Tare Wajood pa Jabtak na Hoo by Dr. Saleem Khan

Articles

ترے وجود پر جب تک نہ ہو نزول کتاب ۰۰۰۰

ڈاکٹر سلیم خان

علا مہ اقبال کے کچھ اشعار پڑھنے کے بعد نہ جانے کیوں ان کے الہامی ہونے کا گمان گذرتا ہے مثلاً جب وہ کہتے ہیں کہ ’’سنا ہے میں نے یہ قدسیوں سے‘‘ تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کوئی ہے جو ان کے کانوں میں کچھ بول رہا ہے اور جو کچھ وہ سن رہے ہیں ہم سے بول رہے ہیں ۔علامہ اقبال خود اپنے بارے میں فرمایا تھا ۔میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔ فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ہاں بعض مقاصد رکھتا ہوں جن کے بیان کیلئے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کرلیا ہے ۔ اس لئے ہمیں ان کی شاعری کو محض شاعری نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ وہ رازدروں کا خوبصورت اظہار ہے جس کا عالم الغیب نے انہیں محرم بنایا تھا اقبال اس رازکا پردہ کچھ اس طرح فاش کرتے ہیں کہ

میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ

کہ میں ہوں محرم ناز دورنِ مہ خانہ

اللہ بزرگ و برتر نے کائناتِ ہستی میں حضرتِ انسان کی تخلیق احسن تقویم پر کی اوردیگر مخلوقات کواس کے آگے مسخّر کردیا ۔گویا نباتات و جمادات سے لیکر چرند و پرند بلکہ ستارے اورسیارے ،سورج و چاند سبھی کو انسانوں کی خدمت پر معمور فرما دیا اور انسانوں کو ایک قلیل متاع حیات دے کر اس دنیا میں مختصر سی مدت کیلئے بھیج دیا نیزاس کے لئے مختلف حالات مقدر کر دئیے ۔ روز و شب کا نہایت انوکھانظام تشکیل فرماکراس کے بطن سے نت نئے حادثات رونما کرنے کا انتظام کیا جن سے انسان آئے دن دوچار ہوتا رہتا ہے ۔بقول اقبال

سلسلۂ روز و شب ، نقش گرِ حادثات

سلسلۂ روز و شب ، اصلِ حيات و ممات

انسانی زندگی کے اس سہانے سفر کو دلچسپ بنانے کی خاطر خالق کون ومکاں نے پیش آنے والے سارے مراحل کوطے فرما کر ان پرغیب کا پرجائے گادہ ڈال دیااور خود بھی عالمِ غیب چھپ گیا اور اپنی نشانیاں جابجابکھیر دیں جن کی مدد سے انسان ازخود اپنے مالک وآقا کی معرفت حاصل کرسکتاتھالیکن اس مہم میں آسانی کیلئے رحمٰن و رحیم نےانسانی نفس کو ہموار فرمایا اس کا تقویٰ اور فجور اس کے اندرالہام فرمادیا۔اس کو علم وعرفان کی نعمت سے سرفرازکیا اور اپنے بر گزیدہ پیغمبروں کا سلسلہ جاری فرماکر اپنے احسانات کا اتمام فرما دیا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا کھیل کیوں رچایا گیا؟اقبال اس کی دو وجوہات بیان فرماتے ہیں

سلسلۂ روز و شب ، تارِ حريرِ دو رنگ

جس سے بناتي ہے ذات اپني قبائے صفات

سلسلۂ روز و شب ، سازِ ازل کي فغاں

جس سے دکھاتی ہے ذات زير وبم ممکنات

اولاًدن اوررات کےان سیاہ و سفید دھاگوںسے انسان اپنی صفات کا لباس بنتا ہے۔اُسے آزادی ہے جیسا چاہے لباس زیب تن کر لے جو صفات چاہے اختیار کر لے۔اسی کے ساتھ ساتھ اس روز و شب کی کشمکش انسانوں کو اس کے اندر پوشیدہ قوت عمل سے بھی آگاہ کرتی ہے جن کی مدد سے انسان نا ممکن کو ممکن کے سانچے میں ڈھالتا ہے اور ثقافتی و سائنسی ارتقاء پررواں دواں ہے ۔اس مرحلہ میں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہےکہ آخر اس ارتقاء کی غرض و غایت کیا ہے؟

