Urdu Research in Bangladesh from 1947

Articles

بنگلہ دیش میں اردو تحقیق و تنقید ( ۱۹۴۷ء تا حال)

پروفیسر کنیز بتول

تاریخ و ادب اور تحقیق و تنقید کا رشتہ آپس میں بڑا گہرا اور مربوط ہے ۔ ایک کے بغیر دوسرے کی بنیاد نہیں پڑتی۔ زمانے کی ہوا و حوادث سے ٹکراتے ہوئے روزانہ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات سے متاثر ہو کر تاریخ پہلے جنم لیتی ہے ،پھر اس تاریخ سے رشتہ جوڑ کر شعر و ادب اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ مورخین اور ادبا ہی تاریخ کو الفاظ کا جامہ پہناتے آئے ہیں ۔ اس سلسلے میں شعرا و ادبا غمِ جاناں اور غمِ دوراں کی ترجمانی نثر و نظم کے پیرائے میں کرتے رہے۔ ان کے تخلیقی عملیات میں شعوری و لا شعوری طور پر فن کاروں کی خوبیاں اور خامیاں بھی اجاگر ہوتی رہیں ۔
میر تقی میرؔ کا ’’ نکات الشعراء‘‘ میر حسنؔ کا ’’ تذکر ہ شعرائے اردو ‘‘مصطفی خاں شیفتہ کا ’’ گلشنِ بے خار‘‘وغیرہ کو بنیادی اور محمد حسین آزادؔ کی ’’ آبِ حیات‘‘ اس سلسلے کی کامیاب کڑی کہی جا سکتی ہے ۔ یہ تذکرے فارسی تذکروں کی تقلید میں لکھے گئے ۔ جب انگریزی ادب سے تاثر لے کر مولانا الطاف حسین حالیؔ اور مولانا شبلی نعمانی ؔ نے اردو ادب کو براہ راست تنقید و تحقیق سے روشناس کرایا تو ان ادب پاروں کی فنی و جمالیاتی پہلو کے مثبت و منفی قدریں اجاگر ہونے لگیں ۔ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ادب کی طرح اردو میں بھی تحقیق و تنقید کی راہ نمائی اجاگر ہوئی ۔ ان مفید نتائج کے اثرات سے بنگلا دیش کا اردو ادب متاثر ہوتا رہا۔ اس سلسلے میں عبدالغفور نساخ ( ۱۸۳۳۔ ۱۸۸۹ء) کی تصنیفات ’’ تذکرۃ المعاصرین‘‘ اور ’’ تذکرہ ٔ سخن شعراء‘‘ نشی رحمن علی طیشؔ کی (۱۸۲۳ء ۔۱۹۰۵ء) ’’ تواریخ ڈھاکا‘‘ حکیم حبیب الرحمن (۱۸۸۱ء۔۱۹۴۱ء) کی تصنیفات ’’ آسودگان ڈھاکا‘‘ اور ’’ثلاثہ عسالہ‘‘ وغیر ہ کو تنقید و تحقیق کی بنیادی کڑیاں کہی جا سکتی ہیں۔ یہ تصنیفات بر صغیر کے مورخین کے علاوہ فارسی و اردو ادب کے محققین کے لئے مفید ثابت ہوئی ہیں ۔
۱۹۴۷ء کے بعد جب سابق مشرقی پاکستان میں ( بنگلا دیش میں) اردو ادبی ماحول خوش گوار ہونے لگے تو دیگر اصناف سخن کی طرح تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی وسعت و گیرائی پیدا ہوئی کہ یہاں ایک دبستان ِ تحقیق و تنقید بھی قائم ہو گیا ۔
تحقیق و تنقید کی اس دقیق خدمات میں جن مشاہیر قلم نے بڑی جستجو و لگن سے مفید مضامین و تصنیفات سپرد قلم کئے ان میں ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبۂ اردو فارسی کے اساتذہ ، راجشاہی یونیورسٹی کے شعبۂ السنہ کے اساتذہ،سابق مشرقی پاکستان کے مختلف کالجوں میںاردو درس و تدریس سے منسلک اساتذہ کے علاوہ اردو زبان و ادب کے متعد د پرستاروں نے حسب توفیق دفتری و پیشہ روزگار ی کی ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہوئے دبستان اردو کے اس خشک گوشے کو غیر معمولی تحقیقی صلاحیت سے ما لامال کیا۔ ان خدمت گاران ادب کے کارنامے حسب ذیل ہیں ۔
شعبہ اردو ڈھاکا یونیورسٹی کے ناقدین میں سب سے اول نام ڈاکٹر عندلیب شادانی (۱۸۹۷ء ۔۱۹۶۹ء) کا لیا جاتا ہے ۔ ۱۹۲۸ء سے ۱۹۶۹ء تک وہ شعبۂ اردوڈھاکا یونیورسٹی سے وابستہ رہے ان کی قلمی خدمات برطانوی دور سے پاکستانی دور تک کا احاطہ کرتی ہے ۔ شادانی کی تنقید حقیقت بیانی پر مبنی ہے ۔ فنکار چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، وہ اس کی خامیوں کو معاف کرنے کے قائل نہیں ۔ دوسری خصوصیت جو انھیں تخریبی تنقید کے سرحد تک لے جاتی ہے وہ ان کی نفسیاتی کمزوری یا احساس برتری کا تقاضا ہے ۔ انھوں نے فن کار کے محاسن کی بہ نسبت معائب کو زیادہ اجاگر کیا ہے ۔ تا ہم ان کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیت و علمیت انھیں ذی فہم نقاد کا درجہ عطا کرتی ہے ۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’’ دور حاضر اور اردو غزل گوئی‘‘ ،’’تحقیقات‘‘ اور ’’تحقیق کی روشنی میں ‘‘ مفید تنقیدی کتابیں ہیں ۔
