Volcano A Short Story by Dr. Qamar Saleem

Articles

آتش فشاں

محمد قمر سلیم

راعین پہلی ایسی آئی اے ایس آفیسر تھی جو اتنی کم عمر میں ملک کے چیف سکریٹری ہوم کے عہدے پر فائز تھی ۔ اس نے ۲۲ سال کی عمر میں آئی اے ایس کا امتحان ٹاپ کیا تھا۔راعین چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے سب کی چہیتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ سب پر اس کا خوب رعب چلتا تھا۔ وہ بہت بولڈ آفیسر تھی۔اس کی شبیہ ایک ایمان دار بیوروکریٹ کی تھی۔کسی بھی غلط کام کو اس نے منظوری نہیں دی اسی لیے اس کے ہم منصبوں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی بہت محتاط رہتی تھی۔ راعین کی شخصیت ایسی تھی کہ ملک کا ہر سیاست داں اورحکومت کے وزراء اور اہم اعلیٰ عہدے داران سب ہی اس پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔اس نے اپنی ذہانت کی بنا پرنہ جانے کتنے مواقعوں پر ملک اور قوم کو خطروں سے باہر نکالا تھا ۔ادھر کچھ مہینوں سے وہ بہت پریشان تھی کیوں کہ نئی حکومت جب سے آئی تھی اسے ہو م سکریٹری کے عہدے سے ہٹانا چاہتی تھی لیکن ڈرتی بھی تھی کہ اپوزیشن اور عوام حکومت کو چین سے نہیں رہنے دیں گے اس لیے چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔
راعین جب سے ہوم سکریٹری بنی تھی اذلان اس کے ڈرائیور کے فرائض انجام دے رہا تھا۔حکومت نے اذلان کا بھی ٹرانسفر کرنا چاہا جسے راعین نے رکوا دیا اور یہ کہہ کر قصّہ ختم کیا جب تک وہ ہوم ڈپارٹمنٹ میں ہے، اذلان ہی اس کا ڈرائیور رہے گا۔اذلان راعین کا بہت خیال رکھتا تھا۔ ایک دن راعین نے اس سے اس کے بارے میں پوچھنے کی کوشش بھی کی تو اس نے صرف اتنا بتایا کہ وہ سوپور کا رہنے والا ہے۔ اب دلی میں شفٹ ہو گیا ہے اور ایشور نگر میں رہتا ہے ۔اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن مائرہ بھی ہے جو کالج میں پڑھتی ہے اور وہیں ہاسٹل میں رہتی ہے۔ راعین اکثراذلان کے بارے میں سوچا کرتی تھی کہ وہ اتنا اداس کیوں رہتا ہے؟اذلان کتنا ہینڈسم ہے، کتنی اچھی انگلش بولتا ہے ، کتنا اچھا اس کا برتائو ہے ، پڑھا لکھا لگتا ہے پھر بھی وہ ڈرائیور کی نوکری کر رہا ہے؟نہ جانے کیوں، راعین کو اس کی آنکھوں سے درد جھلکتا سا نظر آتا تھا۔ کچھ تو ہے جس کو وہ چھپا رہا ہے۔کچھ تو ہے جسے وہ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پا ر ہا ہے اس نے کئی بار پوچھنے کی کوشش کی لیکن اذلان زیادہ تر خاموش ہی رہا ۔ وہ جتنا اس کے بارے میں سوچتی اتنا ہی اذلان اس کے وجود پر طاری ہو تا جا رہا تھا ۔ وہ کوشش کے باوجود اپنے آپ کو اذلان سے الگ نہیں کر پا رہی تھی۔ دھیرے دھیرے راعین اذلان کی طرف کھنچنے لگی۔ ایک انجانا سا خوف اس کو ستانے لگا کیوں کہ اس کے دل میں اذلان کے لیے ایک خاص مقام پیدا ہو گیا تھا۔ وہ اذلان کو اتنی اہمیت کیوں دے رہی ہے۔ اس کا جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا۔ وہ اپنی یکطرفہ دیوانگی کو کیا نام دے۔ کیا اس کے دل کے کسی گوشے میں محبت کا چراغ روشن ہے؟وہ اپنے ہی ڈپارٹمینٹ کے ادنیٰ سے ڈرائیور سے محبت کیسے کر سکتی ہے۔دنیا ، حکومت اور ملک کے عوام اس کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ مگر اس نے کبھی بھی اپنے فرائض سے کوتاہی تو نہیں کی ہے ۔ اس نے کبھی بھی حکومت کو اور عوام کو مایوس نہیں کیا ہے ۔ کیا اس کا یہ قدم سب کے لیے باعث شرم ہوگا ۔۔۔ مگر یہ تو اس کا ذاتی معاملہ ہے ۔ تو کیا ہوا دنیا بھر کی نظریں تو اس کے اوپر ٹکی ہوئی ہیں۔ دنیا اسے اس کے ذاتی معاملے کے طور پر تو نہیں دیکھے گی ۔وہ عجب کشمکش میں تھی۔ وہ اپنے آپ بڑ بڑانے لگی ’مگر میں بھی تو انسان ہوں، کیا میرے جذبات نہیں ہیں ؟ کیا میرے سینے میں دل نہیں دھڑکتا؟ اور نہ جانے ایسے ہی کتنے سوالات اس کے ذہن میں ابھرتے رہے ۔ اس نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دے دی، راعین! ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ وہ تو صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ بھی ایک عورت ہے جس کے سینے میں ایک حسّاس دل دھڑکتا ہے اور ہر عورت کی طرح اسے بھی اپنے جذبات کی عکاسی کرنے کا حق ہے ۔ یہی سوچ کر اس نے سوچا اسے اذلان سے اپنی خواہش کا اظہار کر دینا چاہیے۔ لیکن کیسے ؟ ایک دن جب وہ گھر واپس جا رہی تھی ، اچانک اس نے اذلان سے کہا ، ’ اذلان ذرا کار روکیے۔ ‘ اذلان نے ایک جھٹکے کے ساتھ کار روک دی ۔ کار رکتے ہی راعین آگے کی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی۔ اذلان کے لیے یہ سب کچھ غیر متوقہ تھا ۔راعین کے بیٹھنے کے بعد اذلان نے کار کو پھر سڑک پر دوڑانا شروع کر دیا۔ راعین نے اس سے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔ وہ اذلان سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی ۔ اس کا گھر آگیا تھا۔ وہ اذلان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کار سے اتر گئی اور کار اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
تین دن ہو چکے تھے اسے آگے کی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے لیکن وہ اپنے دل کی بات اذلان سے نہیں کہہ سکی تھی ۔ آج وہ کچھ سوچ کر پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنے جا ہی رہی تھی کہ اذلان نے اس سے کہا ، ’میڈم !کیا بات ہے آج آگے نہیں بیٹھیں گی۔‘ اسے جیسے کرنٹ لگا ہو اور وہ کچھ کہے بنا آگے جاکر بیٹھ گئی لیکن پھر وہی خاموشی۔اس نے ایک بار پھر اذلان کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھنا
شروع کر دیا ۔ ـ’ ارے اذلان آپ اپنی بہن کو ہمارے گھر لے کر آیئے ‘ ’ جی میڈم ! ‘ اس کا مختصر سا جواب تھا۔’ اذلان آپ کی بہن کیا کر رہی ہے ؟ ‘ جی! وہ ڈینٹسٹ کا کورس کر رہی ہے۔ ‘ ’ ارے واہ ! بہت اچھا کیا جو اس کو آپ لوگ ڈینٹسٹ بنا رہے ہیں۔ یہ کتنی خوش آئند بات ہے کہ آج ہم مسلم لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔‘ کچھ دیر بعد اس نے اذلان کو مخاطب ہو کر پوچھا ، ’اذلان ! آپ اگر برا نہیں مانے تو پوچھ سکتی ہوں کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کیوں حاصل نہیں کی۔ ‘ اذلان نے ایک جھٹکے سے گاڑی روک دی شکر تھا کہ آگے پیچھے کوئی گاڑی نہیں تھی حالانکہ اذلان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اذلان بولا، ’ نہیں میڈم ! ایسا نہیں ہے ۔ ‘ اور پھر اتنا کہہ کر اذلان تو جیسے پھٹ پڑا تھا۔ ’ میڈم! آپ اونچے عہدے پر بیٹھے لوگ کیا جانیں گے کشمیریوں کے بارے میں۔