Wajood be Saya a Story by Salim Sarfaraz

Articles

وجود بےسایہ

سلیم سرفراز

سورج سوا نیزے پر کھڑا تھا ـ سر پر مئی کی برہنہ رقص کرتی ہوئی دھوپ اور قدموں تلے نڈھال بچھی ہوئی کولتار کی نم آلود لیکن شعلہ فشاں سڑک ـ سنسان اور پرسکوت ـ اس کا جسم چولہے کی تیز آنچ پر چڑھے ہوئے توے کی طرح تپ رہا تھا ـ اس کے پیروں میں پلاسٹک کی چپل تھی جو گرم کولتار کی پگھلی سڑک پر چپک چپک جاتی تھی ـ وہ بمشکل قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ـ اسے شدت سے کسی ایسے سائے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی جہاں وہ کچھ دیر کے لیے اپنے مضمحل جسم کو دھوپ کے سفاک اور بےرحم پنجوں سے بچا سکے لیکن کہیں جائے پناہ نہیں تھی ـ یکایک اس کے ذہن میں ایک گھنے اور سایہ دار درخت کی شبیہ ابھری ـ اسے یاد آیا کہ تھوڑی ہی دوری پر وہ درخت موجود ہے ـ اس نے خود کو تسلی دیتے ہوئے خودکلامی کی ـ
“بس ـ تھوڑا سا حوصلہ اور ـ کچھ ہی فاصلے پر وہ گھنا سایہ دار شجر منتظر ہے ـ اس کی مہربان بانہوں میں قدرے راحت مل جائے گی ـ “
اس حوصلہ افزا دلاسے سے اس کے شل ہوتے جارہے پیروں میں توانائی بھر گئی اور اس کے قدم سرعت سے اٹھنے لگے ـ کچھ ہی لمحوں کے بعد وہ اس مقام پر پہنچ گیا ـ
لیکن یہ کیا…؟ اس کی آنکھوں میں حیرت کی گرم ریت بھر گئی ـ اس نے اپنی جلتی ہوئی آنکھوں کو ہاتھ سے ملتے ہوئے چہار سمت دیکھا ـ سبھی آشنا مناظر نگاہوں کے سامنے اپنی موجودگی کا اعتراف کررہے تھے لیکن وہ درخت غائب تھا جس کے سائے میں راحت پانے کی چاہ میں وہ اپنے پژمردہ جسم کو کسی طرح یہاں تک گھسیٹ لایا تھا ـ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ اس نے گہری بےیقینی سے سوچا ـ کل تک تو وہ تناور درخت اپنے بےشمار بازوؤں کو فضا میں پھیلائے ہوئے یہیں پر کھڑا تھا ـ کیا اسے راتوں رات کاٹ ڈالا گیا ـ لیکن آس پاس درخت کے کٹنے کا کوئی نشان تو ہوتا ـ وہ کوئی چھوٹا سا پودا نہیں تھا ـ زمین کے بڑے رقبے کو اس کی جڑیں قبضہ کیے ہوئے تھیں ـ درخت کٹ جانے کے باوجود اس کی جڑیں تو ہوتیں ـ وہاں تو کولتار کی سڑک بچھی تھی جسے دیکھ کر قطعی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ آج کل میں بچھائی گئی ہو ـ تو کیا اس کا ذہن انتشار کا شکار تھا؟ کیا یہ وہ جگہ نہیں جہاں وہ درخت موجود تھا؟ اس نے بہ نظرغائر چاروں طرف کا جائزہ لیا ـ سامنے ہی سڑک کی دوسری جانب کسی موبائل کمپنی کا اونچا ٹاور حسب سابق کھڑا تھا ـ اس کے قریب ہی پختہ چبوترے پر ملک کے ایک بڑے رہنما کا قدآور مجسمہ نصب تھا ـ درخت کے نیچے بیٹھ کر وہ ہمیشہ انہیں دیکھتا آیا تھا ـ انہیں اپنے سابقہ مقام پر دیکھ کر اس کا یقین قوی ہوا کہ وہ صحیح جگہ پر ہے لیکن تعجب خیز امر تھا کہ وہ درخت اپنی جگہ پر نہیں تھا ـ آخر وہ کدھر کھو گیا؟ وہ گہرے مخمصے میں پڑگیا ـ وہ دیر تک وہیں کھڑا اس ناقابلِ یقین معمے کو حل کرنے کی سعی کرتا رہا ـ سنسان سڑک پر کوئی ذی نفس بھی نہیں تھا کہ اس سے اس درخت کے متعلق استفسار کیا جاتا ـ معاً اس کی نگاہ مخالف سمت سے آتے ہوئے ایک شخص پر پڑی تو اسے تھوڑا اطمینان ہوا ـ شاید وہ اس گتھی کو سلجھانے میں مدد کرسکے ـ قریب آنے پر اس نے دیکھا کہ وہ ایک ستر بہتر سالہ بزرگ تھے ـ ان کے وجیہ چہرے پر گہری سنجیدگی اور متانت تھی ـ چھریرے جسم پر سلیقے کا لباس تھا ـ کچھ سوچتی ہوئی سی گہری آنکھوں پر نفیس قسم کی عینک چڑھی تھی ـ اس نے انہیں اپنی جانب متوجہ کیا تو وہ استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگے ـ
“بڑے میاں! یہاں ایک گھنا سایہ دار درخت تھا ـ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کیا ہوا؟ “ـ
اس نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا تو بزرگ نے ادھر دیکھا ـ وہ کچھ دیر تک اپنے ذہن پر زور ڈالتے رہے اور پھر پرخیال آواز میں گویا ہوئے ـ
“ہاں! شاید برسوں پہلے یہاں ایک درخت ہوا کرتا تھا ـ “
“میں برسوں پہلے کی بات نہیں کررہا ہوں ـ “
اس کے لہجے میں قدرے تلخی در آئی ـ
“وہ درخت کل تک یہاں موجود تھا ـ “
“اچھا! ” ان کے چہرے پر پشیمان سی مسکراہٹ ابھری ـ
“بیٹے ـ مجھے تو ہر واقعہ ہر منظر برسوں پہلے کا ہی لگتا ہے ـ دراصل ضعیفی نے میرے ذہن کو خاصا متاثر کیا ہے ـ تمہارے کہنے پر مجھے بھی یاد آرہا ہے کہ کل تک اس جگہ ایک تناور درخت موجود تھا ـ لیکن وہ گیا کہاں؟ “
انہوں نے بھی تعجب کا اظہار کیا تو اسے گہری ناامیدی ہوئی ـ
“میں تو کافی دیر سے اسی تذبذب میں مبتلا ہوں کہ وہ کہاں گم ہوگیا ـ یہ تو یقینی بات ہے کہ اسے کاٹا نہیں گیا ورنہ زمین پر کچھ نشانات تو ہوتے ـ آخر وہ ایک تناور درخت تھا ـ “
دونوں دیر تک اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے کھڑے رہے ـ قدرے توقف کے بعد کچھ سوچتے ہوئے اس نے بزرگ سے استفسار کیا ـ
“کیا درخت بھی چلتے ہیں؟ کیا پتہ وہ خود ہی یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور چل دیا ہو ـ “
“درختوں کے چلنے کے بارے میں تو میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہ سکتا ـ “
بزرگ نے معذوری ظاہر کی اور پھر خوابیدہ لہجے میں بولے ـ
“لیکن ہاں! انہیں باتیں کرتے تو میں نے دیکھا ہے ـ برسوں پہلے جب میں بچہ تھا اور گاؤں میں رہتا تھا ـ ہمارے آنگن میں بہت سے درخت تھے ـ میری ماں گھریلو کام سے فرصت پاکر گھنٹوں ان سے باتیں کرتی رہتی تھی ـ جب وہ کلام کرسکتے ہیں تو شاید چلتے بھی ہوں ـ “
“میں بہت دور سے اس کے سائے میں بیٹھنے کی خواہش لیے چلا آرہا ہوں لیکن یہاں اس کا وجود ہی نہیں ـ مجھے لگتا ہے کہ یہ خواہش مجھے تاعمر پریشان رکھے گی ـ اچھا ـ ایک التجا کروں ـ کیا آپ اسے تلاش کرنے میں میرا تعاون کرسکتے ہیں؟ “
اس کے لہجے میں کچھ ایسی لجاجت اور لرزش تھی کہ بزرگ کا دل درد سے بھر آیا ـ انہوں نے سرعت سے کہا ـ