شعبۂ اردو فارسی کے پروفیسر ڈاکٹر شوکت سبزواری (۱۹۰۷ء۔۱۹۷۳ء) کی تحقیق و تنقید میں بڑی گہرائی ہے ۔ انھوں نے اپنی رائے بڑی چھان بین کے بعد پیش کی ہے ۔ ’’ اردو زبان کا ارتقا‘‘ ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ۔ دوسری اہم کتاب ’’ نئی اور پرانی قدریں ‘‘ہیں ۔اس میں مصنف نے اردوز بان کے بہت اہم مسائل کو روشنی میں لانے کی کوشش کی ہے ۔ پر پیچ مسائل کو واضح کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً ان کا انداز بیان واعظانہ ہو گیا ہے ۔’’ معیارِ ادب‘‘ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے ۔ اس میں تنقیدی اصول و مسائل پر بحث کی ہے ۔’’ لسانی مسائل‘‘ بھی ان کی قابل قدر کتاب میں شامل ہے ۔ جس میں اردو زبان کے لسانی مسائل سے بحث کی گئی ہے ۔۱۹۵۹ء میں وہ کراچی بلائے گئے اور انجمن ترقی اردو کراچی کی خدمات سے وابستہ رہے ۔ انھوں نے ۱۹۷۳ء میں کراچی میں انتقال کیا۔ اور وہیں سپرد خاک کئے گئے۔
ڈاکٹر آفتاب احمد صدیقی ( ۱۹۱۵ء۔۱۹۹۸ء) ناقد سے زیادہ محقق ہیں۔’ ’گلہائے داغ‘‘ ،’’ صہبائے مینائی‘‘ ، ’’ شبلی ایک دبستان ‘‘ ان کے مفید ادبی کارنامے ہیں ۔
’’ شبلی ایک دبستان‘‘ ان کا تحقیقی مقالہ ہے ۔ ۲۲۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب مصنف کی تحقیقی صلاحیت کا نمونہ ہے جس میں شبلی اور ان کے نوائے وقت کی بھر پور آئینہ داری ہے ۔ ڈاکٹر آفتاب احمد صدیقی ۱۹۷۵ء تک شعبۂ اردو فارسی میں درس و تدیس سے منسلک رہے ۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد کراچی ہجرت کر گئے ۔ ۱۹۹۸ء میں کراچی میں انتقال کیا وہیں سپرد خاک ہوئے۔
ڈاکٹر حنیف فوق قریشی ، ۱۹۵۰ء سے قیام بنگلا دیش تک شعبۂ اردو فارسی ڈھاکا یونیورسٹی کے با شعور مدرس اور مقبول ناقد کی حیثیت سے اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دیتے رہے ۔ وہ تنقید کے جدید اصولوں سے واقف ہیں۔ ان کا شمار ترقی پسند نقاد کے زمرے میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے اردو تنقید کا رشتہ بنگلا دیش کی سرزمین سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے تحقیقی مضامین’’ اردو کے بنگالی تراجم ‘‘،’’ مشرقی پاکستان میں اردو ادب اور ادیبوں کے مسائل‘‘ ،’’ اردو ادب میں بنگالی ثقافت ‘‘ ،(ناول نگاری میں ) اس ضمن میں مفید کارنامے ہیں ۔
ان کی ناقدانہ صلاحیت کا معیار اس بات سے صاف عیاں ہے کہ انھوں نے بغیر کسی راہ نماکے ’’ دی سوشل انالائز آف اردو پوئٹری ۱۸۵۷ء اینڈ آفٹر‘‘( اردو شاعری سماجی تجزیہ۱۸۵۷ء اور اس کے بعد ) کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈھاکہ یونیورسٹی میں پیش کیا اور کامیاب ہو گئے ۔’’ مبشر قدریں‘‘ اور ’’ متوازی نقوش‘‘ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں ۔ حنیف فوق کی تنقید ساینٹفک تنقید ہے ۔ ان کی تنقید ادب کی روح کو بر قرار رکھتے ہوئے زندگی کے مسائل کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
ارشد کاکوی (۱۹۳۰ء۔۱۹۶۳ء ) سابق مشرقی پاکستان میں اچھے نقاد اور صحافی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے ۔ (۱۷ )ماہنامہ ’’ ندیم‘‘ ڈھاکا کے شماروں میں ان کا تحریر کردہ اداریہ ان کی ناقدانہ صلاحیت کا آئینہ دار ہے ۔
پروفیسر محمد طاہر فاروقی (۱۹۰۶ء۔ ۱۹۷۸ء) کا شعبۂ اردو فارسی میں (۱۹۵۱ء۔ ۱۹۵۲ء) صرف ایک سال تقرر رہا ۔’’ سیرت اقبال ‘‘ان کی تحقیق و تنقید کا عمدہ نمونہ ہے ۔ اس میں انھوں نے علامہ اقبال کی سوانح کے ساتھ ان کی شاعری کا جامع اور تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے ۔
شعبۂ اردو فارسی ڈھاکا یونیورسٹی کے پروفیسر عبداللہ کا شمار بنگالی نثر اور اردو نقادوں میں ہو تا ہے ۔ انھوں نے ’’ بنگلا دیشے فارسی ساھیتو ‘‘ ( بنگلہ دیش میں فارسی ادب) کے عنوان سے تحقیق مقالہ بنگلا زبان میں لکھ کر ڈھاکا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ پروفیسر عبداللہ نے ارد و ادب کے شہ پاروں کو بنگلا زبان کے قارئین میں اور اردو داں افراد کو بنگلا مشاہیر قلم کے مفید کارناموں سے رو شناس کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ اس سلسلے میں پروفیسر عبداللہ کی اردو زبان میں لکھی ہوئی کتاب’’ قاضی نذرالاسلام‘‘اور بنگلا زبان میں لکھی ہوئی کتاب ’’ اقبال کابّے اسلامی بھاب دھارا‘‘ ( اقبال کی شاعری میں اسلامی تفکر ) وغیرہ ان کی مفید کاوش ہے ۔ ان کتابوں کے مضامین ان کی غیر معمولی ناقدانہ صلاحیت کی دلیل ہے۔۱۹۷۱ء سے قبل ڈاکٹر عبداللہ اردو ادب کی تحقیقی سرگرمیوں سے منسلک رہے ۔ ان کے مضامین ماہ نو کراچی ، فاران کراچی، ماہنامہ سیارہ لاہور، ماہنامہ ساقی میں شائع ہوتے رہے ۔ اب ان کا تحقیقی رجحان بنگلا دیش کی تاریخ و ثقافت ہے۔ ان کی تحقیق و تنقید کا احاطہ بہت وسیع ہے ۔ بنگلا اردو انگریزی زبان میں ان کی تقریباً تیس تحقیقی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ تحقیق و تنقید کے میدان میں اب تک ان کا قلم رواں دواں ہے۔ ان کا اردو اسلوب تحریر مولوی عبدالحق سے متاثر ہے ۔
