Urdu Zabaan ki Riwayat aur Kabeer

Articles

اردو زبان کی روایت اور کبیر

ڈاکٹرقمر صدیقی

کبیر کی تعلیمات کا بنیادی مقصد زندگی کی سچائیوں کا ادراک حاصل کرنا تھا۔ وہ بنیادی طور شاعر نہیں
تھے بلکہ انھیں ایک سماجی مصلح یا زیادہ سے زیادہ صوفی یا سنت کہا جاسکتا ہے۔ البتہ اپنے افکار و خیالات کی ترویج کے لیے انھوں نے شاعری کو ذریعہ بنایا۔ چونکہ وہ بھگتی اور صوفیانہ افکار سے متاثر تھے لہٰذا ان کا کلام بھی بھگتی اور صوفیانہ رنگ سے مملو ہے۔اسی بھگتی اور تصوف کے رنگ کی وجہ سے کبیر کی تعلیمات زندگی کی فہم اور ادراک کا حوالہ بن گئیں۔زندگی کے سارے روشن و تاریک پہلو ان
کی شاعری میں یوں منکشف ہوتے ہیںگویا ساجد و مسجود ایک دوسرے کے روبرو معلوم ہوں:

لالی تیرے لال کی ، جِت دیکھو تِت لال

لالی دیکھن میں گئی ، میں بھی ہوگئی لال
کبیر اپنی بھگتی میں اس مقام پر ہیں جو فکر و تردد اور غم سے آزاد ہے۔فکر و تردد جیسے محسوسات دل میں اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل بھید بھاﺅ کی آلائش میں لتھڑا ہوا ہو۔ دراصل بھگت اور بھگوان کے درمیان دوری ہی اس بھید بھاﺅ کی جڑ ہے ۔جبکہ کبیرکا تو یہ حال ہے کہ ”پھوٹا کنبھ جل، جل ہی
سمانا“۔ گویا کبیر کے نزدیک عبد و معبود کا رشتہ بہتے ہوئے جل کی مانند نہیں ہے بلکہ اس رشتے کی معراج لہروں میں سماجانا ہے:

کہنا تھا سو کہہ دیا ، اب کچھ کہا نہ جائے

ایک رہا دوجا گیا ، دریا لہر سمائے
ڈاکٹر تارا چند نے اپنی کتاب Infulances of Islam on Indian Culture میں تحریر کیا ہے کہ ”کبیر نے مسلم صوفیا کی صحبت میں کافی وقت صرف کیا“ اور ”کبیر کے خیالات و جذبات پر صوفی درویشوں اور فارسی شعرا کی پوری چھاپ پائی جاتی ہے“۔ڈاکٹر تاراچند نے پند نامہ ، فرید الدین عطار، جلال الدین رومی، شیخ سعدی کی مثالیں دے کر کبیر سے ان کا موازنہ بھی پیش کیا اور ساتھ ہی ابنِ سینا، منصور حلاج اور بعض دوسرے صوفیا کے کبیر پر اثرات کا ذکر
بھی کیا ہے۔
خود کبیر کی شاعری بھی اس کی غماز ہے۔ ان کی شاعری میں فارسی کے بعض مشہور شعرا کے جذبات و خیالات اس طرح جاگزیں ہیں کہ اکثر جگہوں پر ترجمہ کا
گمان ہوتا ہے۔ مثلاً عمر خیام کی رباعی ہے کہ :

ایں کوزہ گراں کہ دست بر گل دارند

عقل و خرد و ہوش براں بگمارند

مشت و لکدد طمانچہ تاچندزنند

خاکِ بدہاں شاں چہ می پندا رند
]وہ کوزے بنانے والے کمہار( جن کے ہاتھ مٹی، گارے سے سنے ہوئے ہیں اور اس پر اپنی عقل ، ذہن اور ہوش کو لگائے ہوئے ہیں) کب تک اس پر مکّے ، لات اور چپت مارتے رہیں گے۔ ان کے منہ میں خاک ، وہ اس مٹی کو کیا سمجھتے ہیں۔ یہ مٹی عظیم تر باصلاحیت شخصیات کی خاک ہے۔ انھیں اس کی ایسی درگت نہیں کرنی چاہئے۔[

