What happened on the ship? Story by Anwar Khan

Articles

جہاز پر کیا ہوا؟

انور قمر

موٹرویسل گاندھی (Motor Vessel Gandhi) نام کا جہاز صوبہ گجرات کی مشہور بندرگاہ کانڈلہ سے، صبح سات بجے صوبہ بنگال کے تاریخی شہر کلکتہ کی جانب روانہ ہوا تھا۔ بحیرۂ عرب کی موجوں میں ہلکا سا تلاطم تھا، ذرا تیز ہوا بہہ رہی تھی، اکادکا سمندر پرندے جہاز کا طواف کرتے اب بھی دیکھے جاسکتے تھے۔ گیارہ بج چکے تھے، کپتان عرش الرحمن اور چیف آفیسر بمل دت کے درمیان دبے دبے سے غصے کے ساتھ بحث ہورہی تھی۔

بمل دت کہہ رہا تھا، ’’سر، کیا آپ نے شنڈلرزلسٹ (Schindler’s List) نہیں دیکھی؟‘‘

کپتان نے جہاز کی چرخی کو کسی قدر بائیں کو موڑتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ہم تم دونوں ہی نے ساتھ دیکھی تھی، غالباً کلکتہ کے میٹروتھئیٹر میں، مگر اس فلم کا ہماری بحث سے کیا تعلق؟‘‘

’’تعلق ہے صاحب اور لازماً ہے۔ کیا اس میں شنڈلر کے نائب نے جو مذہب کے اعتبار سےیہودی تھا اپنے یہودی بھائیوں کی جان نہیں بچائی تھی؟‘‘

’’یقیناً بچائی تھی، مگر شنڈلر کو ان کی جانوں کا بھاری تاوان بھی تو ادا کرنا پڑا تھا۔‘‘ کپتان نے چرخی کو راست وضع پر قائم رکھتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ رک کر بولا:

’’اگر وہ نازیوں کو بصورت جنس یا نقد اس قدر بھاری تاوان ادا نہ کرتا تو یقیناً کئی یہودی نظر بندی ڈیروں میں مار دیے جاتے۔‘‘

’’ہاں صاحب یہی تو میں کہہ رہا ہوں اور ایک مسلمان کی حیثیت سے نہ ایک ہندو کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں، بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں کہ آپ انھیں کلکتہ لے چلیے۔ وہاں دیکھیں گے کہ وہاں کی مارکسی حکومت ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ وہ انھیں پناہ میں لے لے گی۔‘‘

ابھی کچھ دیر پہلے کوارٹر ماسٹر شمسی نے آکر اطلاع دی تھی کہ جہاز پر رکھے ہوئے ایک کنٹینر (Container) کے اندر سے بچے کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جب کپتان نے اس بات کی وضاحت طلب کی تو اس نے کہا:

’’جناب میں حسب معمول ڈیک صاف کر رہا تھا۔ صفائی کرتاہوا جب میں کنٹینر نمبر ستائیس تک پہنچا تو اس کے اندر سے مجھے بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ پھر مجھے محسوس ہوا کہ کسی نے بچے کا منہ داب دیا ہے۔ پہلے تو مجھے خوف محسوس ہوا کہ کنٹینر سے بچے کی آواز آنے کا کیا مطلب؟ کوئی بچہ تو اس کے اندر موجود نہیں؟ اگر ہے تو اس کا منہ داب دینے کا کیا مطلب؟ اس کے علاوہ بھی اس کنٹینر میں کوئی موجود تو نہیں؟ میں دبے پاؤں وہاں سے چلتا ہوا برج پر آگیا تاکہ یہ ماجرا آپ سے بیان کر سکوں۔‘‘

موٹر ویسل گاندھی ایک خستہ حال جہاز تھا۔ اسے کئی سال سے مرمت درکار تھی۔ ڈرائی ڈاکنگ (Dry Docking) کے لیے جہاز کو وزاگا پٹم لے جانے کے کپتان عرش الرحمن کو احکام مل چکے تھے تاکہ وہاں اس کی ازسرنو مرمت ہو، مگر آخری لمحوں میں وہ احکام منسوخ کردیے گئے تھے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ گاندھی کے مالکان کو گجرات کی ایک بڑی چرم ساز کمپنی سے مال و اسباب کی باربرداری کا بڑا ٹھیکہ مل گیا تھا۔’’نور تم داس پر شوتم داس‘‘جہاز رانی کی کوئی سو سال پرانی کمپنی تھی جس کے مالکان اپنے پرکھوں کے قائم کردہ تجارتی اصولوں پر کام کرتے چلے آئے تھے۔ انہوں نے نہ تو کبھی صوبائی حکومت کے مقرر کردہ قوانین کو لانگھنا چاہا تھا،نہ مرکزی حکومت کی مرتب کردہ پالیسی کے خلاف بلاوجہ آزادی لینے کی کوشش کی تھی۔