پروفیسر کلثوم ابوالبشر ۱۹۷۳ء سے ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی و اردو کے درس و تدریس سے وابستہ ہیں ۔ درسی مصروفیات کے پہلو بہ پہلو وہ اردو ، فارسی زبان و ادب کی تحقیق و تنقید کے مفید خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ وہ ایک با شعور محققہ کہلانے کی مستحق ہیں ۔ پروفیسر کلثوم نے ’’ ڈاکٹر عندلیب شادانی : حیات اور کارنامے‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ سپر د قلم کر کے بمبئی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگر ی حاصل کی ۔ ان کی تنقید میں رواداری ہے ، تلخی نہیں۔ ان کے متعدد مضامین بنگلادیش، بھارت و پاکستان کے معیاری جرائد میں شائع ہوئے ۔ انھوں نے ڈھاکا یونیورسٹی کے کتب خانے میں پڑے ہوئے بیشتر اردو فارسی کے مخطوطات کو اپنی قلمی کاوشوں سے منظر عام پر لا کر قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی تحقیقی خدمات جاری ہیں۔
پروفیسر ام سلمیٰ ، شعبۂ فارسی و اردو ڈھاکا یونیورسٹی ۱۹۷۴ء سے منسلک ہیں۔ انھوں نے ’’ بنگلا دیش کے فارسی و اردو ادب میں تاریخی ما خذ( انیسویں صدی میں) ‘‘کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈھاکا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔یہ مقالہ بنگلا دیش میں انیسویں صدی کی سماجی ، سیاسی ، ادبی و ثقافتی زندگی کی معلومات کے لئے دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ؎ ۲۱ اس کے علاوہ انھوں نے اردو فارسی ادب سے منسلک متعدد تحقیقی مضامین بھی سپرد قلم کئے جو بنگلا پاک و بھارت کے موقر جریدوں میں شائع ہوئے ۔ موصوفہ میں تحقیق و تفتیش کا مادہ بدرجۂ اتم موجود ہے ۔ ان کا ناقدانہ لہجہ نرم اور دوستانہ ہے ۔ پروفیسر ام سلمیٰ کی ایک ناقدانہ کاوش’’ علامہ اقبال اور قاضی نذرالاسلام ‘‘ کتابی شکل میں زیر طبع ہے۔ ان کی تحقیقی کوشش رواں دواں ہے ۔
مذکورہ شعبۂ فارسی و اردو ڈھاکا یونیورسٹی کے تحقیقی خدمات میں راقمہ کا نام بھی لیا جا سکتا ہے ۔ راقمہ نے ’’ بنگلا دیش میں اردو ادب ( ۱۹۴۷ء ۔ تا ۱۹۹۰ء) ‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈھاکا یونیورسٹی سے (۲۰۰۳ء) میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ۔ ایک مرتب کردہ انتخاب ’’ آتش و گل‘‘ ( قاضی نذرالاسلام کی نظموں، گیتوں، افسانوں اور ڈرامہ کے منتخب تراجم) نذرل انسٹی ٹیوٹ ڈھاکا سے ۲۰۰۶ء میں اشاعت پذیر ہوئی ۔ راقمہ کی تحقیقی کتاب ’’ اردو بھاشائے نذرل چرچا( اردو زبان میں نذرل چرچا) نذرل انسٹی ٹیوٹ سے ۲۰۰۱ء میں اشاعت پذیر ہوئی ۔ اس کے علاوہ راقمہ کے متعدد تحقیقی مضامین بھی موقر جریدوں میں شائع ہوتے آرہے ہیں ۔
محترمہ زینت آراشیرازی ، ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں تعلیمی مصروفیات کو انجام دیتے ہوئے بنگلہ و اردو زبان میں تحقیقی مضامین بھی سپرد قلم کرتی رہی ہیں ۔ ڈھاکا کا شیعہ شیمپر و دائر سنسکرتی و اردو فارسی شاہیتے ابدان’’ ڈھاکے میں فرقہ شیعہ کی ثقافت و فارسی اردو ادب میں خدمات‘‘ عنوان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہی ہیں ۔ ان کا تحقیقی پروگرام اب تکمیل کے مراحل میں ہے ۔
مذکورہ شعبے کے استاد ڈاکٹر جعفر احمد بھوئیاں نے ’’ احسن احمد اشکیر جیبوں وکرمو ‘‘ (احسن احمد اشک کی سوانح حیات اور کارنامے) کے عنوان سے بنگلا زبان میں تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند لی ۔ انھوں نے متعدد مضامین بھی سپرد قلم کئے ۔
ڈاکٹر محمود الاسلام نے پروفیسر ام سلمیٰ کی نگرانی میں ’’ اردو ادب کی سر پرستی میں انگریز افسروں کا حصہ اور اردو ادب پر انگریزی ادب کا اثر‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر شعبۂ فارسی و اردو ڈھاکا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی۔