اب کبیر کا یہ دوہا دیکھئے:

ماٹی کہے کمہار سے تو کا روندے موہے

ایک دن ایسا ہوئے گا میں روندوں گی توہے
حافظ کا ایک مصرعہ ”ہر کسے پنچ روزہ نوبت اوست“]ہر شخص کی نوبت پانچ دن کی ہے[ ضرب المثل کی طرح مشہور ہے۔ کبیر نے حافظکے اس مصرعہ سے جگہ جگہ
استفادہ کیا ہے۔ دو مثالیں پیش ہیں:

۱) کبیرا نوبت آپنی دس دن لیہو بجائے

۲) چار دن اپنی نوبت چلی بجائے
اسی طرح فردوسی کا شعر ہے:
چہ بندی تو دل بر سرائے فسوں
کہ ہردم ہمیں آید آواز کوس
]تو اس رنج و الم سے بھری دنیا سے کیوں دل لگاتا ہے۔ یہاں تو ہروقت چل چلاﺅ اور کوچ کے نقارے کی آواز آتی ہے۔ ]

کبیر کے یہاں یہی مضمون اس رنگ میں نظر آتا ہے۔
کبیرا سریر سرائے ہے کیا سوئے سکھ چین
سُو انس نگارہ کوچ کا باجت ہے دن رین

اسی طرح مولانا روم اور شیخ سعدی کے مندرجہ ذیل اشعار سے کبیر نے جس طرح استفادہ کیا ہے وہ بھی قابلِ ذکر ہے۔
چشم بند و لب ببند و گوش بند

گر نہ بینی سر حق برمن بہ خند

]آنکھ ، ہونٹ، کان بند یعنی دَم کو روکے رکھ ، تجھے اُس کا دیدار ہوجائے گا اور اگر نہ ہوتو مجھ پر ہنس۔[
دیکھ ری دیکھ تجھ سہی تیرا دھانی ، دم کو روک دیدار پاوے
دم کو روک ار ، مول کو بند کر چاند سورج دھر ایک آوے

دل بدست آور کہ حج اکبر ست

از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر ست

]کسی کا دل جیت لینا حج اکبر کے مانند ہے اور ہزاروں کعبوں سے ایک دل کی اہمیت زیادہ ہے۔[
ستّر کعبے یک دل بھیتر جو کر جانیں کوئی

شیخ سعدی ہی کا ایک شعر ہے جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ جب تک انسان منہ سے کچھ بولتا نہیں ہے تب تک اس کی شخصیت کے بارے میں صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا:

تا مرد سخن نہ گفتہ باشد

عیب و ہنرش نہفتہ باشد

اب کبیر کے یہاں دیکھئے کیسی یکسانیت ہے۔

بولیاں پیچھے جانیئے جو جاکو بیوہار

کبیر کے یہاں فارسی کی صوفیانہ شاعری کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ نہ صرف یہ کہ زبان و بیان بلکہ خیالات میں بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا مثالوں کے علاوہ بھی ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جس میں کبیر کی شاعری میں صوفیانہ افکار و خیالات کی گونج بہت واضح ہے۔ مثلاً مشہور صوفیانہ خیال ہے کہ موت کے انتظار میں غفلت نہیں برتنی چاہئے کیونکہ اس سے پردہ دور ہوجاتا ہے اور قطرہ سمندر میں مل جاتا ہے۔ مشہور فارسی شاعر ابو سعید کے مندرجہ ذیل کلام میں اسی خیال کا اظہار ملتا ہے۔