چنانچہ جب کپتان عرش الرحمن نے کمپنی ہیڈکوارٹر کو بذریعہ فیکس اطلاع دی کہ ایک کنٹینر میں کوئی چالیس کے قریب گجرات کے مہاجر ہیں۔ ان میں نو بچے ہیں، پچیس عورتیں ہیں اور گیارہ ضعیف مرد ہیں۔ ان کا فہرست میں کوئی ذکر نہیں، اس لیے مجھے مطلع کیجئے کہ میں ان کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کروں۔‘‘

کچھ دیر پہلے کپتان کے حکم دینے پر کنٹینر نمبر ستائیس کی مہر توڑ دی گئی تھی۔ پھر تالا کھولا گیا تھا، کنٹینر کا بولٹ اتارا گیا تھا۔ پھر شمسی نے جوں ہی کنٹینر کا دروازہ کھولا تو اندر سے سخت بدبو کا ایک بھپکا باہر آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ اندر بچے، عورتیں اور مرد تقریباً الگ الگ قطاروں میں بیٹھے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ان سب کی آنکھیں ان کے ہاتھوں میں تھیں۔ نہ جانے کتنے عرصے سے وہ گھپ اندھیرے اور غلاظت میں بند تھے۔ کپتان نے ان کو عرشے کے ایک گوشے میں لے جاکر،حمام کرانے اور حمام کے بعد انھیں ہلکی غذا دینے کی ہدایت کی۔

کمپنی کے ڈائریکٹر چھبیل داس کی میز پر، آفس منیجر مسٹر ڈی کو سٹانے، موٹر ویسل گاندھی سے آیا ہوا فیکس رکھ دیا اور ان کا احکام سننے کے لیے وہاں کھڑا رہا۔ انہوں نے فوراً کمپنی کے بڑے عہدے داروں کی بیٹھک طلب کی اور حاضرین کو وہ فیکس پڑھ کر سنایا اور کہا کہ موجودہ صورت میں کپتان ہی مناسب شخص ہے جو اس موقع پر صحیح فیصلہ کرسکتا ہے۔

اوبیرائے صاحب نے کہا:

’’مجھے تو آج سے پچپن ساٹھ سال پرانے ملکی تقسیم کے بعد پیش آنے والے واقعات یاد آنے لگے کہ کیسے لوگوں نے چھکڑوں پر، تانگوں میں، پیدل اور مال گاڑی کے ڈبوں میں سرحد پار کی تھی۔ یہ خانماں برباد بھی انھیں کے سے بلکہ ہم جیسے دکھائی دے رہے ہیں۔ بھائی چھبیل داس جی! ٹوبہ ٹیک سنگھ سے امر تسر اور امرتسر سے دہلی کے سفر کا حال کیا سناؤں۔ کیا کچھ نہ دیکھا ان آنکھوں نے، اب تو اس کے تصور ہی سے، اندھیری راتوں میں اٹھ بیٹھتا ہوں اور بھوت بھوت کہہ کر چلانے لگتا ہوں۔‘‘

چھبیل داس نے منیجر ڈی کوسٹا سے رائے مانگی۔ اس نے کہا کہ میں بین الاقوامی قوانین جہاز رانی کے مینول دیکھ رہا تھا، تاکہ فوری طور پر ان سے رہنمائی حاصل کرسکوں۔ ضابطوں میں 1973 کے حوالے سے یہ بات درج ہے، کہ بندرگاہ چھوڑ دینے کے بعد، اگر کپتان کو یہ اطلاع ملے کہ اس کے جہاز پر کوئی ایسا شخص سوار ہے، جس کا جہاز کے مسافروں یا عملے کی فہرست میں نام درج نہیں، تو ایسے شخص کو، اپنی منزل پر پہنچ کر، انتظامیہ کے حوالے کر دے، یا اسے محسوس ہو کہ وہ زیادہ وقت گنوائے اسی بندرگاہ کو لوٹ کر جاسکتا ہے، جہاں سے وہ شخص جہاز پر سوار ہوا تھا تو لوٹ جائے اور وہاں بندرگاہ کی انتظامیہ کے اس شخص کو حوالے کردے۔‘‘

