات پر مبنی فلسفیانہ تعبیر سے متفق ہونے کے باوجود اس کی بڑھتی ہوئی ادعائیت، مذہبی انداز کی جکڑبندی اور Regimentation سے بتدریج دل برداشتہ، اور بے زار ہوتے چلے گئے اور بالآخر 1950ء کے قریب جب تحریک اپنے عروج پر تھی، نفع و ضرر کی پروا کیے بغیر اس سے لاتعلق ہوگئے۔
خلیل صاحب جنھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک سے گہری وابستگی کے ساتھ برسوں اس کی خدمت کی اور ذہنی و جسمانی شداید سے بھی گزرے، اس سے علاحدگی کے اسباب پر کبھی بہت تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی، نہ اس فیصلے کے لیے کسی کو موردِ الزام ٹھہرایا۔
بہت بعد میں ایک عمومی بیان کی حد تک اختصار کے ساتھ، اظہارِ خیال بھی کیا تو صرف اتنا کہا کہ:
’’ترقی پسندی ایک فلسفۂ حیات کے طور پر تو شاید اب بھی بعض لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہو، لیکن طے شدہ منصوبوں اور پروگراموں کا باجماعت ادب، اب اپنی ساکھ اِس قدر کھوچکا ہے کہ اس پر اعتبار کرنے اور ایمان لانے والے ابھی بہت دنوں تک ہمارے یہاں پیدا نہ ہوسکیں گے۔‘‘
ترقی پسند تحریک سے علاحدگی کے چند برس بعد جب وہ پی ایچ ڈی میں داخل ہوئے تو انھوں نے اپنے مقالے کا موضوع— ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘ منتخب کیا، جو پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ جس پر انھیں 1957ء میں ڈگری تفویض ہوئی۔ یہ مقالہ کئی برس بعد 1973ء میں پہلی بار علی گڑھ سے شائع ہوا، جس کا ادبی حلقہ میں پہلے بھی کافی ذکر تھا اور اب تک کسی نہ کسی طرح اس کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ عزیز احمد اور علی سردار جعفری کی کتابیں اِس موضوع پر خلیل صاحب سے پہلے شائع ہوچکی تھیں۔ خلیل صاحب کے اِس علمی و تحقیقی کارنامہ کو متوازن، تنقید کی بہترین مثال تصور کیا جاتا ہے۔
بقول خلیل ؔصاحب انھوں نے اپنی اِس کتاب میں مجموعی طور پر ترقی پسند ادب کا معروضی objective محاکمہ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں دیگر اصناف کے ساتھ شاعری بھی شامل ہے۔ انھوں نے تقریباً دو۲ درجن شعرا کے کارناموں کا جائزہ پیش کیا ہے، جن میں سے چند کے نام اس طرح ہیں: اخترؔانصاری، اسرارالحق مجازؔ، معین احسن جذبیؔ، فراقؔ گورکھپوری، فیض احمد فیضؔ، مخدومؔ محی الدین، علی سردار جعفریؔ، کیفی ؔاعظمی، جاں نثار اخترؔ، ساحر لدھیانوی، مجروحؔ سلطان پوری، اختر ؔالایمان، احمدؔندیم قاسمی، شادؔ عارفی اور منیبؔ الرحمن وغیرہ۔

یہ مضمون آپ ـ’’ اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ پر پڑھ رہے ہیں۔

یقینا یہ چند شعراوہ ہیں جن میں سے فراقؔ اور اخترالایمان کو اگر مستثنیٰ بھی کردیا جائے تو بقیہ تمام کی شناخت، اعتبار اور امتیاز ترقی پسند تحریک کا ہی رہینِ منت رہا ہے۔ اس حلقہ میں اُن کے کارناموں کی نہ صرف خوب خوب داد دی گئی بلکہ ان میں سے بعض کی عالمی شہرت اور مقبولیت کا سبب بھی تحریک ہی رہے۔
خلیلؔ صاحب کے تنقیدی موقف کی ایک اہم خوبی جو ان کا خصوصی امتیاز کہی جاسکتی ہے اور جس کا اظہار موجودہ تنقیدی محاکموں میں بھی ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ جدیدیت کے ہمنوا ہونے اور ترقی پسندی سے یکسر مختلف نقطۂ نظر کی حمایت کرنے کے باوجود جیسا کہ انھوں نے جدیدیت سے وابستہ طریقۂ نقد کے ضمن میں، اظہارِ خیال کرتے ہوئے، وضاحت کی ہے کہ:
