Three Dolls A Persian Folk Tale

Articles

فارسی لوک کہانی ’تین گڑیاں‘

انگریزی سے ترجمہ: حیدر شمسی

فارس کا سلطان بڑا دانا مشہور تھا۔ اسے مسئلے سلجھانے کرنے، پہلیاں بجھانے اور معمّے حل کرنے کابھی شوق تھا ۔ ایک دن اسے کسی کا بھیجا ہوا تحفہ ملا۔ بھیجنے والا سلطان کے لیے اجنبی تھا ۔سلطان نے تحفے کو کھولا اُس میں سے ایک ڈبہ نکلا ۔ڈبے کے اندر لکڑی کی تین خوبصورت گڑیاں نظر آئیں جنہیں بڑے سلیقے سے تراشاگیا تھا ۔اس نے ایک ایک کر کے تینوں گڑیوں کو اٹھایا اور ہر ایک کی کاریگری کی خوب تعریف کی ۔ اس کا دھیان ڈبہ پر گیا جہاں ایک جملہ تحریر تھا: ’’ ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتائیے۔‘‘ ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتانا سلطان کے لیے ایک چیلنج تھا ۔اس نے پہلی گڑیا کو اٹھایا اور اس کا مشاہدہ کرنے لگا ۔گڑیا کا چہرہ خوبصورت تھا اوروہ ریشم کے چمکیلے کپڑوں میں ملبوس تھی ۔ پھر اس نے دوسری گڑیا کو اٹھا یا ۔ وہ بھی پہلی گڑیا جیسی ہی تھی اور تیسری بھی ویسی ہی تھی ۔
پھر سلطان نے گڑیا کا نئے سرے سے مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔ وہ سب ظاہراََ یکساں تھیں ۔لیکن سلطان نے سوچا شاید تینوں میں سے آنے والی بو یکساں نہ ہو۔چنانچہ اس نے تینوں گڑیوں کو باری باری سونگھا ۔تینوں میں سے صندل کی خوشبو آرہی تھی جس سے اس کے نتھنے معطّر ہوگئے۔صندل کی لکڑی سے انھیں بڑی نفاست سے بنایا گیا تھا۔اس نے سوچا شاید یہ اندر سے کھوکھلی ہوں ۔ انھیں کان کے پاس لے جا کر ہلانا شروع کیا لیکن تینوں گڑیاں ٹھوس تھیں اور تینوں ہم وزن بھی تھیں۔سلطان نے دربار بلایا۔دربار میں سلطان بڑا ہی متذبذب نظر آرہا تھا ۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے ۔ اس نے دربار کے سامنے اعلان کیا کہ جو تم میں سے جو دانا ہو وہ آگے آئے ،جس نے اپنی زندگی کا بیش تر حصّہ لائبریریوں میں صرف کیا ہووہ بھی آگے آئے۔
ایک اسکالر اور ایک قصّہ گوآگے آئے ۔سب سے پہلے اسکالر نے گڑیوں کا مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔اس نے انھیں سونگھا ، ان کا وزن کیا اور انھیں ہلا جلاکر دیکھا لیکن وہ کسی طور بھی کوئی فرق نہ پاسکا ۔وہ دروازے کے پاس گیا اور الگ الگ زاویوں سے انھیں دیکھنا شروع کیا ۔ پھر اس نے گڑیوں کو ہاتھ میں اٹھایا اور ان پر جادو ٹونے کی طرح ہاتھ ہلانے لگا۔ہاں!ہاں ! تھوڑی دیر بعد وہ خود اپنے فعل سے اکتا گیااورانھیں میز پر رکھ کر وہاں سے ہٹ گیا۔
بہر کیف اسکالر گڑیوں میں امتیاز نہ کر سکا ۔ اس نے قصّہ گو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’کیا تم گڑیوں کے درمیانی فرق کی شناخت کر سکتے ہو!‘‘
قصّہ گو نے پہلی گڑیا اٹھائی اور بڑی احتیاط سے اس گڑیا کا مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔پھر اچانک اسے نہ جانے کیا خیال آیا۔ وہ آگے کی طرف بڑھا اور سلطان کی داڑھی کا ایک بال نوچ لیا ۔ اس بال کو اس نے گڑیا کے کان میں ڈالا ۔وہ بال گڑیاکے کان میں چلا گیا اور غائب ہو گیا ۔قصّہ گو نے کہا’’ یہ گڑیا اسکالر کی طرح ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور اپنے اندر رکھ لیتا ہے ۔‘‘ اس سے پہلے کے سلطان اسے روکتا پھر قصّہ گو نے آگے بڑھ کراس کی داڑھی کا دوسرا بال نوچ لیا ۔اس نے دوسری گڑیا کے کان میں بال ڈالا۔دھیرے دھیرے بال اس کے کان میں چلا گیا اور دوسرے کان سے نکلا۔سلطان یہ منظر دیکھ کرحیران رہ گیا۔
’’کیوں‘‘ قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا احمق جیسی ہے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے ۔‘‘
اس سے پہلے کے سلطان اسے روک پاتا ۔اس نے سلطان کی ٹھوڑی سے تیسرا بال توڑ لیا۔پھر اس نے داڑھی کے بال کو تیسری گڑیا کے کان میں ڈالا۔بال اندر چلا گیا ۔سلطان غور سے دیکھنے لگا کہ اس بار بال کہاں سے باہر آئے گا ۔ بال گڑیاکے منھ سے باہر آیا ۔ لیکن جب بال باہر آیا تو وہ کافی مڑا ہو اتھا۔
’’کیوں‘‘قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا قصّہ گو کی طرح ہے ۔وہ جو کچھ سنتا ہے اسے وہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ سنا دیتا ہے ۔ ہر قصّہ گو کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی اس لیے کرتا ہے تا کہ وہ اس کااپنا شاہکارلگے۔‘‘