راجشاہی یونیورسٹی ،شعبۂ السنہ کے پروفیسر ڈاکٹر کلیم سہسرامی کا شمار بنگلہ دیش کے ممتاز نقادان ادب میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے شعبۂ السنہ، راجشاہی یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے متعدد تنقیدی مضامین ارد و فارسی زبان میں سپرد قلم کئے ۔ وہ تنقید میں اپنے استاد ڈاکٹر عندلیب شادانی اور ڈاکٹر شوکت سبزواری سے متاثر ہیں ۔ ان کی تنقیدی تصنیفات ’’ روایت در روایت‘‘ ۲۲ ،’’ بنگال میں غالبؔ شناسی‘‘ ۲۳، ’’ معائر بنگال‘‘ ۲۴ ،’’ خدمت گزاران فارسی در بنگلا دیش ‘‘ بنگلا دیش کے قومی ورثہ کے شامل رہنے کے مستحق ہیں ۔ حق گوئی و سچائی ان کی تنقیدی شان ہے ۔ ان کی تنقید عملی تنقید کی مترادف کہی جا سکتی ہے ۔ کلیم سہسرامی (۱۹۳۰ء ۲۰۰۶ء) نے ایک مدت علیل رہنے کے بعد ۲۰ نومبر ۲۰۰۶ء کو اپنی بیٹی ارم کی رہائش گاہ پر ومیمن سنھ میں وفات پائی اور وہیں سپرد خاک ہوئے ۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالحق کا شمار بنگلہ دیش کے بنگالی نژاد محققین میں ہوتا ہے ۔ موصوف کا تقرر لیکچرر کی حیثیت سے راجشاہی کالج میں ہوا ۔ بعد میں وہ راجشاہی یونیورسٹی کے شعبۂ السنہ میں درس و تدریس سے منسلک ہو گئے ۔ ۱۹۶۱ء میں انھوں نے ’’ فارسی شاعری کا اثراردو شاعری پر‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈھاکا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ ان کا یہ مقالہ اردو فارسی تشنگانِ ادب کے لئے نہایت مفید ہے ۔ یہ مقالہ ڈھاکا یونیورسٹی کے کتب خانہ میں محفوظ ہے ۔ اس میں انھوں نے اٹھارہویں صدی سے انیسویں صدی تک اردو اصنافِ سخن پر فارسی کے اثرات کا سیر حاصل جائزہ پیش کیا ہے ۔ موصوف ۱۹۶۴ء میں راجشاہی سے ڈھاکا آتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوئے ۔
مذکورہ یونیورسٹی کے شعبۂ السنہ کے پروفیسر ڈاکٹر شمیم خان نے مولانا عبیداللہ عبیدی سہروردی کی خود نوشت سوانح عمری کا مخطوطہ ( داستان عبرت بار)’’ تصحیح انتقادی داستان عبرت بار‘‘ کے عنوان سے فارسی زبان میں تحقیقی مقالہ لکھ کر تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سندحاصل کی ۔ پروفیسرشمیم خان وقتاً فوقتاً اردو میں بھی مضامین سپرد قلم کرتے رہے ہیں ’’ مولانا عبیداللہ عبیدی کی اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ ،’’ علامہ شبلی‘‘ وغیرہ ان کے اچھے مضامین ہیں ۔
ڈاکٹر حسین احمد کمالی نے’’ سر سید احمد خاں اور ان کی علمی خدمات‘‘ کے عنوان سے بنگلہ زبان میں تحقیقی مقالہ لکھ کر راجشاہی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی۔ حسین احمد کمالی میں تفتیش اور تحقیق کا مادہ اچھا ہے ۔ بنگلہ دیش گو اردو معلم کی حیثیت سے ان کاکارنامہ قابل ذکر ہے ۔ انھوں نے اردو میں بھی مضامین لکھنے کی سعی کی ۔ ڈاکٹر حسین احمد کمالی شعبہ السنہ راجشاہی یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے مضمون نگاری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں ۔
راجشاہی یونیورسٹی کے ایسوسیٹ پروفیسر ڈاکٹر لطیف احمد نے (۱۹۷۱ء۔ ۱۹۹۰ء) ’’ بنگال میں اردو صحافت (۱۹۰۱ء۔ ۱۹۷۰ء) ایک تحقیقی جائزہ‘‘ کے عنوان سے انگریزی زبان میں تحقیقی مقالہ لکھ کر راجشاہی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی۔ اس کے علاوہ ان کے متعدد تحقیقی مضامین موقر جرائد میں شائع ہوئے ۔ ڈاکٹر لطیف احمد کا فطری رجحان افسانہ نگاری کی طرف مائل ہے ۔ لطیف احمدکی اسلوب زبان بڑی پر لطف اور با محاورہ ہے ۔ وہ اپنے مضامین میں تنقید کے خشک و کار دار احاطے سے ہٹ کر غیر ارادی طور پر افسانوی رنگ میں پہنچ جاتے ہیں ۔ تاہم ان کی تنقیدی صلاحیت قابل ذکر ہے ۔
ڈھاکا یونیورسٹی اور راجشاہی یونیورسٹی کے اساتذہ کرام کے علاوہ متعدد کالجوں کے نامور اساتذہ اور اردو شعر و ادب سے منسلک دیگراہل قلم نے بھی اردو تحقیق و تنقید کے میدان میں کامیاب خدمات انجام دیئے ۔ وہ حسب ذیل ہیں :
پروفیسر اقبال عظیم (۱۹۱۳ء۔ ۲۰۰۰ء) نے ۱۹۵۱ء سے ۱۹۷۰ء تک سرکاری کالج چاٹگام میں پروفیسر و صدر شعبہ اردو کی ذمہ داری کے علاوہ تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی ناقابل فراموش کارنامے انجام دیئے ۔ اردو ارباب قلم میں ان کا تعارف کامیاب معلم، معیاری شاعر اور نامور محقق کی حیثیت سے ہے۔ وہ اپنی ’’ مشرقی بنگال میں اردو ‘‘ ۲۶ (۱۹۵۴ء چاٹگام ) لکھ کرمشہور ہوئے ۔ اس کتاب میں ان کی طبعی رجحان تنقید سے زیادہ تحقیق کی طرف مائل ہے ۔ تا ہم ۴۷۶ صفحات پر مشتمل یہ ضخیم تصنیف اردو ادب کے محققین کے لئے مشعلِ راہ ہے ۔ اس کے علاوہ ’’ سات ستارے‘‘ اور ’’ مشرق‘‘ بھی مصنف کی تحقیقی صلاحیت کا نمونہ ہے ۔ ۲۲ ستمبر ۲۰۰۲ء کو اقبال عظیم نے کراچی میں رحلت فرمائی اور وہیں سپرد خاک کئے گئے۔