’’نیا ادب، مواد اور ہیئت اور جماعت، سیاسی اور غیرسیاسی مسائل کی دوئی، کے بجائے ان کی وحدت پر زور دیتا ہے اورزندگی کی رنگارنگی اور پیچیدگی کو سادہ مفروضوں اور بنے بنائے فارمولوں کی مدد سے میکانکی طور پر حل کرنے کے بجائے آزاد تحقیق کے ذریعہ سمجھنا چاہتا ہے۔ وہ نظریے اور عقیدہ Dogma سے دست بردار ہوکر سائنسی دور کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انفرادی خلوص کو ضروری سمجھتا ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
’’تخلیقی عمل، ادیب کی شخصیت، افتاد طبع، زندگی کے محسوسات و تجربات کی نوعیت اور اس کے انسانی و سماجی تعلقات، ایک پیچ در پیچ سلسلہ کا نام ہے۔ ان مراحل سے فطری طور پر گزرنے کے بعد ہی نظم یا ادب پارہ اپنے اندر وہ کیفیت پیدا کرسکتا ہے جو اسے جمالیاتی قدر اور فنی حسن عطا کرتی ہے۔‘‘
خلیلؔ صاحب نے اپنے تنقیدی محاکموں میں ترقی پسند سرمایۂ سخن کا جائزہ لیتے ہوئے کسی خارجی اصول اور فنی و لسانی فارمولے کو نافذ کرنے کے بجائے متعلقہ شعری کائنات سے ہی رہنما اصول اخذ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح کسی کارنامہ کے حسن و قبح کی نشاندہی کی ہے۔
خلیل صاحب نے اپنے الگ الگ مضامین گرچہ کافی مبسوط طور پر زیادہ مثالوں کے ساتھ بھرپور انداز سے سپرد قلم کیے ہیں۔ تاہم اپنی کتاب— ’ترقی پسند ادبی تحریک‘ جس میں بیک وقت بہت سے شعرا کے خصوصیاتِ کلام پر رائے زنی کرنے کی مجبوری تھی، قدرے اختصار سے کام لیا ہے۔ لیکن ضبط و توازن سے کہیں دست بردار نہیں ہوئے ہیں۔
معروف شاعر اختر انصاری کی مزاجی کیفیت اور انفرادی تخلیقی سروکار پرروشنی ڈالتے ہوئے، فرماتے ہیں کہ:
’’اختر انصاری تغزل کے تمام آداب کو برتتے ہوئے، روایتی غزل گوئی کی یکسانیت اور باسی پن کے شکار نہیں ہوئے۔ انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی بنیاد خود ان کے اپنے محسوسات ہیں، اس لیے ان میں تاثیر اور دلکشی ہے۔
رومان سے ان کی ہجرت عام نوجوان ترقی پسند شعرا کی طرح انقلاب اور بغاوت کی طرف نہیں ہوئی۔ گھن گرج اوربلند آہنگی سے، ان کے مزاج کو مناسبت نہیں، نظم گوئی میں ان کا انداز سادہ اور سلیس ہے، اخترانصاری نے قطعہ نگاری کو ایک مستقل فن کی حیثیت دی۔ انھیں قطعہ کے فن پر پوری قدرت ہے اور ہر قطعہ تکمیل کا احساس دلاتا ہے ؎
میں نے اک بار کہا، تم سے محبت ہے مجھے
تم نے شرماتے ہوئے، مجھ کو جواب اس کا دیا
آہ لیکن دل ناشاد (یہ غارت ہوجائے)
اِس قدر زور سے دھڑکا، کہ میں کچھ سن نہ سکا
خلیل صاحب کا کمال دیکھیے کہ اِس مختصر سی تحریر کے ذریعہ انھوں نے اخترؔانصاری کے فکر و فن کے جملہ عناصر کی اِس انداز سے نشاندہی کردی کہ اب ان کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ زیادہ باقی نہیں رہا۔
اسرارالحق مجازؔ جنھوں نے اپنی ہلکی پھلکی لیکن خوبصورت رومانی شاعری کے ذریعہ یوروپی رومانی شعرا کی یاد تازہ کردی، ترقی پسندوں کو ان کی شاعری میں سماجی وابستگی اور سیاسی شعور کی کارفرمائی نظر آئی اور اسی انداز سے ان کی تعبیر و تشریح کرتے رہے۔ خلیل صاحب کا کہنا ہے کہ:
’’مجاز کے ذہن کی تعمیر چونکہ رومانیت کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ اس لیے یہ ذہن آگے چل کر زندگی کے سنگین حقائق سے عہدہ برآ نہ ہوسکا اور اس کی رومانیت زمانے کے طوفان سے ایسی ٹکرائی کہ اس کی شخصیت پاش پاش ہوگئی۔ نظم- آوارہؔ میں جو رومانی کرب، جھنجھلاہٹ اور وحشیانہ بغاوت ہے، وہ ایک بجھے ہوئے چراغ کا آخری بھڑکتا ہوا شعلہ ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں کہ:
’’مجازؔ کے کلام کو فکر و فن کے اعلیٰ معیار پر جانچا جائے تو شاید اس میں وہ گہرائی اور تفکر نہ ملے جو ادب میں عظمت و بلندی کا ضامن ہوتا ہے، تاہم ان کے کلام کی غنائیت، شادابی اور شگفتگی، ہمارے حواس کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتی رہے گی۔‘‘
معین احسن جذبیؔ کے شاعرانہ مقام و مرتبہ کا تعین کرتے ہوئے، خلیل صاحبؔ فرماتے ہیں:
’’جذبیؔ کی شاعری کا آغاز غزل سے ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور کے نوجوان شعرا میں جذبیؔ ہی ایک ایسے شاعر تھے جن کو غزل کے فن پر قابو تھا، اس کی وجہ ان کی شخصیت کا گداز اور آہستہ آہستہ آنچ دینے والا انداز ہے۔ جذبیؔ نے صرف انھیں تجربات کو اپنی تخلیق کا موضوع بنایا جو ان کی شخصیت میں حل ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے دور عروج میں بہت سے اہم سیاسی و سماجی مسائل پر انھوں نے لکھنے سے انکار کردیا، کیونکہ انھیں احساس تھا کہ ان موضوعات پر ان کی تخلیقی گرفت ایسی نہیں ہے، جس سے کوئی قابلِ قدر فن پارہ وجود میں آسکے۔‘‘
خلیل صاحب مزید فرماتے ہیں کہ:
’’جذبیؔ کی اکثر نظمیں احساس کی شدت اور اندازِ بیان کی نشتریت کی وجہ سے ترقی پسند شاعری کے سرمائے میں مستقل ادبی قدر رکھتی ہیں۔ جذبیؔ کے تجربات میں وسعت نہ ہو لیکن گہرائی ہے۔ انھوں نے زندگی کے مختلف مظاہر اور سماجی زندگی کی متنوع حقیقتوں تک رسائی حاصل نہیں کی ہے لیکن ان کا کارنامہ یہ ہے کہ تجربات کی جو متاع، ان کے ہاتھ لگی ہے، اسے انھوں نے سلیقہ کے ساتھ شعر میں ڈھالا ہے۔‘‘
فراق ؔگورکھپوری کی شاعری اردو غزل کی نیم کلاسیکی روایت کے تناظر میں ایک قطعاً نئی آواز تھی، ان کی شعری کائنات میں سماج و سیاست کے ارتعاشات یقینا محسوس کیے جاسکتے ہیں، لیکن ان کو صحیح معنوں میں ترقی پسند شاعر نہیں کہا جاسکتا۔فراقؔ کے اکتسابات پر روشنی ڈالتے ہوئے، خلیل صاحب رقمطراز ہیں:
’’فراقؔ ایک غیرسیاسی شاعر ہیں۔ ان کے تجربات کا محور عام طور پر عشق و محبت، فطرت، جمالیات اور تمدنی مسائل کے دائرے میں ہے، اسی لیے بعض حضرات جو ترقی پسندی کو خالص سیاسی اور وقتی مسائل تک محدود سمجھتے ہیں، وہ فراقؔ کو یا تو ترقی پسند ہی نہیں سمجھتے، یا ان کی شاعری کے بعض عناصر کو علاحدہ کرکے دیکھتے ہیں اور صرف ان کی بنا پر حکم لگانے لگتے ہیں۔ فراقؔ نے بعض سیاسی و سماجی مسائل پر بھی لکھنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے ’دھرتی کی کروٹ‘، ’شاہنامہؔ آدم‘، ’ڈالردیس‘ اور ’امریکی بنجارہ نامہ‘ وغیرہ لیکن انھیں پورے طور پر کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔‘‘
فیض احمد فیضؔ جنھیں رومان سے خصوصی رغبت ہے لیکن جو مجازؔ کے مقابلے میں زیادہ گہرے تفکر اور تخیل کی رہنمائی میں زندگی کے طلسم تماشے کو دیکھنے دکھانے کا ہنر جانتے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ عملی طور پر بھی تمام زندگی ترقی پسند تحریک کی خدمت کے لیے وقف رہے، انھیں خالصتاً تحریکی معنوں میں حقیقت نگار شاعر نہیں کہا جاسکتا۔ ان کی ترقی پسندی اور شاعرانہ مقام و مرتبہ کے ضمن میں خلیل صاحب فرماتے ہیں:
’’فیضؔ کی شاعرانہ شخصیت کی نشو و نما مناسب طور پر ہوئی ہے اور رومان سے حقیقت کی طرف ہجرت کرکے انھوں نے اپنی آواز کا رس اور اس کی شیرینی زائل نہیں کی۔فیضؔ بلند بانگ شاعری کے کچھ زیادہ قائل نہیں، وہ انقلابی اور سیاسی موضوعات کو کھلے ڈلے طریقہ پر، خطیبانہ اور واعظانہ انداز میں نظم کردینے، یا بندھے ٹکے نعروں کو اوڑھنا بچھونا بنانے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھنے، ان کا خیال ہے کہ ادب برائے ادب کی طرح ادب برائے انقلاب بھی ایک گمراہ کن رجحان ہے۔‘‘
مخدومؔ محی الدین جو صحیح معنوں میں تحریک کے لیے وجہ افتخار تھے، جن کا ایک ایک لمحہ اس کی کامیابی کے لیے وقف تھا، بنیادی طور پر وہ بھی اوسط درجہ کے شاعر رومان تھے اور اسی روزن سے سماجی انقلاب کی سرخ آندھیوں کا مشاہدہ کرنا انھیں پسند تھا۔ خلیل صاحب مخدومؔ کی شعری انفرادیت کا احاطہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’مخدومؔ نے جو عشقیہ اور رومانی نظمیں لکھیں، ان میں ایک عجب تازگی اور شادابی کا احساس ہوتا ہے۔ ان میں جمالیاتی کیف اور اندازِ بیان کی ندرت ہے ؎
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے، آپ آتے رہے، جاتے رہے
یہ سپردگی اور سرمستی مخدومؔ کی انقلابی نظموں میں بھی ملتی ہے۔ وہ انقلاب کا انتظار بھی اس طرح کرتے ہیں جیسے کوئی کسی خوش جمال محبوب کا انتظار کرتا ہے ؎
اے جانِ نغمہ، جہاں سوگوار کب سے ہے
ترے لیے، یہ زمیں، بے قرار، کب سے ہے
ہجوم شوق، سرِ رہگزار، کب سے ہے
گزربھی جا، کہ ترا انتظار کب سے ہے
ان کی سب سے کامیاب نظم— ’’چارہ گر‘‘ ہے۔
علی سردارؔ جعفری جو سجادؔ ظہیر کے بعد ترقی پسند تحریک کے سب سے اہم رہنما اور روحِ رواں تھے، انھوں نے اپنی تمام تخلیقی صلاحیت، شاعری میں اشتہاری مواد کے لیے وقف کردی، تحریک کو ممکن ہے اس سے کچھ فائدہ ہوا ہو لیکن اردو شاعری ان کی خدمات سے بہت کم مستفید ہوسکی۔ خلیل ؔصاحب نے ان کی خصوصیات کلام پر صحیح اظہار خیال کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’پریمؔ چند کی نصیحت پر سب سے پہلے سردار جعفری نے عمل کیا۔ انھوں نے اپنے مواد عام طور پر ’قومی جنگ‘ میں شائع ہونے والی خبروں، اداریوں، سماجی جماعتوں کی تقریروں، قراردادوں، عوامی لیڈروں کے بیانات اور ہدایات وغیرہ سے حاصل کیے، یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں وجدان اور تخلیقی عناصر کی کمی شروع ہی سے کھٹکتی رہی ہے ؎
دوستوں کے لیے، الفت کی زباں ہے لینن
دشمنوں کے لیے، شمشیر و سناں ہے لینن
رگِ مزدور میں خوں، بن کے رواں ہے لینن
دل پہ سرمائے کے اک سنگِ گراں ہے لینن
ہٹلریّت کے نشاں، جس سے جھکے جاتے ہیں
حرّیت کا وہ سرفراز، نشاں ہے لینن
اِس طرح کی نظموں سے شاعر کی ذات، اپج یا اس کی تخلیقی صلاحیت کا پتہ نہیں چلتا۔ یہ وہی انداز ہے جس کی پیروی احسانؔ دانش اور جوشؔ کے بعض معاصرین بھی کررہے تھے۔‘‘ جعفری کی طویل نظم ’نئی دنیا کو سلام‘ میں وہ حصہ جو پابند نظم میں ہے۔ اس میں بڑی خوبصورتی ہے لیکن جہاں آزاد نظم کی باگ سنبھالی ہے، یہ رہوار ان کے قابو سے نکل گیا ہے— ’اودھ ؔکی خاکِ حسیں‘ اور نیندؔ، میں ذاتی زندگی کے بعض تجربے آگئے ہیں، اس لیے ان کے استعارے جیتے جاگتے ہیں۔