‘ اس نے بہت طنزیہ لہجے میں کہا، ’ کشمیری تو صرف دہشت گرد بن سکتا ہے ، اسے کیا لینا دینا پڑھائی سے ۔ آپ اعلیٰ تعلیم کی بات کر رہی ہیں ،۔کچھ وقفے کے بعد اذلان رندھی ہوئی آواز میں بولا، ’ کشمیر کا ہر بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہر کشمیری طالب علم کچھ بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ہر کشمیری نوجوان ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔میں جو بننا چاہتا تھا وہ نہیں بن سکا ، کیا ملا مجھے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے۔‘
اس کی عجیب کیفیت تھی ۔کچھ توقف کے بعد اس نے پھر کہنا شروع کیا ، ’ میڈم ! میں کشمیری ہوں اور ایک کشمیری کا درد صرف ایک عام کشمیری سمجھ سکتا ہے ، یہ اعلیٰ عہدوں پر فائز کشمیری بھی نہیں اور مرکز کی بات کرنا تو فضول ہے ۔ کون سے ماں باپ ہیں جو چاہیں گے کہ ان کا بچہ بڑا ہوکر بندوق ہاتھ میں اٹھائے؟ کون سی ماں چاہے گی کہ اس کی کوکھ سونی ہو؟کس باپ نے خواب نہیں دیکھے؟ہمارا قصور یہ ہے کہ ہمارے دل ہندوستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔’سارے جہاں سا اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ ہم کہتے نہیں تھکتے۔ اور ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم آزاد کشمیر بنا نہیں سکتے ، پاکستان کے ساتھ جا نہیں سکتے، اور ہندوستان ہمیں اپنانا نہیں چاہتا ۔ ہم کریں تو کیا کریں؟ ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ پتھر پکڑا دئے گئے سیاہی کی جگہ خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ ان کے خواب ریت کے ٹیلوں کی طرح ہیں کہ کب طوفان آئے اور ان کے خوابوں کو چکنا چور کرکے چلا جائے۔ اب تو ہر کوکھ سوکھ گئی ہے اور پھر کوئی کیوں اپنی کوکھ ہری کرے ،کیا اس لیے کہ اس میں دہشت گرد بسیرا کرے ۔ بچے کا وہ حسین احساس ہر کشمیری عورت کے لیے خواب بن کر رہ گیاہے کیوں کہ وہ حقیقت بننے سے پہلے ہی چکنا چور ہوجاتا ہے۔ کشمیر کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں ماتم نہ ہوتا ہو، جہاں کوکھ سونی نہ ہوئی ہو۔وہاں ہر ماں روتی ہے، ہر باپ تڑپتا ہے، ہر بیٹی سسکتی ہے اور ہر بیٹے کا خون کھولتا ہے۔ ہر کشمیری ا من چاہتا ہے ، کشمیر کی ترقّی چاہتا ہے لیکن یہ سیاست داں پاکستان کا بہانہ لیکر کشمیریوں کو غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کشمیریوں کے کاروبار تباہ کر رہے ہیں ۔کشمیر ی سیاحت ختم کی جا رہی ہے۔ کشمیری بے روزگار ہو رہے ہیں۔کیا پھربھی کشمیری تشدد اپنائے گا ۔ ارے اس کے تو دو وقت کے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ صبح کھاتا ہے تو شام کی فکر ستانے لگتی ہے۔ وہ تشدد کیوں کر کرے گا؟کیا ہر ماں بچے کو اسی لیے جنم دے رہی ہے کہ اسے تشدد کی نظر کر دے ۔ نہیں یہ صرف سیاست کا کھیل ہے جس میں عام کشمیری مارا جا رہا ہے ۔ سیاست داں نہیں چاہتے کہ کشمیر کا کوئی حل نکلے کیوں کہ جس دن کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا اس دن ان سیاست دانوں کی دوکانیں بند ہو جائیں گی ۔ ان سیاست داں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ان کو تو صرف اقتدار چاہیے ہے ، سیاست کرنا ہے چاہے وہ انسانی لاشوں پر ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے بچے نہیں مرتے ہیں۔ ان کے یہاں کوکھ سونی نہیں ہوتی، ان کے گھر نہیں اجڑتے ہیں ، ان کے خواب چکنا چور نہیں ہوتے ہیں، ان کے یہاں ماتم نہیں ہوتا ہے، ان کے بچوں کو پتھر نہیں ملتے، کتابیں ملتی ہیں کتابیں۔۔۔یہ کیا جانے درد کیا ہوتا ہے؟ یہ کیا جانے موت کیا ہوتی ہے؟ یہ دلوں کی تڑپ کیا جانے؟ یہ تو سب بیوپاری ہیں بیوپاری۔۔۔لاشوں کے بیوپاری ، جذبات کے بیوپاری، دلوں کے بیوپاری۔۔۔یہ کیا جانے دہشت کیا ہوتی ہے ؟گولی کی آواز اور دردناک چیخ کی آواز میں کیا فرق ہوتا ہے؟ پیلٹ گن سے ان کے بچے اندھے نہیں ہوتے ، ان کی اور ان کے اہل ِ خانہ کی زندگیاں برباد نہیں ہوتیں۔آپ کو کیا معلوم ہر ماں راستے میں نگاہیں بچھائے بیٹھی رہتی ہے ، وہ جب تک دروازے سے نہیں ہٹتی جب تک اس کا لال گھر نہ آجائے اور پھر وہ شکرانۂ رب بجا لاتی ہے۔اسے تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا لال خود واپس آئے گا، یا چار کاندھوں پر سوار ہو کر آئے گا یا پھراس کے لا پتا ہونے کی خبر آئے گی اور پھر اس کا انتظار کرتے کرتے اس کی آنکھیں پتھرا جائیں گی۔یا پھر اس کے بیٹے کی لاش آئے گی اور پھر اس کے احتجاج میںاور لاشیں بچھ جائیں گی اور پھر نہ جانے کتنی گودیں سونی ہوجائیں گی۔کوئی نہیں سمجھ سکتا کشمیری کا درد کوئی نہیں۔ ۔۔کوئی ہمارے بارے میں کچھ نہیں سوچتا ۔نہ ہماری ریاست کے لوگ اور نہ ہمارے ملک کے لوگ ۔ ہمیں تو سب نے زخم دیے ہیں۔کیا ہمارے ہندوستانی آقا اورکیا ہمارے نام نہاد پاکستانی آقا ۔اور کیا دیا ہے ہندوستانی مسلمانوں نے ہمیں؟ ہم اپنی جنگ خود ہی لڑ رہیں ہیں۔ ۲۰۔۲۵ کروڑ کی آبادی نے کب ہمارے لیے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ہم سے صرف اتنی محبت ہے کہ کبھی کبھار کسی اخبار میں ہم سے ہمدردی کا اظہار کر دیا جاتا ہے ۔ یہی ہمارا وجود ہے، یہی ہماری داستان ہے۔‘
’ہاں میڈم ! آپ نے پوچھا تھا کہ میں کیوں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکا؟ میری بھی دنیا تھی میرے بھی حسین خواب تھے ایک جھٹکے میں سب چکنا چور ہوگئے۔میرے والد کشمیر کے بڑے بزنس مین تھے ۔ میں بھی آئی اے ایس آفیسر بننا چاہتا تھا۔ میرے والدین نے ہم سب بہن بھائیوں کو اچھے اسکول میں پڑھایا تھا۔ یہ اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے ۔میں انٹر پاس کرکے بی ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ساتھ ہی آئی اے ایس کی تیاری بھی چل رہی تھی۔ میرے چھوٹے بھائی روحان نے دسویں پاس کی تھی اور میری بہن زائرہ انٹر میں تھی وہ میڈیکل میں جانا چاہتی تھی ۔ مائرہ جو میرے ساتھ رہتی ہے نویں میں تھی ۔ تبھی دہشت گرد میری بہن زائرہ کو اٹھا کر لے گئے۔ زائرہ اور روحان بہت چیخے چلّائے لیکن گولیوںکی آوازوں کے بیچ ان کی چیخ پکار بے معنی تھی۔ روحان کسی طرح ان کے ٹرک میں چھپ کر بیٹھ گیا تھا۔ ان کا کچھ پتہ نہیں چلا ۔ہم نے سارے جتن کرلیے۔پولس ، منسٹر، نیتاکسی کو نہیں چھوڑا۔ اپنے بچوں کو واپس لانے کے لیے میرے باپ نے سب کے آگے ہاتھ جوڑے۔وہ دن ہمارے گھر قیامتِ صغرا لیکر آیا تھا۔ گھر ماتم کدہ بن گیا۔ چولھے بجھ گئے تھے ، سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ زندگی ہم سے روٹھ گئی تھی ۔۔۔