“ہاں! ہاں! کیوں نہیں بیٹے ـ میں یقیناً اس جستجو میں تمہارا ساتھ دوں گا ـ مجھے بھی بےحد تجسس ہے کہ وہ کہاں گیا؟ “
“میں تو اس راستے سے کسی سائے کی تلاش کرتا ہوا آرہا ہوں ـ ظاہر سی بات ہے کہ ادھر یہ درخت نہیں گیا ـ آپ مخالف سمت سے آرہے ہیں ـ کیا آپ نے راستے میں کوئی درخت دیکھا؟ “
” کہہ نہیں سکتا ـ “
بزرگ کے لہجے میں خجالت کے آثار تھے ـ
“دراصل میرے اندر یادوں کا ایسا ہجوم ہوتا ہے کہ مجھے باہر کے مناظر کی مطلق خبر ہی نہیں ہوتی ـ “
“تو پھر کیوں نہ اسی طرف چلتے ہیں ـ “
بزرگ نے اثبات میں سر کو جنبش دی تو دونوں اس طرف چل پڑے ـ ہرچندکہ دھوپ کی تپش میں مزید اضافہ ہوچکا تھا لیکن اب اسے قطعاً اس کا احساس نہ تھا ـ کافی دور چلنے کے باوجود درخت نظر نہ آیا تھا ـ اس نے بزرگ کی طرف دیکھا ـ وہ بھی متلاشی نگاہیں ہر سو دوڑاتے ہوئے اس کے ساتھ چلے آرہے تھے ـ معاً اس احساس سے اسے تاسف ہوا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس بزرگ اور شریف النفس انسان کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے ـ اس نے خفت آمیز لہجے میں انہیں مخاطب کیا ـ
“میری وجہ سے آپ بھی پریشان ہورہے ہیں ـ گھر میں بیوی بچے آپ کے منتظر ہوں گے ـ “
“نہیں! نہیں! پریشانی کی کوئی بات نہیں ـ یوں بھی میرے گھر میں میرا انتظار کرنے والا کوئی نہیں ـ “
“کیامطلب؟ آپ کی بیوی….اور بچے….. “
اس نے تعجب سے پوچھا ـ
“میرے دو بیٹے ہیں ـ دونوں سنہری خوابوں کے تعاقب میں دور دیس چلے گئے ـ میری بیوی ان کی جدائی برداشت نہ کرسکی ـ پچھلے برس ہی داغ مفارقت دے گئی ـ اب گھر میں کسی آسیب کی طرح میں تنہا بھٹکتا رہتا ہوں ـ حالانکہ کھانے پینے کی فکر نہیں ـ پنشن کی رقم سے بسراوقات ہوجاتی ہے ـ بس یادوں کابےرحم لشکر سدا حملہ آور ہوتا رہتا ہے جس کے خوف سے میں بھاگا بھاگا پھرتا ہوں ـ “
اس نے محسوس کیا کہ ان کی آواز میں اشکوں کی آمیزش ہونے لگی ہے ـ انہوں نے یکلخت خود کو سنبھالا اور قدرے توقف کے بعد اس سے مخاطب ہوئے ـ
“لیکن اتنی شدید دھوپ میں تم کہاں سے آرہے ہو؟ تمہیں دیکھ کر تو لگتا ہےکہ تم شب خوابی کے لباس میں ہی گھرسےنکل پڑےہو. ” اس کے تمام وجود کو ایک زوردار جھٹکاسا لگا ـ اس کےقدم رک گئے ـ ذہن میں آندھیاں سی چلنے لگیں ـ آنکھوں کے سامنے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گزشتہ واقعات اڑنے لگے ـ
وہ دیر رات تک کمپوٹر پر دفتری کام کرتا رہا تھا ـ پلکیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں تو اس نے کمپوٹر بند کیا اور بستر پر دراز ہوگیا ـ بیوی بچوں کے ساتھ میکے گئی ہوئی تھی اس لیے بغل کا حصہ خالی تھا ـ دن بھر کا تھکا ماندہ جسم جلد ہی نیند کی آغوش میں سماگیا ـ جانے کتنی دیر ہوئی تھی کہ پاس رکھے ہوئے موبائل کی تیز آواز سے اس کی آنکھیں کھل گئیں ـ اس نے موبائل اٹھا کر رسیو کیا ـ دوسری جانب سے ایک اجنبی آواز ابھری ـ
“میں سنٹرل اولڈ ایج ہوم سے بول رہا ہوں ـ آپ کے والد کا اچانک انتقال ہوگیا ہے ـ تجہیزوتکفین میں شامل ہونے کے لیے آپ آجائیں ـ “