وفاراشدی (۱۹۲۶ء ۔۲۰۰۳ء) کا بنیادی میدان تحقیق وتنقید ہے ۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۴۹ء تک ان کا قیام ڈھاکے میں رہا ۔ بنگال میں اردو ( ۱۹۵۵ء حیدر آباد) ان کی مشہور و معروف کتاب بنگال میں اردو کی تقریباً دو سو سال کی تاریخ پر محیط ہے۔ اس کتاب میں ان کی تفتیش و تحقیق قابل ستائش ہے اس میں تنقید کا فقدان ہے ۔ بقول مصنف اسے تذکر ہ نگاری میں شامل کیاجائے ۔ بلا شبہ یہ کتاب دبستان اردو کے محقق کے لئے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ’’ سنہرا دیس‘‘ ( ادارہ مطبوعات پاکستان ۱۹۶۴ء) وفا راشدی کا دوسرا اہم کارنامہ ہے۔ یہ سابق مشرقی پاکستان ( بنگلا دیش ) کی تاریخ ،ادبیات، اہم مقامات ، مشاہیر و اولیائے کرام کے بارے میں ایک اہم دستاویز ہے ۔ اس کی ادبی حیثیت اور تاریخی حقیقت کے تناظر میں ایوب خاں کی حکومت نے ۱۹۶۶ء میں وفا راشدی کو بہترین مصنف کی حیثیت سے انعام و اکرام سے نوازا اور توصیفی سند بھی عطا کی ۔ ۲۷ اس کے علاوہ ان کی تنقیدی تصنیفات میں ’’ حیات و حشت‘‘ ،’’ کیفیات غالب‘‘ ،’’ چاند تارے‘‘ ،’’ خالد ایک نیا آہنگ‘‘،’’ میرے بزرگ میرے ہم عصر‘‘ ،’’ مہران نقش‘‘ وغیر ہ کو ان کے تحقیقی و تنقیدی شعور کی مفید سعی کہی جا سکتی ہے ۔
پروفیسر فروغ احمد (۱۹۲۰ء۔ ۱۹۹۴ء) قائد اعظم کالج ڈھاکا میں اردو کے پروفیسر تھے ۔ ۱۹۷۳ء میں لاہورچلے گئے ۔ فروغ کا بنیادی میدان تحقیق و تفیش ہے ۔ ادبی تاریخ ہو یا تنقید وہ اپنے آپ کو اسلامی نظریات کے تابع رکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔’’ اسلامی ادب کی تحریک ۔ ایک اجمالی جائزہ ‘‘، ’’ مشرقی پاکستان میں نئے ادبی اور سماجی رجحانات ‘‘، ’’ ساقی کا نذالاسلام نمبر‘‘،’’ بنگلا زبان پر فکر اقبال کا اثر‘‘ وغیرہ ان کی کامیاب ناقدانہ کاوش کہی جا سکتی ہے ۔ ۲۸ فروغ کی تنقید روایتی ہے ۔ ان کا ناقدانہ اسلوب شبلی اور حالی سے متاثر ہے ۔ فروغ کے بیان میں پیچیدگی نہیں ۔ ان کے اسلوب میں سنجیدگی اور سچائی ہے ۔
پروفیسر ہارون الرشید ، جگناتھ کالج ڈھاکا میں اردو کے پروفیسر تھے ۔ ۱۹۸۵ء میں پاکستان ہجرت کر گئے ۔ ہارون الرشید تنقید نگاری کے علاوہ شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے ۔ ان کی تنقید اسلامی و اخلاقی تفکر سے رشتہ جوڑتی ہے ۔ پروفیسر ہارون الرشید کی نگارشات میں مذہبیت غالب رہتی ہے ۔ لیکن انھوں نے ملّا یا وعظ بننا پسند نہیں کیا ۔ ہارون الرشید راقمہ کے سوال نامہ کے جواب میں لکھتے ہیں ۔’’ میرا ذہن کبھی یہ بات قبول کرنے پر آمادہ نہیں رہ سکا کہ ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہوئے اپنے فکر و عمل یا تحریر و تقریر میں غیر اسلامی رویہ بھی اختیار کر سکتا ہے ۔‘‘
’’ اردو ادب اور اسلام‘‘ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں نثر، ناول، مختصر افسانہ ، طنز و مزاح کے عنوان سے پانچ ابواب میں اسلامی ادب کو اجاگر کرنے کی کامیاب سعی کی گئی ہے ۔ ان کی تصنیف ’’ محفل جو اجڑگئی ‘‘ ادبی تحقیق کا بہترین نمونہ ہے ۳۰ ’’ سر گذشت آصف‘‘ ، میں مرحوم آصف بنارسی کی سوانح اور کلام پر ناقدانہ اظہار ہے ۔ مصنف کی گراں قدر کتاب ’’اردو کا دینی ادب‘‘ ۲۰۰۶ء میں کراچی سے شائع ہوئی ۔ یہ کتاب ۱۹۵۷ء سے حال تک اسلام پسند مشاہیر قلم کی تحقیق و تنقید کی نشان دہی کرتی ہے ۔
پروفیسر اظہر قادری (۱۹۲۹ء۔ ۲۰۰۳ء) ترقی پسند خیالات کے حامل ادیبوں میں شامل تھے ۔ وہ ڈھاکا میں سینٹ گرے گریزکالج ( ڈھاکا) ہولی کراس کالج (ڈھاکا) میں اردو درس و تدریس سے وابستہ رہے ۔ انقلاب بنگلہ دیش کے بعد کراچی ہجرت کر گئے ۔ ۲۰۰۳ء میں کراچی رحلت ہوئی اور وہیں سپرد خاک کئے گئے ۔اردو ادب پروروں میں اظہر قادری نقاد کی حیثیت سے مقبول ہیں ۔ان کی تنقیدی نگارشات کو افادی و علمی حیثیت سے اہم کہا جا سکتا ہے ۔ فکر و فن کے محرکات ۳۱ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے ۔ بقول شفیق احمد شفیق:
’’ اظہر قادری تنقید کے جدید سائنٹفک اصولوں سے اچھی طرح واقف ہیں ‘‘
