The white-winged vulture a Short Story by Javed Nihal Hashmi

Articles

سفید پَروں والے گِدھ

جاوید نہال حشمی

شہر کے بیشتر حصے فساد کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔افواہوں کا بازار بھی گرم تھا۔فرقہ وارانہ تشدد کی آگ کو مزید بھڑکنے اور دیگر علاقوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے ضلع انتظامیہ نے حکومت کے متعلقہ شعبے کے تعاون سے انٹرنیٹ سروسز وقتی طور پر بند کروا دی تھیں۔نتیجہ، بیشتر گھروں میں ٹیلی فون اور موبائل کی گھنٹی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
مغل پورہ، حاجی پور، داراب نگر اور قصائی پاڑہ مسلم اکثریتی علاقوں میں شمار ہوتے تھے۔یہاں رہنے والے لوگوں کو اپنے ان رشتے داروں کی فکر کھائے جا رہی تھی جن کے مکان پرتاپ گڑھ، ہنومان گڑھی، سونار پور اور درگا نگر جیسے ہندو اکثریتی علاقوں میں تھے۔ یہی حال وہاں کے ہندو خاندانوں کا تھا جن کے اعزّہ و دوست مسلم علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔ فرقہ وارانہ تشدد کی آگ نے مکانوں اور دکانوں کے ساتھ برسوں کی بھائی چارگی اور نسلوں سے قائم اعتماد اور بھروسے کو بھی جھلسا ڈالا تھا۔بے یقینی، خوف اور جذبۂ انتقام کے شدید احساس سے ان کی پھٹی آنکھیں پلکیں جھپکانا بھول گئی تھیں۔ پولیس کی یقین دہانی میں جھوٹ اور علاقائی چہ مگوئیوں میں حقیقت کا گمان ہونے لگا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہنومان گڑھی کے لوگوں کو خبر ملی کہ قصائی پاڑہ کےڈاکٹر شرما کا مکان لوٹ کر جلا دیا گیا ہے اور ان کی فیملی کے کسی فرد کا کوئی اَتا پتا نہیں ہے تو انہیں یقین ہو گیا کہ مسلمانوں نے ان سب کا کام تمام کر دیا ہے۔انتقامی کاروائی کے خدشے کے تحت انتظامیہ نے جعفرہ گنج کے گرد گویا پولس کا گھیرا ڈال دیا جو ہنومان گڑھی سے متصل ایک چھوٹا سا مسلم محلّہ تھا۔ ساتھ ہی پولیس افسران نے مقامی لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ جب تک لاشیں نہیں مل جاتیں، ان کے مارے جانے کی بات بے بنیاد ہے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے کسی محفوظ مقام پر پناہ لے رکھی ہو۔ لیکن لوگوں، خاص طور سے نوجوانوں، کو پولیس کے بیان میں قیاس آرائی نظر آئی جب کہ چند مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی باتوں میں منطق جنہوں نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ قصائی پاڑہ والوں نے ڈاکٹر شرما اور ان کی فیملی کے لوگوں کو ذبح خانے میں قتل کر کے چانپڑوں سے بوٹیاں بنا کر گٹر میں بہا دیا ہوگا، لاشیں کیا خاک ملیں گی۔
کمال یاوَر صاحب تھانہ موڑ کے قریب واقع جدید طرز پر بنے اسٹار ہاؤزنگ کمپلکس میں رہتے تھے جس میں ہندو اور مسلم دونوں فرقوں کے لوگوں کے فلیٹس تھے۔ یہاں زیادہ تر تعلیم یافتہ طبقے کے لوگ رہتے تھے جس کے سبب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ایسا ماحول تھا کہ کمپاؤنڈ میں بنے پوجا پنڈال میں مسلمان اور ان کے بچے بھی خوش گپیوں میں مشغول نظر آتے تو عید کے دن ہندو اہلِ خانہ بھی ہاؤزنگ کے گیٹ پر نماز پڑھ کر لوٹنے والے مسلمان پڑوسیوں سے گلے ملنے کے لئے سب سے آگے تیار کھڑے ملتے ۔بعض تو سیوئیاں کھانے پنجابی پائجامہ پہن کر پہنچ جاتے۔ کمال یاور صاحب دو سال قبل جب یہاں رہنے آئے تھے تو ہاؤزنگ کمیٹی کے سکریٹری شبیر صاحب نے اپنے دس سالہ تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے سوسائٹی کو قومی یکجہتی کا بہترین نمونہ قرار دیا تھا اور مشترکہ تقریبات کے علاوہ روز مرہ کے واقعات کی کئی مثالیں بھی پیش کی تھیں۔ کمال یاور صاحب صرف امید ہی کر سکتے تھے کہ ملک کی تیزی سے بدلتی سیاسی و فرقہ وارانہ صورتِ حال کا اثر ہاؤزنگ سوسائٹی کے ماحول پر نہ پڑے۔