دل خستہ و سینہ چاک می بایدشد

وزہستی خویش پاک می بایدشد

آں بہ کہ بخود پاک شویم اول کار

چوں آخر کار خاک می بایدشد

کبیر نے اس خیال کو کچھ اس طرح دہرایا ہے:

جیون تے مر بھلو مرجانے کوئے

مرنے پہلے جے مرے کل اجر اور ہوئے

حالانکہ قدیم ہندوستانی عقائد کے ساتھ ادب و ریاضت میں بھی موت کو نظر انداز کرنے کا رجحان ملتا ہے لیکن اس کے برعکس کبیر نے مسلم صوفیوں کا طرز اختیار کرتے ہوئے موت کو سود مند کہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خیالات و افکارپر مسلم صوفیا کا اثر کس درجہ تھا۔کبیر کے یہاں مسلم صوفیا کے افکار مثلاً کسی کی دل آزاری کی ممانعت اور دکھے دلوں کی آہ کے نتیجہ میں عذاب کی بشارت وغیرہ کا عموماً ذکر ملتا ہے۔ شیخ سعدی کے ایک شعر

چراغے کہ بیوآں زنے بر فروخت

بسے دیدہ باشی کہ شہرے بسوخت

کو کبیر نے کچھ اس ڈھنگ سے کہا ہے:

دربل کو نہ ستائیے جاکی موٹی ہائے

بنا جیوں کی سانس سوں ، اوہ بھسم ہوئے جائے

ایک اور ہندی شعر میں بھی اسی طرح کا خیال پیش کیا ہے:

دکھیا کو تم جن کلپاﺅ کہ دکھیا دیہہ روئے

دکھیا کے جو مکھیا سنہہ جڑے دیہی کھوئے

اوپر کبیر کی شاعری پر فارسی شعرا کے افکار و خیالات کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے اثرات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ خود اردو زبان اور اردو شاعری کے آغاز و ارتقا میں بھی کبیر کی شاعری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں کبیر سے منسوب مندرجہ ذیل ریختہ کو جس میں ردیف اور قافیہ کی پابندی بھی روا رکھی گئی بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔

سنتا نہیں دہن کی خبر ان حد باجا باجتا

رسمند مندر گاجتا باہر سنے تو کیا ہوا

گانجا افیم و پوستا بھنگ اور شرابیں پیوتا

اک پریم رس چاکھا نہیں علمی ہوا تو کیا ہوا

کاسی گیا اور دوارکا تیرتھ شکل بھرمت پھرے

گانٹھی نہ کھولی کپٹ کی تیرتھ گیا تو کیا ہوا

پوتھی کتابیں باچتا اوروں کو نت سمجھاوتا

نرکوٹی محل کھوجے نہیں بک بک مرا تو کیا ہوا

قاضی کتابیں کھوجتا کرتا نصیحت اور کو

محرم نہیں اس حال سے قاضی ہوا تو کیا ہوا

شطرنج ، چوپڑ ، گنجفہ اک مزد ہے بد رنگ کی

بازی نہ لائی پریم کی کھیلا جوا تو کیا ہوا

جوگی و گنبر سے بڑا کپڑا رنگے رنگ لال سے

واقف نہیں اس رنگ سے کپڑا رنگا تو کیا ہوا

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ریختہ موسیقی کی ایک اصطلاح ہے اور موسیقی میں اب بھی اس کا رواج تھوڑا بہت باقی ہے۔ مخدوم علاﺅالدین اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں: ”ریختہ کا اطلاق ایسے سرود پر ہوتا تھا جس میں ہندی اور فارسی کے اشعار یا مصرعے یا فقرے جو مضمون و تال اور راگ کے اعتبار سے متحد ہوتے تھے اور ترتیب دیئے جاتے تھے۔ “ اس کی مثال میں امیر خسرو کی وہ غزل پیش کی جاتی ہے جس کا مطلع ہے:

زحال مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں

چوں تاب ہجراں ندرام اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

کبیر کے یہاں زبان اور خیال دونوں سطحوں پر ہند +اسلامی روایت کا ابتدائی نقش جھلکتا نظرآتا ہے جس نے آگے چل کر اردوزبان کی صورت برصغیر ہندو پاک کی تہذیبی زندگی کو ثروت مند کیا۔گذشتہ سطور میں فارسی شعرا اور کبیر کے خیالات میں مماثلت پر بحث آچکی ہے اسی طرح زبان کے ارتقا کے سلسلے میں عرب علما مثلاً جاحظ، ابن قتیبہ، ابن رشیق ، جرجانی اور خلدون وغیرہ نے بڑی دیدہ ریزی دکھائی ہے۔ خلدون اور جاحظ نے خیال کے مقابلے لفظ کو اولیت دی ہے ۔ مثلاً: خلدون (۲۳۷ تا ۸۰۸ئ)نے اپنے مشہور زمانہ مقدمہ میں نقل کیا ہے:

”یاد رکھئے ! شاعری یا مضمون نگاری کا تعلق الفاظ سے ہوتا ہے، معانی سے نہیں۔اس سلسلے میں معنی الفاظ کے تابع ہوتے ہیں اور الفاظ ہی اصل ہوتے ہیں۔ لہٰذا شاعر یا مضمون نگار جو اپنے اندر ملکہ پیدا کرنا چاہتا ہے وہ اپنی پوری پوری توجہ الفاظ پر رکھتا ہے۔زبان پر گفتگو میں صرف الفاظ ہوتے ہیں اور معنی دلوں میں ہوتے ہیں۔اس لیے شاعری وغیرہ کا تعلق الفاظ سے ہوتا ہے معنی سے نہیں۔اس کے علاوہ معنی تو ہرشخص کے پاس ہوتے ہیں اور حسب منشا ہر فکر کے مسخر ہوتے ہیں۔ان کے سلسلے میں کسی فن کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ البتہ موزوں عبارت لانے کے لیے اور مناسب الفاظ استعمال کرنے کے لیے فن کی لاحق ہوتی ہے۔الفاظ گویا معنی کے سانچے ہیں ، جیسے برتن جن سے دریا سے پانی نکالا جاتا ہے۔سونے ، چاندی، سیپ، شیشے اور مٹی کے ہوتے ہیں اور پانی ایک ہی ہوتا ہے۔معنی بھی ایک ہی ہوتا ہے ، مگر زبان میں عمدگی اور بلاغت مختلف کلاموں میں اختلا ف کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ کون سا کلام مقاصد کے زیادہ مطابق ہے اور کون سا کم۔جو تراکیب و اسالیبِ کلام سے نا آشنا ہوتے ہیں اور انھیں زبان کے ملکہ کے تقاضوں کے مطابق پیش نہیں کرسکتے اور کلام پھسپھسا لاتے ہیں ، وہ بمنزلہ ایک اپاہج کے ہیں جو کھڑے ہونے کا تو قصد کرتا ہے مگر پاہج ہونے کی وجہ کھڑا نہیں ہوسکتا۔“
(مقدمہ ابنِ خلدون ۔ ص: ۵۱۴۔ مترجم : مولانا راغب رحمانی۔ ناشر: نفیس اکیڈمی، کراچی۔ ۱۰۰۲ئ)
ابنِ خلدون ہی طرح جاحظ بھی کلام میں لفظ کی فوقیت کا حامی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ:

”معنی تو پیش پا افتادہ ہوا کرتے ہیں، اسے تو عربی ، عجمی ، دیہاتی ، شہری سب جانتے ہیں۔ دراصل اہمیت اوزان کی ، اچھے الفاظ کے استعما ل کی اور زبان کے سہل المخرج ہونے (وغیرہ وغیرہ) کی ہے۔ بیشک شعر ایک صنعت ہے اور تصویر کشی کا ذریعہ ہے۔“
(مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت۔ ص: ۴۶)