بحیثیت مجموعی اظہر قادری کی تنقید عملی و تعمیری کہی جا سکتی ہے ۔ ان کی تنقید ادب کے ساتھ انسانی زندگی کا رشتہ جوڑتی ہے ۔’’ ہندو شعراء بارگاہِ رسول ؐ میں‘‘ فکر و فن کے بنیادی محرکات ، جوش، ایک تجزیاتی مطالعہ وغیرہ ان کے اچھے مضامین ہیں ۔ ان کے علاوہ انگریزی و اردو کے موقر جرائد میں شائع ہوتے رہے ۔ ان مضامین کے موضوعات اردو، فارسی اور انگریزی ادب سے منسلک ہیں ۔
اردو ارباب قلم میں پروفیسر نظیر صدیقی (۱۹۳۰ء۔ ۲۰۰۱ء) کی شہرت اردو معلم، انشائیہ نگار، نقاداور شاعر کی حیثیت سے ہے ۔ ان کو اردو کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی دستگاہ حاصل تھی ۔ اردو لیکچرر کی حیثیت سے ۱۹۵۴ء میں ان کا تقرر قائد اعظم کالج ڈھاکا میں ہوا ۔ ۱۹۶۱ء میں نو ٹرڈم کالج ڈھاکا میں اردو لیکچرر کے عہدے پر بحال ہو ئے ۔ ۱۹۶۹ء میں نو ٹرڈم سے استعفیٰ دے کر اردو کالج کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی ۔ نظیر صدیقی آخر دم تک درس و تدریس کی ذمہ داریاں سنبھالتے رہے ۔ ۳۱ ۲۰۰۱ء میں انھوں نے اسلام آباد میں انتقال کیااور وہیں سپرد خاک کئے گئے ۔
پرفیسر نظیر صدیقی ایک بے باک اور نڈر نقاد تھے ۔’’ شہرت کی خاطر‘‘ ( ڈھاکا ۱۹۶۱ء ) ’’ تعصبات و تاثرات‘‘(ڈھاکا ۱۹۶۲ء)’’ میرے خیال میں ‘‘ ( ۱۹۶۸ء) ان کی ناقدانہ صلاحیت کے عمدہ نمونے ہیں ۔اس زمانے میں ان کی تصنیفات کی بڑی پذیرائی ہوئی ۔ نظیر صدیقی کی کتاب’’ شادانی ایک مطالعہ‘‘ ۱۹۸۵ء میں کراچی سے شائع ہوئی ۔ یہ کتاب اس دور کی ادبی محفل کی جیتی جاگتی تصویر کہی جا سکتی ہے ۔ اس میں تنقید کا فقدان ہے ۔ نقاد کی حیثیت سے نظیر صدیقی ، رشید احمد صدیقی سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ تنقید و تحقیق ان کا نشہ تھا ۔ انھوں نے متعدد کتابوں کے دیباچے اور ناقدانہ مضامین بھی سپرد قلم کئے ہیں جو بر صغیر کے موقر جرائد میں شائع ہوتے رہے ۔
شہزاد منظر (۱۹۳۳ء۔ ۱۹۹۷ء) کا تعارف ایک معتبر صحافی ، مقبول افسانہ نگار اور با شعور ناقد کی حیثیت سے ہے ۔ ۱۹۷۱ء تک ان کا قیام ڈھاکے میں رہا ۳۳۔ افسانہ اور تنقید سے متعلق شہزاد منظر کا مطالعہ وسیع تھا ۔
ان کی تنقیدی تصنیفات حسب ذیل ہیں :
’’ رد عمل‘‘ ( مطبوعہ منظر پبلی کیشن کراچی۱۹۸۶ء) ’’ علامتی افسانے کے ابلاغ کا مسئلہ‘‘( مطبوعہ منظر پبلی کیشن کراچی۱۹۸۶ء)’’ مشرق و مغرب کے چند مشاہیر ادباء‘‘( منظر پبلی کیشن کراچی۱۹۹۶ء)’’ جدید اردو افسانہ ہندوستانی ایڈیشن ‘‘( منظر پبلی کیشن کراچی۱۹۸۸ء)’’ پاکستان میں اردو تنقید کے پچاس سال‘‘ ( پاکستان اسٹڈی سینٹر۱۹۹۶ء ) ’’ غلام عباس : ایک مطالعہ‘‘( منظر پبلی کیشن کراچی۱۹۹۱ء)اس کے علاوہ ان کے متعدد تنقیدی مضامین روز نامہ عصر جدید( کلکتہ )روز نامہ آزاد ہند (کلکتہ) روز نامہ وطن ( ڈھاکا) روز نامہ پاسبان( ڈھاکا) سہ ماہی ماہ نو ( کراچی) وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ۔
شہزاد منظر کی زندگی کا بڑا حصہ مشرق و مغربی بنگال میں گذرا ۔ یہی وجہ ہے کہ افسانہ ہو یا تنقید وہ اپنی تحریر کا رشتہ بنگال سے جوڑتے آئے ہیں ۔ شہزاد نے تنقید کرتے ہوئے اپنے زمانے کے اہم ترین موضوعات پر قلم اٹھایا ْ بڑی تحقیق و تفتیش کے بعد غیر جانبدار رہ کر اپنی رائے پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کی تنقید میں ترقی پسند نظریات اور روایت پرستی کی ہم آہنگی ملتی ہے ۔ وہ دونوں میں اعتدال کے خواہاں رہے ۔ ان کے بیشتر مضامین عملی و تعمیری تنقید کے زمرے میں شامل ہیں ۔
محمد عبدالجلیل بسملؔ کا تعارف ایک محقق کی حیثیت سے ہے ۔ انھوں نے سہلٹ میں اردو ۳۳۶ صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی کتاب سپرد قلم کر کے بنگلہ دیش کے دبستانِ اردو کے ادبی ذخیرے میں غیر معمولی اضافہ کیا ۔ یہ کتاب انجمن پریس کراچی سے ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی ۔ بنگلہ دیش میں اردو ادب کی تاریخ میں تنقید و تحقیق کے لیے بسمل کی کتاب ’’ سہلٹ میں اردو‘‘ کلیدی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ تاریخی اور افادی دونوں حیثیت سے معتبر ہے۔ بسملؔ کی دوسری تحقیقی کتاب ’’ شیخ سید جلال مجرد‘‘ کیلائی کی مختصر سوانح ۹۳ صفحات کی ہے۔ یہ ستارۂ پاکستان پریس ڈھاکا سے۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی ۔ اس میں مصنف نے تاریخی واقعات پیش کرتے ہوئے تحقیقی دلائل سے کام لیا ہے ۔ بلا شبہ عبدالجلیل بسمل ایک کامیاب محقق ہیں ۔