اس کے ہاتھ سے موبائل گرپڑا ـ آنکھوں تلے اندھیرا سا چھا گیا اور وہ بےحس وحرکت بیٹھا رہ گیا ـ بہت دیر بعد وہ بستر سے اٹھا ـ لرزش زدہ قدموں سے چلتے ہوئے دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا ـ چاروں طرف صبح کی نرم کرنیں پھیلی ہوئی تھیں لیکن اس کے دماغ میں لاوے سے دہک رہے تھے ـ اسے یاد نہیں کہ وہ کس طرح اولڈ ایج ہوم پہنچا اور کیسے تجہیز وتکفین کا سارا عمل انجام پایا ـ وہ قبرستان سے نکلا تو دھوپ شدت اختیار کرچکی تھی اور جسم میں کانٹے کی طرح چبھنے لگی تھی ـ وہ خالی الذہن سا آگے بڑھتا گیا تھا ـ راستے میں دھوپ ناقابل برداشت ہوتی گئی تواسےاس درخت کا خیال آیا تھا ـ
“کیا ہوا؟ کن خیالوں میں کھوگئے؟ ” بڑے میاں کی آواز پر جیسے وہ خواب سے بیدار ہوا ـ اس نے پھٹی پھٹی ناآشنا نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا اور وحشت زدگی سے بڑبڑایا ـ
“میں قبرستان سے آرہا ہوں ـ اپنے والد کو دفن کرکے…… “
“اوہ! “
بڑے میاں گہرے تاسف میں ڈوب گئے ـ
“میں انہیں اولڈ ایج ہوم میں داخل کرانا نہیں چاہتا تھا لیکن.. میری بیوی…… “
اس کی بھرائی ہوئی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے ابھری ـ
“میں سمجھتا ہوں بیٹے ـ “
بڑے میاں نے تسلی آمیز نرم لہجے میں کہا ـ
“وہ بوڑھے ہوگئے تھے ـ دمہ کے مریض تھے جس کی وجہ سے کبھی کبھی رات بھر پریشان رہتے ـ میری بیوی کو بےحد ناگوار لگتا ـ وہ ان کی نگہداشت کرنا تو دور ان کے وجود کو بھی گھر میں برداشت کرنے پر قطعی آمادہ نہیں تھی ـ وہ مجھ پر دباؤ ڈالتی رہتی تھی کہ انہیں اولڈ ایج ہوم میں داخل کردیا جائے ـ میں نے اسے سمجھانے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن لاحاصل ..اس مسئلے پر گھر میں روزانہ تلخی پیدا ہوجاتی ـ یہ سب میرے والد کے بھی علم میں تھا ـ ایک دن انہوں نے خود کہا کہ انہیں اولڈ ایج ہوم میں داخل کر دیا جائے ـ میرے انکار کرنے پر وہ بضد ہوگئے ـ آخرش تنگ آکر میں نے انہیں وہاں داخل کروادیا ـ شروعات میں روزانہ دفتر سے واپسی پر ان سے ملنے جاتا تھا لیکن پھر اس میں وقفہ آنے لگا ـ دراصل میری بیوی نے دونوں بچوں کو مہنگے انگریزی میڈیم اسکول میں داخل کروا دیا تھا ـ ان کے تعلیمی اخراجات اور گھریلو ضروریات کی تکمیل کے لیے میں ایک پارٹ ٹائم جاب بھی کرنے لگا تھا ـ میری مصروفیت بڑھتی گئی تھی ـ ادھر تو میں بہت دنوں ان سے مل بھی نہیں پایا تھا کہ آج صبح اچانک … ….. “
اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں ـ بڑے میاں نے بےحد شفقت سےاس کے شانے پر ہاتھ رکھا تو وہ کسی کٹے ہوئے شہتیر کی طرح ان کے بازوؤں میں ڈھے گیا ـ سنسان اور پرسکوت سڑک پر اس کا گریہ گونجنے لگا ـ بڑے میاں اپنے شانے پر اس کے سر کو رکھے اس کی پشت کو نرمی سے تھپکتے رہے ـ کافی دیر بعد اس کا گریہ تھما ـ اس نے کاندھے سے سر اٹھایا اور آستین سے اپنی آنکھیں پونچھنے لگا ـ بڑے میاں نے پیشکش کی ـ