یہ مضمون آپ ـ’’ اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ پر پڑھ رہے ہیں۔

کیفی ؔاعظمی کی تمام تر شناخت ترقی پسند تحریک سے تھی۔ جو بڑی سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ تحریک کے ایجنڈے کے مطابق شاعری کرتے رہے، خلیل صاحب ان کے کارناموں کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کیفی اعظمی ایک شاعرانہ شخصیت لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ابتدائی نظمیں لطیف کیفیتو ںاور دل کی دھڑکنوں سے معمور ہیں، بعد میں ہنگامی واقعات پر فوری نظمیں لکھنے کی طرف مائل ہوگئے، تاہم میرانیسؔ کے اثر سے ان کے ہاں فصاحت اور روانی باقی رہتی ہے۔
منجمد خون میں شعلے سے تپاں ہیں دیکھو
افقِ دار سے لاشیں، نگراںہیں، دیکھو
وہ زیادہ تر فرمائش پر نظمیں لکھنے لگے تھے، جس کے سبب وقتی شاعری زیادہ ہوئی، لیکن جلد ہی انھیں اپنی ہنگامی شاعری کا احساس ہوگیا، اور کچھ عرصہ کے لیے خاموش ہوگئے۔ بہت عرصہ بعد ان کی ایک رومانی نظم — ’بوسہ‘ شائع ہوئی جس میں کیفیؔ نے شعریت کی روح کو چھو لیا ہے ؎
جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو
سو چراغ اندھیرے میں، جھلملانے لگتے ہیں
خشک خشک ہونٹوں میں جیسے دل کھینچ آتا ہے
دل میں کتنے آئینے تھرتھرانے لگتے ہیں
جاں ؔنثار اختربھی ترقی پسند ہراول دستے میں نہ صرف شامل بلکہ اس کے اہم نمائندہ ہیں، ان کا سرمایۂ شعری بہت مختصر ہے، خلیلؔ صاحب فرماتے ہیں:
’’جاں نثارؔ اختر رومان سے انقلاب کی طرف آئے۔ وہ ایک انتخابی ذہن رکھتے ہیں، خود اپنا راستہ نکالنے کے بجائے دوسروں کے بنائے ہوئے راستوں پر فوراً چل پڑتے ہیں، چنانچہ انھوں نے اکثر اقبالؔ، جوشؔ، فیضؔ، سردار اور جذبیؔ کے بیان اور خیال اخذ کیے ہیں— البتہ ان کی دو نظمیں— ’خاکِ دل‘ اور — ’خاموش آواز‘ ان کی انفرادیت کی نشانِ راہ ہیں۔‘‘
ساحرؔ لدھیانوی کی شہرت تو فلمی نغمہ نگاری سے تھی لیکن ترقی پسند تحریک کے سبب ان کو خاصی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی، ان کے امتیازات کو نشان زد کرتے ہوئے، خلیلؔ صاحب فرماتے ہیں:
’’اُن کی ابتدائی نظموں میں ایک ناپختہ ذہن کے نقوش ملتے ہیں، تاہم ان کے مزاج میں شاعرانہ بے ساختگی اور تغزل کے عناصر شروع سے دکھائی دیتے ہیں ؎
تجھ کو خبر نہیں، مگر اک سادہ لوح کو
برباد کردیا ترے دو دن کے پیار نے
میں اور تم سے ترکِ محبت کی آرزو
دیوانہ کردیا ہے غمِ روزگار نے
پھر نہ کیجے، مری گستاخ نگاہی کا گلہ
دیکھیے آپ نے، پھر، پیار سے دیکھا مجھ کو
ترقی پسند شاعروں میں ساحرؔ کا مجموعہ کلام سب سے زیادہ پڑھا گیا ہے۔ اس کی وہ یہ ے کہ ساحرؔ نہ تو فیضؔ کی طرح ذہین طبقہ کے شاعر ہیں اور نہ بہت سے دوسروں کی طرح مزدوروں کے جلسہ کے شاعر۔ ان کی اپیل متوسط طبقہ کے عام تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ہے۔ ان کی نظم — ’پرچھائیاں‘ امن کے موضوع پر بہت کامیاب ہے۔‘‘