مسعود شہر یار ،۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۴ء تک ڈھاکا میں انجمن اردو مشرقی پاکستان کے اہم رکن کی حیثیت سے منسلک رہے ۔ انھوں نے ’’ مشرقی پاکستان میں اردو ادب کا وسیع تر جائزہ‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ۳۴ ۔ مسعود کی تنقید جدید اور سائنٹفک ہے ۔ گر چہ ان کے قیام کا عرصہ بنگلا دیش میں مختصر رہا ۔ تا ہم انھوں نے اپنی تنقید و تحقیق کا رشتہ بنگلا دیش کی سر زمین سے جوڑ کر اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم باب بن کر حیات ابدی پا گئے ۔ ان کی یہ کتاب تاریخی، سیاسی اور ادبی حیثیت سے مفید کارنامہ کہی جاسکتی ہے ۔ مسعود کی تنقید تعمیری ہے ۔ وہ ترقی پسند نقادوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر یوسف حسن (۱۹۲۶ء پیدائش) کھلنا میں اپنی تعلیمی درس گاہ ( پرائیویٹ اسکول) سے منسلک ہیں ۔ انھوں نے بنگال میں اردو ( آغاز سے ۱۹۴۷ء تک ) کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈھاکا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ جس کا صرف ایک حصہ زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آچکا ہے ۳۵ ۔ کتاب میں مصنف ناقد سے زیادہ ایک با شعور محقق کہلانے کے مستحق ہیں ۔ ڈاکٹر یوسف حسن کے متعدد تحقیقی مضامین موقر جرائد میں شائع ہوتے آ رہے ہیں ۔ تحقیق و تفتیش میں مصنف بڑی عرق ریزی سے کام لیتے ہیں۔
ڈاکٹر نورالدین (۱۹۲۹ء۔۱۹۹۹ء) کا شمار بنگالی نژاد اردو مصنف میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے ’’ اسلامی تصوف اور علامہ اقبال‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ ’’ تاریخ ادبیاتِ اردو حصہ اول حصہ دوم ( مطبوعہ اردو اکیڈمی لاہور ۱۹۹۷ء) ان کی تحقیق و تنقید کا قابل قدرکارنامہ ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے علامہ اقبال کی سوانح اور شعری خدمات سے متعلق بنگلا زبان میں بھی ایک تحقیقی کتاب ’’ مہا کوی اقبال‘‘ ( عظیم شاعر اقبال) رقم کی۔ ڈاکٹر نورالدین کو بنگلا، اردو او ر انگریزی تینوں زبانوں سے اچھی واقفیت تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین تینوں زبانوں میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ علامہ اقبال کی فکر تصوف اور کودی سے متعلق انگریزی میں ۶۴ صفحات پر مشتمل کتاب ( ALLAMA IQBAL’S ATTITUDE TO WARD SUFISM AND HI SUNIQUE PHILOSOPHI OF KHUDIS SELF)ٰٓٓایک مفید تحقیقی کو شش ہے ۔
پروفیسر اسد الحق ، کشتیا سرکاری کالج میںدرس و تدریس کے پہلو بہ پہلو تحقیق و تنقید کی خدمات بھی انجام دیتے رہے ۔ ’’ نئی اور پرانی روشنی‘‘ ان کے اردو تحقیقی مضامین کا مجموعہ۱۹۹۶ء میں سبزی باغ پٹنہ ( انڈیا) سے شائع ہوا ۔ ان کا طبعی رجحان تنقید سے زیادہ تحقیق کی طرف مائل ہے ۔’’ نذ رالاسلام ۔ شاعر انقلاب‘‘ مثنوی کی تاریخ ، فلسفہ اقبال کی اساسی قدریں ‘‘ وغیرہ مصنف کے بہترین تحقیقی مضامین ہیں ۔
شفیق احمد شفیق کا تعارف شاعر ، تنقید نگار اور صحافی کی حیثیت سے ہے ۔ موصوف قیام بنگلہ دیش کے بعد کراچی ہجرت کر گئے ۔نقاد کی حیثیت سے شفیق کا درجہ قابل ذکر ہے ۔ گر چہ ان کی تنقید وقتاً فوقتاً تاثراتی اور نظریاتی زمرے میں آجاتی ہے ۔ کیوں کہ انھوں نے زیادہ تر ان فن کاروں یا فن پاروں پر اظہار خیال کیا ہے جن سے وہ کسی نہ کسی انداز سے متاثر ہوئے ۔ مثلاً انھوں نے نظیر صدیقی ، ایوب جوہراور اظہر قادری پر جو رائے ظاہر کی ہے، یہ تاثراتی کہی جا سکتی ہے ۔ تا ہم فیض احمد فیض ، جوش ملیح آبادی ، غلام عباس وغیرہ میں شفیق احمد کی تنقید تعمیری کہی جائے گی۔ انھوں نے فن کار کے مفید پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’’ اردو ادب مشرقی پاکستان میں ‘‘ ( تنقید و تحقیق) اور تنقید (مطبوعہ ایجوکیشنل پریس کراچی ۱۹۹۱ء) ادراک( تنقید) ان کے مضامین کا مفید مجموعہ ہے ۳۷ ۔