یہاں غور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ کبیر کے یہاں بھی لفظ کی حرمت و احترام کا وہی احساس نظر آتا ہے جو مذکورہ عرب علماکا ہے۔ کبیر زبان کے تعلق سے

اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:

”کبیر نے سادھوﺅں سے کہا کہ شبدوں کی سادھنا کیجئے یعنی الفاظ پر عبور حاصل کرنے کے لیے ریاض ضروری ہے۔ لفظوں کی گہرائی و گیرائی تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے ممکنہ سعی کیجئے۔ الفاظ کو موتیوں کی طرح لڑی میں پرونا، ان سے ہار یا مالا تیار کرنا ہنر مندی کی دلیل ہے۔کبیر کے نزدیک الفاظ کا درست استعمال ایک طرح کی روشنی اور انبساط کی حصولیابی کا وسیلہ ہے۔“
(اردو چینل ، جلد ۹، شمارہ۱ ۔ مئی ۶۰۰۲ء۔ ص:۹۲۱)

محمود شیرانی نے اپنی کتاب ”پنجاب میں اردو“ میں رقم کیا ہے:” ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد ریختہ نے موسیقی سے نکل کر عمومیت حاصل کرلی اور اس کا اطلاق ایسے کلام منظوم پر ہونے لگا جس میں دو زبانوں کا اتحاد ہواور دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ریختہ ایسی نظم ہوتی تھی جس میں ہندی ، فارسی کے اشعار یا فقرے متحد ہوتے تھے۔“ یہی ریختہ آگے چل کر اردو کہلایا۔ شیرانی صاحب اپنی اسی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:” ریختہ سے مراد اگرچہ ولی اور سراج کے ہاں نظم اردو ہے لیکن دہلویوں نے بالآخر اس کو زبان اردو کے معنی دے دیئے اور یہ معنی قدرتاً پیدا ہوگئے اس لیے کہ ان ایام میں اردو زبان کا تما م تر سرمایہ نظم ہی میں تھا۔ جب نثر پیدا ہوگئی تو یہی اصطلاح اس پر ناطق آگئی اس طرح ریختہ قدرتاً اردو زبان کانام ہوگیا۔“

کبیر کا تعلق اودھی علاقے سے تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے کہ ” شیخ عبد القدوس گنگوہی (1455ءتا 1538ئ) اور سنت کبیر (وفات1518ئ)کے پہلے کسی صوفی نے ”ہندی /ہندوی“ کو شمال میں ادبی اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا لیکن شیخ گنگوہی اور نہ کبیر نے اس خالص کھڑی میں لکھا جو ترقی کرکے آج کی اردو بنی ۔ شیخ گنگوہی کی زبان پر برج حاوی ہے اور کبیر کی زبان میں اودھی اور بھوجپوری کے عناصر نمایاں ہیں۔“ لیکن ان باتوں کے باوجود بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کبیر کی شاعری میں جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ اس زمانے کی عوامی زبان تھی اور ظاہر ہے کیا شمال ، کیا جنوب اس دور کے ہندوستان میں جو لسانیاتی جگل بندی کا رواج شروع ہوا تھا اس کے نتیجے میں پورے ملک میں اردو کا جادو سر چڑھنے لگاتھا۔ اس زبان نے اپنا رنگ جمانا شروع کردیا تھا اور عوام میں یہ زبان تیزی سے مقبول ہورہی تھی۔ گو کہ اس وقت اردو کے خد و خال بہت واضح نہیں ہوئے تھے۔ کبیر نے بھی اپنی شاعری کے لیے اسی عام فہم اور عوام فہم زبان و سہارا لیا تھا ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ کبیر کی شاعری اردو سے کتنی قریب ہے اوراسے سمجھنا آج بھی اتنا دشوار نہیں ہے