تجھ کو پرکھتا ہے يہ ، مجھ کو پرکھتا ہے يہ
سلسلۂ روز و شب ، صيرفي کائنات

اللہ رب العزت کا فرمان ہے ’ہم نے موت وحیات کو اس لئے تخلیق کیا تاکہ یہ دیکھیں تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہےـ ‘آزمائش کی خاطر یہ سب کیا گیا۔ انسانوں کو پرکھا جارہا تاکہ خود اسے اس بات کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جاسکے کہ وہ اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنانا چاہتا ہے یا جہنم رسید کرنا چاہتا ہے۔ ہادیٔ برحق رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے ،ہر روزسارے نفوس اپنے آپ کو اللہ کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں اور پھر اس سودے کے عوض کوئی اپنے آپ کو جہنم کی آ گ سے بچا لیتا ہے تو کوئی اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا دیتا ہے۔گویا انسان اپنے نفس کو بیچ کر جو مہلتِ عمل حاصل کرتا وہی اس کی متاع حیات ہے ۔

تو ہو اگر کم عيار ، ميں ہوں اگر کم عيار

موت ہےتيري برأت، موت ہے ميري برأت

اس بیش بہا خزانے کی اگر وہ ناقدری کرتا ہے اور اسے ضائع کر دیتا ہے تو گویا اپنے آپ کو مٹا دیتا ہے اور اگر اس کا بیجا استعمال کرتا ہے تب تو گویا وہ اپنے آپ کو غضب کا مستحق بنا لیتا ہے۔انسانی زندگی کودینارودرہم میں نہیں ناپا جاتا اس کا سکہ رائج الوقت کچھ اور نہیں وقت ہے اسی اکائی میں اس کا حساب رکھا جاتا ہے اور اسی کسوٹی پر اسے پرکھا جاتا ہے کہ اس نے اپنے وقت کا استعمال کیسے کیا ۔اس صیرفیٔ کائنات پر اس کے فلاح و خسران کا دارومدار ہے ۔

آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر

کارِ جہاں بے ثبات ، کارِ جہاں بے ثبات!

انسانی زندگی کو عام طور پر ماضی ، حال اور مستقبل کے خانوں میں تقسیم کر کے دیکھا جاتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ان تینوں کی سرحدیں ایک دوسرے کے اندر اس طرح پیوست ہیں کہ ان کو جدا کرنا ایک امرِ محال ہے ۔انسان دو پہیوں کی سواری ہے اس کا اٹھنے والا قدم جب زندگی کے ایک پرانےلمحے کو ماضی کے نہاں خانے میں پھینک رہا ہوتاہے اسی وقت دوسرا قدم مستقبل کے خزانے سے ایک نیا لمحہ اچک رہا ہوتا ہے ۔گویا انسان بیک وقت ماضی اور مستقبل سے نبرد آزما ہوتا ہےاور اس کے درمیان اس کا حال نہ جانے کہاں غائب ہو جاتا ہے۔یہ سلسلہ ایک وقت خاص تک جاری رہتا ہے اور اسے اچانک پتہ چلتا ہےکہ اس کے مستقبل کا خزانہ خالی ہو چکا ہے اور ماضی کا گو شوارہ بند کیا جاچکا ہے ۔وہ خدا وہ ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر ایک مدت کا فیصلہ کیا ہے اور ایک مقررہ مدت اس کے پاس اور بھی ہے لیکن اس کے بعد بھی تم شک کرتے ہو ۔ (انعام۲)

اس آیت میں دو عدد مقررہ مدت کا ذکر کیا گیا ہے جب پہلی گھڑی آن کھڑی ہوتی ہے تو انسانی زندگی کی بساط وقتی طور پر لپیٹ دی جاتی ہے ایسے میں اس کے احباب و اقارب بادلِ ناخواستہ اسے کفن میں لپیٹ کر بڑے احترام کے ساتھ قبر کے حوالے کر دیتےہیں اور اس دارِفانی میں آخری گھر کا دروازہ ایک اوروقت ِمقررہ کیلئے بند کردیا جاتا ہے اس پر تختی تو لگتی ہے لیکن قفل نہیں لگایا جاتا اس لئے کہ نہ لوٹنے کا امکان ہوتا ہے اور نہ لٹنے کا اندیشہ ۔اس کے شب وروز بے حقیقت قرار پاتے ہیں اور اس کے کارہائے نمایاں دارِ فانی میں بے معنیٰ ہو جاتے ہیں۔