احمد الیاس کا تعارف بنگلا دیش میں کہنہ مشق شاعر ، مضمون نگار اور صحافی کی حیثیت سے ہے۔ ان کا بنیادی میدان شاعری ہے ۔ طرز تحریر میں وہ ترقی پسند خیالات کے حامی ہیں لیکن روایت سے منحرف نہیں ۔ وہ وقتاً فوقتاً تحقیقی مضامین ، کتابوں کے دیباچے بھی سپرد قلم کرتے آرہے ہیں ۔ خصوصاً بنگلہ دیش میں اردو شعر و ادب کے محققین کو ان کے مضامین سے مفید اطلاعات حاصل ہوتی ہیں ۔ احمد الیاس کے مضامین تاریخی، تحقیقی وافادی حیثیت سے قابل قبول ہیں۔بڑی نا سپاسی ہوگی اگر جناب شعیب عظیم کی تحقیقی و تنقیدی خدمات کا ذکر نہ کیاجائے ۔ شعیب عظیم بنگلا دیش میں اردو کے ایک بے لوث خادم کہے جاتے ہیں ۔ ان کا مطمح نظر تعمیر ادب ہے ، تخریب ادب نہیں ۔ وہ ادبی تحقیق میں بڑی عرق ریزی سے کام لیتے ہیں ۔ تنقید کے معاملے میں شعیب عظیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دوستانہ لہجے میں فن کار کو اس کی خامیوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے مضامین بر صغیر کے متعدد جرائد میں شائع ہوتے آرہے ہیں ۔
۱۹۴۷ء کے بعد سے حال تک شعر و ادب کی سرگرمیوں سے متعلق ان کی معلومات وسیع ہیں ۔ اردو محققین کو ان سے بڑی اچھی ہدایت ملتی رہیں ۔ رسالہ’’ عقاب‘‘ (ڈھاکا) سہ ماہی ’’خرام‘‘(ڈھاکا) مصور ماہنامہ ’’ دلربا‘‘ ایک تفصیلی جائزہ وغیرہ ان کی تحقیق و تدقیق کی ایک حد تک کامیاب سعی ہے ۔بنگلا دیش میں ۱۹۴۷ء سے تا حال تک اردو تحقیق و تنقید کی سر گرمیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ قیام بنگلا دیش کے بعد اردو کے نا مساعد حالات میں بھی محققین و ناقدین کی یہ دلچسپی اس بات کی ضامن ہے کہ مستقبل میں اردو تحقیقی کاموں کی اچھی روایت باقی رہے گی ۔
منابع و ماخذ :
۱۔ عبدالغفور نساخ ۔ تذکرۃ المعاصرین، کلکتہ ۱۸۰۹ء؁
۲۔ ایضاً تذکرۂ سخن شعرا ء، نول کشور لکھنؤ ۱۸۷۴ء؁
۳۔ منشی رحمن علی طیش تواریخ ڈھاکا ، ضلع آرہ ، بہار ۱۹۱۰ء؁
۴۔ حکیم حبیب الرحمن، آسودگانِ ڈھاکا ۔ منظر پریس ، ڈھاکا ۱۹۴۶ء؁
۵۔ حکیم حبیب الرحمن، ثلاثہ عسالہ ۔ لاہور ۔۱۹۹۵ء؁
۶۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی، دور حاضر اور اردو غزل گوئی ، شیخ غلام علی اینڈ سنز ۱۹۵۱ء؁
۷۔ ایضاً تحقیق کی روشنی میں ۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۹۶۳ء؁
۸۔ ڈاکٹر کینز بتول، بنگلہ دیش میں اردو ادب ( ۱۹۴۷ء تا ۱۹۹۰ء) غیر مطبوعہ تحقیقی مقالہ
۹۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری ، اردو زبان کا ارتقاء، گہوارۂ ادب ڈھاکا ۱۹۵۶ء؁
۱۰۔ ڈاکٹر کینز بتول، مذکورہ بالا۔
۱۱۔ ڈاکتر آفتاب احمد صدیقی ، گلہائے داغ، مکتبہ عارفین پریسڈھاکا۱۹۵۷ء؁
۱۲۔ایضاً صہبائے مینائی ، مطبوعہ ڈھاکا ۱۹۵۸ء؁
۱۳۔ ایضاً شبلی ایک دبستان ، مکتبہ عارفین پریس ڈھاکا،
۱۴۔ڈاکٹر کنیز بتول ۔ متذکرہ بالا ص ۱۵۰
۱۵۔ ڈاکٹر حنیف فوق ، مثبت قدریں ، مطبع پاسبا ن ڈھاکا۱۹۵۸ء ص ۷۵
ٍ۱۶۔ ایضاً متوازن نقوش ، نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی ۱۹۸۹ء؁
۱۷۔ارشد کا کوی ، ماہنامہ ندیم ڈھاکا ، جون و جولائی ۱۹۶۰ء؁
۱۸۔ پروفیسر ہارون الرشید ، محفل جو اجڑ گئی ، زین پبلی کیشن کراچی ۲۰۰۲ء؁ ص ۱۷۹
۱۹۔پروفیسر محمد عبداللہ ۔ قاضی نذرالاسلام۔ ڈھاکا ۱۹۷۱ء؁
۲۰۔ پروفیسر ڈاکٹر کلثوم ۔ متذکرہ بالا
۲۱۔ پروفیسر ام سلمیٰ ۔ بنگلہ دیش کے فارسی و اردو ادب میں تاریخی ما خذ، انیسویں صدی میں غیر مطبوعہ تحقیقی مقالہ
۲۲۔پروفیسر کلیم سہرامی ، روایت در روایت ( تنقید و تحقیق) نقاد پبلیشر عالم گنج ،پٹنہ ۱۹۹۱ء؁
۲۳۔ پروفیسر کلیم سہرامی ، بنگال میں غالب شناسی ، اقبال روڈڈھا کہ۱۹۹۰ء؁
۲۴۔ پروفیسر کلیم سہرامی ، مآثر بنگال ۔ پھلواری شریف، پٹنہ ۱۹۳۰ء؁
۲۵۔ پروفیسر اقبال عظیم ۔ مشرقی بنگال میں اردو ۔ چاٹگام ۱۹۵۴ء؁
۲۶۔ ڈاکٹر وفا راشدی کی خود نوشت کوائف۔ راقمہ کے سوال نامے کے جواب میں جو انھوں نے فراہم کئے۔
۲۷۔ ماہنامہ سیارہ لا ہور ۔ فروغ نمبر ۱۹۹۵ء؁
۲۸۔ پروفیسر ہارون الرشید ۔ اردو ادب اور اسلام ۔ اسلامک پبلی کیشنز لمٹیڈ لاہور ۱۹۷۰ء؁
۲۹۔پروفیسر ہارون الرشید۔ محفل جو اجڑ گئی ۔ زین پبلی کیشنز کراچی ۲۰۰۲ء؁
۳۰۔ پروفیسر اظہر قادری ۔ فکر و فن کے محرکات ۔ آہنگ نو کراچی ۲۰۰۱ء؁
۳۱۔ پروفیسر نظیر صدیقی ۔سو یہ ہے میری زندگی ۔ خود نوشت سوانح حیات ۱۹۹۱ء؁
۳۲۔ شہزاد منظر کی خود نوشت کوائف راقمہ کے سوال نامے کے جواب میں انھوں نے فراہم کئے ۔
۳۳۔ مسعود شہر یار ۔ مشرقی پاکستان میں اردو ادب کا وسیع تر جائزہ، کتابیات پریس لاہور ۱۹۹۹ء؁
۳۴۔ ڈاکٹر یوسف حسن ۔ بنگال میں اردو ( ۱۹۴۷ء؁ تک)
۳۵۔ اسدالحق شیدائی ، نئی اور پرانی روشنی ، تنقید و تحقیق پٹنہ ۱۹۹۶ء؁
۳۶۔ شفیق احمد شفیق ، ادراک: مطبوعہ ایجوکیشنل پریس کراچی
mmm