چھبیل داس جی نے کہا: ’’ٹھیک ہے وہ تو سات روز کے بعد کلکتہ پہنچیں گے۔ ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ واپس ہوجائیں اور کانڈلہ پر وہ کنٹینر انتظامیہ کی تحویل میں دے دیں۔‘‘

پچھتر سالہ اوبرائے صاحب نے کہ جن کا شمار بھی ڈائریکٹروں میں ہوتا تھا، کہا:

’’چھیبل داس جی یہ ہمارے لیے سب سے سہل راستہ ہے کہ ہم، ان مہاجروں کو، پھر سے گجرات حکومت کے حوالے کردیں۔ اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ میں نے مرحوم کرشن چندر کی ایک کتاب پڑھی تھی ’’ہم وحشی ہیں۔‘‘ اسے پڑھ کر میں نے انہیں لکھا تھا کہ آپ نے برصغیر کے دو بڑے فرقوں سے بلند ہو کر نہ سینتالیس کے حالات پر افسانے لکھے ہیں۔ اور انسان کے اندرون میں بسے ہوئے اس وحشی سے اپنے قاری کو متعارف کیا ہے، جس سے آشنا ہو کر آپ کا قاری، دم بخود رہ جاتا ہے۔

’’کرشن جی نے میرے خط کے جواب میں لکھا تھا کہ دونوں ہی فرقوں کے ہاتھوں قتل و غارت ہوا، آتش زنی اور لوٹ مار کی وارداتیں دونوں ہی نے سر انجام دیں، عصمت دری اور عورتوں کو داغ دینے کے واقعات کے ذمے دار دونوں ہی فرقے کے لوگ ہیں۔ لیکن اب ہمیں اتنا کچھ جھیل جانے کے بعد یہ خیال رکھنا چاہئے کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔

’’تو چھیبل داس جی آپ عرش الرحمن سے کہیے کہ وہ کنٹینر لے کر سیدھا کلکتہ چلا آئے۔ ہم یہاں دیکھیں گے کہ ہماری ہوم منسٹری ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ ان کے کلکتہ پہچنے تک، ہم مسٹر اہلوالیہ، ہوم سکریٹری سے رابطہ قائم کر کے اس معاملے میں مشورہ طلب کر لیں گے۔‘‘

کمپنی کی جانب سے جب ایم وی گاندھی پر چھبیل داس جی کا دستخط کیا ہوا فیکس پہنچا، تو اس وقت جہاز کانڈلہ کی جانب موڑ لیا گیا تھا، کیوں کہ عرش الرحمن ایک سینئر کپتان تھا اور جہاز رانی کے قوانین اور احکامات سے بخوبی واقف تھا۔

اس نے بمل دت کو فیکس دکھاتے ہوئے کہا، ’’یہ دنیا والے کبھی کسی کو اپنے غیر جانب دار ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ گوکہ اس کنٹینر میں آئے ہوئے تمام لوگ میرے بہن بھائی ہیں۔ مگر میں ان کے ساتھ کیوں کر امتیازی سلوک کر سکتا تھا؟ اچھا ہوا جو یہ حکم آگیا۔‘‘

’’سر، ہمارے پاس قوت اختیار تو تھی۔ مگر آپ دوسرا حق انتخاب استعمال کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔‘‘ بمل دت نے جواب دیا۔

عرش الرحمن مسکرایا اور بولا:

’’اچھا جاؤ اور اسٹور میں دیکھ آؤ کہ راشن پانی مناسب مقدار میں موجود ہے کہ نہیں۔‘‘

اسی لمحے شمسی پھر دوڑتا ہوا برج میں آیا۔

’’کیا بات ہے شمسی، تم اتنے گھبرائے ہوئے کیوں لگ رہے ہو؟‘‘

’’سر! سر! کنٹینر نمبر سولہ سے بھی، میں نے ابھی ابھی ایک بچے کو رونے کی آواز سنی ہے۔‘‘
————————————————–