ما ں باپ کے آنسوئو ں کے بیچ لوگوں کی جھوٹی ہمدردیاں، فریبی وعدے۔ روتے رو تے ما ں کی آنکھوں کا پانی سوکھ گیا تھا۔ بابا کا سینا دھونکنی بنا ہوا تھا۔ مائرہ حیرانی کی مجسم تصویر تھی۔میں پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر بس چکر کاٹ رہا تھا۔ہمارے ہنستے کھیلتے گھر کو نظر لگ گئی تھی ۔ میرے بابا کا بڑے بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا تھا ۔انھوں نے زمین آسمان ایک کر دیا مگر ان کے بچوں کا کچھ پتا نہیں چلا۔
تقریباً ۱۵ دن بعد ایک شام جے کے ایس اے کی گاڑی ہمارے گھر کے سامنے آکر رکی۔ انھوں روحان کی لاش کو باہر نکالا اور زائرہ، جو ایک سفید چادر میں لپٹی ہوئی تھی ، کو گاڑی سے اتارا۔ جے کے ایس اے کے جوانوں اور آفیسر ز نے مجھے اور میرے بابا کو دلاسا دیا اور کہا ، ’ ہماری اسپیشل ٹیم نے آپ کی بیٹی اور بیٹے کو بچانے کی پوری کوشش کی لیکن ہم آپ کے بیٹے کو نہیں بچا سکے ۔ زائرہ نے آفیسرز اور جوانوں کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہنا چاہا لیکن ناکام رہی۔ ایک جمِ غفیر امنڈ پڑا تھا ہمارے گھر پر ۔ہزاروں لوگوں نے روحان کی تدفین میں حصّہ لیا تھا۔ گھر میں قبرستان جیسی خاموشی تھی۔ زائرہ نے بسترِ مرگ پکڑ لیا تھا۔امی بابا غم سے نڈھال تھے ،میں بھی ٹوٹ چکا تھا، ‘ اس کی آواز رندھ گئی تھی ۔ اس کا چہرہ تمتما رہا تھا اور وہ غصے سے پاگل ہو ئے جا رہا تھا۔راعین کا ہاتھ غیر ارادی طور پر اس کے ہاتھ پر چلا گیا تھا اذلان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کے چند قطرے اس کے ہاتھ پر گرے۔ راعین نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اذلان کو تسلی دی ۔ اذلان آگے کچھ کہنے والا تھا کہ راعین کا گھر آگیا۔اس نے سوچا کا ر کا رخ مڑوا دے لیکن کار اس کے دروازے کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔ وہ کار سے اترکر لاچار و مجبوری کی تصویر بنی کھڑی تھی ۔
وہ رات بھر سو نہیں سکی تھی نہ ہی اس نے رات میں کھانا ٹھیک طرح سے کھایا تھا وہ تو فقط اذلان کے خیالوں میں ہی گم تھی، اس کے بارے میں ہی سوچے جارہی تھی۔اس نے سچ ہی تو کہا تھا کہ کشمیریوں کے لیے کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے ۔ صرف ان کو بہکے ہوئے نوجوان کہہ کر سب اپنا پلّہ جھاڑ لیتے ہیں۔ کتنی سچائی تھی اذلان کی باتوں میں ، کتنا درد چھپا تھا اس کے سینے میں۔ اتنے اونچے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی وہ بھی توکشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی تھی ۔اسی ادھیڑ بن میں نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی تھی لیکن یقیناً وہ دو گھنٹے سے زیادہ نہیں سوئی تھی۔ صبح نو بجے اذلان کا ر لیکر آ گیا تھا۔ پی ایم او سے ایک اہم کال آئی تھی اس لیے اس نے اذلان سے پی ایم او آفس چلنے کے لیے کہا تھا۔ وہ دونوں راستے بھر خاموش رہے۔ پی ایم او آفس میں اس نے پرائم منسٹر کے سکریٹری سے کچھ ضروری باتیں کی ۔دس منٹ بعد وہ وہاں سے نکلی لیکن کچھ پریشان سی تھی پی ایم او سے وہ سیدھی اپنے آفس آئی اور اب وہ اترپردیش کے تین دن کے دورے پر جارہی تھی۔ دوپہر میں اس کی ماں کا فون آیا تھا۔وہ اپنی ماں کو ’ آپا ‘ کہہ کر بلاتی تھی ۔ ’ جی آپا! بولیے ۔‘ ہاں بیٹا ، ارے بیٹا میں نے تجھے بتایا تھا نا رشتے کے بارے میں ۔وہ تیرے پاپا پوچھ رہے تھے۔‘ اس نے ماں سے بہت ہی جھنجھلا کر کہا تھا ’ ارے آپا! ایسی کیا جلدی ہے۔ ابھی تو میں لکھنئو جارہی ہوں وہاں سے آکر بات کرتی ہوں۔‘ ’اچھا‘ کہہ کر اس کی ماں نے فون رکھ دیا ۔ راعین کافی پریشان تھی کیوں کہ یوپی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوگئے تھے جس میں کافی جانی مالی نقصان ہوا تھا۔حکومت کسی بھی قیمت پر
نہیں چاہتی تھی کہ صحیح بات میڈیا کے سامنے آئے اسی لیے راعین کو لکھنٔو میں پڑائو ڈالنا ہی تھا۔ حکومت کو یقین تھا کہ وہ معاملے کو سنبھال لے گی۔ اور ہوا بھی ایسا ہی ۔ وہ حالات کو معمول پر لانے کے بعد دلی واپس آگئی تھی ۔ صبح جب وہ گھر سے نکل رہی تھی اس کی ماں نے وہی راگ الاپا اس کی شادی کا۔
و ہ شام کو گھر آنے کے بعد وہ اپنی ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر جھومنے لگی ۔ ماں نے اس سے کہا، ’ پہلے مجھے بتا تیرا کیا ارادہ ہے مجھے تیرے پاپا کو جواب دینا ہے۔‘ ’ ہاں، آپا! مجھے تم سے کچھ بات کرنا ہے۔‘ پھر اس نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی ماں سے کر دیا۔ ’بیٹا! اپنے پاپا اور بھائیوں کے سامنے یہ بات اپنی زبان پر بھی مت لانا، تیرے پاپا اور بھائی کبھی راضی نہیں ہوں گے، نہیں بیٹا ایسا نہیں ہو سکتا‘ اس نے زور دیتے ہوئے کہا۔ ’آپا ! کیوں نہیں ہو سکتا ۔ آپا میں کہیں اور شادی نہیں کروں گی ۔کوئی کچھ سوچے کوئی کچھ سمجھے میں صرف اذلان سے ہی شادی کروں گی۔‘ ’بیٹا یہ کیسی ضد ہے۔‘ ’ نہیں ! آپا، یہ ضد نہیں ہے ۔ میں اذلان کے ساتھ ہی خوش رہ سکتی ہوں۔‘ ’لیکن بیٹا! دنیا جہان کیا کہے گا۔ تیرے پاپا بھائی کسی کو منھ دکھانے لایق نہیں رہیں گے اور پھر لوگ تیرے بارے میں کیسی کیسی باتیں کریں گے۔ تیری ساکھ پے کتنا اثر پڑے گا۔ ‘
دھیرے دھیرے راعین نے اذلان کے دل میں جگہ بنا لی اور اب اذلان بھی راعین کی طرف راغب ہو رہا تھا ۔ راعین کے ارادے اب اور بھی مظبوط ہوگئے تھے ۔ اس نے اذلان کو شادی کے لیے بھی تیار کر لیا تھا ۔ اس نے اپنے پاپا اور بھائیوںکو بھی بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود لیکن راعین اپنے ارادے سے ٹس سے مس نہیں ہوئی اور ایک دن اذلان اور راعین نے کورٹ میرج کرلی۔ ان کی شادی ہوتے ہی اس کے والدین اور بھائیوں نے اس کا سرکاری بنگلہ چھوڑ دیا تھا اور وہ اپنے آبائی مکان میں واپس چلے گئے تھے ۔ ادھر حکومت نے اذلان کا ٹرانسفر ہوم سے سوشل ویلفیر ڈپارٹمنٹ میں کر دیا تھا۔
اس شادی کی وجہ سے اس کی زندگی میں بحران پیدا ہو گیا تھا ۔ اس کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ آفس کی زندگی میں بھی ہلچل مچ گئی تھی۔نئی حکومت پہلے ہی سے اس کے اوپر اعتبار نہیں کر رہی تھی یہ سنہرا موقع اس کے ہاتھ آگیا تھا۔اب حکومت کے احکامات اس تک نہیں آتے تھے ۔ ایک طرح سے سارا کام کاج اس کا ڈپٹی سنبھال رہا تھا۔ہے۔ حکمران پارٹی کی طرف سے اس پر تنقیدیں بھی بہت ہو رہی تھیں۔گھر والے بھی اس سے خفا تھے ۔ اس گھڑی میں اگر کوئی اس کے ساتھ تھا تو اذلان اور اس کی ماں۔ ۔تبھی فون کی گھنٹی بجی ۔ اس کی ماں کا فون تھا۔ ’ جی آپا! ‘ بیٹا تو فکر نہ کر سب اچھا ہو جائے گا ۔ میں تیرے پاپا اور بھائیوں کو منا لوں گی ۔بیٹا ویسے تجھے سب مس کرتے ہیں ۔ بیٹا تو اپنا خیال رکھنا۔ تیری بہت یاد آرہی ہے۔‘ وہ خاموشی سے سنتی رہی ، اس کی ماں رورہی تھی۔پھر وہ اپنی ماں کے بارے میں سوچنے لگی۔ کتنے دکھ اٹھائے ہیں میری ماں نے۔ میری خاطر اسنے اپنی پوری جوانی دائو پر لگا دی۔اس کی سب خواہشات، تمنائیں ، خاک میں مل گئیں ، اس کا ہر خواب چکنا چور ہوگیا۔ جوانی میں اس پر بڑھاپا آگیا۔ کیا نہیں کیا اس نے میرے لیے۔ میں تو بچپن سے ہی بیماررہتی تھی اور بیماری بھی ایسی جو زندگی بھر کا روگ تھی، روزانہ ہی تو کم سے کم ہر تین گھنٹے بعد میری تھریپی ہوتی تھی۔ڈاکٹرس بھی تو پر امید نہیں تھے ۔ وہ تو میری ماں کی انتھک محنت تھی جس کی وجہ سے آج میں یہا ں ہوں۔مجھے نہیں یاد ہے کہ میری ماں کبھی بھی تین گھنٹے سے زیادہ سوئی ہو۔اس نے میری نوکری لگنے کے بعد ہی تو سروس چھوڑی تھی۔صبح سے لیکر رات تک سب کے کام کرنا ۔ پورے ۲۴ گھنٹوں میں کم سے کم چھ مرتبہ میریی تھیریپی کرنا ۔اور رات میں سب کے سونے کے بعد میری تھریپی کرکے پھر سونا۔ اور وہ بھی جب کہ مجھے جنم دینے والی ماں تو مجھے دو سال کا ہی چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔ مجھے زندگی کے اصل معنی تو میری آپا نے بتائے ہیں میری سمجھ میں نہیں آتاکیوں لوگ ماں کو سوتیلا اور حقیقی کے نام دیتے ہیں ، کیوں ماں کے ساتھ سابقے اور لاحقے لگائے جاتے ہیں۔ ماں تو ماں ہوتی، صرف ماں۔ اس کے منھ سے ایکدم نکلا، ’اے اللّہ! تو سب کو میری ماں جیسی ماں دینا۔‘

وہ اپنے پاپا کو بہت چاہتی تھی ۔ اس کے پاپا یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ وہ روشن خیال ، سلجھے ہوئے ذہن کے مالک تھے ۔ ہر چھوٹے بڑے سے بہت محبت کرتے تھے ۔ امیر غریب میں کبھی فرق نہیں کرتے تھے ۔ ان کے نذدیک سب برابر تھے۔
وہ تو کہتے ہیں چھوٹے لوگ بہت حساس ہوتے ہیں ان کی دلشکنی نہیں کرنا چاہیے اسی لیے اسے سب سے زیادہ دکھ اپنے پاپا کے رویّے سے ہوا تھا۔ اس نے تو سوچا تھا کہ جب وہ اذلان سے شادی کی بات کہے گی تو اس کے پاپا اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ازلان گہری نیند سو رہاتھا۔ راعین خود سے باتیں کرنے لگی، ’ پاپا اذلان بہت اچھے ہیں ، وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ بہت پڑھے
لکھے ہیں ۔ پاپا میں جانتی ہوں آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہے لیکن پاپا ایسا نہیں ہے۔ اذلان ہر لحاظ سے ہمارے خاندان سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں ۔ سروس کرنے سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہو جاتا ہے۔ ا ذلان نے ایم ایس سی انجینیرنگ اور ایم بی اے کیا ہے۔پاپا آپ شاید نہیں جانتے کہ اتنا پڑھ لکھنے کے بعد اذلان کا ہوم منسٹری میں ڈرائیور کی پوسٹ پر کام کرنا مصلحت سے خالی نہیں تھا۔ اذلان انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے سینے میں آتش فشاں سلگ رہا تھا ۔ پاپا آپ کو تو اپنی بیٹی پر فخر کرنا چاہیے۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کی بیٹی نے ایک آتش فشاں کو ٹھنڈا کر دیا ۔ اگر یہ آتش فشاں پھٹ جاتا تو قیامت برپا ہو جاتی۔پھر صرف کشمیر ہی نہیں جلتا پورا ملک اس کی لپٹوں میں جھلس جاتا ۔