“تم چاہو تو میرے گھر چل سکتے ہو ـ قریب ہی ہے ـ تھوڑی دیر آرام کرکے چلے جانا ـ “
وہ کسی معمول کی طرح ان کے ساتھ چل پڑا ـ کچھ ہی فاصلے پر چھوٹا سا ایک مکان تھا جس کے دروازے پر قفل جھول رہا تھا ـ انہوں نے جیب سے چابی نکالی اور تالا کھولا ـ وہ اسے لیے ہوئے اندر اس کمرے میں داخل ہوئے جو شاید خوابگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا ـ اسے پلنگ پر بیٹھنے کے لیے کہہ کر وہ دوسرے کمرے میں چلے گئے ـ ثانیے بھر بعد وہ ایک طشت میں کھانے کی اشیا سجالائے ـ طشت اس کے پاس رکھتے ہوئے انہوں نے نرمی سے کہا ـ
“کھاؤ! میں چائے بناکر لاتا ہوں ـ “
ان اشیا کو دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ اسے زوروں کی بھوک لگی ہے ـ اس نے انہیں شکم میں ڈالنا شروع کردیا ـ اس کا کھانا ختم ہونے کو تھا کہ وہ چائے لے کر حاضر ہوگئے ـ چائے پیتے ہوئے اس نے بڑے میاں کو غور سے دیکھا ـ ان کے چہرے پر طمانیت کا گہرا عکس جھلملا رہا تھا ـ معاً اسے اپنے والد یاد آگئے ـ عرصہ قبل جب وہ بچہ تھا ـ شام ہوتے ہی وہ دروازے پر اپنے والد کے انتظار میں بیٹھا رہتا تھا ـ اس کے والد کام سے لوٹتے ہوئے اس کے لیے کھانے پینے کی کوئی شے ضرور لاتے ـ اسے اپنے پاس بٹھا کر بڑی محبت سے کھلاتے ـ وہ کھاتا رہتا اور اس کے والد اسے گہری نگاہوں سے تکتے رہتے ـ اس نے یاد کیا کہ اس وقت ان کے چہرے پر طمانیت اور آسودگی کا کچھ ایسا ہی عکس لہراتا ہوا نظر آتا تھا ـ
جب وہ چائے سے فارغ ہوچکا تو بڑے میاں برتن اٹھاتے ہوئے بولے ـ
” تم تھوڑی دیر آرام کرلو ـ دھوپ کی شدت میں کمی آجائے تو گھر چلے جانا ـ “
اس نے اثبات میں سر کو جنبش دی اور لیٹ گیا ـ جلد ہی نیند اس پر حاوی ہوگئی ـ جب اس کی آنکھیں کھلیں تو بڑے میاں اس کے قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ـ وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ اٹھتے ہوئے بولا ـ “لگتا ہے بہت دیر ہوگئی ـ اب مجھے چلنا چاہیئے ـ “
وہ پلنگ سے اٹھ کھڑا ہوا ـ بڑے میاں بھی کرسی سے اٹھ گئے اور گویا ہوئے ـ
” ٹھیک ہے بیٹے ـ جاؤ ـ لیکن اسے تم اپنا ہی گھر سمجھنا ـ کبھی کسی درد بھرے لمحے میں کسی کاندھے کی ضرورت ہو تو بلاتردد یہاں چلے آنا ـ یہ بوڑھا تمہارے لیے دست دعا دراز رکھے گا ـ “
اس نے شکرگزار نگاہوں سے اس مہربان شخصیت کو دیکھا اور باہر نکل آیا ـ دھوپ اب نرم پڑ چکی تھی اور اس کے لمس میں وہ ناگوار چبھن نہیں رہی تھی ـ وہ اسی راستے پر ہولیا جس سے یہاں تک آیا تھا ـ کچھ ہی دیر بعد وہ اسی مقام پر پہنچ گیا جہاں سے بڑے میاں ساتھ ہوئے تھے ـ
“ارے! یہ کیا؟ “
اس کی سخت حیرت سے پھٹی آنکھیں چھلانگ مار کراس جگہ پہنچ گئیں جہاں وہ گھنا سایہ دار درخت اپنے مکمل وجود کے ساتھ پہلے کی طرح ہی کھڑا تھا ـ ـــــــــــــــــــــ
——————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