آج چوتھے روز کرفیو میں وقفے کے دوران جب وہ باہر نکلے تو چوک بازار میں پرانے پڑوسی شمشیر خان سے ملاقات ہو گئی۔ علیک سلیک کے بعد رسمی گفتگو کے دوران اچانک شمشیر صاحب نے پوچھا:
”گزشتہ ہفتے عرفان کو دیکھا تھا۔ کافی کسرتی بدن بنا لیا ہے اس نے۔ کوئی باڈی بلڈنگ کلب جوائن کیا ہے کیا اس نے؟“
”ارے نہیں،بس ہاؤزنگ کے جِم میں پابندی سے وقت دیتا ہے۔“ کمال صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وضاحت کی۔
”کیوں؟ کیا فلموں میں کام کرنے کا ارادہ ہے؟“ شمشیر صاحب کی مسکراہٹ میں طنز کا عنصر بھی شامل تھا۔
” ایسی کوئی بات نہیں۔ آج کے نوجوانوں کو تو آپ جانتے ہی ہیں، فٹ نس کا خبط …“
”انہیں احساس ہو نہ ہو، آپ تو ملک کے حالات سے باخبر ہیں۔ہماری نئی نسل کو معلوم ہونا چاہئے کہ اب بائی سپس (Biceps) بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ وقت باڈی بنانے کا نہیں، بم بنانے کا ہے۔آج بابری مسجد ڈھائی گئی، کل کوئی ا ور مسجد ہوگی …“
”جی جی …بالکل ۔“انہوں نے بات کاٹتے ہوئے جلدی سے کہا ۔
پھر اس سے قبل کہ شمشیر خان مزید کچھ کہہ پاتے انہوں نے معذرت خواہ لہجے میں کہا:”میں اس وقت ذرا جلدی میں ہوں۔ پھر ملتا ہوں۔“ اور تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ ان کے چہرے پر ناگواری کی لکیریں گہری ہو گئی تھیں۔ اگر رکتے تو زبان سے کوئی تلخ جملہ ضرور ادا ہو جاتا۔
شمشیر خان کی گفتگو سن کر انہیں لگا گویا بستی چھوڑ کر اس ہاؤزنگ کمپلکس میں رہائش اختیار کرنے کا ان کا فیصلہ درست تھا۔ ایسی سوچ چائے خانوں، پان دکانوں اور ہیئر کٹنگ سیلون میں بیٹھ کر عوام کے جذبات سے کھیلنے والے اردو اخبارات کی اشتعال انگیز سرخیوں پر بحث کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ اس مخصوص طبقے کے لوگوں کی ذہنیت سے بخوبی واقف تھے۔
ابھی کل ہی شام کو ہاؤزنگ سوسائٹی کے دفتر میں شہر کے موجودہ سنگین حالات کے پیشِ نظر ممبران کی ایک جنرل میٹنگ بلائی گئی تھی جہاں فرقہ وارانہ صورت حال کے مدنظر احتیاطی تدابیر و تجاویز پر غور و خوض کیا گیا تھا۔متفقہ طور پر فیصلہ ہوا تھا کہ اس آگ اور خون کی ہولی کا ایک چھینٹا بھی ہاؤزنگ کمپلکس کے اندر آنے سے روکنے کے لئے مشترکہ طور پر ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ہاؤزنگ کمیٹی کے سکریٹری کی حیثیت سے شبّیر صاحب نے ہاؤزنگ کمپلکس کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے سبھوں سے اپیل کی تھی۔کمیٹی کے صدر چتر ویدی جی اور دیگر نے بھی بھرپورتعاون کا یقین دلایا تھا اور کچھ کار آمد مشورے بھی دئیے تھے۔
ہاؤزنگ کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد اپنے فلیٹ کی جانب جانے کی بجائے کمال یاور صاحب نے شبّیر صاحب کے بلاک کا رُخ کیا ۔
دیگر افراد کی طرح آج شبّیر صاحب بھی صبح ناشتے کے بعد سے ہی ٹی وی سے چپکے ہوئے تھے۔چہرہ پُرتفکر اور نگاہیں ٹی وی اسکرین پر مرکوز۔سلام کا جواب دیتے وقت لبوں پر آنے والی رسمی مسکراہٹ چند ساعتوں میں یوں معدوم ہو گئی گویا کسی فرض سے سبکدوش ہونے کی عجلت ہو۔