مجروحؔ سلطان پوری فلم اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے باوجود غزل کے منفرد شاعر ہیں، جن کے ہاں روایت کا گہرا شعور بھی ہے اور حال کی آگہی بھی۔ خلیل صاحب ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’مجروحؔ کی شخصیت کی نشو و نما جگر کے زیراثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کو غزل کے فن پر خاصا عبور ہے۔ سیاسی موضوعات پر ان کی غزلوں میں جو آبداری ہے، وہ معدودے چند شعراکو نصیب ہے:
دیکھ زنداں سے پرے، رنگِ چمن، جوشِ بہار
رقص کرنا ہے، تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
——
شبِ ظلم، نرغۂ راہزن سے پکارتا ہے کوئی مجھے
میں فرازِ دار سے دیکھ لوں، کہیں کاروان سحر نہ ہو
——
مجھے سہل ہوگئیں منزلیں، وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ، ہاتھ میں آگیا، کہ چراغ راہ میں جل گئے
جوشِ وفاداری میں مجروحؔ نے اپنی روش کے خلاف مزدور اور کسان وغیرہ کو بھی خراجِ پیش کیا لیکن بہت جلد سنبھل گئے، تاہم وہ سیاسی موضوعات کے تنگنائے سے باہر نہیں نکلتے۔ متنوع حقیقتوں کے برخلاف ایک ہی قسم کی کیفیتوں سے سابقہ پڑتا ہے۔‘‘
اخترالایمانؔ کی کوششوں سے اردو نظم کو ایک خاص وقار اور اعتبار حاصل ہوا، وہ ایک غیرمعمولی صلاحیت کے حامل، اعلیٰ پائے کے تخلیق کار ہیں، جنھوں نے فلمی زندگی کی سطحیت اور ترقی پسندی کی عوامی رغبتوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا، گہرے تفکر، خلاقیت اور مخصوص شوریدہ سری کے اوصاف سے مزین اُن کی نظمیں، سرمایۂ شعری میں گرانقدر اضافہ ہیں۔ خلیل صاحب اخترالایمان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جدید شاعری میں اخترالایمان ایک نئے لہجے کے ساتھ آئے۔ ان کے فنی خلوص نے آنی و فانی موضوعات سے بچ کر زندگی کی تہوں میں جانے اور اس کا تجزیہ کرنے پر مائل کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں تفکر کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ ان کا اسلوب جدید ہیئت کا پابند ہے۔ ان کا علامتی اسلوب اور موضوعات کی طرف بالواسطہ رویہ، وقتی مسائل کے بجائے بنیادی حقیقتوں کا عکاس ہے اور اپنے اندر بصیرت اور تہہ داری رکھتا ہے۔ ان کی ہر نظم ایک تصویر بن جاتی ہے جس میں خطوط اور رنگوں کا تناسب اور توازن ہے، ترقی پسند تحریک کا بحرانی دور گزر جانے کے بعد ان کی شاعری کی طرف زیادہ توجہ کی گئی۔
شاد عارفی جو سوداؔ، نظیرؔ اور انشااللہ خاں انشاؔ کے قبیل کے شاعر ہیں، اپنے ہجو ملیح اور طنزیہ اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں، خلیل صاحب نے ان کی انفرادیت کے نمایاں خد و خال پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:
’’شادؔ کی نظمیں اپنی تکنیک، اسلوب اور طرزِ احساس کے اعتبار سے اردو شاعری میں ایک نئے عنوان کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کی نظموں کا موضوع سماجی اور معاشرتی مسائل ہیں۔ انھوں نے ترقی پسند شاعروں کی طرح اپنی شاعری کا دائرہ محض سیاست تک محدود نہیں رکھا، بلکہ زمانہ اور زندگی کو قریب سے دیکھنے اور برتنے کی کوشش کی۔ بہت سے سیاسی معاملات میں ترقی پسند مصنّفین کی پالیسی سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو ترقی پسند سمجھا اور اپنی شاعری کا رشتہ آنے والے زمانے سے جوڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے زندگی میں جو دُکھ جھیلے ہیں، ان کے بیان میں ایک عمومیت اور ہمہ گیری پیدا ہوگئی ہے، ان معنو ںمیں شادؔ کو موجودہ دور کا عوامی شاعر کہا جاسکتا ہے۔‘‘