اور اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہوتا۔۔۔ پاپا ! مجھے وہ دن یاد ہے جب اذلان نے مجھے بتایا تھا۔۔۔اذلان نے ایک ٹھنڈی آہ بھرکر بہت جذباتی ہو کر کہا تھا، ’ روحان کے انتقال کے چند دنوں بعد ہی زائرہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ روحان اور زائرہ کی موت کے بعد امی بالکل خاموش ہوگئی تھیں۔ کسی سے کچھ نہیں کہتی تھیں۔ صرف آسمان کی طرف دیکھتی رہتی تھیں۔ پھر ان کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اور ایک دن وہ بھی خاموشی سے ہم سب سے بہت دور چلی گئیں۔ میرے بابا اتنا زیادہ ڈر گئے تھے کہ مائرہ کو اپنی نظروں سے ایک پل کے لیے بھی اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔ میں نے کسی مرد کی آنکھوں میں اتنا خوف نہیں دیکھا تھا۔ بابا تین مہینے تک صدمہ برداشت کرتے رہے پھر انھوں نے بھی زندگی سے ہار مان لی۔میں بھی بے بس تھا۔ دل تو چاہتا تھا سب کچھ جلا کر راکھ کر دوں لیکن بابا نے مائرہ کی ذمے داری میرے اوپر ڈال دی تھی۔ میں صرف ایک خاموش تماشائی بن کر رہ گیا ہوں اور مائرہ تو بے جان پتھر ہے۔ اس نے ہنسنا رونا سب چھوڑ دیا ہے۔اسے دیکھ کر بہت ڈر لگتا ہے کہیں کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اسی لیے میں اپنے غصے کو پی گیا ۔بابا نے ہی مرنے سے پہلے مجھ سے کہا تھا بیٹا مائرہ کو یہاں سے دلی لیکر چلے جائو ۔ یہاں یہ تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے اور مائرہ کا بھی وہ وہی حشر کریں گے جو انھوں نے زائرہ کا کیا تھا۔ بیٹا مائرہ یہاں محفوظ نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم بھی وہ کرو جو روحان نے کیا ۔ میں نہیں چاہتا میرے خاندان کا نام و نشان مٹ جائے۔اور پھر مرتے وقت انھوںنے کہا تھا بیٹا روحان کو دہشت گردوں نے نہیں جے کے ا یس اے نے مارا تھا اور انھوں نے ہی زائرہ کے ساتھ اتنے دن منھ کالا کیا۔بیٹا زائرہ نے اس وقت اشارے سے ان آفیسرز کے بارے میں بتانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ہم نہیں سمجھ سکے۔مرتے وقت اس نے سب کچھ بتایا تھا وہی آفیسرز جو انھیں چھوڑنے آئے تھے انھوںنے ہی ان کے ساتھ ننگا ناچ کھیلا تھا اور الزام دہشت گردوں پر عائد کر دیا تھا۔‘ یہ کہہ کر اذلان خاموش ہوگیا تھا۔پاپا آپ کو یہی شکایت ہے نا کہ میں نے آپ کی مرضی سے شادی نہیں کی ۔پا پا سچ تو یہ ہے کہ جو رشتے
آرہے تھے انھیں مجھ میں دلچسپی نہیں تھی بلکہ میرے عہدے سے دلچسپی تھی۔مجھے اذلان سے اچھا شوہر مل ہی نہیں سکتا تھا ، وہ سچی محبت کرنے والا انسان ہے۔ پاپا! اور پھر آپ کی اپاہج بیٹی کو کون حقیقت میں اپناتا۔۔۔ کوئی نہیں! صرف اور صرف اذلان ۔‘
راعین گھٹن محسوس کر رہی تھی ۔ اس نے اپنی آپا کو فون ملایا ۔’ہاں بیٹا ۔ اچھا ہوا تیرا فون آگیا ۔میں تجھے ہی فون کرنے والی تھی ۔کل ہم سب لوگ تیرے گھر آرہے ہیں ۔ہاں ہاں تیرے پاپا اور سب بھائی ۔میں نے کہا تھا نہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘ اس کی آپا نے سب ایک سانس میں کہہ ڈالا۔راعین نے اذلان کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا ۔


ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061
[email protected]