تيرے شب وروز کی اور حقيقت ہے کيا
ايک زمانے کي رَو جس ميں نہ دن ہے نہ رات

گردش لیل ونہارہی کی مانند زمانے کی رفتار بھی ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی ۔اکثر و بیشتروقت کا پہیہ اس قدر سست رفتار ہوتا ہے کہ لوگوں کو گمان ہونے لگتا ہے گویا سب کچھ ٹھہرا ہوا ہے ۔لیکن پھر یہ کال چکر اچانک تیزی سے گھومنے لگتا ہے ۔افرادکی طرح اقوام کی مدت عمل بھی مقرر ہوتی ہے ان کو عطا ہونے والا غلبہ اور اقتدار بھی محدود مدّت کے لئے ہوتا ہے اور جب اس کے اختتام کاوقت آدھمکتا ہے اس میں ذرہ برابر تعجیل و تاخیر نہیں ہوتی اور دیکھتے دیکھتے اچھے اچھوں کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے اور وہ بے یارو مددگار بنا دئیے جاتے ہیں۔گزشتہ قوموں کے کھنڈرات کو نشانِ عبرت بنا کر پاک پروردگار نے بعدوالوںکے لئے محفوظ کر دیا ہے تاکہ لوگ ہوشیار ہو جائیں اور اپنی باغیانہ روش کی اصلاح کریں۔

اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کُہن ہو کہ نَو ، منزلِ آخر فنا

ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب اس قصہ کو تمام کر دیا جائے گااور سارے نشان مٹا دئیے جائیں گے ۔ یقیناً وہ دن آ کر رہے گا جب اس جہانِ فانی کو تہس نہس کر دیا جائیگا تو کیا اس روز سب کچھ ختم ہو جائیگا ؟ جی ہاں ساری چیزیں مٹا دی جائیں گی سوائے ایک کے باقی رہ جائیگی ۔انسان کا وہ عمل جو اس نے آگے بھیجا ہوگا ۔اور اس کے بعد قائم ہونے والے دائمی جہان میں عمل ِ خیر ہی انسان کا واحد سرمایہ ہوگا وہی اس کے نجات کی واحد سبیل ہوگی بقول اقبال:

ہے مگر اس نقش ميں رنگِ ثباتِ دوام

جس کو کيا ہو کسي مردِ خدا نے تمام

علامہ اقبال کے یہ بصیرت افروزاشعار ان کی دینی بصارت کا راز کھولتےہیں حالانکہ انہیں کسی روایتی درسگاہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا اس کے باوجودعالم الغیب و الشہادہ نےجہانِ ہستی کےسر بستہ راز ان پر آشکار کر دئیے ۔اس لئے انہوں نے زندگی کا سفر کچھ اس طرح کیا کہ ان کے داہنے ہاتھ میں ماضی کا چراغ تو تھا بائیں ہاتھ میں مستقبل کی امید ۔ لیکن قدم زمانۂ حال میں جمے ہوئے تھے ۔ ان کی نگاہ میں ایک طرف برہان ِحق پایا جاتاتھا تو دوسری جانب ان کی نظر باطل کی فتنہ سامانیوں پر ہوتی تھی ۔ وہ ایک کان سے الہامِ خوش بیان سے استفادہ کرتے تھے اور دوسرا کان مغرب کے فلسفہ پر دھرتے تھے ۔ان کا ذہن انسانیت کے دکھ درد کا مداوا تلاش کرنے میں مصروف ِ عمل ہوتا تھا اور معرفتِ خداوندی سے معمورقلب دیدارِ الٰہی کے لئے بے قرار رہتا تھا۔

اقبال کے آہنگ و بیان میں پائی جانے والی آفاقیت کی وجہ یہی فطری توازن تھا ۔وہ کبھی اپنے آپ سے خودکلام ہوتے تو کبھی اپنے رب سے ہم کلام دکھائی دیتے ہیں ۔کبھی امت کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے میں مصروف ہوتے تو کبھی عالم ِ انسانیت کو انجام ِبدسےخبردار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔دور حاضر کے حالات کو سمجھنے اور بدلنے کے لئے اسی نور ِ بصیرت کی ضرورت ہے ایسے میں حکیم الامت کی دعا بے ساختہ زبان پر آجاتی ہے ۔

خدایا آرزو میری یہی ہے

مرا نورِ بصیرت عام کر دے