منیب الرحمنؔ بیشتر دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود اپنی تخلیقی تب و تاب اور کائناتی صدمات سے شرابور بے حد لطیف نظموں کے سبب ادبی حلقے کے حافظے سے کبھی غائب نہیں ہوئے۔ خلیل صاحب نے منیب الرحمن کی مخصوص انفرادیت، تخلیقی تگ و تاز اور انسانی دردمندی پر بڑی خوبی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، فرماتے ہیں:
’’(جنگ عظیم دوم کے دوران) منیب الرحمن جب انگلینڈ گئے تو جنگ کی تباہ کاری اور ہولناکی کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، جس نے ان کی ذہنی حالت یکسر بدل ڈالی، ان کی سب سے پہلی نظم کا عنوان ہی’’ جنگ‘‘ ہے ؎
جنگ قابیل کے بیٹوں کا بہیمانہ جنوں
آخری لرزشیں، گرتے ہوئے، ایوانوں میں
اسلحہ جات کا، طاقت کا، حکومت کا فسوں
شہپرِ موت کی تاریک فضا میں لرزش
خوں امنڈتا ہوا آنکھوں میں، دہن شعلہ فشاں
شہر کے کوچہ و بازار میں پیروں کی دھمک
سینہ تانے ہوئے کہسار کے مانند جواں
منیب الرحمن کی اکثر نظموں پر ترقی پسند نقطۂ نظر کی چھاپ بہت واضح ہے۔— انھوں نے کلاسیکی صنف شہر آشوب، کو بھی پیرایۂ بیان کے طور پر استعمال کیا جس میں طنز کے بے شمار تیر و نشترہیں۔ یہ شہر آشوب بہت سے ترقی پسند شعراکے نام نہاد سماجی و سیاسی شاعری پر بھی بھاری ہیں۔ جن میں کسی قسم کی چیخ پکار، گھن گرج، اور نعرۂ انقلاب نہیں ہے، لیکن پھر بھی دلوں پر اثر کرتے ہیں۔ منیب الرحمن ان ترقی پسند شاعروں میں ہیں جنھوں نے اس نظریے سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن اس تحریک کی بیشتر خامیوں سے خود کو محفوظ رکھا ہے۔ ان کی شاعری اپنے اندر بڑے امکانات رکھتی ہے۔‘‘
ترقی پسند ادبی تحریک سے کسی نہ کسی طرح وابستہ مذکورہ شعرا کی شعری کائنات کے حوالے سے کسی قدر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد خلیل صاحب نے بحیثیتِ مجموعی بھی اس خاص نقطۂ نظر سے شعر و سخن کی سرپرستی اور حمایت میں تحریک کے تاریخی کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ تحریک کے سماجی ایجنڈے اور سیاسی منشور کی مجبوری کے ماتحت بعض بندشوں اور حیدود و قیود کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جن کے سبب اس قافلہ سے وابستہ اکثر شعراکے تخلیقی عزایم سرد ہوگئے اور سطحیت ہی ان کا مقدر بن گئی۔ اس ضمن میں خلیل صاحب کا کہنا ہے کہ:
’’تقسیم ہند اور فرقہ وارانہ فسادات کا نفسیاتی اثر جس طور پر ترقی پسند شعرا کے ذہنوں پر پڑا، اس نے ایسی شاعری کے لیے زمین ہموار کی جس میں جذبات کی تہذیب و تحلیل نہیں ہوتی، بلکہ فوری تاثر اور ردِّعمل ہی اس کی سب سے اہم بنیاد ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بعض سنجیدہ شعرا نے اس موضوع پر بھی اچھی نظمیں لکھیں اور وہ نظمیں جو بہت اعلیٰ درجہ کی نہیں ہیں، ان میں بھی بہرحال خلوص اور انسان دوستی کی جذبہ ہے۔‘‘