”یہ انتظامیہ کی نااہلی اور نکما پن ہے یا حکومت کے جانب دارانہ رویّے اور متعصب ذہن کا شاخسانہ … پوری اسٹیٹ مشینری فسادیوں کے آگے بےبس نظر آ رہی ہے۔“ انہوں نے کمال یاور صاحب کی توجہ ٹی وی پر دکھائی جانے والی فسادہ زدہ علاقوں کی ویڈیو کلیپنگ کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی۔لہجے میں برہمی کا عنصر نمایاں تھا۔
کمال یاور صاحب نے خاموشی سے سر ہلا کر اتفاق کا اظہار کیا۔ان کا ذہن شمشیر خان کی باتوں سے پیدا شدہ بدمزگی کے اثر سے ابھی تک آزاد نہیں ہو پایا تھا۔
اچانک ان کے موبائل کا رِنگ ٹون بج اٹھا۔
”معاف کیجئے گا۔“ انہوں نے شبّیر صاحب کی طرف معذرت طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کال ریسو کی۔ پھر کچھ کہنے کے لئے منہ کھولاہی تھا کہ ہونٹ گویا منجمد ہو گئے، اور آنکھیں پھیلتی چلی گئیں …
چترویدی جی کی چہکتی ہوئی آواز تھی:
”ارے کمل یادو جی، ٹی وی کھولیے اور اپنا چینل لگائیے۔ہمارا اسکور تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ہم چالیس سے زیادہ کا لیڈ لے چکے ہیں۔پہلے دن جب نمک حراموں نے ہمارے دس بھائیوں کے گھر پھونک دئیے تھے تو میرا خون کھول اٹھا تھا۔ ان غدّاروں کو سبق سکھانے کے لئے اردھ شتک کافی نہیں، ہمارے لوگوں کو سنچری بنانی ہوگی…“
کمال یاور صاحب کھانس کر رہ گئے۔ انہیں گلے میں کچھ اٹکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
”آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگتی۔چلیے، پھر باتیں کرتے ہیں، نمسکار۔“
کمال صاحب نےسکتے کے عالم میں موبائل کان سے ہٹایاہی تھا کہ شبّیر صاحب کی چھوٹی بیٹی نے آ کر پوچھا:
”ابّو، امّی نے پوچھا ہے چائے بسکٹ لیں گے آپ لوگ؟“
”ابھی جاؤ یہاں سے۔“ شبّیر صاحب نے ٹی وی نیوز سے نظریں ہٹائے بغیر ہاتھ اٹھا کر قدرے خشک لہجے میں اور تقریباً جھڑک کر کہا۔
ان کی پیشانی پر پڑی سلوٹیں ان کے گہرے ذہنی انتشار کا پتہ دے رہی تھیں اور بار بار مٹھیوں کے بھنچنے سے شدید اضطرابی کیفیت کا اظہار ہو رہا تھا۔
”اس وقت چائے نہیں، ان پیشاب پینے والوں کا خون پینے کی خواہش ہو رہی ہے۔“ شبّیر صاحب تنفر آمیز لہجے میں بڑبڑائے۔
کمال صاحب نے چونک کر ان کی طرف دیکھا کیوں کہ الفاظ تو ان کے تھے لیکن آواز چترویدی جی کی آئی تھی!وہ بے یقینی پن اور تذبذب کے عالم میں شبیر صاحب کا منہ تکتے رہے۔
”یہ ہوئی نا بات۔“تھوڑی دیر بعد اچانک شبّیر صاحب تقریباً چلّا اٹھے۔چہرہ بھی کھل اٹھا تھا، ”اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ وہ سب دیکھ رہا ہے۔“
کمال صاحب کا شک یقین میں بدل گیا کیوں کہ یہ آواز بھی واضح طور پر چترویدی جی کی ہی تھی۔
شیو مندر میں بھگدڑ،سیڑھیوں پر اٹھارہ لاشیں، مرنے والوں میں پانچ عورتیں اور چھ بچے _ ٹی وی پر بریکنگ نیوز۔
”صوفیہ بیٹا، اب چائے لاؤ۔ بلکہ کچھ کھانے کو بھی لاؤ۔لیٹس سیلے بریٹ۔“ شبّیر صاحب نے چترویدی جی کی آواز میں اپنی بیٹی کو پکارا۔
”ہاں کمال صاحب، بتایا نہیں کس کا فون تھا؟“ شبّیر صاحب نے پوچھا۔
”گھر سے فون تھا۔میرے لوٹنے میں تاخیر سے سبھوں کو فکر ہو رہی تھی۔ اب میں چلتا ہوں۔“
”ارے، چائے تو پیتے جائیے…“
”جی نہیں، شکریہ۔ سب لوگ پریشان ہوں گے۔ چائے پھر کبھی۔ اللہ حافظ۔“
سیڑھیوں سے اترتے وقت انہیں ایک اور الجھن نے آ گھیرا۔پتہ نہیں انہیں ایسا کیوں لگنے لگا تھا جیسے کچھ دیر قبل فون پر انہوں نے چترویدی جی کی نہیں، شبّیر صاحب کی آواز سنی ہو۔
————————————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