البتہ خلیل صاحب کا کہنا ہے کہ تحریک کی ادبی ساکھ کو جس چیز نے سب سے زیادہ صدمہ پہنچایا وہ 1949ء میں منعقدہ بھیمڑی کانفرنس کا منشور تھا، جس نے تحریک کو خالصتاً سیاسی تحریک میں منتقل کردیا۔ ذاتی غم، انفرادی تجربے اور احساس کی مصوری کو رجعت پسندی قرار دیا گیا۔ آزادی اور انقلاب کی جدوجہد میں بین الاقوامی سیاسی ورجحان کی حمایت، فن کی جمالیاتی اور دائمی اقدار کی نفی، پروپیگنڈہ کو ادب، رمزیت و اشاریت کو بورژوائی فکر کی زائیدہ زوال کی علامت قرار دیا گیا، جن پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں تخلیقی منظرنامہ پر چیخ و پکار، خطابت، تکرارِ خیال اور مصنوعی رجائیت کے دیکھتے دیکھتے بے شمار بادل منڈلانے لگے، تاہم خس و خاشاک کے اس انبارِ ناپیداکنار میں، چند استثنائی مثالیں بھی مل جاتی ہیں مثلاً غلام ربانی تاباںؔ اور سلیمان اریب وغیرہ جنھوں نے سیل میں بہنا پسند نہیں کیا۔
آزادی کے بعد ابھرنے والے بعض شعرا مثلاً بلراج کوملؔ، شہاب جعفریؔ، مظہرامامؔ، منظرسلیمؔ، عمیقؔ حنفی، وحیداخترؔ، حسن نعیمؔ اور شفیقؔ فاطمہ شعریٰ وغیرہ نے ترقی پسند منشور کو نظرانداز کرکے اپنی انفرادی ہستی اور تخلیقی فطانت کی رہنمائی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور آج شاید انھیں کی بدولت وقت کی طوفانی آندھیوں میں بھی شعر و سخن کی شمع روشن ہے۔
خلیل صاحب کا خیال ہے کہ ’’تحریک کے بحرانی دور سے نکلنے کے ساتھ ہی نسبتاًزیادہ متوازن نقطۂ نظر سامنے آیا ہے۔ جامد اور محدود تصورات کے بجائے، روایت کے صحت مند تصور کو سمجھنے اور نئے حالات سے خود کو منسلک کرنے کا جذبہ پیدا ہورہا ہے۔ اب اس بات کا احساس ہوچلا ہے کہ شاعری محض خیالات سے نہیں۔ احساس اور تجربے سے پیدا ہوتی ہے، غمِ ذات، غمِ جاناں اور غمِ دوراں کو انسانی تجربہ ایک رشتہ میں پروسکتا ہے۔ اب ترقی پسندی اور رجعت پرستی کے میکانکی خانے بنانے اور ان میں شاعر کو قید کرنے کی رسم بھی مٹتی جارہی ہے۔‘‘
میرا خیال ہے کہ خلیل صاحب غالباً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان جو آہنی دیوار اور خلیج عرصہ سے حائل تھی، اس میں اب شگاف پڑچکی ہے اور شاعری اپنے آفاقی مفہوم، جمالیاتی اقدار، اعلیٰ انسانی احساسات اور تخلیقی کردا رکے ساتھ گمنامی کے پردوں سے اب باہر آچکی ہے۔
خلیل الرحمن اعظمی کی معرکۃ الآرا تصنیف ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘ کے حوالے سے ترقی پسند شعری سرمائے کے اس مختصر سے جائزے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خلیل صاحب کا کوئی بھی بیان، کسی ذہنی اشتعال، انتقام یا ادعائیت کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ معروضی اور عقلی سطح پر اس سے بہتر کوئی دوسری تحریر اب تک سامنے نہیں آئی ہے، تو شاید غلط نہ ہوگا۔ وہ ترقی پسند نہ ہوکر بھی پورے شعری سرمائے پر کسی طے شدہ فارمولے یا منصوبے کے تحت خطِ تنسیخ کھینچ دینے کے بجائے، اعلیٰ، ادنیٰ تجربات میں فرق و تمیز کرنے کا ہنر جانتے ہیں، اور بڑے ہی مدلل، مخلصانہ اور معقول طریقہ سے اپنے نتائج فکر سامنے لاتے ہیں۔ گرچہ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے مولانا شبلی، رشید احمد صدیقی اور آل احمد سرورؔ کی قائم کردہ تنقیدی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اپنی تمام تر ذہانت طباعی اور انفرادیت کے باوجود تنقید کے نئے مغربی پیمانو ںکو برتنے اور شعری متن کے فنی و لسانی تجزیے کے بجائے روایتی تاثراتی طریقۂ نقد سے ہی سروکار رکھا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس طرزِ مطالعہ سے بھی جو نتائج برآمد کیے ہیں وہ بالعموم صحیح اور اطمینان بخش ہیں۔